Express News:
2025-05-18@04:11:19 GMT

ادب کا مطالعہ ضروری کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT

 زمانہ طالب علمی کی بات ہے، اس وقت میں انٹرکامرس کا طالب علم تھا، کالج میں میری دوستی جہاں میرے ہم جماعت طالب علم ساتھیوں سے تھی وہاں میرے مراسم کالج میں موجود سیاسی اور دینی سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبا تنظیموں کے عہدیداران اور کارکنان سے بھی تھے۔

یہ کارکنان عمومی طور پر کالج کے طلبا کو نہ صرف اپنا ہم خیال بنانے میں مصروف عمل رہتے تھے بلکہ ان طلبا کو اپنی اپنی تنظیموں میں شمولیت کی دعوت بھی دیتے تھے۔ میں کیونکہ آزاد سوچ کا حامل رہا ہوں اس لیے کسی سیاسی اور دینی سیاسی جماعت کا حصہ نہ بن سکا، تاہم ان طلبا تنظیموں کے عہدیداران کے توسط سے ملنے والے لٹریچر کے ذریعے مجھے سیاسی اور دینی سیاسی جماعتوں کے بارے میں جاننے کا موقعہ ملا۔

اس کے مطالعے سے میرا ذہن کچھ اس طرح کا بن گیا کہ میں سیاست کو ہی معاشرے میں مثبت تبدیلی کا اہم ذریعہ تصور کرنے لگا، مذہب کی بھی صرف سیاسی تعبیر سے متاثر تھا۔ دیگر علوم بالخصوص شعر و ادب کو غیر اہم اور غیر افادی سرگرمیاں قرار دیتا اور اسے سطحی حیثیت بھی دینے کو تیار نہ تھا، لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھا اور جیسے جیسے سماجی شعور میں اضافہ ہوا، شعر و ادب سے متعلقہ لٹریچر کے مطالعے اور ادبی شخصیات سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا تو ادب کے حوالے سے میری منفی سوچ میں تبدیلی آئی اور میں اس کی اہمیت اور افادیت کا قائل ہو گیا۔

میرے نزدیک انسان میں احساس کی قوت ہی ہے جو اسے انسان ہونے کا شرف عطا کرتی ہے۔ شعر و ادب نہ صرف انسان میں احساس کی قوت بیدار کرتا ہے بلکہ انسان کی شخصیت کو متوازن شخصیت بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔شعر و ادب مذہب کی طرح نیکی اور بدی کا فرق نہیں بتاتا اور نہ ہی یہ نیکی کی برائے راست تلقین کرتا ہے اور نہ ہی سائنس کی طرح تجربات کی روشنی میں اپنی بات واضح کرتا ہے، نہ ہی سیاست کی طرح تصادم کی راہ اختیار کرتا ہے بلکہ ایک ادیب غیر محسوس انداز میں اپنی کہانی، افسانے، ناول اور شاعری کے ذریعے آپ کے دل و دماغ میں اتر کر آپ کے زاویہ نگاہ کو تبدیل کر دیتا ہے

ادب کی زبان رسیلی ہوتی ہے، ادبی اسلوب میں لکھی گئی تحریر میں ایسا رس ہوتا ہے کہ ناگوار سے ناگوار بات ناگوار محسوس نہیں ہوتی۔ تخلیق میں جتنا رس ہوگا تخلیق اتنی موثر اور فکر انگیز ہوگی۔شعر و ادب لفظوں کا کھیل ہے جب تک لفظوں سے آگاہی نہ ہو تب تک معیاری ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ سوچ، تصور، خیال لفظوں میں ڈھل کر اپنا وجود پاتے ہیں۔ جب لفظ خوبصورتی کا روپ دھار لیتے ہیں تو ادب جنم لیتا ہے۔

ادب کا کام خارجی دنیا اور انسان کی داخلی دنیا کے تجربات کا شعور حاصل کر کے اس طرح پیش کرنا کہ انسان کے اپنے اندر زندگی کا نیا شعور اور ادراک پیدا ہو سکے۔ادب کسی ہنگامی ضرورت کے تحت وجود میں نہیں آتا، یہ تو ایک تاریخ گیر صورت حال اور احساس اور تخلیقی ادراک سے وجود میں آتا ہے اور انسان کے باطن سے اٹھتا ہے اور جذبات کی تہذیب و تربیت کرتا ہے۔احساس کا وجود ہونا ہی ادب کا جوہر ہے جب آپ گرد و پیش کی دنیا اور خارجی ماحول سے متاثر ہوتے ہیں تو آپ کے اندر کا حساس حصار توڑ کر باہر نکلتا ہے تو وہ شعر و ادب کا روپ دھار لیتا ہے۔

ادب ہی وہ آئینہ ہے جس میں زندگی اپنی صورت دیکھتی ہے۔ موجودہ دور مادیت پرستی کا دور ہے۔ استحصال، نفرت، ظلم، ناانصافی، بغض، حسد جیسے رویے اسی مادیت پرستی کی پیداوار ہیں۔ اس مادیت پرستی نے انسان کو بے سکونی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ایسے حالات میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ شعر و ادب کو فروغ دیا جائے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہمارا ادب جمود کا شکار ہے، یہ بات جزوی طور پر درست ہے کلی طور پر درست نہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ادب سماج سے جڑا ہوتا ہے، اصل جمود معاشرے میں پیدا ہوا ہے، ادب میں جمود نہیں، جب معاشرہ ادب کے ذریعے شعور حاصل کرنا بند کر دیتا ہے تو معاشرے میں جمود کا آنا لازم ہے۔سوال یہ ہے کہ ادب کو فروغ کیسے دیا جائے۔

میری ذاتی رائے میں ادب کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ادب میں موجود گروہ بندیاں ہیں جس کی وجہ سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے۔ نظریاتی حوالے سے مزاج اور سوچ کا ایک دوسرے سے اختلاف ہونا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن جب یہ اختلافات اپنی فطری حدود سے نکل کر ذاتی رنجش میں تبدیل ہو جائیں تو اسے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں گروہ بندیاں ہم خیال یا مشترکہ خیال کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔دراصل ہمارے یہاں ادب میں ایسے لوگ شامل ہوگئے ہیں جن کا نہ کوئی نظریہ ہے نہ کوئی وژن۔

یہ لوگ نظریہ شہرت، خود نمائی اور خود ستائش کے جذبے کے تحت اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جس کے سبب ادب میں گروہ بندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اس گروہ بندی کے سبب باصلاحیت لکھنے والے پذیرائی سے محروم رہتے ہیں اور خوشامدی، چاپلوس اور موقعہ پرست سطحی قسم کا ادب تخلیق کرنے والے نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں۔سیاست کا مزاج تصادم کا ہوتا ہے۔ ادب محبت کا درس دیتی ہے، جب کوئی ادب کسی خاص گروہ یا نظریے سے منسلک ہو جاتا ہے تو نہ صرف ادب کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے بلکہ پھر ’’ادب‘‘ ادب نہیں رہتا بلکہ پروپیگنڈا بن جاتا ہے۔

جب ادب کو شعوری طور پر اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر ادب ایک نعرہ بن جاتا ہے۔ یہ نعرہ بازی ادب کے فن کی موت ہے۔ادب میں ابلاغ کو اولین حیثیت حاصل ہے، اگر ادب میں ابلاغ نہیں تو ادب کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں وہ ’’ادب‘‘ ادب ہی نہیں جو ہماری سوچ کا دھارا نہ بدل سکے اور ہمیں عمل پر آمادہ نہ کر سکے۔ بدقسمتی سے ہمارا ادب اس عنصر سے خالی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ادب جمود کا شکار ہے۔میرے نزدیک جب تک انسان کے اندر احساس موجود ہے جب تک انسان میں نئے نئے تجربوں سے متاثر ہونے اور ان کے سمجھنے کا شعور موجود ہے ادب تخلیق ہوتا رہے گا۔ماضی میں بھی ادب گروہ بندی کا شکار رہا ہے لیکن یہ گروہ بندی نظریاتی بنیادوں پر تھی جس میں مقابلے کی فضا تھی اس مقابلے کی وجہ سے ہر گروہ نے بہترین ادب تخلیق کیا۔

اب ’’ادب‘‘ ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی نہیں بلکہ ادب برائے مفاد پرست کی بنیاد پر ہے۔ اس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ تمام اہل قلم، ادیب و شاعر گروہ بندی سے بے نیاز ہو کر ادب میں ذہنی ہم آہنگی اور اجتماعیت کا احساس پیدا کرکے ایسی فضا تیار کریں کہ اس سے ادب کو فروغ حاصل ہو۔ ادبی تحریریں کبھی پاس نہیں ہوتیں بڑا ادب وہی ہے جس کو جب بھی پڑھا جائے اس کی تازگی محسوس ہو۔

یاد رکھیں ادب میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ادب کو انفرادیت بخشتے ہیں یا اس میں کوئی نیا پہلو پیش کرتے ہیں محض گروہ بندی کے سہارے اپنا قد اونچا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ اس سے ادب کو نقصان ہوتا ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

میلہ چراغاں پر صفدر میر کیوں یاد آتے ہیں؟

اس سال میلہ چراغاں کے لیے شالامار باغ کے دروازے کھلنے پر میرا خیال تھا کوئی صفدر میر کو ضرور یاد کرے گا لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو مجھے ہی کچھ لکھنے کی تحریک ہوئی، ان کے ذکر خیر کا موقع محل یہ ہے کہ ایوب خان کے دور میں میلہ چراغاں اور شالا مار باغ میں رشتہ و پیوند کی قدیم روایت کے خاتمے پر صفدر میر نے سرکاری عمال کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس معاملے پر ان کا نقطہ نظر کتابوں میں محفوظ ہے اور بطور سند ہمارے کام آرہا ہے۔

صفدر میر نے اپنے مضمون ’شاہ حسین اور اس کی شاعری‘ میں میلہ چراغاں کو لاہور کا سب سے بڑا ثقافتی اجتماع قرار دیا جس کی رونق ان کے خیال میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے گھٹ کر آدھی رہ گئی کیوں کہ اب ہندو اور سکھ اس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے جبکہ پہلے ان کی بڑی تعداد اس میلے کا حصہ بنتی تھی۔

میلے کی رونق میں کمی کی دوسری بڑی وجہ شالا مار باغ میں عوام الناس کے داخلے پر پابندی تھی جس سے ان زائرین کی شب بسری اور آرام کا ٹھکانا چھن گیا۔

صفدر میر نے لکھا:

’پہلے یوں ہوا کرتا تھا کہ ایک ایک ہفتہ پہلے سے لاہور کے شہری، بلکہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اپنے کنبوں قبیلوں سمیت شالامار کے وسیع و عریض تختوں پر اپنے بستر جما لیا کرتے تھے، یہ ہماری سیاسی غلامی کے زمانے کی بات ہے اب جب کہ ہمیں غیروں کے استعمار سے آزادی نصیب ہو چکی ہے ہمارے عوام کو اپنے ہی ملک کی شہری سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں رہا۔‘

وہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ باغ کو لوگوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے بند کیا جاتا ہے کیوں کہ صفدر میر کی دانست میں 200 سے زیادہ برسوں سے تو شالامار باغ کو نقصان نہیں پہنچا تھا، تاریخی عمارتوں کی حالت عوام کے وہاں جانے سے دگرگوں نہیں ہوتی بلکہ اس کے اسباب اور ہوتے ہیں جن کی طرف صفدر میر نے سرکاری اہلکاروں پر طنز کرتے ہوئے کچھ یوں توجہ دلائی:

’اب جب کہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے تاریخی عمارات کو عوام کی دست برد سے بچانے کا اتنا پکا انتظام کیا ہے، لاہور شہر کی بہت کم تاریخی عمارات کی حالت قابلِ رشک رہ گئی ہے، شہر کی ایک اور بہت شاندار عوامی سیرگاہ مقبرہ جہانگیر کا اس سلسلے میں ذکر کیا جاسکتا ہے جس کے چاروں طرف پچاس ساٹھ فٹ کے اندر بستیاں قائم ہو گئی ہیں بلکہ بعض لوگوں نے تو اس کی چار دیواری کے اوپر بھی مکان بنا لیے ہیں۔‘

صفدر میر کا یہ مضمون ڈاکٹر سہیل احمد خان کی مرتب کردہ کتاب ’مقالات حلقہ اربابِ ذوق‘ میں شامل ہے جو 1990 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ 35 سال پرانی بات ہے، حال کا معاملہ یہ ہے کہ پنجابی کے معروف لکھاری اور استاد زاہد حسن کی لائقِ مطالعہ کتاب ’سرت سیہان‘ گزشتہ ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں ایک مضمون ’خلقت گئی ادھوری (شاہ حسین دی حیاتی، فکر تے شاعری)‘ بھی شامل ہے۔ اس کا اختتام صفدر میر کے مضمون ’ڈگا تے اگ‘ کے اقتباس پر ہوتا ہے جو 1966 میں ’پنجابی ادب‘ میں شائع ہوا تھا، اس میں انگریز راج میں ’ذہین طبقے‘ کے خود کو اونچی مخلوق تصور کرکے عام آدمی سے نفرت کے رویے پر تنقید ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سامراجی ورثے سے ہم پاکستان بننے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھڑا سکے۔

صفدر میر نے زاویہ نگاہ کی صراحت کے لیے میلہ چراغاں پر شالا مار باغ سے خلق خدا کو باہر رکھنے کے اقدام کی مثال دی ہے اور انتظامیہ کی منافقت ظاہر کرنے کے لیے اس نوٹس کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں یہ درج ہے کہ ’مرمت کی وجہ سے باغ 27 سے 29 مارچ تک عام لوگوں کے لیے بند رہے گا۔ اللہ کی شان پچھلے سال کی طرح اس دفعہ بھی میلہ چراغاں اور مرمت کی تاریخ ایک ہی مقرر ہوگئی ہے۔‘

صفدر میر کی تحریروں میں باغ اور عام آدمی کے میلے میں ربط ضبط ختم ہونے کا ذکر یوں آتا ہے جیسے کوئی وجود پر لگنے والے گہرے گھاؤ کی بات کررہا ہو جو مندمل ہونے میں نہ آرہا ہو۔ شاہ حسین کی ذات سے محبت اور میلہ چراغاں کی ثقافتی اہمیت کے صرف قلمی اعتراف تک وہ محدود نہیں رہتے تھے بلکہ اس میلے میں بنفس نفیس شرکت کرکے وہ عظیم صوفی اور بڑے ثقافتی مظہر سے اپنی وابستگی کا عملی ثبوت دیتے تھے۔

شاہ حسین اور میلہ چراغاں پر ہی موقوف نہیں صفدر میر کی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کتابوں میں غرق رہنا، پنجابی، اردو اور انگریزی میں لکھنا، یہ سب اپنی جگہ لیکن عمل کی دنیا میں بھی وہ ہیٹے نہیں تھے۔

تقسیم سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر سراج الدین نے ڈرامے کو اس طرح پڑھایا سمجھایا کہ ان کے بقول ’بحیثیت ایک سماجی عامل کے ڈرامے کی قوت اور اثر انگیزی کا بھرپور احساس ہوا، یہیں سے تھیٹر میں دلچسپی بڑھی۔ میں عموماً گورنمنٹ کالج کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا۔‘

کالج کے زمانے میں ریڈیو ڈرامہ وسیلہ روزگار بن گیا، اس پس منظر کے ساتھ وہ لاہور سے بمبئی گئے تو وہاں انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) سے بطور اداکار وابستگی نے شوق کو نیا رخ دیا اور اس میڈیم کے بارے میں انہیں بہت کچھ نیا جاننے کو ملا۔

ان دنوں پاک بھارت کشیدگی کا دور ہے تو اس میں بھی صفدر میر کی شخصیت بہت ریلیونٹ نظر آتی ہے کہ 1965 کی جنگ میں وہ نظم لکھنے پر ہی قانع نہیں رہے بلکہ ٹرک پر سوار ہو کر اسے لاؤڈ سپیکر پرمجمع عام کو سنایا بھی:

چلو واہگے کی سرحد پر

وطن پر وقت آیا ہے

وطن پر کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے

اس ایک نظم پر ہی وہ بس نہیں ہوئے اور ’سیالکوٹ کی فصیل‘ اور ’فائر بندی کی رات‘ کے عنوان سے بھی نظمیں کہیں جو ہنگامی ماحول میں لکھے جانے کے باوجود ادبی معیار پر بھی پوری اترتی ہیں۔

اس طرح انتظار حسین نے ’چراغوں کا دھواں‘ میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں میر انیس کے مرثیوں نے ان پر اتنا اثر کیا کہ وہ مجلسوں میں شریک ہوئے اور موچی دروازے میں زنجیر زن ماتمیوں کے ساتھ صبح عاشور کو ماتم بھی کیا۔

صفدر میر کی تحریروں میں میلہ چراغاں اور شالامار باغ کے سمبندھ کے تذکرے سے کئی دوسرے قصے بھی ذہن میں درانہ چلے آئے جن میں بسنت کا رنگ بھی شامل ہے۔

اس حوالے سے بات کرنے کے لیے میاں بشیر احمد سے موزوں شخصیت کون ہوگی جن کے پرکھوں کا باغبانپورہ اور شالامار باغ سے صدیوں پرانا رشتہ تھا۔ مغلوں کے زمانے سے باغ کا انتظام و انصرام باغبانپورہ کے اسی ممتاز خاندان کے سپرد تھا جس میں میاں بشیر احمد کے والد جسٹس شاہ دین ہمایوں اور سسر میاں محمد شفیع ایسے معروف لوگ بھی شامل تھے۔ ایوب خان نے اس خانوادے سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان میاں افتخارالدین سے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کا ادارہ ہی نہیں چھینا جو پاکستان ٹائمز اور امروز جیسے معتبر اخبار شائع کرتا تھا بلکہ شالا مار باغ کی انتظامی ذمہ داریاں بھی ان سے چھین لیں، اس خبر کا اندراج تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے، ایک مثال ذرا دیکھیے ہم نے کہاں سے ڈھونڈ نکالی ہے۔

نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور دانشور امرتیا سین کی میاں افتخار الدین کے بیٹے عارف افتخار سے کیمبرج کے زمانے میں دوستی ہوئی، انہوں نے اپنی سوانح ’ہوم ان دی ورلڈ‘ میں یار عزیز کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے اور انہیں کیمبرج میں اپنے زمانے کا بہترین مقرر قرار دیا ہے۔ 1963 میں وہ اپنے اس دوست کے ہاں لاہور میں مہمان رہے اور لاہور کی خوبصورتی کو اپنے اندر اتارا۔ شالا مار باغ کی خوبصورتی نے بھی انہیں مسحور کیا جسے انہوں نے کتاب میں دنیا کا عظیم ترین باغ لکھا ہے، امرتیا سین نے عارف افتخار کے خاندان کی شالامار باغ کی صدیوں تک نگہبانی کرنے کی روایت کا حوالہ بھی دیا ہے۔

بات ہم نے میاں بشیر احمد کے مضمون کی کرنی تھی لیکن بیچ میں رہوار قلم دوسری تفصیلات کی طرف چل پڑا سو اب اسی مضمون کی طرف مڑتے ہیں جس میں باغبانپورہ اور شالامار باغ کا خوب تذکرہ ہے، ایک تلخ یاد جو ملکہ معظمہ کے مرنے سے جڑی تھی اس میں میاں بشیر ہمیں ان لفظوں میں شریک کرتے ہیں:

’ملکہ مری 22 جنوری 1901 کو اور مادھو لال حسین (باغبانپورہ) میں پولیس نے آکر اپنے ہنٹروں سے بسنت کے میلے کو درہم برہم کردیا تو ہم نے اس ملکہ کے حق میں کوئی نیک کلمے نہ کہے، اسے مرنا تھا تو کم از کم کسی کام کے دن مرتی کہ ہمیں چھٹی ہی مل جاتی نہ یہ کہ ہماری اچھی بھلی چھٹی اور بھرے میلے کے رنگ میں اس نے بھنگ ڈالی دی، وہ ملکہ اور وہ پولیس اس دن کے بعد سے میری نظروں سے گر گئی، اس وقت میری عمر قریباً 8 برس کی تھی۔‘

اس واقعے سے رعایا اور سلطنت کے تعلق کی نوعیت بھی سمجھی جاسکتی ہے لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد اپنی پولیس نے بھی عوام پر ظلم ہی ڈھائے ہیں:

’رات گزری تھی کہ پھر رات آئی‘

اب ہم آپ کو باغبانپورہ کے ایک اور معزز ساکن سے ملواتے ہیں، گربچن چندن نے انڈیا میں اردو صحافت کی تاریخ پر وقیع کام کیا ہے، برصغیر میں اردو کے پہلے اخبار ’جام جہاں نما‘ پر ان کی تحقیقی تصنیف، علمی و صحافتی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی، یہ بات چند سال پہلے ہمارے علم میں آئی کہ وہ تقسیم سے پہلے باغبانپورہ کے مکین تھے اور میاں افتخار الدین کے گھرانے سے ان کے خاندانی مراسم تھے، اپنے آبائی علاقے باغبانپورہ کے بارے میں ان کی یادداشتیں علمی و ادبی جریدے ’ارتقا‘ (2015) میں شائع ہوئیں تو اس میں میلہ چراغاں اور شالا مار باغ کا ذکر تو آنا ہی تھا:

’اس قصبے (باغبانپورہ) کا ایک اور امتیاز میلہ چراغاں تھا جو بسنت کے تہوار پر ہر سال اسی تاریخی باغ کے نواح میں لگتا تھا، اس میں دور ونزدیک کے دیہات سے ہزاروں لوگ آتے تھے جن میں ہندو، مسلمان، سکھ سب شامل ہوتے تھے۔ وہ اس کے نزدیک ہی واقع مادھو لال حسین کی درگاہ کی زیارت کرتے تھے اور وہاں چراغ جلا جلا کر منتیں مانتے تھے، یہ میلہ دو تین دن جاری رہتا اور ان ایام میں شالیمار باغ کے اردگرد ہنگاموں کی ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی۔ بھیڑ اور گہما گہمی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بیسیوں بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے تھے اور کہیں شام کو جا کر پولیس کے خصوصی کیمپوں میں ملتے تھے۔‘

اب آپ کو نان فکشن سے فکشن کی دنیا میں لیے چلتے ہیں۔

حمید شیخ انگریزی کے جانے مانے صحافی تھے، ان کے ناول ’گینڈا پہلوان‘ کا محل وقوع شمالی لاہور کا علاقہ ہے جس کے کچے پکے رستوں اور دھول اڑاتی ویران سڑکوں پر بہار کا سماں اور بھیڑ بھڑکا بھی سال بھر میں انہی دنوں میں ہوتا تھا جب مادھو لال حسین کے مزار اور بسنت کا سنجوگ ہو جاتا :

’سارا سال ان کچے راستوں پر صرف شہر کی گندگی سے لدی بیل گاڑیاں چلتی نظر آتی تھیں جو شہر کو تازہ سبزی بہم پہنچانے والے کھیتوں میں کھاد لا لا کر ڈالتی تھیں، بسنت کے بسنت یہ راستے یکدم جاگ اٹھتے تھے، لوگ پیلی پیلی پگڑیاں باندھے، ہاتھوں میں پتنگ اور رنگ برنگی ڈور کی ریل لیے، اسی راستے مادھو لال حسین کی درگاہ کو جاتے تھے۔ یہاں اس روز خوانچے والے بھی آ بیٹھتے تھے اور درجنوں فقیر، کوئی لولا، کوئی لنگڑا، کوئی گاتا، کوئی روتا، کوئی محض اپنی وضع قطع سے راہگیروں کی توجہ پر ڈاکے ڈالتا، غرض کہ ایک دن کے لیے یہ راستہ انارکلی بازار بن جاتا اور پھر وہی کچے کا کچا راستہ۔‘

صاحبو! مادھو لال حسین، میلہ چراغاں اور بسنت پر تو دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن بات نے کہیں تو جا کر سمٹنا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہم ٹھیٹ لاہوریے میرزا ادیب کے ایک بیان سے مدد لیں گے جس کے ڈانڈے صفدر میر کے اس مؤقف سے جاملتے ہیں جس کی بنیاد پر اس مضمون کا ڈول ڈالا گیا ہے، میرزا ادیب کی آپ بیتی ’مٹی کا دیا‘ سے اقتباس نقل کرنے سے پہلے دفعتاً یہ بات ذہن میں آئی کہ ’مٹی کا دیا‘ تو شاہ حسین کے مزار سے وابستہ وہ استعارہ ہے جس کی وجہ سے میلہ چراغاں کو اپنا نام حاصل ہوا ہے۔ یہاں چراغ سے چراغ جلتا ہے، اس کی منظر کشی شاہ حسین اور میلہ چراغاں کے عاشقِ صادق، یونس ادیب نے ’میرا شہر لاہور‘ میں بڑے خوبصورت پیرائے میں کی ہے:

’چراغوں کی رات ہزاروں دئیوں کی لاٹ ایک لمبو بن کر آسمان کی طرف اٹھتی ہے، یہ چراغاں رفتہ رفتہ ایک بہت بڑے الاؤ میں بدل جاتا ہے اور جیسے جیسے الاؤ بڑھتا جاتا ہے میلے کا سماں رنگین اور پرجوش ہو جاتا ہے۔‘

اب آپ میرزا ادیب کا بیان دیکھ لیجیے:

’لاہور کی انتظامیہ نے میلہ منانے والوں کے لیے شالا مار باغ کا دروازہ بند کردیا ہے اور اب شالا مار باغ صرف غیر ملکی بڑوں کے لیے وقف ہو کر رہ گیا ہے، اس سے انتظامیہ نے شالا مار باغ کے حسن کو تو محفوظ کرلیا ہے مگر میلے کے حسن کو داغدار کر دیا ہے کیونکہ میلہ عمارت کے باہر نہیں اندر لگتا تھا۔‘

اور جاتے جاتے شاہ حسین کی یہ کافی ملاحظہ کیجیے:

ربا! میرے حال دا محرم توں

اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، روم روم وچ توں

توں ہی تانا، توں ہی بانا، سبھ کجھ میرا توں

کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ توں

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میلہ چراغاں پر صفدر میر کیوں یاد آتے ہیں؟
  • موبائل اور ذہنی صلاحیتوں میں خلل
  • ایران کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کرنا چاہتے لیکن جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں بھی دی جائے گی .صدر ٹرمپ
  • ذکرالٰہی!
  • عمران خان مذاکرات کے لیے راضی، گھر کو ٹھیک کرنا ضروری ہے!
  • حج مبرور
  • بھارت سے جنگ پر حکومت کو کوئی کریڈٹ نہیں جاتا: فیصل جاوید
  • جس دن پی ٹی آئی نارمل حالت میں آگئی تو یہ حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکے گی، شبلی فراز
  • ضروری نہیں روایتی احتجاج کریں: جنید اکبر