Express News:
2025-05-11@00:59:01 GMT

محبت یا جرم

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

وہ معمولی شکل و صورت کی خاتون نظر آتی تھیں البتہ وقار اور تمکنت بھی چھلک رہا تھا، ایک بڑے سابقہ سرکاری عہدے دار کی بیگم اور تین بچوں کی ماں بھی تھیں، امریکا میں رہائش تھی اور ان دنوں پاکستان آئی ہوئی تھیں۔

’’ہم اس کے گھر اپنی بیٹی کیسے دے سکتے ہیں، اس کا خاندان کیا ہے، کیا ہم اس سے اپنی بیٹی کی شادی کر کے اپنا خاندان خراب کر دیں؟‘‘

خاندانی وقار، غرور اور زعم پورے خاندان میں یہ ڈائیلاگز دہرائے گئے تھے، حیرت ہی تھی کہ خاندان کی بیٹی نے برسوں پہلے اپنی مرضی سے شادی کی تھی، محبت کے اس کھیل میں اس نے اپنا اور اپنے شوہر کے خاندان کا موازنہ ہی نہ کیا تھا اور وقت گزرتا گیا، خاندان میں آنا جانا، بچوں کی تقریبات سب چلتی رہیں۔

خدا نے بیٹے بیٹیاں دیں اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی، شوہر کا اچھا سرکاری عہدہ اور بیٹوں کی اچھی تعلیم لہٰذا مراعات، ٹیلنٹ گھلتے ملتے بڑھتے گئے۔ بچے خاندان کے بچوں میں گھلتے گئے ،کب کہاں اور کیسے پسندیدگی کی وہ رمق ابھری کہ جس نے ماں کے دل میں خاندان کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا اور سوال لے کر پہنچ گئی، پر جواب مایوسی کی صورت میں ملا۔

گوری چٹی خوش شکل، ہر بات پر کھل کر قہقہہ لگانے والی کے رنگ مدھم پڑگئے، اس کی شادی خاندان ہی کے ایک وجیہہ اور کماؤ لڑکے سے ہوگئی جو بیرون ملک رہتا تھا، پر وقت نے کب کس کا منہ دیکھا ہے، جب بدلتا ہے تو اچھے اچھے اس کی زد میں آ جاتے ہیں اور وہ بھی اس کی زد میں آ گئے، یوں کماؤ پوت روزی روٹی کے پہیے میں پھنس کر رہ گیا۔

آم کے درخت کے نیچے اپنی سانسیں درست کرتی وہ خوش شکل خواب سی لڑکی اب بدل چکی تھی، چار چھوٹے بچوں کی ماں پر دل کا روگ نجانے کیسے لگ گیا تھا، اپنی سگی پھوپھی زاد بہن کے انتقال پر خود کو آنے سے روک ہی نہ سکی تھی، وہ اس بھرے پرے خاندان میں شاید اس کی آخری انٹری تھی اور پھر جلد ہی خبر ملی کہ اس کے دل کے دو والو جو پہلے ہی بند ہو چکے تھے پورے دل کو ہی بند کر گئے، ایک کہانی کا باب ختم ہو گیا۔

عالی شان خاندان پرکیا فرق پڑا کون جانے، پر چار چھوٹے بچے خوار ہو گئے۔ پیسے کی کمی، ماں کی دوری، باپ کی مجبوری، زندگی نے چھوٹی سی عمر میں بہت کچھ دکھا دیا، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی عمر میں جب بچیوں کے پڑھنے کی عمر تھی، شادی کردی گئی۔

بڑے بوڑھے آرام سے اپنی اپنی قبروں میں جا کر سو گئے، بڑے بڑے ناموں والے اونچی شان اور مرتبے والے جنھیں لوگ عزت سے جھک کر سلام کرتے تھے، ان کی دولت اور نام سے مرعوب تھے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے اور پیچھے قصے کہانیاں اور باتیں رہ جاتی ہیں۔ امریکا سے آئی ان خاتون کو دیکھ کر کہانی نے اپنے آپ کو دہرایا تھا، یہ وہی خاتون تھیں جن کے شوہر اس خوب صورت خواب سی لڑکی سے شادی کے خواہاں تھے، رشتے داری اور بچپن سے بڑھتی قرابت کسی مقام پر پہنچنا چاہتی تھی، پر ایک رعب دار آواز کی گونج اور کہانی ختم۔

ہمارے معاشرے میں برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ سماج کی دیوار ضرور حائل ہو تی ہے کہیں زیادہ تو کہیں بہت زیادہ اور اس کے درمیان ہونے والے تضاد، مسائل اور الجھنیں معاشرے میں برائیوں کو جنم دیتی ہیں، کیا ہم نے کبھی اپنے ارد گرد دیکھا ہے کہ کتنے بچے اور بچیاں ایسے ہیں جو گھر سے باہر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں گھومتے پھرتے ہیں گویا انھیں زمانے کی پرواہ ہی نہیں لیکن اپنے گھر اور خاندان میں ان کے رویے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ چھوٹی عمر میں جذباتی فیصلے مستقبل میں کچھ اور ہی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں لیکن ہمارے یہاں چھوٹی عمر اٹھارہ سال کے بعد بھی جاری ہی رہتی ہے جو ہر گز بھی دانش مندی نہیں ہے۔

زندگی کے فیصلے انسان طے کرتا ہے یہ انسان کی احمقانہ سوچ ہے کہ وہ بہت عقل مند ہے، ہماری زندگی کے معاملات ہمیں اس نہج پر لے جاتے ہیں جو کسی فیصلے پر مجبورکرتے ہیں لیکن والدین کو اپنی اولاد کی زندگی اور بہتری کے لیے ظالم سماج بننے کے بجائے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ محبت انسانی صحت پر بہت جلدی اثرانداز ہوتی ہے۔

محبت انسانی دماغ میں ایسے کیمیائی عوامل پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان خوشی محسوس کرتا ہے، محبت سے دوری اسی طرح غم اور دکھ کے جذبات کو ابھارتا ہے۔

ایک مطالعے کے مطابق محبت انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے جو لوگ محبت کرتے ہیں مختلف قسم کے انفیکشنز سے لڑنے کا دفاع ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے ، جو نفرت کرتے ہیں یا رنج و غم اور حسد میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اراک فرام نے 1956 میں محبت کی نفسیات پر ایک کتاب شایع کی، اس کتاب ’’دی آرٹ آف لونگ‘‘ میں محبت کے سماجی، نفسیاتی، معاشی اور فلسفیانہ پہلوؤں کو محبت کی فطرت کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔

یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں محبت کے جذبات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلط تصورات کو رد کیا گیا ہے، ان کے مطابق محبت سیکھنے کی چیز نہیں بلکہ یہ خود بخود ایسے ہو جاتی ہے جیسے اگر کسی کو گاڑی چلانا نہ آتی ہو اور وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائے۔ مغربی فلسفی نے انسان کو محبت سیکھنے کے عمل پر زور دیا ہے جب کہ ہمارے مشرقی شعرا نے محبت کے بارے میں جس طرح کے تصورات کو ابھارا ہے وہ محبت سیکھنے کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔

محبت ایک لطیف جذبہ ہے، صنف مخالف میں ہمیشہ سے ایک کشش رہی ہے لیکن اس کو انتہائی اقدام سے رد کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے کتنے ہی لوگ زندگی گزار رہے ہیں جو خطرے کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد اپنی مرضی سے زندگی جی رہے ہیں، اچھی یا بری یہ قسمت کے کھیل ہیں لیکن خدائی فوج دار بننے کے بجائے اپنی مغربی رواداری اور اخلاقیات کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ کسی عمل سے اچھا کرنے کے جنون میں اخلاقی پستیوں میں تو نہیں گر رہے۔

ہمارے یہاں ہر سال کتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں شک کی بنیاد پر محبت کے جرم میں، کاروکاری کے الزام میں قتل ہو جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر اس قسم کے قتل کو معاشرے میں چھوٹ دے کر بری کر دینا کیا ہماری مذہبی روایات کے مطابق ہے؟ نکاح کے مقدس بندھن کے باوجود بھی محبت کی پاداش میں سمندر پار بھی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ انسانی انا بہت ظالم ہے جو ہمیں زعم کے بخار میں مبتلا کر دیتی ہے اور یہ ہماری جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔ خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔(آمین)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں ہیں لیکن محبت کے

پڑھیں:

پہلے اپنی پوزیشن بتائیں، پھر جواب لیں

آج کل ہمارے سوشل میڈیا پر ایک حلقہ پاک بھارت جنگ کے حوالے سے بڑے زور شور سے ایک بات دہرا رہا ہے کہ ہم تو صرف سوال پوچھ رہے ہیں، سوال پوچھنا ہمارا حق ہے ، وغیرہ وغیرہ۔

بھیا جی بات یہ ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن طے کر لیں۔ آپ پاکستان آرمی کی طرف ہیں یا انڈ ین آرمی کی طرف۔ پھرسوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے، ہر سوال کا جواب۔
اس لئے کہ بعض سوالات کی بنت اور انداز ایسا ہے، جسے سن کر لگتا ہے کسی بھارتی فوجی یا بی جے پی کے شدت پسند کارکن نے سوال کا یہ پتھر پھینکا ہے۔ اس میں وہی طنز، وہی خوشی، وہی کمینگی، وہی گھٹیا پن اور وہی شیطنیت جھلکتی ہے جو ہماری دشمن فوج اور اس کے جانثار حامیوں کے لب ولہجے کا حصہ رہی ۔

آپ نے اپنی عملی زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا ہوگا کہ کوئی دشمن، کوئی محلے کا بدمعاش اپنے گینگ کےساتھ آپ کے گھر پر حملہ آور ہو اور آپ مقابلہ کرنے کے بجائے پہلے اپنے خاندان کے بزرگوں کو کٹہرے میں کھڑا کر ان پر چارج شیٹ لگائیں، ان پر طنزیہ جملے اچھالیں ، شیطانی مکروہ ہنسی ہنسیں ۔گھر کے نوجوان اگر گھر میں جو ہتھیار وغیرہ موجود ہیں، انہیں اٹھا کر بدمعاش کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتریں، تب آپ ان کا ساتھ دینے کے بجائے مزے سے چارپائی پر پسر کر بیٹھ جائیں تماشا دیکھیں اوراپنے گھر کے ان نوجوانوں کا مذاق اڑائیں، ان پر پھیکی بیکار فضول جگتیں کہیں۔ ایسے میں گھر والےآپ کے ساتھ کیا کریں گے ؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

اب یہ سوچیں کہ جب ملک کی بات آئے، ملکی افواج کی بات آئے، دشمن افواج حملہ آور ہو تب ایسا سنگدلانہ، بے رحمانہ اور اذئیت پسندانہ رویہ کیسے اپنایا جا سکتا ہے؟ کیا آپ فوج کے سربراہ کی نفرت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ یہ خوف ہے کہ کہیں یہ جنگ جیت جانے سے اسے کریڈٹ نہ مل جائے؟

کیا اسی وجہ سے آپ کے اندر یہ شدید خواہش طوفان کی طرح امنڈ امنڈ کر باہر آ رہی ہے کہ پاکستانی فوج کو ہزیمت اٹھانا پڑے، انہیں شرمندگی ہو، شکست ہو تاکہ فوجی قیادت کو پسپا اور کمزورہونا پڑے ؟ اگر یہی سوچ ہے تو معاف کیجئے آپ انڈین آ ر می کی طرف ہیں۔

آپ میں اور غداروں میں پھر کوئی فرق نہیں، اگرچہ میں آپ کو پھر بھی غدار نہیں کہوں گا، صرف ناسمجھ ، بے وقوف کہوں گا۔ معروف پنجابی حکایت کی اس نادان اور احمق ساس کی طرح جو اپنی بہو سے اتنی ناراض تھی کہ اس نے بددعا دی کہ میری بہو کو اپنے خاوند پر بہت مان ہے، اس کا مان ٹوٹے اور اس کا چہیتا خاوند نہ رہے۔ یہ نہ سوچا کہ بہو کا خاوند اس کا جگرگوشہ اور بیٹا ہے۔

چلیں اب آئیے سب سے اہم اور سب سے زیادہ پوچھے جانے والے سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان آخر بھارتی میزائل حملوں کا فوری جواب کیوں نہیں دے رہا، اسے تو بڑے بھارتی شہروں کو نشانہ بنانا چاہیے ، سویلین پر اٹیک کرے، مندروں کو نشانہ بنائے بلکہ ان کے ڈیمز بھی تباہ کر ڈالے وغیرہ وغیرہ۔

بات بہت سادہ ہے ۔ پاکستان اور بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس کا دفاعی بجٹ ہم سے نو گنا زیادہ ہے، فوج اور اسلحہ ہم سے چھ سات گنا زیادہ ہے۔ بھارتی معیشت بہت تگڑی ہے، ایکسپورٹ پاکستان سے بے تہاشا زیادہ ہے، بھارت کے پاس ابھی پچھلے ہفتے تک چھ سو اٹھاسی (688) ارب ڈالر جمع تھے ۔ جس میں پچھلے ہفتے ہی دو ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہوا۔میں نے تازہ ترین اعداد وشمار اکھٹے کئے تو وہ یوں بنے:
غیر ملکی کرنسی کے اثاثے580 ارب امریکی ڈالر
سونے کے ذخائر (Gold Reserves): 84.37 ارب امریکی ڈالر
خصوصی ڈرائنگ رائٹس (Special Drawing Rights – SDRs): 18.59 ارب امریکی ڈالر
آئی ایم ایف میں ریزرو پوزیشن: 4.51 ارب امریکی ڈالر
(رپورٹ بحوالہ ٹائمز آف انڈیا )

پاکستان کے پاس برائے نام زرمبادلہ ذخائر ہیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے ذخائر 2 مئی 2025 تک 10.33 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئے ہیں،
کمرشل بینکوں کے ذخائر 5.15 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، مجموعی ذخائر (SBP اور کمرشل بینکوں کے شامل) 15.48 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
اب خود ہی موازنہ کر لیا جائے پاکستان اور بھارت کی معیشت کا۔ پاکستان کا حال یہ ہے کہ ایک ارب ڈالر کے لئے ہمیں سعودیہ، عرب امارات اور چین کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ اگر یہ ملک انکار کر دیں، اپنا قرضہ واپس مانگ لیں تو ہم فوراً ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ اگر آئی ایم ایف اپنا پروگرام روک دے تب بھی ہمارا معاشی بحران شدید ترین ہوجائے گا۔

اس لئے ہمارا اور بھارت کا کوئی جوڑ نہیں۔ منطقی طور پر تو ہمیں بھارت کے آگے سرنڈر کر جانا چاہیے۔ اگر ہم بھارت کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں، باوقار اورخودداری کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں، بھارتی تسلط کے آگے اپنی سی مقدور مزاحمت کر رہے ہیں تو یہ بذات خود ایک کرشمہ اور غیر معمولی بات ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان جیسے کسی کمزور اور معاشی طور پر ابتر حالت والے مگر آبادی اور رقبے کے اعتبار سے بڑے ملک نے اپنے سے دس پندرہ گنا زیادہ طاقتور، بے رحم اور دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور سے سٹریٹجک تعلقات رکھنے والے ملک کے آگے مزاحمت کی ہو۔ ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔

براہ کرم اب کوئی ضرورت سے زیادہ سیانا مجھے افغانستان وغیرہ کی مثال نہ دے یا پھر ویت نام کا قصہ نہ سنائے۔ یہاں پرفوجی میدان میں شکست کھانے اور ملک تباہ کرانے، لاکھوں لوگ مروانے کے بعد گوریلا جنگ کے ذریعے مزاحمت کی بات نہیں ہو رہی۔ یہاں پر ملکی سالمیت اور آزادی برقرار رکھتے ہوئے، عوام کے جان ومال کے تحفظ کے ساتھ مزاحمت کی بات ہو رہی ۔

پاکستان ایک منفرد مثال ہے، جس کی اپنی کئی فالٹ لائنز ہیں، بہت سے مسائل چل رہے ، مسلسل دو تین وار تھیٹر پڑوس میں چلتے رہنے کی پیچیدگیاں اپنی جگہ رہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کسی نہ کسی طرح بھارت کے غلبے سے خود کو بچائے ہوئے ہے، اس نے سرنڈر نہیں کیا، وہ سر اٹھا کر بات کرتا ہے اور گریٹ گیمز میں بھی شریک ہوتا ہے، ریجنل اتحاد بنانے کی بھی اپنی سی کوشش کرتا ہے۔

ایسا صرف اس لئے ممکن ہو پایا کہ پاکستان نے دانستہ بھارت کے ساتھ کھلی اور بڑی فیصلہ کن جنگ لڑنے سے گریز کیا۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے دشمن کے ساتھ فل سکیل وار لڑنا اس کے لئے نقصان دہ اور غیر مفید ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی ایسا موقعہ آیا، پاکستان نے انگیجمنٹ ضرور کی مگر اسے بڑے جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا۔

پاکستان نے اسی لئے نیوکلیئر قوت حاصل کی، پھر اپنے میزائل سسٹم کو ڈویلپ کیا تاکہ وہ اپنے مخالف بدمعاش ہمسائے کے دوردراز کے شہروں تک بھی پہنچنے کی صلاحیت حاصل کرے۔ مقصد یہی کہ دشمن کو پتہ ہو کہ اگر اس نے ہمیں تباہ کرنے کی کوشش کی تو خود بھی مٹ جائے گا۔ بھارت نے برسوں سوچ بچار کے بعد کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن تیار کی ، جس کا نچوڑ یہ تھا کہ عام لڑائی اور نیوکلیئر وار کے درمیان اتنی سپیس حاصل کی جا سکے کہ شکست بھی دے دیں اور پاکستان نیوکلئیر آپشن تک بھی نہ پہنچ سکے۔ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن یہ تھی کہ بھارت بہت سے طیاروں، ڈرونز وغیرہ کے سپورٹ کے ساتھ تیزرفتار زمینی افواج (دو تین ڈویژن )کے ساتھ حملہ کرے اور کسی اہم شہر پر قبضہ کر کے پاکستان کو اپنی مرضی کی شرائط پر ہتھیار ڈالنے پر رضامند کر دے۔

پاکستانی انٹیلی جنس نے پہلے تو اس خفیہ ترین بھارتی عسکری منصوبے تک رسائی حاصل کی، اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ پھر ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جس نے بھارتیوں کے ہوش اڑا دئیے۔ بھارتی عسکری ماہرین کو پہلی بار تب پتہ چلا کہ “سمارٹ ایٹم بم” بھی کوئی چیز ہے جو صرف چند کلومیٹر کے احاطہ میں دشمن افواج کا صفایا کر سکتا ہے، دو تین ڈویژن فوج کا وہی حال ہوگا جو تاریخ میں ابابیلوں کے پھینکے ہوئے کنکروں سے خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے ابرہہ کے منحوس لشکر کا حال ہوا۔ تب کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن بھی کاغذات میں دفن ہوگئی ۔

پاکستان کی حکمت عملی درست ہے۔ ہر ایک کو اپنی قوت اور اپنے حساب کتاب سے لڑنا پڑتا ہے۔ ویت نامی جنگجو اور افغانستان کے طالبان کبھی امریکہ کے خلاف فتح یاب نہ ہوتے ، اگر وہ گوریلا جنگ نہ لڑتے ۔ اگر وہ اپنی قوت مجتمع کر کے کسی بڑے شہر کا محاصرہ کر کے حملہ کر دیتے تو کیا حشر ہوتا؟گوریلا جنگ لڑنے اور چھوٹے چھوٹے کٹ لگانے سے ہی وہ جنگ جیت پائے، اگرچہ اس میں کئی برس لگ گئے ۔

یہی اب ایران کر رہا ہے، وہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے، وہ سرنڈر نہیں کر رہا، مگر ایران اسرائیل کے ساتھ کھلی اور بڑی فیصلہ کن جنگ نہیں لڑنا چاہتا۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ ایران پر فیصلہ کن وار کرے اور امریکی حمایت کے ساتھ پوری قو ت سے ایرانی فوجی، نیوکلیئر تنصیبات پر چڑھ دوڑے اور ایران کو تہس نہس کر دے۔ ایران کمال ہوشیاری اور مہارت سے خود کو بچائے ہوئے ہے، وہ کسی نہ کسی طرح کچھ مہلت ، کچھ وقت لے لیتا ہے۔ وقت لینا (Time Buying)بہت اہم فیکٹر ہے، تاریخ میں اس نے حیران کن کرشمے دکھائے ۔

یہی پاکستان کو کرنا چاہیے ۔ بھارت اگر زبردستی حملہ آور ہونے پر تلا ہوا ہے تو ملٹری انگیجمنٹ ہو، مگر پاکستان اپنی مرضی کا محاذ منتخب کرے۔ جوابی وار کرے مگر اتنا شدید نہیں کہ کھلی اور بڑی جنگ چھڑ جائے۔ کٹ لگائے مگر چھوٹے چھوٹے ، دشمن کا خون بہتا رہے اور وہ کمزور ہو جائے۔ اسی کے عشرے میں ایک پاکستانی جرنیل کا افغان تحریک مزاحمت کے بارے میں مشہور مقولہ تھا، افغانستان میں مزاحمت کی ہنڈیا دھیمی آنچ پر ابلتی رہے، مگر اس کا ابال پاکستان میں نہ گرے۔

ہماری معیشت کمزور ہے، ہم بڑی اور طویل جنگ افورڈ نہیں کر سکتے۔ اللہ نے چاہا تو ہماری معیشت مضبوط ہوجائے گی، مستقبل میں کبھی وہ وقت آ سکتا ہے جب پاکستان کسی کمینے دشمن کی انگیخت پر بڑی جنگ لڑنے سے گریز نہ کرے ۔ پھر طویل اور فیصلہ کن جنگ ہوسکتی ہے۔ سردست وہ وقت نہیں۔ پاکستانی افواج کو احتیاط اور سلیقے کے ساتھ وار کرنا چاہیے، نپا تلا وار۔ وہ اپنی مرضی کی وقت، طریقہ اور محاذ منتخب کریں۔

حرف آخر یہ کہ ہمیں افواج پاکستان پر اعتماد کرنا چاہیے ۔ اس لئے کہ اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور ، باوسائل دشمن کو انہوں نے برسوں بلکہ عشروں سے روک رکھا ہے۔ ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، مگر بہرحال انہوں نے اپنی غلطیاں درست کی ہیں، خود کو بہتر کیا اور اپنے عزم اور مزاحمت میں کسر نہیں آنے دی۔

ان سے سوال ضرور پوچھیں، مگر پہلے اپنی پوزیشن بھی واضح کریں۔ اگر آپ پاکستان آرمی کی طرف ہیں تو پھر ان کے ساتھی، ہمدرد، ان کا گھر کا فرد بن کر سوال پوچھیں۔ اگر آپ کے لہجے میں طنز، تضحیک ، نفرت، حقارت در آئی تو پھر آپ ہمارا نہیں، ہمارے دشمن کیمپ کا حصہ ہیں۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے، سوچ سمجھ کر پوزیشن لیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

بھارت پاکستان عامر خاکوانی

متعلقہ مضامین

  • تو عظیم ہے ماں!
  • ماں
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان 12 مئی کی دوپہر تک جنگ بندی پر اتفاق ہوا
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان 12 مئی کی دوپہر تک جنگ بندی پر اتفاق
  • پاک فوج کی مہارت نے دنیا کو حیران کر دیا ؛ وزیراعظم آزادکشمیر 
  • پاکستان کا منہ توڑ جواب، بھارتی عوام نے اپنی فوج اور میڈیا پر سوالات اٹھا دیے
  • جرمن ہاکی لیجنڈ اسٹفین بلوشر نے پاکستان سےاپنی محبت کا اظہار کردیا
  • پہلے اپنی پوزیشن بتائیں، پھر جواب لیں
  • جب بھی شیر آتا ہے سب کچھ کھا جاتا ہے