پاکستانی شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے فنکاروں کے کردار اور ان پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے اہم خیالات کا اظہار کیا۔

عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ جب ڈاکٹر یا وکیل کسی دوسرے ملک میں جا کر کام کرتے ہیں تو ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا، لیکن جب کوئی اداکار ایسا کرتا ہے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فنکاروں کا جنگوں، تنازعات اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ وہ محبت اور امن کے سفیر ہوتے ہیں۔

پاک بھارت حالیہ کشیدگی پر بات کرتے ہوئے، عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ بھارت کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پہلگام حملے کے الزامات پاکستان پر نہیں لگانے چاہیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سالمیت اور دفاع کی خاطر بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا اور پاک فوج کی بہادرانہ کارروائیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

عتیقہ اوڈھو نے زور دیا کہ فنون لطیفہ سے وابستہ شخصیات کو جنگوں اور تنازعات میں نہیں گھسیٹا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے کیریئر کی ترقی کے لیے کسی دوسرے ملک میں کام کریں اور یہ ایک عام رواج ہے۔

انہوں نے فنکاروں، موسیقاروں، لکھاریوں اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کی کہ وہ جنگوں اور تنازعات کا حصہ نہ بنیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو محبت اور امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے استعمال کریں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

فلسطین میں موت کا رقص جاری، پاکستانی سفیر نے اقوام متحدہ میں حقائق بے نقاب کر دیے

نیویارک:

پاکستان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ جو سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (قابض فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی غیر قانونی بستیوں) پر عملدرآمد سے متعلق ہے، غزہ میں تکلیف اور سفاکی کی سطح کو حیران کن اور ناقابل برداشت قرار دیتی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ بشمول مسئلہ فلسطین پر بریفنگ کے دوران بیان دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سیکرٹری جنرل کے ان الفاظ کا حوالہ دیا، جنہوں نے رپورٹ میں کہا کہ خاندانوں کو بار بار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ اب غزہ کی زمین کے پانچویں حصے سے بھی کم جگہ پر محصور ہیں، اور یہ سمٹتی ہوئی جگہیں بھی خطرے سے دوچار ہیں۔

سفیر عاصم نے کہا کہ بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں، حالانکہ یونیسیف بارہا خبردار کر چکا ہے کہ غذائی قلت انتہائی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

صرف مئی کے مہینے میں چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 5,100 سے زائد بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کے لیے داخل کیا گیا۔ مارچ میں عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک 6,500 سے زائد مزید جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں اسرائیل کے جنگی طریقوں اور ہتھکنڈوں پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور مظالم اور بین الاقوامی قوانین کی دیگر خلاف ورزیوں پر فوری احتساب پر زور دیا گیا ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ نام نہاد نیا امدادی تقسیم نظام نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی وقار کے منافی ہے بلکہ یہ بھوکے شہریوں کو براہ راست خطرے میں ڈال دیتا ہے، کیونکہ انہیں کھانے اور پانی کی تلاش میں فعال جنگی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ خوفناک ہے کہ 500 سے زائد افراد کو صرف انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعی ایک موت کا جال ہے، جیسا کہ سیکرٹری جنرل نے درست طور پر کہا۔

انہوں نے کہا کہ تشدد صرف غزہ تک محدود نہیں ہے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں فوجی چھاپوں میں شدت، غیر قانونی بستیوں کی توسیع اور آبادکاروں کے بے لگام تشدد کو فروغ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوچا کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے 19 جون 2025 تک مغربی کنارے میں 949 فلسطینی جن میں کم از کم 200 بچے شامل ہیں، شہید کیے جا چکے ہیں اور 40,000 سے زائد افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا، جو 1967 کے بعد سب سے بڑی جبری بے دخلی ہے۔

سفیر عاصم نے خبردار کیا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی نہ بنائے تو اس کے سنگین نتائج عالمی امن و سلامتی کے لیے پیدا ہوں گے اور خود سلامتی کونسل کی ساکھ اور اختیار کو زک پہنچے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سال اقوام متحدہ کے چارٹر کا 80 واں سال ہے، جو انصاف، امن اور تمام اقوام کی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اس چارٹر کے بنیادی اصولوں کو مکمل بے خوفی کے ساتھ مسلسل پامال کیا جا رہا ہے،

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل محض تماشائی نہ بنے۔ اصل مسئلے یعنی غیر قانونی اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔ اب وقت ہے کہ مشترکہ عالمی عزم کے تحت مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ مسئلہ فلسطین عرب اسرائیل تنازع کا مرکزی نکتہ ہے۔ اس مسئلے کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے حل کرنے کے لیے سلامتی کونسل کو فوری اور دو ٹوک اقدام کرنا ہو گا۔

انہوں نے پاکستان کے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے میں تمام فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کرے۔ مستقل جنگ بندی بلا تاخیر قائم کی جائے۔

انسانی امداد پر عائد تمام پابندیاں مکمل اور غیر مشروط طور پر ختم کی جائیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کو محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی دی جائے۔

غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب لیگ–او آئی سی منصوبے کی حمایت کی جائے۔ یہ منصوبہ امید بحال کرنے اور پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 پر عملدرآمد کے لیے قابل عمل اور وقت مقرر اقدامات کیے جائیں تاکہ دو ریاستی حل کی گنجائش باقی رہ سکے اور زمین پر مزید غیر قانونی تبدیلیاں روکی جا سکیں۔

قابل اعتبار اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے تاکہ دو ریاستی حل ممکن ہو، جو جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو، اور القدس الشریف (یروشلم) کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔

سفیر عاصم افتخار نے مزید کہا کہ اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کے جلد از جلد انعقاد کی حمایت کی جائے تاکہ اس مقصد کو عملی شکل دی جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • شیفالی کی موت سے اینٹی ایجنگ انجیکشن کا تعلق؟ معروف ڈرماٹولوجسٹ کا بیان سامنے آگیا
  • ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ بے بنیاد ہے، جنگ بندی میں ان کا کوئی دخل نہیں، جے شنکر
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • پختونخوا میں تبدیلی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘عرفان صدیقی
  • عمران خان کے نشہ کرنے کا تاثر غلط ثابت ہوا: رانا ثنا اللہ
  • کانٹا لگا گرل کی موت، اسما عباس نے اینٹی ایجنگ انجیکشن کے نقصانات بتا دیے
  • فلسطین میں موت کا رقص جاری، پاکستانی سفیر نے اقوام متحدہ میں حقائق بے نقاب کر دیے
  • ایران نے ترقی یافتہ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ دی، حزب‌ الله
  • پاکستان میں جتنے ناجائز کاروبار ہیں سب افغان کرتے ہیں: خواجہ آصف