Daily Ausaf:
2025-05-17@13:58:29 GMT

اصل امتحان اب شروع ہوا ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

یہ جو خاموشی ہے، یہ معمولی نہیں۔ یہ کوئی حادثاتی وقفہ نہیں، یہ وہ لمحہ ہے جو آنے والے کئی برسوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ہم ایک ایسے دوراہے سے گزرے ہیں جہاں ایک قدم غلط پڑ جاتا تو شاید پورا خطہ دھماکوں کی دھول میں لپٹ جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم بچ گئے، بلکہ یوں کہیں کہ ہم نے خود کو بچا لیا۔ مگر اب سوال یہ نہیں کہ ہم بچ کیسے گئے بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم اب کریں گے کیا؟یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچی ہو۔ مگر اس بار معاملہ صرف توپوں اور میزائلوں کا نہیں تھا۔یہ معرکہ سفارت، میڈیا، سیاسی ہوشیاری اور ٹیکنالوجی کے محاذ پر بھی لڑا گیا اور سچ پوچھیں تو یہی وہ میدان تھے جنہوں نے ہمیں فیصلہ کن برتری دی۔ دنیا نے دیکھا کہ چھوٹا ملک ہونے کے باوجود ہم نے نہ صرف جارحیت کو روکا بلکہ حکمت و تدبر سے جنگ کی آگ کو بجھا دیا۔پاکستانی فوج نے اس بار جو کردار ادا کیا وہ محض عسکری فتح کا قصہ نہیں بلکہ یہ قومی شعور، دانش مندی اور ایک نئے وژن کا مظہر ہے۔ جنرل عاصم منیر نے روایتی عسکری حکمت عملی سے ہٹ کر ایک ایسا تاثر دیا کہ دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی فوج اب صرف دفاعی ادارہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ذہانت کا مرکز بھی ہے۔ انہوں نے محاذ پر جذبات کو قابو میں رکھا مگر سفارتی میدان میں الفاظ کو گولہ بارود کی طرح استعمال کیا۔ ان کا یہ جملہ کہ ”ہم امن چاہتے ہیں، مگر امن کی بھیک نہیں مانگتے”۔ایک طرف بھارت کے غرور کا جواب تھا، تو دوسری طرف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی للکار۔اسی دوران، پاکستانی حکومت بھی کمال کی ہم آہنگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی سیاسی بلوغت اور ٹیم کی تکنیکی مہارت نے پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں وہ صرف جنگ سے بچنے والا نہیں بلکہ امن قائم کرنے والا فریق نظر آیا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی نوجوانی اور تدبر کا امتزاج عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کو نئے لہجے میں بیان کر رہا تھا۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان اب ردعمل کی پالیسی چھوڑ کر متحرک خارجہ پالیسی اپنا چکا ہے۔اس سب کے بیچ اگر کوئی تیسرا کردار تھا جس نے اس بار فیصلہ کن موڑ پیدا کیا تو وہ تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ جی ہاں، وہی ڈونلڈٹرمپ جو کبھی اپنے غیر متوقع بیانات سے خبروں کی زینت بنتے رہے مگر اس بار ان کا کردار غیر متوقع طور پر مثبت اور مصالحت آمیز نکلا۔ ان کی ٹیم نے دونوں ممالک کے درمیان پس پردہ رابطے قائم کئے، انٹیلی جنس شیئرنگ کو ممکن بنایا اور ایک ایسا خاکہ ترتیب دیا جو بھارت کو بھی قابل قبول لگا اور پاکستان کو بھی۔ یہ کسی ڈیل میکر کا نہیں بلکہ ایک ثالث کا کردار تھااور اسی کردار کی بدولت وہ لمحہ آیا جب دونوں ممالک نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔مگر یہ سب کچھ صرف امن کے لیے نہیں تھا۔ اس کے پیچھے ایک خواب بھی تھا اور وہ خواب ہے ترقی کا، خوشحالی کااورخطے کو یورپی یونین جیسے اتحاد میں ڈھالنے کا۔ ٹرمپ نے بارہا کہا کہ ’’ساؤتھ ایشیاء اگلا اکنامک ہب بن سکتا ہے اگر بھارت پاکستان ایک دوسرے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پل بنائیں۔‘‘ جنگ بندی ہو چکی۔ لیکن اب کام ختم نہیں ہوا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم اس امن کو محض ایک وقفہ سمجھیں یا مستقل روش۔ یہ فیصلہ صرف حکومتی ایوانوں میں ہی نہیں ہوگا بلکہ یہ فیصلہ گلی، محلے، اسکول اور میڈیا رومز میں بھی ہوگا۔ اب ہمیں معاشی اصلاحات کی طرف بڑھنا ہے۔ تعلیم کو سیاست سے الگ رکھ کر نئی نسل کے ہاتھ میں ٹیکنالوجی دینی ہے۔
ہمیں نہ صرف سرحدی کشیدگی کم کرنی ہے بلکہ ذہنوں کی سرحدیں بھی نرم کرنی ہیں۔اب وقت ہے کہ ہم اپنی توانائی دشمنی پر خرچ کرنے کے بجائے سائنس، تعلیم اور ٹیکنالوجی پر لگائیں۔ ہمیں مصنوعی ذہانت، کلائمیٹ چینج، فوڈ سیکیورٹی اور ریجنل ٹریڈ جیسے ایشوز پر توجہ دینی ہے۔ ہمیں صرف اپنے لیے نہیں، پورے خطے کے لیے سیکھنا ہے، سکھانا ہے اور مثال بننا ہے۔ہمیں اس جنگ بندی کو محض ایک عارضی وقفہ نہیں بننے دینابلکہ اسے ایک مسلسل کوشش کا آغاز سمجھنا ہے۔ اگر فرانس اور جرمنی جیسی اقوام صدیوں کی دشمنی بھول کر ایک مشترکہ منڈی بنا سکتی ہیں تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر خلیج کے ممالک اسرائیل سے ہاتھ ملا سکتے ہیں تو بھارت اور پاکستان کیوں نہیں؟ دونوں کے پاس جوہری طاقت ہے مگر افسوس کہ دونوں کے عوام کے ہاتھ میں کتاب، کمپیوٹر اور ہنر اب تک کم ہی پہنچا ہے۔ستر سال سے ہم دنیا کو دکھاتے رہے کہ ہم کتنے طاقتور ہیں۔ اب وقت ہے دنیا کو یہ دکھانے کا کہ ہم کتنے ذہین اور سمجھدار بھی ہیں ۔ جنگ اب ہتھیاروں سے نہیں جیتی جائے گی۔ اب مقابلہ علم، تحقیق، ماحولیات اور معیشت کا ہے۔ ہمیں سائنس دان پیدا کرنے ہیں، امن کے سفیر تیار کرنے ہیں اور تعلیم کو اپنا اصل اسلحہ بنانا ہے۔پاکستانی فوج نے ہمیں محفوظ بنایا، اب حکومت اور عوام نے اس تحفظ کو استحکام دینا ہے۔ ٹرمپ نے دروازہ کھولا، اب ہمیں اندر قدم رکھ کر طویل المدتی پالیسیوں سے اسے مستقل راہ بنانا ہے اور سب سے بڑھ کر، ہمیں عاجزی سے وقار کے ساتھ اور خلوص نیت سے بھارت کی عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم دشمن نہیں، شریکِ سفر بننا چاہتے ہیں۔ہم نے بہت خون بہا لیا، اب ہمیں خواب اگانے ہیں۔آخر میں، اس پورے منظر نامے کی ترجمانی کرتی رحمان فارس کی ایک غزل، جو دل کی گہرائیوں سے نکلی اور شاید وہ سب کچھ کہہ جائے جو الفاظ نہ کہہ سکے:
بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بھوکے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کھلونوں والی عُمروں میں اِنہیں ہم موت کیوں بانٹیں؟
بڑے معصوم بچے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
پڑوسی یار! جانے دو، ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
بھلا اقبال و غالب کا کہاں بٹوارہ ممکن ہے؟
کہ یہ سانجھے اثاثے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں؟
پرندے دانہ چُگتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
چلو مل کر لڑیں ہم تُم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے اُدھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
سنبھالیں اُن کو مل جُل کر سکھائیں فن محبت کا
بہت جوشیلے لڑکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
اِدھر لاہور اُدھر دِلّی، کہاں جائیں گے ہم فارس
یہی دو چار قصبے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
یہ امن، یہ الفاظ، یہ خواب سب کچھ تبھی حقیقت بنیں کے جب ہم دشمنی کے سائے سے نکل کر ترقی کے سورج کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ امن اور محبت کی زبان سب سے طاقتور ہے۔ پاکستان نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اب بھارت کی باری ہے۔آئیے، ہم سب مل کر اس حقیقت کو خواب بنائیں جہاں سرحدیں نہیں صرف انسانیت ہو، محبت اور امن ہو۔خدا سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی نہیں بلکہ ہے کہ ہم ا نہیں

پڑھیں:

ہماری ایئر فورس نے ثابت کیا مہنگا جہاز لینے سے دفاعی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی، شبلی فراز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ ہماری ایئر فورس نے ثابت کیا صرف مہنگا جہاز لینے سے دفاعی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی، میں ایئر فورس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ تمام عوام اکھٹے ہوگئے ہیں، ہمارا دشمن بری نیت رکھنے والا ہے، مودی کو پاکستان سے بہت نفرت ہے وہ آرام سے نہیں بیٹھے گا۔

پاکستان نے اپنی ایٹمی صلاحیت مؤثر انداز میں منوالی: بھارتی اخبار

مضمون میں کہا گیا کہ آپریشن سندور کے دوران بھارت کو کسی پڑوسی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔

شبلی فراز نے کہا کہ ہمیں زیادہ محتاط ہونا ہوگا، اس کامیابی پر ہم چیزوں کو بڑھائیں، ہمیں اس پر خارجہ پالیسی میں فوائد حاصل کرنے ہیں، ہمارے دشمن نقصان پہنچانے کے لیےتاک پر رہیں گے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ان کے پاس وسائل زیادہ ہیں، ہمیں ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا، سیاسی کیسز ختم کریں، سیاسی قیدی رہا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو بھارت کیخلاف امام خمینیؒ کی پالیسی اپنانی چاہیے، علامہ جواد نقوی
  • اپنے گھر کو مزید ٹھیک کرنا ہے، جب ہم گھر سے مضبوط ہوں گے تو کوئی ہمیں چیلنج نہیں کر سکےگا، شہریار آفریدی
  • ہمیں خطرہ محسوس ہورہا ہے بھارت کی طرف سے یہ سیز فائر جاری نہ رہے، بلاول بھٹو
  • بھارت تمہارے جنگی جنون کا بخار اتر چکا، اب امن کی بات کرو، ہم تیار ہیں، وزیراعظم
  • پاکستان کی شاندار فتح امتِ مسلمہ کیلئے حوصلے، اتحاد اور قیادت کا پیغام ہے: شیخ قیصر محمود
  • ہماری ایئر فورس نے ثابت کیا مہنگا جہاز لینے سے دفاعی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی، شبلی فراز
  • نفرت کی سیاست نے کچھ نہیں دیا، ہمیں ملک کی خاطر ذاتی انا قربان کرنا ہوگی: مریم نواز
  • اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری
  •  ہندوتوا کے پیروکار جنونی مودی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے امن کو خطرہ ہے، سراج الحق