Daily Ausaf:
2025-09-17@23:23:51 GMT

اصل امتحان اب شروع ہوا ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

یہ جو خاموشی ہے، یہ معمولی نہیں۔ یہ کوئی حادثاتی وقفہ نہیں، یہ وہ لمحہ ہے جو آنے والے کئی برسوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ہم ایک ایسے دوراہے سے گزرے ہیں جہاں ایک قدم غلط پڑ جاتا تو شاید پورا خطہ دھماکوں کی دھول میں لپٹ جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم بچ گئے، بلکہ یوں کہیں کہ ہم نے خود کو بچا لیا۔ مگر اب سوال یہ نہیں کہ ہم بچ کیسے گئے بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم اب کریں گے کیا؟یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچی ہو۔ مگر اس بار معاملہ صرف توپوں اور میزائلوں کا نہیں تھا۔یہ معرکہ سفارت، میڈیا، سیاسی ہوشیاری اور ٹیکنالوجی کے محاذ پر بھی لڑا گیا اور سچ پوچھیں تو یہی وہ میدان تھے جنہوں نے ہمیں فیصلہ کن برتری دی۔ دنیا نے دیکھا کہ چھوٹا ملک ہونے کے باوجود ہم نے نہ صرف جارحیت کو روکا بلکہ حکمت و تدبر سے جنگ کی آگ کو بجھا دیا۔پاکستانی فوج نے اس بار جو کردار ادا کیا وہ محض عسکری فتح کا قصہ نہیں بلکہ یہ قومی شعور، دانش مندی اور ایک نئے وژن کا مظہر ہے۔ جنرل عاصم منیر نے روایتی عسکری حکمت عملی سے ہٹ کر ایک ایسا تاثر دیا کہ دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی فوج اب صرف دفاعی ادارہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ذہانت کا مرکز بھی ہے۔ انہوں نے محاذ پر جذبات کو قابو میں رکھا مگر سفارتی میدان میں الفاظ کو گولہ بارود کی طرح استعمال کیا۔ ان کا یہ جملہ کہ ”ہم امن چاہتے ہیں، مگر امن کی بھیک نہیں مانگتے”۔ایک طرف بھارت کے غرور کا جواب تھا، تو دوسری طرف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی للکار۔اسی دوران، پاکستانی حکومت بھی کمال کی ہم آہنگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی سیاسی بلوغت اور ٹیم کی تکنیکی مہارت نے پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں وہ صرف جنگ سے بچنے والا نہیں بلکہ امن قائم کرنے والا فریق نظر آیا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی نوجوانی اور تدبر کا امتزاج عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کو نئے لہجے میں بیان کر رہا تھا۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان اب ردعمل کی پالیسی چھوڑ کر متحرک خارجہ پالیسی اپنا چکا ہے۔اس سب کے بیچ اگر کوئی تیسرا کردار تھا جس نے اس بار فیصلہ کن موڑ پیدا کیا تو وہ تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ جی ہاں، وہی ڈونلڈٹرمپ جو کبھی اپنے غیر متوقع بیانات سے خبروں کی زینت بنتے رہے مگر اس بار ان کا کردار غیر متوقع طور پر مثبت اور مصالحت آمیز نکلا۔ ان کی ٹیم نے دونوں ممالک کے درمیان پس پردہ رابطے قائم کئے، انٹیلی جنس شیئرنگ کو ممکن بنایا اور ایک ایسا خاکہ ترتیب دیا جو بھارت کو بھی قابل قبول لگا اور پاکستان کو بھی۔ یہ کسی ڈیل میکر کا نہیں بلکہ ایک ثالث کا کردار تھااور اسی کردار کی بدولت وہ لمحہ آیا جب دونوں ممالک نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔مگر یہ سب کچھ صرف امن کے لیے نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ایک خواب بھی تھا اور وہ خواب ہے ترقی کا، خوشحالی کااورخطے کو یورپی یونین جیسے اتحاد میں ڈھالنے کا۔ ٹرمپ نے بارہا کہا کہ ’’ساؤتھ ایشیاء اگلا اکنامک ہب بن سکتا ہے اگر بھارت پاکستان ایک دوسرے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پل بنائیں۔‘‘ جنگ بندی ہو چکی۔ لیکن اب کام ختم نہیں ہوا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم اس امن کو محض ایک وقفہ سمجھیں یا مستقل روش۔ یہ فیصلہ صرف حکومتی ایوانوں میں ہی نہیں ہوگا بلکہ یہ فیصلہ گلی، محلے، اسکول اور میڈیا رومز میں بھی ہوگا۔ اب ہمیں معاشی اصلاحات کی طرف بڑھنا ہے۔ تعلیم کو سیاست سے الگ رکھ کر نئی نسل کے ہاتھ میں ٹیکنالوجی دینی ہے۔
ہمیں نہ صرف سرحدی کشیدگی کم کرنی ہے بلکہ ذہنوں کی سرحدیں بھی نرم کرنی ہیں۔اب وقت ہے کہ ہم اپنی توانائی دشمنی پر خرچ کرنے کے بجائے سائنس، تعلیم اور ٹیکنالوجی پر لگائیں۔ ہمیں مصنوعی ذہانت، کلائمیٹ چینج، فوڈ سیکیورٹی اور ریجنل ٹریڈ جیسے ایشوز پر توجہ دینی ہے۔ ہمیں صرف اپنے لیے نہیں، پورے خطے کے لیے سیکھنا ہے، سکھانا ہے اور مثال بننا ہے۔ہمیں اس جنگ بندی کو محض ایک عارضی وقفہ نہیں بننے دینابلکہ اسے ایک مسلسل کوشش کا آغاز سمجھنا ہے۔ اگر فرانس اور جرمنی جیسی اقوام صدیوں کی دشمنی بھول کر ایک مشترکہ منڈی بنا سکتی ہیں تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر خلیج کے ممالک اسرائیل سے ہاتھ ملا سکتے ہیں تو بھارت اور پاکستان کیوں نہیں؟ دونوں کے پاس جوہری طاقت ہے مگر افسوس کہ دونوں کے عوام کے ہاتھ میں کتاب، کمپیوٹر اور ہنر اب تک کم ہی پہنچا ہے۔ستر سال سے ہم دنیا کو دکھاتے رہے کہ ہم کتنے طاقتور ہیں۔ اب وقت ہے دنیا کو یہ دکھانے کا کہ ہم کتنے ذہین اور سمجھدار بھی ہیں ۔ جنگ اب ہتھیاروں سے نہیں جیتی جائے گی۔ اب مقابلہ علم، تحقیق، ماحولیات اور معیشت کا ہے۔ ہمیں سائنس دان پیدا کرنے ہیں، امن کے سفیر تیار کرنے ہیں اور تعلیم کو اپنا اصل اسلحہ بنانا ہے۔پاکستانی فوج نے ہمیں محفوظ بنایا، اب حکومت اور عوام نے اس تحفظ کو استحکام دینا ہے۔ ٹرمپ نے دروازہ کھولا، اب ہمیں اندر قدم رکھ کر طویل المدتی پالیسیوں سے اسے مستقل راہ بنانا ہے اور سب سے بڑھ کر، ہمیں عاجزی سے وقار کے ساتھ اور خلوص نیت سے بھارت کی عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم دشمن نہیں، شریکِ سفر بننا چاہتے ہیں۔ہم نے بہت خون بہا لیا، اب ہمیں خواب اگانے ہیں۔آخر میں، اس پورے منظر نامے کی ترجمانی کرتی رحمان فارس کی ایک غزل، جو دل کی گہرائیوں سے نکلی اور شاید وہ سب کچھ کہہ جائے جو الفاظ نہ کہہ سکے:
بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بھوکے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کھلونوں والی عُمروں میں اِنہیں ہم موت کیوں بانٹیں؟
بڑے معصوم بچے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
پڑوسی یار! جانے دو، ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
بھلا اقبال و غالب کا کہاں بٹوارہ ممکن ہے؟
کہ یہ سانجھے اثاثے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں؟
پرندے دانہ چُگتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
چلو مل کر لڑیں ہم تُم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے اُدھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
سنبھالیں اُن کو مل جُل کر سکھائیں فن محبت کا
بہت جوشیلے لڑکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
اِدھر لاہور اُدھر دِلّی، کہاں جائیں گے ہم فارس
یہی دو چار قصبے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
یہ امن، یہ الفاظ، یہ خواب سب کچھ تبھی حقیقت بنیں کے جب ہم دشمنی کے سائے سے نکل کر ترقی کے سورج کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ امن اور محبت کی زبان سب سے طاقتور ہے۔ پاکستان نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اب بھارت کی باری ہے۔آئیے، ہم سب مل کر اس حقیقت کو خواب بنائیں جہاں سرحدیں نہیں صرف انسانیت ہو، محبت اور امن ہو۔خدا سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی نہیں بلکہ ہے کہ ہم ا نہیں

پڑھیں:

کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ تارا محمود نے اپنے والد کے سیاسی پس منظر کو چھپائے رکھنے کی وجہ پر سے پردہ اُٹھا دیا۔

حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف امور پر کھل کر بات چیت کی۔

دورانِ انٹرویو انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے قریبی دوست احباب یہ جانتے تھے کہ میں شفقت محمود کی بیٹی ہوں اور ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے لیکن کراچی میں یا انڈسٹری میں کسی نہیں ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شوبز میں کام شروع کیا تو مجھے کراچی آنا پڑا، اس دوران والد نے سیکیورٹی خدشات کے سبب مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کسی کو بھی اس بارے میں نہ بتایا جائے۔ تاہم ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی شوٹنگ کے دوران سوشل میڈیا پر والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں۔

اداکارہ نے کہا کہ والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئیں تو تھوڑی خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ مجھے توجہ کا مرکز بننا نہیں پسند۔

انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کے پہلے سال کے دوران وبائی مرض کے سبب اسکول بند کرنے پڑے تو بابا ہیرو بن گئے تھے لیکن جب انہوں نے دوسرے سال اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کئی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔

تارا محمود نے چپکے چپکے کے سیٹ پر پیش آنے والا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ میرے والد کون ہیں تو ایک دن میں شوٹ پر جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیٹ پر پہنچی تو ہدایتکار دانش نواز مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود سیکیورٹی کیوں نہیں رکھتیں اور خود گاڑی کیوں چلاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔

واضح رہے کہ تارا محمود کے والد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہنے والے شفقت محمود ہیں۔

انہیں طلبہ کے درمیان کوویڈ کے دوران امتحانات منسوخ کرنے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے سبب شہرت حاصل ہوئی۔

فلم میں رہے کہ شفقت محمود نے جولائی 2024 میں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • انقلاب – مشن نور
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے