UrduPoint:
2025-09-18@23:33:00 GMT

یورپ سے ملک بدر کیے گئے عراقی تارکین وطن کی تلخ واپسی

اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT

یورپ سے ملک بدر کیے گئے عراقی تارکین وطن کی تلخ واپسی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2025ء) اب 39 سالہ محمد جلال کا شمار ان ہزاروں عراقی باشندوں اور کئی دیگر ممالک کے لاکھوں تارکین وطن میں ہوتا ہے، جنہیں یورپ سے امیگریشن کی سخت پالیسیوں کے باعث واپس بھیج دیا گیا۔ اب انہیں وہی چیلنج درپیش ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وطن واپسی کے بعد جلال ایک سال سے زیادہ عرصے سے بے روزگار ہیں۔


مختلف یورپی ممالک عراقی حکومت کے ساتھ مل کر بے روزگاری سے نمٹنے کے کئی پروگراموں میں مالی مدد کر رہے ہیں تاکہ ایسے افراد کی ان کے وطن واپسی کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔

عراقی خود مختار علاقے کردستان کے شہر رانیہ میں جلال اپنے بوڑھے والد کے ساتھ دوبارہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم ہیں، جہاں وہ رات کو کنکریٹ کے بنے فرش پر ایک میٹرس پر سوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جلال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''اب بھی اگر میں یورپ جا سکتا، تو ضرور جاتا۔‘‘

جلال آج بھی سوچتے ہیں کہ وہ اگر پھر جرمنی پہنچ جائیں، تو انہیں وہاں پناہ مل جائے گی۔ انہوں نے کہا، ''میں جرمنی میں اپنا کوئی کرد ریستوراں کھول سکتا تھا۔ کئی اور کام بھی کر سکتا تھا۔ لیکن یہاں واپسی پر تو میرے پاس کوئی کام ہی نہیں۔

‘‘ جرمنی میں پناہ کی دو درخواستیں ناکام

محمد جلال نے ترکی کے شہر ازمیر سے یونان تک کا خطرناک سفر کیا تھا۔ وہ بالآخر 2015 میں جرمنی پہنچنے سے پہلے شمالی مقدونیہ، سربیا اور کروشیا سے بھی گزرے تھے۔ جرمنی میں وہ پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں رہنے لگے تھے، جہاں انہیں ماہانہ 300 یورو (350 ڈالر) ملتے تھے۔
ان جیسے افراد کے لیے ملازمت کے حصول پر پابندی کے باوجود جلال نے نیورمبرگ اور میونخ جیسے جرمن شہروں کا رخ کیا۔

وہ وہاں غیر قانونی طور پر کام بھی کرتے تھے اور انہیں یہ خوف بھی رہتا تھا کہ کہیں وہ پکڑے نہ جائیں۔
جلال کی پناہ کی درخواستیں دو بار مسترد ہوئیں۔ پھر جرمن حکام نے انہیں جنوری 2024 میں ملک بدر کر دیا۔ عراقی کردستان میں واپسی پر انہوں نے ایک بیکری کھولنے کی ناکام کوشش کے بعد دو ماہ تک فلافل کی ایک چھوٹی سے دکان پر بھی کام کیا، جہاں سے وہ روزانہ سات ڈالر کے برابر کماتے تھے۔

افریقی پانیوں میں بچا لیے گئے تارکین وطن کی پاکستان واپسی

محمد جلال اب پھر بےروزگار ہیں۔ وہ تقریباﹰ 150 ڈالر کے برابر اس رقم میں گزارہ کرتے ہیں، جو انہیں ہر مہینے ان کے خاندان کے بیرون ملک مقیم افراد بھیجتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''میں اس بہت کم رقم میں گزر بسر کرتا ہوں۔‘‘

یورپی یونین سے سوا لاکھ تارکین وطن سے واپس چلے جانے کا باضابطہ مطالبہ

پچھلے سال کی آخری سہ ماہی میں یورپی یونین کے رکن ملکوں میں پناہ کے متلاشی تقریباﹰ سوا لاکھ غیر یورپی باشندوں سے سرکاری مطالبہ کیا گیا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔

یہ تعداد 2023 کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ تھی۔

بغداد میں جرمن سفارت خانے نے رابطہ کرنے پر اے ایف پی کو بتایا، ''اصولی طور پر جرمنی اپنے ہاں سے ایسے غیر ملکیوں کو واپس بھیجتا ہے، جن کے لیے قانوناﹰ لازمی ہوتا ہے کہ وہ جرمنی سے رخصت ہو جائیں۔‘‘

جرمن سفارت خانے کی طرف سے بتایا گیا، ''جرمنی نے ایسے کئی ملین انسانوں کو پناہ دی اور تحفظ فراہم کیا، جو جنگ یا خونریزی کی وجہ سے اپنے آبائی ملکوں سے نکلے تھے۔

‘‘ ان میں بہت سے عراقی شہری بھی شامل ہیں، زیادہ تر شمالی عراقی باشندے۔

ساتھ ہی عراق میں جرمن سفارت خانے نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ''جرمنی میں ایسے لوگوں کے لیے قیام کے کوئی امکانات نہیں ہیں، جو بے ضابطہ طور پر ملک میں داخل ہوتے ہیں، صرف بہتر زندگی کی امید کے ساتھ اور جنہیں دراصل تحفط کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘

عراقی کردستان سے ترک وطن

بے یقینی کے شکار عراق کے شمال میں واقع خود مختار کرد علاقے کی حیثیت استحکام والے ایک نخلستان کی ہے۔

مگر عراقی کردستان کو بھی اب اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے مقامی نوجوان بہتر امکانات کے لیے وہاں سے رخصت ہونا چاہتے ہیں۔ ایسے عراقی نوجوانوں میں سے بہت سےیورپ پہنچنے کی کوشش میں موت کے منہ میں بھی چلے گئے۔

عراقی کردستان میں رانیہ سے تعلق رکھنے والے ہردی احمد 2021 میں یورپ جانے کے لیے سفر پر نکلے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح برطانیہ پہنچ گئے تھے۔

مگر اس سفر کے دوران ان کے تین دوست سمندر میں ڈوب گئے تھے۔ ان میں سے ایک کی موت برطانیہ اور فرانس کے درمیانی سمندر انگلش چینل میں ہوئی تھی۔

ہردی احمد نے بتایا، ''میرا برطانیہ تک کا سفر 'موت کے راستے‘ پر سفر تھا۔ برطانیہ پہنچتے ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ میری وہاں آمد کسی کے لیے بھی خوش آئند نہیں تھی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ انہیں برطانیہ سے واپس فرانس بھیج دیا گیا، جہاں عراقی سفارت خانے نے ان کی عراق واپسی میں مدد کی تھی۔

جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی

اس وقت ہردی احمد کی عمر 39 سال ہے اور عراقی کردستان میں وہ اب بھی بے روزگار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''حکومت کو مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کرنا چاہیے۔ ایسا نہ کیا گیا، تو نوجوان یورپ جانے کی کوششیں کرتے رہنے پر مجبور رہیں گے۔‘‘

جرمن حکومت کی طرف سے تعاون

جرمن حکومت سے منسلک ترقیاتی ادارہ جی آئی زیڈ عراق میں بغداد اور اربیل کے شہروں میں قائم ایسے مراکز کے ساتھ تعاون کرتا ہے، جو وطن لوٹنے والے عراقی شہریوں کی مدد اور رہنمائی کرتے ہیں۔

یہ مدد مشاورت، ملازمتوں کی تلاش میں رہنمائی، تربیتی پروگراموں اور چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے مالی امداد کی صورت میں کی جاتی ہے۔

ان مراکز کو چلانے کے لیے رقوم جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور یورہی یونین مہیا کرتے ہیں۔ جون 2023 سے اگست 2024 تک ان مراکز نے 350 عراقی شہریوں کی مختلف طریقوں سے مدد کی۔

سمندری راستے سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10 ہزار سے زائد ہلاکتیں

یورپی یونین کے عراق میں تعینات سفیر ٹوماس زائلر نے اے ایف پی کو بتایا، ''یورپی یونین کی رکن کچھ ریاستوں نے بغداد حکومت کے ساتھ عراقی شہریوں کی ان یورپی ملکوں سے واپسی اور عراق میں دوبارہ داخلے کی اجازت کے معاہدے کر رکھے ہیں۔

اب یورپی یونین کی سطح پر بھی عراق کے ساتھ ایسے ایک معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘

یورپی یونین کے سفیر نے کہا، ''یورپی شہروں اور دیہات میں تارکین وطن کو آنے دینے اور ان کے انضمام کی گنجائش عرصہ ہوا پوری ہو چکی۔ اب بے ضابطہ ترک وطن کے عمل کو واضح طور پر روکا جانا چاہیے۔‘‘

ٹوماس زائلر نے بتایا کہ یورپی یونین واپس عراق لوٹنے والے مقامی شہریوں کو خوش آمدید کہنے کے عمل میں عراقی حکومت کے مختلف پروگراموں کے لیے فنڈز مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین ایسے پروگراموں کے لیے بھی کئی کئی ملین یورو مہیا کرتی ہے، جن کا مقصد اس عمل میں مدد کرنا ہوتا ہے کہ ''عراقی عراق میں رہیں۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عراقی کردستان یورپی یونین تارکین وطن سفارت خانے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

امریکی انخلا ایک دھوکہ

اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔

امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔

امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے  "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔

وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔

آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔

متعلقہ مضامین

  • لیبیا میں تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے سے 61 افراد جاں بحق
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • پابندیوں لگانے کی صورت میں یورپ کو سخت جواب دینگے، تل ابیب
  • اثاثے ہتھیانے والوں کا پیچھا کریں گے، روس کی یورپ کو دھمکی
  • لیبیا کے قریب تارکین وطن کی کشتی میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی؛ 50 ہلاکتیں؛ 24 زخمی
  • سوڈان میں تارکین وطن کی کشتی میں آگ بھڑک اُٹھی: 50افراد ہلاک
  • حشد الشعبی عراق کی سلامتی کی ضامن ہیں، عراقی سیاستدان
  • عراق پر اسرائیلی حملے کی وارننگ کے بعد دفاعی اقدامات کا آغاز
  • 31 سالہ فلسطینی نوجوان غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچ گیا
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ