میلہ چراغاں پر صفدر میر کیوں یاد آتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
اس سال میلہ چراغاں کے لیے شالامار باغ کے دروازے کھلنے پر میرا خیال تھا کوئی صفدر میر کو ضرور یاد کرے گا لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو مجھے ہی کچھ لکھنے کی تحریک ہوئی، ان کے ذکر خیر کا موقع محل یہ ہے کہ ایوب خان کے دور میں میلہ چراغاں اور شالا مار باغ میں رشتہ و پیوند کی قدیم روایت کے خاتمے پر صفدر میر نے سرکاری عمال کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس معاملے پر ان کا نقطہ نظر کتابوں میں محفوظ ہے اور بطور سند ہمارے کام آرہا ہے۔
صفدر میر نے اپنے مضمون ’شاہ حسین اور اس کی شاعری‘ میں میلہ چراغاں کو لاہور کا سب سے بڑا ثقافتی اجتماع قرار دیا جس کی رونق ان کے خیال میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے گھٹ کر آدھی رہ گئی کیوں کہ اب ہندو اور سکھ اس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے جبکہ پہلے ان کی بڑی تعداد اس میلے کا حصہ بنتی تھی۔
میلے کی رونق میں کمی کی دوسری بڑی وجہ شالا مار باغ میں عوام الناس کے داخلے پر پابندی تھی جس سے ان زائرین کی شب بسری اور آرام کا ٹھکانا چھن گیا۔
صفدر میر نے لکھا:
’پہلے یوں ہوا کرتا تھا کہ ایک ایک ہفتہ پہلے سے لاہور کے شہری، بلکہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اپنے کنبوں قبیلوں سمیت شالامار کے وسیع و عریض تختوں پر اپنے بستر جما لیا کرتے تھے، یہ ہماری سیاسی غلامی کے زمانے کی بات ہے اب جب کہ ہمیں غیروں کے استعمار سے آزادی نصیب ہو چکی ہے ہمارے عوام کو اپنے ہی ملک کی شہری سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں رہا۔‘
وہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ باغ کو لوگوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے بند کیا جاتا ہے کیوں کہ صفدر میر کی دانست میں 200 سے زیادہ برسوں سے تو شالامار باغ کو نقصان نہیں پہنچا تھا، تاریخی عمارتوں کی حالت عوام کے وہاں جانے سے دگرگوں نہیں ہوتی بلکہ اس کے اسباب اور ہوتے ہیں جن کی طرف صفدر میر نے سرکاری اہلکاروں پر طنز کرتے ہوئے کچھ یوں توجہ دلائی:
’اب جب کہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے تاریخی عمارات کو عوام کی دست برد سے بچانے کا اتنا پکا انتظام کیا ہے، لاہور شہر کی بہت کم تاریخی عمارات کی حالت قابلِ رشک رہ گئی ہے، شہر کی ایک اور بہت شاندار عوامی سیرگاہ مقبرہ جہانگیر کا اس سلسلے میں ذکر کیا جاسکتا ہے جس کے چاروں طرف پچاس ساٹھ فٹ کے اندر بستیاں قائم ہو گئی ہیں بلکہ بعض لوگوں نے تو اس کی چار دیواری کے اوپر بھی مکان بنا لیے ہیں۔‘
صفدر میر کا یہ مضمون ڈاکٹر سہیل احمد خان کی مرتب کردہ کتاب ’مقالات حلقہ اربابِ ذوق‘ میں شامل ہے جو 1990 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ 35 سال پرانی بات ہے، حال کا معاملہ یہ ہے کہ پنجابی کے معروف لکھاری اور استاد زاہد حسن کی لائقِ مطالعہ کتاب ’سرت سیہان‘ گزشتہ ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں ایک مضمون ’خلقت گئی ادھوری (شاہ حسین دی حیاتی، فکر تے شاعری)‘ بھی شامل ہے۔ اس کا اختتام صفدر میر کے مضمون ’ڈگا تے اگ‘ کے اقتباس پر ہوتا ہے جو 1966 میں ’پنجابی ادب‘ میں شائع ہوا تھا، اس میں انگریز راج میں ’ذہین طبقے‘ کے خود کو اونچی مخلوق تصور کرکے عام آدمی سے نفرت کے رویے پر تنقید ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سامراجی ورثے سے ہم پاکستان بننے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھڑا سکے۔
صفدر میر نے زاویہ نگاہ کی صراحت کے لیے میلہ چراغاں پر شالا مار باغ سے خلق خدا کو باہر رکھنے کے اقدام کی مثال دی ہے اور انتظامیہ کی منافقت ظاہر کرنے کے لیے اس نوٹس کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں یہ درج ہے کہ ’مرمت کی وجہ سے باغ 27 سے 29 مارچ تک عام لوگوں کے لیے بند رہے گا۔ اللہ کی شان پچھلے سال کی طرح اس دفعہ بھی میلہ چراغاں اور مرمت کی تاریخ ایک ہی مقرر ہوگئی ہے۔‘
صفدر میر کی تحریروں میں باغ اور عام آدمی کے میلے میں ربط ضبط ختم ہونے کا ذکر یوں آتا ہے جیسے کوئی وجود پر لگنے والے گہرے گھاؤ کی بات کررہا ہو جو مندمل ہونے میں نہ آرہا ہو۔ شاہ حسین کی ذات سے محبت اور میلہ چراغاں کی ثقافتی اہمیت کے صرف قلمی اعتراف تک وہ محدود نہیں رہتے تھے بلکہ اس میلے میں بنفس نفیس شرکت کرکے وہ عظیم صوفی اور بڑے ثقافتی مظہر سے اپنی وابستگی کا عملی ثبوت دیتے تھے۔
شاہ حسین اور میلہ چراغاں پر ہی موقوف نہیں صفدر میر کی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کتابوں میں غرق رہنا، پنجابی، اردو اور انگریزی میں لکھنا، یہ سب اپنی جگہ لیکن عمل کی دنیا میں بھی وہ ہیٹے نہیں تھے۔
تقسیم سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر سراج الدین نے ڈرامے کو اس طرح پڑھایا سمجھایا کہ ان کے بقول ’بحیثیت ایک سماجی عامل کے ڈرامے کی قوت اور اثر انگیزی کا بھرپور احساس ہوا، یہیں سے تھیٹر میں دلچسپی بڑھی۔ میں عموماً گورنمنٹ کالج کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا۔‘
کالج کے زمانے میں ریڈیو ڈرامہ وسیلہ روزگار بن گیا، اس پس منظر کے ساتھ وہ لاہور سے بمبئی گئے تو وہاں انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) سے بطور اداکار وابستگی نے شوق کو نیا رخ دیا اور اس میڈیم کے بارے میں انہیں بہت کچھ نیا جاننے کو ملا۔
ان دنوں پاک بھارت کشیدگی کا دور ہے تو اس میں بھی صفدر میر کی شخصیت بہت ریلیونٹ نظر آتی ہے کہ 1965 کی جنگ میں وہ نظم لکھنے پر ہی قانع نہیں رہے بلکہ ٹرک پر سوار ہو کر اسے لاؤڈ سپیکر پرمجمع عام کو سنایا بھی:
چلو واہگے کی سرحد پر
وطن پر وقت آیا ہے
وطن پر کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے
اس ایک نظم پر ہی وہ بس نہیں ہوئے اور ’سیالکوٹ کی فصیل‘ اور ’فائر بندی کی رات‘ کے عنوان سے بھی نظمیں کہیں جو ہنگامی ماحول میں لکھے جانے کے باوجود ادبی معیار پر بھی پوری اترتی ہیں۔
اس طرح انتظار حسین نے ’چراغوں کا دھواں‘ میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں میر انیس کے مرثیوں نے ان پر اتنا اثر کیا کہ وہ مجلسوں میں شریک ہوئے اور موچی دروازے میں زنجیر زن ماتمیوں کے ساتھ صبح عاشور کو ماتم بھی کیا۔
صفدر میر کی تحریروں میں میلہ چراغاں اور شالامار باغ کے سمبندھ کے تذکرے سے کئی دوسرے قصے بھی ذہن میں درانہ چلے آئے جن میں بسنت کا رنگ بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے بات کرنے کے لیے میاں بشیر احمد سے موزوں شخصیت کون ہوگی جن کے پرکھوں کا باغبانپورہ اور شالامار باغ سے صدیوں پرانا رشتہ تھا۔ مغلوں کے زمانے سے باغ کا انتظام و انصرام باغبانپورہ کے اسی ممتاز خاندان کے سپرد تھا جس میں میاں بشیر احمد کے والد جسٹس شاہ دین ہمایوں اور سسر میاں محمد شفیع ایسے معروف لوگ بھی شامل تھے۔ ایوب خان نے اس خانوادے سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان میاں افتخارالدین سے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کا ادارہ ہی نہیں چھینا جو پاکستان ٹائمز اور امروز جیسے معتبر اخبار شائع کرتا تھا بلکہ شالا مار باغ کی انتظامی ذمہ داریاں بھی ان سے چھین لیں، اس خبر کا اندراج تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے، ایک مثال ذرا دیکھیے ہم نے کہاں سے ڈھونڈ نکالی ہے۔
نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور دانشور امرتیا سین کی میاں افتخار الدین کے بیٹے عارف افتخار سے کیمبرج کے زمانے میں دوستی ہوئی، انہوں نے اپنی سوانح ’ہوم ان دی ورلڈ‘ میں یار عزیز کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے اور انہیں کیمبرج میں اپنے زمانے کا بہترین مقرر قرار دیا ہے۔ 1963 میں وہ اپنے اس دوست کے ہاں لاہور میں مہمان رہے اور لاہور کی خوبصورتی کو اپنے اندر اتارا۔ شالا مار باغ کی خوبصورتی نے بھی انہیں مسحور کیا جسے انہوں نے کتاب میں دنیا کا عظیم ترین باغ لکھا ہے، امرتیا سین نے عارف افتخار کے خاندان کی شالامار باغ کی صدیوں تک نگہبانی کرنے کی روایت کا حوالہ بھی دیا ہے۔
بات ہم نے میاں بشیر احمد کے مضمون کی کرنی تھی لیکن بیچ میں رہوار قلم دوسری تفصیلات کی طرف چل پڑا سو اب اسی مضمون کی طرف مڑتے ہیں جس میں باغبانپورہ اور شالامار باغ کا خوب تذکرہ ہے، ایک تلخ یاد جو ملکہ معظمہ کے مرنے سے جڑی تھی اس میں میاں بشیر ہمیں ان لفظوں میں شریک کرتے ہیں:
’ملکہ مری 22 جنوری 1901 کو اور مادھو لال حسین (باغبانپورہ) میں پولیس نے آکر اپنے ہنٹروں سے بسنت کے میلے کو درہم برہم کردیا تو ہم نے اس ملکہ کے حق میں کوئی نیک کلمے نہ کہے، اسے مرنا تھا تو کم از کم کسی کام کے دن مرتی کہ ہمیں چھٹی ہی مل جاتی نہ یہ کہ ہماری اچھی بھلی چھٹی اور بھرے میلے کے رنگ میں اس نے بھنگ ڈالی دی، وہ ملکہ اور وہ پولیس اس دن کے بعد سے میری نظروں سے گر گئی، اس وقت میری عمر قریباً 8 برس کی تھی۔‘
اس واقعے سے رعایا اور سلطنت کے تعلق کی نوعیت بھی سمجھی جاسکتی ہے لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد اپنی پولیس نے بھی عوام پر ظلم ہی ڈھائے ہیں:
’رات گزری تھی کہ پھر رات آئی‘
اب ہم آپ کو باغبانپورہ کے ایک اور معزز ساکن سے ملواتے ہیں، گربچن چندن نے انڈیا میں اردو صحافت کی تاریخ پر وقیع کام کیا ہے، برصغیر میں اردو کے پہلے اخبار ’جام جہاں نما‘ پر ان کی تحقیقی تصنیف، علمی و صحافتی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی، یہ بات چند سال پہلے ہمارے علم میں آئی کہ وہ تقسیم سے پہلے باغبانپورہ کے مکین تھے اور میاں افتخار الدین کے گھرانے سے ان کے خاندانی مراسم تھے، اپنے آبائی علاقے باغبانپورہ کے بارے میں ان کی یادداشتیں علمی و ادبی جریدے ’ارتقا‘ (2015) میں شائع ہوئیں تو اس میں میلہ چراغاں اور شالا مار باغ کا ذکر تو آنا ہی تھا:
’اس قصبے (باغبانپورہ) کا ایک اور امتیاز میلہ چراغاں تھا جو بسنت کے تہوار پر ہر سال اسی تاریخی باغ کے نواح میں لگتا تھا، اس میں دور ونزدیک کے دیہات سے ہزاروں لوگ آتے تھے جن میں ہندو، مسلمان، سکھ سب شامل ہوتے تھے۔ وہ اس کے نزدیک ہی واقع مادھو لال حسین کی درگاہ کی زیارت کرتے تھے اور وہاں چراغ جلا جلا کر منتیں مانتے تھے، یہ میلہ دو تین دن جاری رہتا اور ان ایام میں شالیمار باغ کے اردگرد ہنگاموں کی ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی۔ بھیڑ اور گہما گہمی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بیسیوں بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے تھے اور کہیں شام کو جا کر پولیس کے خصوصی کیمپوں میں ملتے تھے۔‘
اب آپ کو نان فکشن سے فکشن کی دنیا میں لیے چلتے ہیں۔
حمید شیخ انگریزی کے جانے مانے صحافی تھے، ان کے ناول ’گینڈا پہلوان‘ کا محل وقوع شمالی لاہور کا علاقہ ہے جس کے کچے پکے رستوں اور دھول اڑاتی ویران سڑکوں پر بہار کا سماں اور بھیڑ بھڑکا بھی سال بھر میں انہی دنوں میں ہوتا تھا جب مادھو لال حسین کے مزار اور بسنت کا سنجوگ ہو جاتا :
’سارا سال ان کچے راستوں پر صرف شہر کی گندگی سے لدی بیل گاڑیاں چلتی نظر آتی تھیں جو شہر کو تازہ سبزی بہم پہنچانے والے کھیتوں میں کھاد لا لا کر ڈالتی تھیں، بسنت کے بسنت یہ راستے یکدم جاگ اٹھتے تھے، لوگ پیلی پیلی پگڑیاں باندھے، ہاتھوں میں پتنگ اور رنگ برنگی ڈور کی ریل لیے، اسی راستے مادھو لال حسین کی درگاہ کو جاتے تھے۔ یہاں اس روز خوانچے والے بھی آ بیٹھتے تھے اور درجنوں فقیر، کوئی لولا، کوئی لنگڑا، کوئی گاتا، کوئی روتا، کوئی محض اپنی وضع قطع سے راہگیروں کی توجہ پر ڈاکے ڈالتا، غرض کہ ایک دن کے لیے یہ راستہ انارکلی بازار بن جاتا اور پھر وہی کچے کا کچا راستہ۔‘
صاحبو! مادھو لال حسین، میلہ چراغاں اور بسنت پر تو دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن بات نے کہیں تو جا کر سمٹنا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہم ٹھیٹ لاہوریے میرزا ادیب کے ایک بیان سے مدد لیں گے جس کے ڈانڈے صفدر میر کے اس مؤقف سے جاملتے ہیں جس کی بنیاد پر اس مضمون کا ڈول ڈالا گیا ہے، میرزا ادیب کی آپ بیتی ’مٹی کا دیا‘ سے اقتباس نقل کرنے سے پہلے دفعتاً یہ بات ذہن میں آئی کہ ’مٹی کا دیا‘ تو شاہ حسین کے مزار سے وابستہ وہ استعارہ ہے جس کی وجہ سے میلہ چراغاں کو اپنا نام حاصل ہوا ہے۔ یہاں چراغ سے چراغ جلتا ہے، اس کی منظر کشی شاہ حسین اور میلہ چراغاں کے عاشقِ صادق، یونس ادیب نے ’میرا شہر لاہور‘ میں بڑے خوبصورت پیرائے میں کی ہے:
’چراغوں کی رات ہزاروں دئیوں کی لاٹ ایک لمبو بن کر آسمان کی طرف اٹھتی ہے، یہ چراغاں رفتہ رفتہ ایک بہت بڑے الاؤ میں بدل جاتا ہے اور جیسے جیسے الاؤ بڑھتا جاتا ہے میلے کا سماں رنگین اور پرجوش ہو جاتا ہے۔‘
اب آپ میرزا ادیب کا بیان دیکھ لیجیے:
’لاہور کی انتظامیہ نے میلہ منانے والوں کے لیے شالا مار باغ کا دروازہ بند کردیا ہے اور اب شالا مار باغ صرف غیر ملکی بڑوں کے لیے وقف ہو کر رہ گیا ہے، اس سے انتظامیہ نے شالا مار باغ کے حسن کو تو محفوظ کرلیا ہے مگر میلے کے حسن کو داغدار کر دیا ہے کیونکہ میلہ عمارت کے باہر نہیں اندر لگتا تھا۔‘
اور جاتے جاتے شاہ حسین کی یہ کافی ملاحظہ کیجیے:
ربا! میرے حال دا محرم توں
اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، روم روم وچ توں
توں ہی تانا، توں ہی بانا، سبھ کجھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ توں
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: میلہ چراغاں اور میں میلہ چراغاں باغبانپورہ کے شالا مار باغ شالامار باغ صفدر میر کی مار باغ کے میاں بشیر کی وجہ سے کے زمانے اور شالا شاہ حسین تھے اور حسین کی جاتا ہے شائع ہو یہ بات دیا ہے کی طرف اور ان باغ کا توں ہی کے لیے ہے اور
پڑھیں:
لوگ رشتے بنانے اور بگاڑنے کے لیے اے آئی سے مشورے کیوں لے رہے ہیں؟
اس سال کے اوائل میں شیفیلڈ کی رہائشی ریچل (فرضی نام) کو ایک شخص کے ساتھ تعلقات پر وضاحت کرنے کے لیے بات کرنی تھی لیکن انہوں نے اپنے دوستوں یا دیگر قریبی افراد کو شامل کرنے کے بجائے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے رجوع کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ریچل نے بتایا کہ وہ کافی پریشان تھیں اور رہنمائی چاہتی تھیں لیکن اس معاملے میں اپنے دوستوں کو شامل نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
خاتون نے اوپن اے آئی کے ماڈل چیٹ جی پی ٹی سے رابطہ کیا۔ وہ ان کے مطابق ایک حوصلہ افزا اور تھراپی جیسی زبان میں ان سے گویا ہوا جس میں ‘حدود’ اور ‘اپنی شرائط پر فیصلہ کرنے’ جیسے الفاظ شامل تھے۔ ریچل کہتی ہیں کہ یہ مشورہ کسی حد تک کارآمد تھا لیکن وہ انہوں نے لفظ بہ لفظ نہیں لیا۔
ریچل اکیلی نہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق امریکا کی جنریشن زیڈ (سنہ 1997 سے سنہ 2012 کے درمیان پیدا ہونے والے نوجوان) میں سے تقریباً نصف نے ڈیٹنگ مشورے کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز کا استعمال کیا ہے جو کسی اور نسل کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
لوگ اے آئی سے کس طرح مشورہ لے رہے ہیں؟لوگ اپنے تعلقات کے مسائل اور پیغام رسانی کے انداز یہاں تک کہ بریک اپ میسجز تیار کرنے کے لیے بھی اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین
ماہر نفسیات اور تعلقات کی ماہر ڈاکٹر للیتا سگلانی کے مطابق اے آئی ان افراد کے لیے مفید ہو سکتا ہے جو تعلقات میں بات چیت کے معاملے پر الجھن یا دباؤ کا شکار ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی شخص کو متن (میسج) تیار کرنے، الجھے ہوئے پیغام کو سمجھنے یا دوسرا نقطہ نظر حاصل کرنے میں مدد کر سکتا ہے تاکہ ردعمل دینے کے بجائے پہلے سوچا جائے۔
ڈاکٹر للیتا کہتی ہیں کہ یہ کسی حد تک ڈائری لکھنے یا خود سے بات کرنے جیسا معاون ٹول بن سکتا ہے لیکن یہ حقیقی انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہونا چاہیے۔
خدشات اور خطراتڈاکٹر سگلانی خبردار کرتی ہیں کہ چونکہ اے آئی ماڈلز عام طور پر مددگار اور مثبت جواب دینے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس لیے یہ بعض اوقات غلط پیٹرنز یا تعصبات کو بھی تقویت دے سکتے ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بریک اپ میسج تیار کرنے کے لیے اے آئی استعمال کرنا شخص کو حقیقی جذبات سے سامنا کرنے کی بجائے بچاؤ کی عادت ڈال سکتا ہے۔ اس سے ان کی جذباتی ترقی رک سکتی ہے اور وہ اپنی بصیرت اور جذباتی زبان دوسروں پر ’آؤٹ سورس‘ کرنے لگتے ہیں۔
مزید پڑھیں: وہ 5ممالک جو مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں
ایک اور خدشہ یہ ہے کہ اے آئی کے ذریعے لکھے گئے پیغامات اکثر احساسات سے خالی اور مشینی لگ سکتے ہیں جو تعلقات میں مزید بے اعتمادی یا اجنبیت پیدا کر سکتے ہیں۔
نئی خدمات اور پرائیویسی کا معاملہاسی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر می (Mei) جیسی مفت اے آئی سروسز سامنے آ رہی ہیں جو تعلقات کے مسائل پر گفتگو کی شکل میں مشورے دیتی ہیں۔ اس سروس کے بانی اور نیویارک کے رہائشی ایس لی کہتے ہیں کہ لوگ اس لیے اے آئی استعمال کر رہے ہیں کیونکہ موجودہ خدمات ناکافی ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ اے آئی کے ذریعے تعلقات پر بات کرنے میں سیکیورٹی اور پرائیویسی کے خطرات بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ می پر صارفین کی شناخت ظاہر کرنے والا ڈیٹا جمع نہیں کیا جاتا اور گفتگو 30 دن کے بعد حذف کر دی جاتی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی اوپن اے آئی کے مطابق ان کے نئے ماڈلز میں غیر صحت مند انحصار اور خوشامد سے بچنے کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے اور حساس سوالات پر ماہرین کی رہنمائی کے مطابق مناسب ردعمل دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر صارفین کو پیشہ ورانہ مدد لینے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف
ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کچھ حد تک رہنمائی ضرور دے سکتی ہے لیکن رشتوں میں حقیقی جذباتی قربت اور سیکھنے کے لیے انسانی رابطہ ہی اصل بنیاد ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی سے مشورے مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت سے مشورے