دوست اہم یا مقابلے کا امتحان؟ طالب علم نے مثال قائم کردی
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جس شخص کے دوست اچھے اور مخلص ہوں اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، چین کے ایک طالب علم نے اس کو سچ کر دکھایا ہے۔
مشرقی چین سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے اپنی کلاس کے دوست کی زندگی بچانے کے لیے ایک اہم امتحان کھو دیا، لیکن اسے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں مصنوعی ذہانت: زندگی کے سفر میں ہماری ہمسفر، مگر کیا اس دوستی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق 18 سالہ جیانگ زاؤ پینگ اپنی کلاس کے دوست کے ساتھ چینی نیشنل ووکیشنل انٹرنس امتحان کے لیے جا رہا تھا، وہ ایک گاڑی پر سوار ہوئے تو اس کے دوست کو ہارٹ اٹیک آیا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔
طالب علم جیانگ زاؤ نے دوست کو گاڑی میں ہی طبی امداد دینا شروع کی اور ڈرائیور کو کہاکہ فوری طور پر اسپتال پہنچو، جس کے بعد ڈرائیور انہیں لے کر اسپتال پہنچ گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جیانگ کے دوست کے دل کی دھڑکن قریباً آدھے گھنٹے تک بند رہی تاہم ڈاکٹر اسے بچانے میں کامیاب ہوگئے۔
بعد ازاں طالب علم نے تعلیمی ادارے سے رابطہ کیا اور امتحانی مرکز پہنچا لیکن پیپر کا وقت گزر چکا تھا اور وہ امتحان میں شامل نہ ہو سکا۔
طالب علم کے اس جذبے اور دوست کا ساتھ دینے کو نہ صرف بلکہ دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے، اور سوشل میڈیا صارفین اسے خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں مصنوعی ذہانت میں نیا انقلاب: مکمل زندگی کی ساتھی روبوٹک گرل آریا
نوجوان کا کہنا ہے کہ امتحان تو میں دوبارہ بھی دے سکتا ہوں لیکن اگر میں ایسا نہ کرتا تو میرے دوست کی زندگی کبھی واپس نہیں آتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امتحان چین حق ادا کردیا دوستی طالب علم ہارٹ اٹیک وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چین حق ادا کردیا دوستی طالب علم ہارٹ اٹیک وی نیوز طالب علم نے کے دوست
پڑھیں:
مسلم دنیا میں اتحاد اور دیانت داری کی روشن مثال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک ایسے دور میں جب دنیا بھر میں سیاسی تقسیم، نظریاتی اختلافات اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے، مسلم دنیا کے مرکز سعودی عرب سے ایک اہم سفارتی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو وژن 2030 کے معمار اور سعودی عرب کی عالمی حیثیت کو نئی شکل دینے والے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے مسلم دنیا کے کلیدی رہنماؤں کو ایک خصوصی دعوت دی ہے، جس کا مقصد مسلم ممالک کے درمیان اتحاد، باہمی تعاون اور حکمت عملی کی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
اس دعوت کے جواب میں جن معزز رہنماؤں نے سعودی عرب کا دورہ کیا، ان میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق بھی شامل تھے، جن کی موجودگی اور رویے کو نہ صرف سفارتی اہمیت حاصل ہوئی بلکہ اسے سادگی، دیانت اور روحانیت کی شاندار مثال کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی یہ دعوت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب مسلم دنیا جغرافیائی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ علاقائی تنازعات، انسانی بحران، اسلاموفوبیا، اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی منفی تصویر کشی جیسے مسائل نے امت مسلمہ کو ایک متحد موقف اختیار کرنے کی ضرورت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
اس ماحول میں سعودی ولی عہد کی طرف سے مسلم قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا نہ صرف ایک دانش مندانہ قدم ہے بلکہ یہ امت مسلمہ کی اجتماعی طاقت کو دوبارہ جگانے کی کوشش بھی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت، خاص طور پر محمد بن سلمان، اب جدیدیت، ترقی، اور بین الاقوامی سفارت کاری میں مسلمانوں کی اجتماعی نمائندگی کا چہرہ بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان، جو کہ مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے اور ایٹمی صلاحیت کا حامل واحد اسلامی ملک بھی ہے، سعودی عرب کے ساتھ ایک دیرینہ اور مضبوط تعلق رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، اقتصادی اور روحانی روابط ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا حالیہ دورہ سعودی عرب بھی اسی تعلق کا حصہ ہے، تاہم اس دورے میں کئی پہلو ایسے ہیں جو اسے خاص بناتے ہیں۔
سردار ایاز صادق کا یہ دورہ نہ صرف بروقت تھا بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے اس موقع پر حج کی سعادت حاصل کی اور اس مبارک سفر کے تمام اخراجات اپنی ذاتی جیب سے ادا کیے۔ جب کہ یہ دورہ سرکاری نوعیت کا تھا، ان کا یہ عمل ملک میں ایک نئی اور مثبت روایت کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک ایسی روایت جس میں عوامی نمائندے اپنی روحانی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے عوامی خزانے پر بوجھ نہیں بنتے۔
ایسے وقت میں جب عوامی نمائندوں پر عیش و عشرت، سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور بے احتسابی کے الزامات عام ہیں، ایاز صادق کا یہ قدم دیانت داری، سادگی اور عوامی اعتماد کی ایک زندہ مثال بن گیا ہے۔ یہ رویہ دیگر عوامی نمائندوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے کہ قیادت صرف منصب سے نہیں بلکہ کردار اور قربانی سے پہچانی جاتی ہے۔ سردار ایاز صادق نے ثابت کیا کہ عبادت، خدمت اور سادگی ایک ساتھ چل سکتی ہیں — اور یہی وہ صفات ہیں جو ایک حقیقی عوامی رہنما کی شناخت بنتی ہیں۔