’پاکستان زندہ باد‘ کی گونج، راولپنڈی میں پی ایس ایل کا شاندار آغاز
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
پاکستان سپر لیگ 10 کا میلہ ایک بار پھر راولپنڈی میں سج گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل سیزن 10 کے بقیہ میچز کا شیڈول جاری
کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ شروع ہونے سے قبل کھلاڑیوں اور آفیشلز نے پاکستان کی بہادر مسلح افواج کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا اور زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے بھی مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرنے کی اس تقریب میں شرکت کی۔
پی ایس ایل 10 کا میلہ راولپنڈی میں دوبارہ سج گیا
کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ سے قبل کھلاڑیوں اور آفیشلز کا مسلح افواج سے بھرپور یکجہتی کا اظہار
پاکستان کی بہادر مسلح افواج کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا
چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کی بھی مسلح افواج کو… pic.
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) May 17, 2025
اسٹیڈیم میں قومی ترانہ پڑھا گیا جس کے دوران “پاکستان زندہ باد” کے نعرے بلند ہوئے۔ پورے اسٹیڈیم میں قومی پرچموں کی بہار دکھائی دی اور آخر میں آتش بازی کا شاندار مظاہرہ بھی کیا گیا۔
یہ منظر مسلح افواج کے ساتھ قوم کی گہری محبت اور اتحاد کا عکاس تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پاک فوج پاکستان زندہ باد پی ایس ایل پی سی بی راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیمذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک فوج پاکستان زندہ باد پی ایس ایل پی سی بی راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم مسلح افواج پی ایس ایل
پڑھیں:
ویسٹ انڈیز کا عروج اور انضمام کی ناقابل شکست اننگز
ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف 34 برس بعد ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کی ہے۔ سنہ 1991 میں قومی ٹیم کو آخری دفعہ جس سیریز میں شکست ہوئی تھی اس کا سب سے بڑا حاصل انضمام الحق تھے جنہوں نے فیصل آباد میں اپنے دوسرے ون ڈے میچ میں میلکم مارشل اور کرٹلی ایمبروز جیسے عظیم تیز رفتار باؤلروں کا ہیلمٹ پہنے بغیر بڑی جی داری سے سامنا کرتے ہوئے 60 رنز بنائے تھے۔
بین الاقوامی کرکٹ میں ایک نووارد کا اپنے زمانے کی مضبوط ٹیم کے خلاف اعتماد دیدنی تھا۔ یہ اننگز مستقبل میں ان کے بڑے کارناموں کا نقطہ آغاز تھی جس کا پہلا بھرپور اظہار سنہ 1992 کے ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں ہوا۔ فائنل میں بھی وہ خوب کھیلے تھے۔ ہم نے ان کے دوسرے ون ڈے میچ کا حوالہ دیا ہے۔ پہلے ون ڈے میں وہ 20 رنز ہی بنا سکے لیکن اس میں ان کی فطری صلاحیت کی جھلک نظر آتی تھی۔ عمران خان نے اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا ہے کہ انضمام الحق کے پہلے میچ سے سب نے جان لیا تھا کہ کرکٹ کے بین الاقوامی منظر نامے پر ایک بے پناہ ٹیلنٹ کا حامل کرکٹر آن پہنچا ہے۔
یہ ساری تمہید ہم نے انضمام الحق کے کیریئر کے ابتدائی زمانے میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک تاریخی اننگز کا تذکرہ کرنے کے لیے اٹھائی ہے جس کی وجہ سے پاکستان نے سنہ 1993 میں وسیم اکرم کی زیر قیادت ویسٹ انڈیز کو ون ڈے میچ میں پہلی دفعہ اس کی سرزمین پر ہرایا تھا۔ اس میچ میں انضمام الحق ناقابل شکست 90 رنز بنا کر مین آف دی میچ ٹھہرے تھے۔ کامیابی کے لیے طے کی جانے والی مسافت میں آصف مجتبیٰ نے 40 گیندوں پر 45 رنز بنا کر ان کا ساتھ دیا۔ دونوں نے 18 اوورز میں 131 رنز بٹورے۔ اس جیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کورٹنی والش اور ایمبروز جیسے عظیم باؤلروں کے خلاف مشکل ہدف کے کامیابی سے تعاقب کا امکان اوپنروں کے مضبوط بنیاد فراہم کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔ رمیز راجہ اور عامر سہیل کی 13 اووروں میں 71 رنز کی شراکت نے مڈل آرڈر کے لیے رستہ ہموار کیا جس پر چل کر پاکستان نے 260 رنز کا ہدف 43.1 اوورز میں 3 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ پاکستان کے 3 میں سے 2 کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے، اس لیے حریف ٹیم کے باؤلروں کے حصے میں ایک ہی وکٹ آئی۔ اس میچ سے پاکستان ٹیم اور انضمام ایک نئے دور میں داخل ہوئے۔
اس میچ میں کامیابی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس سیریز کی حیثیت بھی تاریخی ہے کیونکہ یہ ویسٹ انڈیز کے خلاف 32 برسوں میں مسلسل 11 ون ڈے سیریز میں ناقابلِ شکست رہنے کے اس عظیم سلسلے کی پہلی کڑی تھی جو اب محمد رضوان کی کپتانی میں ٹوٹ گئی ہے۔
سنہ 1988 میں ویسٹ انڈیز میں ون ڈے سیریز میں پاکستان کو 5 صفر سے شکست ہوئی تھی۔ سال 1990 میں پاکستان نے اسے ہوم سیریز میں 3 صفر سے ہرایا۔ سنہ 1991 میں ویسٹ انڈیز 2 صفر سے جیت گیا۔ اس پس منظر میں 1993 میں پہلے 2 ون ڈے میچوں میں شکست کے بعد ٹرینیڈاڈ میں انضمام الحق کی شاندار اننگز کی وجہ سے پاکستان کی سیریز میں ڈرامائی واپسی ہوئی جس کے بعد چوتھے ون ڈے میں کامیابی نے سیریز جیتنے کی امید جگا دی۔ انضمام الحق نے گیانا میں 5ویں فیصلہ کن میچ میں سیریز کی تیسری نصف سینچری اسکور کی۔ 244 رنز کے تعاقب میں کارل ہوپر اپنی ٹیم کو جیت کی دہلیز تک لے آئے۔ وسیم اکرم کی آخری گیند پر میزبان ٹیم کو جیت کے لیے 3 رنز چاہیے تھے۔ ایئن بشپ نے شاٹ کھیلا اور ابھی دونوں بلے بازوں نے ایک رنز مکمل کیا تھا کہ تماشائیوں نے فیلڈر کے تھرو پھینکنے سے پہلے گراؤنڈ میں دھاوا بول دیا۔ اس دارو گیر میں دوسرا رنز مکمل کر لیا گیا جبکہ نارمل صورت حال میں رن آؤٹ کا قوی امکان تھا۔ دونوں ٹیموں کا اسکور برابر ہو گیا۔ کرکٹ قوانین کی رو سے ویسٹ انڈیز جیت گیا کیونکہ حریف ٹیم کے مقابلے میں اس کی ایک وکٹ کم گری تھی لیکن میچ ریفری نے بے قابو ہجوم کی مداخلت کے ممکنہ نتیجے پر اثر مرتب ہونے کی بنا پر اسے ٹائی ٹھہرا کر دونوں ٹیموں کے لیے ’وِن وِن سچویشن‘ پیدا کر دی۔
اس سیریز سے ون ڈے میں ویسٹ انڈیز کی مضبوط ٹیم کے ساتھ قومی ٹیم برابری کی سطح پر آئی تو پھر اسے 32 سال تک ون ڈے سیریز میں اس پر سبقت حاصل رہی جس کا خاتمہ 12 اگست 2025 کو ہوا ہے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ کامیابیوں کے تسلسل میں کبھی نہ کبھی تو رخنہ پڑنا ہوتا ہے لیکن اب پاکستان نے بغیر مزاحمت کے جس طرح پسپائی اختیار کی ہے وہ قابلِ تشویش بات ہے۔ پاکستان ٹیم 29.2 اوورز میں ڈھیر ہو گئی اور اس کے پانچ بلے باز کھاتہ نہ کھول سکے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم ماضی میں ویسٹ انڈیز کی طاقت ور ٹیم سے مقابلے میں سرخرو ہوتی رہی ہے اور آپسی سیریز میں مسلسل کامیابیوں کا سفر شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں اہم ون ڈے مقابلوں میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو دوسری سرزمینوں پر بھی زیر کیا جس کی ایک اہم مثال سنہ 1989 میں نہرو کپ کا فائنل ہے اور دوسری مثال سنہ 1997 میں آسٹریلیا میں کارلٹن اینڈ یونائٹیڈ سیریز کے بیسٹ آف 3 فائنلز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف دو صفر سے کامیابی ہے۔ اور اب اس ٹیم کے سامنے ہم سرنگوں ہوئے ہیں جو اس سیریز سے پہلے ون ڈے رینکنگ میں 10 ویں نمبر پر تھی۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میں 27 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ اور سابق عظیم کھلاڑی اپنی ٹیم کے زوال پر سر جوڑ کر بیٹھے تھے لیکن اس نے 34 سال بعد ون ڈے رینکنگ میں اپنے سے کہیں اوپر کی ٹیم کو چت کر کے بڑی شان سے سیریز اپنے نام کر لی۔ تیسرے ون ڈے میں جیت کا مارجن 202 رنز رہا۔ برسوں کرکٹ پر راج کرنے والی ٹیم کے لیے یہ چوتھا موقع تھا جب اس نے مخالف ٹیم کو 200 سے زیادہ رنز سے ہرایا اور ادھر پاکستان کو چوتھی دفعہ 200 سے زیادہ رنز سے شکست ہوئی۔
ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی کی بات کریں تو جیڈن سیلز نے ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کے خلاف بہترین بولنگ کا ڈیل اسٹین کا ریکارڈ توڑ دیا۔
سیلز کی تباہ کن بولنگ سے پہلے ویسٹ انڈین کپتان اور وکٹ کیپر شائے ہوپ کی شاندار سینچری نے اپنی ٹیم کو کمزور سے مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔ دوسری طرف ان کے ہم منصب محمد رضوان گیند لیفٹ کرتے ہوئے بھونڈے طریقے سے صفر پر آؤٹ ہوئے اور ان کی کپتانی میں قومی ٹیم کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ اس کے بعد موصوف نے ارشاد فرمایا کہ میچ پہلے 40 اوورز میں ہمارے ہاتھ میں تھا۔
یہ 92 رنز پر آؤٹ ہونے والی ٹیم کے کپتان کی عجیب منطق ہے۔ 202 رنز سے میچ ہارنے کے بعد آپ کس منہ سے یہ بات کر سکتے ہیں۔ آخری 10 اوورز ون ڈے میچ میں اہم ہوتے ہیں اور اس میں تمام ٹیمیں تیزی سے رنز بناتی ہیں اور شائے ہوپ کوئی للو پنجو بلے باز تو تھے نہیں، وہ اس میچ سے پہلے ون ڈے کرکٹ میں 17 سینچریاں بنا چکے تھے ۔
شکست کے بعد بھی اپنی اداؤں پر غور کرنے کے بجائے ہمارے کپتان اور کرکٹ بورڈ کے پردھان جس طرح اپنی ناکامیوں کا جواز تراشتے ہیں اس پر مولانا روم کا یہ مصرع یاد آتا ہے:
عذر احمق بدتر از جرمش بود
اور جہاں تک ہمارے کپتانوں کی بات ہے تو ان کی حکمت عملی دیکھ کر انڈیا کے سابق کپتان منصور علی خان پٹودی کے ایک قول کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے جس کے مطابق ایک برا کپتان ایک عظیم ٹیم کو بھی معمولی بنا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ برا کپتان بڑی ٹیم کو اس کے مقام سے گرا سکتا ہے تو کمزور ٹیم کا اس کی کپتانی میں کیا حشر ہوتا ہوگا یہ جاننے کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کی گذشتہ چند برسوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جاسکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
انضمام الحق پاک ویسٹ انڈیز کرکٹ سیریز پاکستان کرکٹ ٹیم عذر احمق بدتر از جرمش بود محمد رضوان ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم