Express News:
2025-11-10@11:00:34 GMT

محبت یا جرم

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

وہ معمولی شکل و صورت کی خاتون نظر آتی تھیں البتہ وقار اور تمکنت بھی چھلک رہا تھا، ایک بڑے سابقہ سرکاری عہدے دار کی بیگم اور تین بچوں کی ماں بھی تھیں، امریکا میں رہائش تھی اور ان دنوں پاکستان آئی ہوئی تھیں۔

’’ہم اس کے گھر اپنی بیٹی کیسے دے سکتے ہیں، اس کا خاندان کیا ہے، کیا ہم اس سے اپنی بیٹی کی شادی کر کے اپنا خاندان خراب کر دیں؟‘‘

خاندانی وقار، غرور اور زعم پورے خاندان میں یہ ڈائیلاگز دہرائے گئے تھے، حیرت ہی تھی کہ خاندان کی بیٹی نے برسوں پہلے اپنی مرضی سے شادی کی تھی، محبت کے اس کھیل میں اس نے اپنا اور اپنے شوہر کے خاندان کا موازنہ ہی نہ کیا تھا اور وقت گزرتا گیا، خاندان میں آنا جانا، بچوں کی تقریبات سب چلتی رہیں۔

خدا نے بیٹے بیٹیاں دیں اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی، شوہر کا اچھا سرکاری عہدہ اور بیٹوں کی اچھی تعلیم لہٰذا مراعات، ٹیلنٹ گھلتے ملتے بڑھتے گئے۔ بچے خاندان کے بچوں میں گھلتے گئے ،کب کہاں اور کیسے پسندیدگی کی وہ رمق ابھری کہ جس نے ماں کے دل میں خاندان کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا اور سوال لے کر پہنچ گئی، پر جواب مایوسی کی صورت میں ملا۔

گوری چٹی خوش شکل، ہر بات پر کھل کر قہقہہ لگانے والی کے رنگ مدھم پڑگئے، اس کی شادی خاندان ہی کے ایک وجیہہ اور کماؤ لڑکے سے ہوگئی جو بیرون ملک رہتا تھا، پر وقت نے کب کس کا منہ دیکھا ہے، جب بدلتا ہے تو اچھے اچھے اس کی زد میں آ جاتے ہیں اور وہ بھی اس کی زد میں آ گئے، یوں کماؤ پوت روزی روٹی کے پہیے میں پھنس کر رہ گیا۔

آم کے درخت کے نیچے اپنی سانسیں درست کرتی وہ خوش شکل خواب سی لڑکی اب بدل چکی تھی، چار چھوٹے بچوں کی ماں پر دل کا روگ نجانے کیسے لگ گیا تھا، اپنی سگی پھوپھی زاد بہن کے انتقال پر خود کو آنے سے روک ہی نہ سکی تھی، وہ اس بھرے پرے خاندان میں شاید اس کی آخری انٹری تھی اور پھر جلد ہی خبر ملی کہ اس کے دل کے دو والو جو پہلے ہی بند ہو چکے تھے پورے دل کو ہی بند کر گئے، ایک کہانی کا باب ختم ہو گیا۔

عالی شان خاندان پرکیا فرق پڑا کون جانے، پر چار چھوٹے بچے خوار ہو گئے۔ پیسے کی کمی، ماں کی دوری، باپ کی مجبوری، زندگی نے چھوٹی سی عمر میں بہت کچھ دکھا دیا، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی عمر میں جب بچیوں کے پڑھنے کی عمر تھی، شادی کردی گئی۔

بڑے بوڑھے آرام سے اپنی اپنی قبروں میں جا کر سو گئے، بڑے بڑے ناموں والے اونچی شان اور مرتبے والے جنھیں لوگ عزت سے جھک کر سلام کرتے تھے، ان کی دولت اور نام سے مرعوب تھے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے اور پیچھے قصے کہانیاں اور باتیں رہ جاتی ہیں۔ امریکا سے آئی ان خاتون کو دیکھ کر کہانی نے اپنے آپ کو دہرایا تھا، یہ وہی خاتون تھیں جن کے شوہر اس خوب صورت خواب سی لڑکی سے شادی کے خواہاں تھے، رشتے داری اور بچپن سے بڑھتی قرابت کسی مقام پر پہنچنا چاہتی تھی، پر ایک رعب دار آواز کی گونج اور کہانی ختم۔

ہمارے معاشرے میں برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ سماج کی دیوار ضرور حائل ہو تی ہے کہیں زیادہ تو کہیں بہت زیادہ اور اس کے درمیان ہونے والے تضاد، مسائل اور الجھنیں معاشرے میں برائیوں کو جنم دیتی ہیں، کیا ہم نے کبھی اپنے ارد گرد دیکھا ہے کہ کتنے بچے اور بچیاں ایسے ہیں جو گھر سے باہر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں گھومتے پھرتے ہیں گویا انھیں زمانے کی پرواہ ہی نہیں لیکن اپنے گھر اور خاندان میں ان کے رویے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ چھوٹی عمر میں جذباتی فیصلے مستقبل میں کچھ اور ہی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں لیکن ہمارے یہاں چھوٹی عمر اٹھارہ سال کے بعد بھی جاری ہی رہتی ہے جو ہر گز بھی دانش مندی نہیں ہے۔

زندگی کے فیصلے انسان طے کرتا ہے یہ انسان کی احمقانہ سوچ ہے کہ وہ بہت عقل مند ہے، ہماری زندگی کے معاملات ہمیں اس نہج پر لے جاتے ہیں جو کسی فیصلے پر مجبورکرتے ہیں لیکن والدین کو اپنی اولاد کی زندگی اور بہتری کے لیے ظالم سماج بننے کے بجائے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ محبت انسانی صحت پر بہت جلدی اثرانداز ہوتی ہے۔

محبت انسانی دماغ میں ایسے کیمیائی عوامل پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان خوشی محسوس کرتا ہے، محبت سے دوری اسی طرح غم اور دکھ کے جذبات کو ابھارتا ہے۔

ایک مطالعے کے مطابق محبت انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے جو لوگ محبت کرتے ہیں مختلف قسم کے انفیکشنز سے لڑنے کا دفاع ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے ، جو نفرت کرتے ہیں یا رنج و غم اور حسد میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اراک فرام نے 1956 میں محبت کی نفسیات پر ایک کتاب شایع کی، اس کتاب ’’دی آرٹ آف لونگ‘‘ میں محبت کے سماجی، نفسیاتی، معاشی اور فلسفیانہ پہلوؤں کو محبت کی فطرت کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔

یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں محبت کے جذبات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلط تصورات کو رد کیا گیا ہے، ان کے مطابق محبت سیکھنے کی چیز نہیں بلکہ یہ خود بخود ایسے ہو جاتی ہے جیسے اگر کسی کو گاڑی چلانا نہ آتی ہو اور وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائے۔ مغربی فلسفی نے انسان کو محبت سیکھنے کے عمل پر زور دیا ہے جب کہ ہمارے مشرقی شعرا نے محبت کے بارے میں جس طرح کے تصورات کو ابھارا ہے وہ محبت سیکھنے کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔

محبت ایک لطیف جذبہ ہے، صنف مخالف میں ہمیشہ سے ایک کشش رہی ہے لیکن اس کو انتہائی اقدام سے رد کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے کتنے ہی لوگ زندگی گزار رہے ہیں جو خطرے کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد اپنی مرضی سے زندگی جی رہے ہیں، اچھی یا بری یہ قسمت کے کھیل ہیں لیکن خدائی فوج دار بننے کے بجائے اپنی مغربی رواداری اور اخلاقیات کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ کسی عمل سے اچھا کرنے کے جنون میں اخلاقی پستیوں میں تو نہیں گر رہے۔

ہمارے یہاں ہر سال کتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں شک کی بنیاد پر محبت کے جرم میں، کاروکاری کے الزام میں قتل ہو جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر اس قسم کے قتل کو معاشرے میں چھوٹ دے کر بری کر دینا کیا ہماری مذہبی روایات کے مطابق ہے؟ نکاح کے مقدس بندھن کے باوجود بھی محبت کی پاداش میں سمندر پار بھی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ انسانی انا بہت ظالم ہے جو ہمیں زعم کے بخار میں مبتلا کر دیتی ہے اور یہ ہماری جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔ خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔(آمین)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں ہیں لیکن محبت کے

پڑھیں:

بی جے پی اور بی آر ایس فرقہ وارانہ مسائل پر پروان چڑھ رہے ہیں، اظہر الدین

تلنگانہ کے وزیر نے کہا کہ بی آر ایس اور بی جے پی دونوں ساتھ ہیں، تین یا چار دن میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں، انہیں انتخابات میں اپنی قسمت کا احساس ہے، اسی لئے وہ ایسے گمراہ کن بیانات دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست تلنگانہ کے وزیر محمد اظہر الدین نے اپوزیشن بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ دونوں پارٹیاں فرقہ وارانہ مسائل پر پروان چڑھتی ہیں۔ سابق کرکٹر اظہر الدین نے کہا کہ دونوں جماعتوں کو آئندہ جوبلی ہلز ضمنی انتخاب میں اپنی قوت کا اندازہ ہوگیا ہے اور اس لئے گمراہ کن بیانات دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان ایشوز پر پروان چڑھتے ہیں، ان کے پاس اور کچھ نہیں ہے، بی آر ایس اور بی جے پی دونوں ساتھ ہیں، تین یا چار دن میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں، انہیں انتخابات میں اپنی قسمت کا احساس ہے، اسی لئے وہ ایسے گمراہ کن بیانات دے رہے ہیں۔

محمد اظہر الدین مرکزی وزیر بنڈی سنجے کمار کے اپنے اور وزیراعلٰی ریونت ریڈی کے خلاف تبصروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نظام کے دور سے ہی حیدرآباد میں ہندو اور مسلمان ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ اظہر الدین نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا مقصد سیکولر تانے بانے میں خلل ڈالنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی یقین ظاہر کیا کہ کانگریس امیدوار نوین یادو ضمنی انتخاب جیت جائیں گے۔ مرکزی وزیر بانڈی سنجے کمار نے وزیراعلٰی ریونت ریڈی کو چیلنج کیا کہ وہ اظہر الدین سے پوجا کرنے اور تلک لگانے کے لئے کہیں۔ جوبلی ہلز اسمبلی حلقہ کے لئے ضمنی انتخاب 11 نومبر کو ہوگا۔ واضح رہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہر الدین نے گذشتہ دنوں تلنگانہ حکومت میں وزیر کے طور پر حلف لیا۔ تلنگانہ کے گورنر جشنو دیو ورما نے راج بھون میں منعقدہ ایک تقریب میں اظہر الدین کو عہدے کا حلف دلایا۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی اور وزراء نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔

محمد اظہر الدین 8 فروری 1963ء کو حیدرآباد شہر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پرائمری تعلیم عابڈس کے آل سینٹس ہائی اسکول سے حاصل کی۔ انہوں نے نظام کالج میں بی کام کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے چچا زین العابدین سے متاثر ہو کر انہوں نے کرکٹ کے میدان کی طرف قدم بڑھایا۔ اظہر الدین نے 1984ء میں بین الاقوامی کرکٹ میں ڈیبیو کیا، انہوں نے بطور کرکٹر بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک پہچان بنائی۔ اس وقت انہوں نے پہلے تینوں ٹیسٹ میچوں میں سنچریاں بنا کر شائقین کا دل جیت لیا تھا۔ وہ اپنے وقت کے سب سے اسٹائلش بیٹسمینس میں سے ایک تھے اور اپنی فیلڈنگ کے لئے بھی جانے جاتے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • آمنہ ملک نے جنات سے اپنی گمشدہ چیزیں کیسے واپس منگوائیں؟
  • جدید نصابِ تعلیم میں عشق کی اہمیّت
  • 27 ویں ترمیم، خیبرپختونخوا کے نام کی تبدیلی پر بات ہوئی ہے، وفاقی وزیرقانون
  • جلی ہوئی لاشیں، چیختے بچے: ایک فون چارجر نے پورے خاندان کی جان لے لی
  • بی جے پی اور بی آر ایس فرقہ وارانہ مسائل پر پروان چڑھ رہے ہیں، اظہر الدین
  • میٹا کے سربراہ مارک زکربرگ پر بغیر لائسنس اسکول چلانے کا الزام
  • صائمہ قریشی نے طلاق کے تلخ تجربے پر خاموشی توڑ دی
  • بھارت کو ویمنز کرکٹ ورلڈکپ جتوانے کے بعد کرنٹی گاؤڈ اپنے والد کو انصاف دلوانے کے قریب پہنچ گئیں
  • حیدرآباد:دادو کا رہائشی خاندان خاتون صنم کھوسو کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے باہر سراپا احتجاج ہے
  • بڈگام کشمیر میں "اپنی پارٹی" کا ورکرس کنونشن منعقد