اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
اسلام جب اقتدار کی بات کرتا ہے تو وہ صرف حاکم و محکوم کے تعلقات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسے نظام کی بات کرتا ہے، جو عدل، مشاورت، امانت اور عوامی شراکت پر قائم ہو۔ یہی اصول اسلامی جمہوریت کی روح ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے ہاں اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق پر گفتگو ہوتی ہے تو فکری استدلال کے بجائے جذباتی شور و غوغا غالب آجاتا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریت اور ولایت فقیہ کو متضاد قرار دیتے ہیں، یہ بات بلا شبہ فکری تنگ نظری کی مظہر ہے۔ گذشتہ روز ایک تحریر نظر سے گزری، جسے عون نقوی صاحب نے تدوین کیا ہے اور مدرس کا نام سید حسن رضوی لکھا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور امام خمینیؒ کی طرف جمہوریت کی نسبت دینا ان کے افکار میں تحریف اور خیانت کے مترادف ہے۔
یہ موقف نہ صرف سیاق و سباق سے کٹے ہوئے اقتباسات پر مبنی ہے بلکہ فکری دیانت اور تاریخی تسلسل سے بھی محروم ہونے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا قول واضح ہے کہ ہماری حکومت اسلامی جمہوری ہے؛ جمہوری اس معنی میں کہ عوام اسے قبول کریں اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کے قوانین اسلام کے مطابق ہوں(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۴۷۸)۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے اسی فکر کو ان الفاظ میں دہرایا کہ اسلامی جمہوریت وہ نظام ہے، جس میں عوامی ارادہ اور دینی اصول باہم مل کر فیصلے کرتے ہیں (تبریز،2001ء)۔ ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ولایت فقیہ جمہوریت کی نفی نہیں، بلکہ اس کی اسلامی تشکیل نو ہے۔ نہ یہ آمریت ہے اور نہ لادین لبرلزم، بلکہ ایسا متوازن نظام ہے، جو دین کی روح اور عوامی شعور کو باہم مربوط کرتا ہے۔
یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ اگر کسی ملک میں فی الحال نظام ولایت فقیہ کا مکمل نفاذ ممکن نہ ہو تو کیا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جائے اور ملت اپنے سیاسی، آئینی اور شہری حقوق سے دستبردار ہو جائے؟ یقیناً نہیں۔ عقلِ سلیم کی صدا یہی ہے کہ جس خطے میں ولایت کا عملی نظام فی الوقت قابلِ نفاذ نہ ہو، وہاں جمہوری عمل سے کٹ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ملتِ تشیع کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ایسے میں شعور، تدبر اور قومی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ملت تشیع پاکستان کے جمہوری نظام میں فعال شرکت کرے، پارلیمان کا حصہ بنے اور اپنی آواز بلند کرکے اپنے دینی، سماجی و قانونی حقوق کا دفاع کرے۔ یاد رہے کہ خاموشی، لاتعلقی اور کنارہ کشی نے تاریخ میں کبھی کسی قوم کو نجات نہیں دی ہے۔
مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے نجف اشرف کی سرزمین پر اپنے حالیہ خطاب میں علم، عقل اور تہذیب کو دینی نظام کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے علم کو صرف انفرادی فریضہ نہیں، بلکہ اجتماعی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور واضح کیا کہ علم کا حصول واجب ہے، کیونکہ یہ کائنات خدا کی کتاب ہے، جسے انسان کو سمجھنے اور مسخر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف علم ہی نہیں بلکہ عقل و شعور کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے فرمایا کہ معاشرتی ترقی و پیشرفت کے لئے تنہا علم کافی نہیں، بلکہ افراد کو عاقل بھی ہونا ہوگا۔ ہمیں علمی جہالت کے ساتھ ساتھ اجتماعی جاہلیت کے خلاف بھی کھڑا ہونا ہے۔ یہ نکتہ امام خمینیؒ کے اس بیان کی روشنی میں مزید مستحکم ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریت میں عوام کی شرکت ایک فریضہ ہے، نہ کہ صرف ایک سیاسی سرگرمی۔
رہبر معظم کا یہ بیان قابل غور ہے کہ اسلامی جمہوریت فقط انتخابات کا نام نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرتی شرکت کا مظہر ہے۔(قم، 2013ء)۔ جب کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت کا نظام طاغوتی ہے، سیکولر اور غیر اسلامی ہے، لوگوں کو اس کے پاس بھی نہیں جانا چاہیئے تو یہ دعویٰ ملت کے ضرر میں ہے بلکہ ملت تشیع کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کے گرداب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اس کے تمام قوانین قرآن و سنت سے مشروط کرکے بنائے گئے تھے۔ اگر آج حکمران اس پر عمل نہیں کر رہے تو خطا نظام کی نہیں، بلکہ حکمرانوں کی ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریت اور اسلامی جمہوری نہیں بلکہ کہ اسلامی آیت اللہ کرتا ہے کہ فکری کی روح
پڑھیں:
سانحہ 12مئی جمہوریت کیلئے دی گئی قربابیوں کی یا دو لاتاہے : بلاول
کراچی (این این آئی)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ 12 مئی 2007 کی برسی کے موقع پر شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر بہایا گیا خون رائیگاں نہیں گیا، بلکہ وہ آج ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک توانا علامت بن چکا ہے۔اپنے پیغام میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ سانحہ 12 مئی ہماری قومی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے، جس روز انسانی جان کی حرمت پامال اور جمہوری اقدار کو دن دہاڑے روندا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں جمہوریت عظیم قربانیوں کے بعد ملی ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی کے عوام، وکلاء، سیاسی کارکنان اور سول سوسائٹی نے آئین کی سربلندی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ درجنوں بے گناہ شہریوں کو بے رحمی سے شہید اور سینکڑوں کو زخمی کیا گیا صرف اس لیے کہ وہ جمہوریت، آئین اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے تھے۔پی پی پی چیئرمین نے واضح کیا کہ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ایسے المناک سانحات کو دہرانے سے روکنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی شہداء کے خاندانوں کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کے ساتھ کھڑی ہے اور اس جدوجہد کا حصہ رہے گی۔بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ہم سانحہ 12 مئی کے شہداء کو نہیں بھولے، نہ ہی قوم نے فراموش کیا ہے، اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس المناک دن کے مجرموں کی ہمیشہ مذمت کرتی رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آمریت اور تشدد کا سامنا کیا ہے اور قربانیوں کی طویل تاریخ اس کی گواہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا دن ان عظیم قربانیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے۔واضح رہے کہ 12 مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ فائرنگ سے جاں بحق 50 سے زائد شہریوں کے اہلخانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔