کیا فوج مخالف باتیں کرنے والوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے ؟ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
آپ کو لوگ کہتے تھے یہ اپنا کام نہیں کرتے ، آپ اُن سے سوال کریں کہ فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں کیا؟ کیا ایسے لوگوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جو اپنی فوج، افسروں اور جوانوں کے خلاف باتیں کرتے تھے، طلباء سے سوال
پاکستان امن کا گہوارہ ہے ،پاکستان کی فتح دراصل امن کی فتح ہے ، اب ہمیں متحد ہوکر آہنی دیوار (بنیان مرصوص) کو دہشت گردی کی طرف موڑنا ہے، عوام اور مسلح افواج متحد ہوئے تو کوئی دہشت گرد نہیں بچے گا، خطاب
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ اب ہمیں متحد ہوکر آہنی دیوار (بنیان مرصوص) کو دہشت گردی کی طرف موڑنا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی اسلام آباد کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں انہوں نے نوجوانوں کی ملک کے لیے کاوشوں کو نہایت اہم قرار دیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے دشمن کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے متحد رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ پاکستان امن کا گہوارہ ہے ۔ اور پاکستان کی فتح دراصل امن کی فتح ہے ۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پورے ملک کے اساتذہ کو پاک فوج کی جانب سے سلام بھی پیش کیا۔شرکا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے آپ (طلبا) نے پاکستان اور پاک فوج کیلیے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے اُسے دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل نہ صرف روشن ہے بلکہ تابناک بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ کو لوگ کہتے تھے یہ اپنا کام نہیں کرتے ، آپ اُن سے سوال کریں کہ فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں کیا؟ کیا ایسے لوگوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جو اپنی فوج، افسروں اور جوانوں کے خلاف باتیں کرتے تھے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج عوام سے اور عوام پاک فوج سے ہے ، سیاسی پلائی آہنی دیوار آپ ہیں، اس ملک کے عوام، بچے اور بچیاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ یقین رکھیں یہ نسل اور آپ کے بعد کی نسلیں کبھی بھی ملک کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے طلبا کو بتایا کہ پاکستان میں ںظر آنے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت ہے ۔انہوں نے کہا کہ آہنی دیوار (بنیان مرصوص) کو اب ہم نے متحد ہوکر دہشت گردی کی طرف موڑنا ہے ، عوام اور فوج اکھٹے ہوں گے تو ملک میں کوئی دہشت گرد نہیں بچے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ تمام بچے اپنے اساتذہ کا احترام کریں، ہمیں اپنے اساتذہ کو سیلوٹ کرنا چاہیے ۔ انہوں نے پاک فوج کی جانب سے اساتذہ کو سیلوٹ کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان زندہ باد کا اسٹیج سے جبکہ بچوں کے ساتھ ملکر نعرہ لگوایا کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بھی لگوایا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
ججز کے استعفے جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں, سعد رفیق
لیگی رہنما نے کہا کہ جناب اطہر من اللہ ججز بحالی تحریک کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رہے، جج بننے کے بعد کبھی ان سے ملاقات ہوئی نہ ہی سامنا، میرے نزدیک وہ عدلیہ کے گنے چنے دیانتدار اور کھرے لوگوں میں سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شاندار کام کرتے دُور سے دیکھا، وہ بلاشبہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کرتے ہیں، ایک زمانہ ان کی قابلیت اور دیانتداری کا معترف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ججز کے استعفے پاکستان میں آئین، انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں خواجہ سعد رفیق نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ سے مستعفی ہوگئے، اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی استعفیٰ دے کر اس صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب اطہر من اللہ ججز بحالی تحریک کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رہے، جج بننے کے بعد کبھی ان سے ملاقات ہوئی نہ ہی سامنا، میرے نزدیک وہ عدلیہ کے گنے چنے دیانتدار اور کھرے لوگوں میں سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شاندار کام کرتے دُور سے دیکھا، وہ بلاشبہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کرتے ہیں، ایک زمانہ ان کی قابلیت اور دیانتداری کا معترف ہے۔ اسی طرح جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار لاہور ہائیکورٹ میں اچھی ساکھ کے حامل ججز میں کیا جاتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے لکھا کہ مستعفی ہونیوالے ججز کے عدالتی فیصلوں سے اختلاف اور ہمارے گلے شکوؤں سے قطع نظر ان جج صاحبان کی قابلیت اور عمومی انصاف پسندی کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس شمس محمود مرزا پر سلمان اکرم راجہ سے رشتہ داری کا الزام عائد کرنا بھی طفلانہ حرکت ہے، ہمارے علم کے مطابق رشتہ داری کبھی ان کے کام میں خلل انداز نہیں ہوئی، صورتحال یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر بھی سپریم کورٹ کے دو تین ججز استعفے دے چکے ہیں لیکن اب مستعفی ہونیوالے ججز کے استعفوں کو پہلے استعفوں کے ساتھ ملانا یا جوڑنا ناانصافی ہوگا، ہمارے نزدیک عدالتی توازن کیلئے ان حضرات کا دم غنیمت تھا۔ سابق وفاقی وزیر نے مزید لکھا کہ بطور ایک سیاسی کامریڈ مجھے ان جج صاحبان کے استعفوں پر دلی افسوس ہوا ہے، ججز کے تازہ ترین استعفوں کو دھڑے بندی کی سیاست کی عینک سے دیکھا جائے تو منظر سہانا دکھائی دیتا ہے لیکن غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ استعفے پاکستان میں آئین، انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔