’’ہر پاکستانی ڈرامے میں ناجائز تعلقات کی کہانی کیوں؟‘‘ شیما کرمانی برس پڑیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی علمبردار اور معروف رقاصہ شیما کرمانی نے پاکستانی ڈراموں میں بڑھتے ہوئے غیر اخلاقی مواد پر کڑی تنقید کی ہے۔
ایک حالیہ پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کے دوران شیما کرمانی نے کہا کہ آج کے مرد پہلے کے مقابلے میں زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ تبدیلی ان کے بچپن میں دیکھے گئے ٹی وی پروگراموں اور خبروں کا نتیجہ ہے۔ آمریت کے دور میں مردانہ بالادستی کے نظریات نے انہیں پہلے سے زیادہ خراب بنا دیا ہے۔‘‘
پاکستانی ڈراموں پر سخت تنقید کرتے ہوئے شیما نے کہا کہ ’’ہر ڈرامے میں غیر شادی شدہ تعلقات دکھائے جاتے ہیں، جبکہ حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر مرد دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ڈراموں میں ساس کو ہمیشہ منفی کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ ہر ساس بری نہیں ہوتی۔‘‘
1970 کی دہائی سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم شیما کرمانی نے زور دیا کہ میڈیا کو معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرنے چاہئیں نہ کہ منفی رویوں کو فروغ دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ڈرامہ سازوں کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہیے اور معاشرتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مواد پیش کرنا چاہیے۔‘‘
یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں جب پاکستانی ڈراموں میں غیر اخلاقی تعلقات اور منفی کرداروں کو بڑھ چڑھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ شیما کرمانی کی یہ تنقید سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے، جہاں کئی صارفین ان کے موقف سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
واٹس ایپ چیٹ نے کروڑوں پاؤنڈز کا منشیات کا دھندا ٹھپ کروادیا، جانیے جرم و سزا کی یہ کہانی
برطانیہ میں پولیس نے واٹس ایپ پر کی گئی چند چیٹس کی مدد سے ایک ایسے منشیات فروش کا سراغ لگایا جو بظاہر ایک عام سا شہری تھا لیکن حقیقت میں وہ جنوبی ویلز میں کوکین اور ہیروئن کے کروڑوں پاؤنڈز کے کاروبار کا ماسٹر مائنڈ نکلا۔
بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 34 سالہ رابرٹ اینڈریوز جونیئر نیوپورٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک سادہ سے گھر میں رہتا تھا۔ نہ مہنگی گاڑیاں، نہ برانڈڈ کپڑے اور نہ ہی کسی مجرمانہ پس منظر کی نشاندہی لیکن پولیس کے خفیہ آپریشن نے ثابت کر دیا کہ سادگی کے اس پردے کے پیچھے ایک منظم جرائم پیشہ نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔
رابرٹ اینڈریوز پولیس کی نظروں میں اس وقت آیا جب کیرِی ایوانز نامی ایک اور منشیات فروش کی گرفتاری کے بعد اس کے فون سے چیٹ برآمد ہوئی۔ ان چیٹس میں وہ اور اینڈریوز مزاحاً لکھتے ہیں کہ وہ یا تو ’کروڑ پتی بنیں گے یا جیل میں سیل شیئر کریں گے‘۔
یہی چیٹس پولیس کے لیے ایک سراغ بن گئیں اور جیسے ہی اینڈریوز پر خفیہ نگرانی شروع ہوئی سارا نیٹ ورک کھل کر سامنے آ گیا۔
خفیہ نگرانی، ’دی کلیئرنگ‘ اور کیمرے کی آنکھپولیس نے آپریشن مے لینڈ کے تحت اینڈریوز کی خفیہ نگرانی کی جس میں اسے دن دیہاڑے بھاری مقدار میں کوکین اور ہیروئن کے سودے کرتے دیکھا گیا۔ ایک مقام پر تو اسے ایک لاکھ پاؤنڈ نقدی سپر مارکیٹ کے شاپنگ بیگ میں دیتے ہوئے فلمایا گیا۔
اہم ملاقاتیں عموماً ’دی کلیئرنگ‘ نامی ایک ویران جنگلی علاقے میں ہوتی تھیں، جو ایم 4 موٹر وے کے قریب واقع تھا۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں کوئی اتفاقیہ نہیں جاتا بلکہ مخصوص ہدایات کے بغیر وہاں پہنچنا ہی ناممکن تھا۔
2 کلو کوکین اور ٹیکسی ڈرائیورایک موقعے پر پولیس نے دی کلیئرنگ سے نکلنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور محمد یامین کو گرفتار کیا جس کی گاڑی سے 2 کلو خالص کوکین برآمد ہوئی۔ اس کی مالیت تقریباً 2 لاکھ پاؤنڈ تھی۔ یامین کو ساڑھے 6 سال قید کی سزا ہوئی۔
نوٹ کا سیریل نمبر بطور ’ٹوکن‘اینڈریوز رقم کی منتقلی کے لیے بھی ہوشیار طریقے اپناتا تھا۔ ایک موقعے پر اسے ایک اجنبی شخص سے صرف 5 پاؤنڈ کا نوٹ ملا اور وہ اس نوٹ کا سیریل نمبر دیکھ کر پہچان گیا کہ یہ شخص اس کے سپلائر کا نمائندہ ہے۔ بعد میں اسی شخص سے ایک لاکھ 9 ہزار پاؤنڈ برآمد ہوئے۔
سادگی کے پیچھے چھپی عیاشیرابرٹ اینڈریوز کے گھر پر چھاپے کے وقت وہ اپنا فون الماری پر پھینک کر پولیس کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن پولیس نے وہ فون برآمد کر لیا جس میں تفصیل سے منشیات کے آرڈرز، بقایا جات اور سپلائرز کو دی گئی رقوم کا ریکارڈ موجود تھا۔
اگرچہ اس کے طرز زندگی میں کوئی خاص نمود و نمائش نہ تھی، لیکن جب پولیس نے اس کی تعمیر شدہ نئی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تو 60 ہزار پاؤنڈ کی لاگت سے بنا باورچی خانہ اور دیگر قیمتی سازوسامان دیکھ کر واضح ہوگیا کہ یہ عام آمدن سے ممکن نہیں۔
سزا اور پیغاماینڈریوز نے کوکین اور ہیروئن کی فراہمی سے متعلق 2 الزامات تسلیم کیے اور سنہ 2024 میں اس پر مقدمہ چلا۔ رواں ماہ اسے 14 سال 8 ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور اب وہ آدھی سزا وہ جیل میں گزارے گا اور باقی پیرول پر۔
دیگر شریک ملزمان میں ساموئیل تاکاہاشی (8 سال قید)، ناتھن جونز (18 سال قید) اور راحیل مہربان (10 سال 9 ماہ قید) شامل ہیں۔
پولیس کا بیانڈیٹیکٹیو چیف سپرنٹنڈنٹ اینڈریو ٹَک کا کہنا ہے کہ یہ کیس ایک واضح پیغام ہے کہ ہمارے معاشروں میں منشیات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہیں اور انجام قید ہے۔
اس طرح خفیہ واٹس ایپ چیٹ سے شروع ہونے والی تفتیش نے دن دہاڑے لاکھوں پاؤنڈز کے منشیات کے سودوں کو بے نقاب کیا اور سادگی کا لبادہ اوڑھے امیر ترین مجرموں کی گرفتاری ممکن ہوئی۔ 9 ماہ کی نگرانی، درجنوں گرفتاریاں اور ایک منشیات سلطنت کا خاتمہ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ منشیات کا گینگ واٹس ایپ میسجز