Islam Times:
2025-11-19@01:52:07 GMT

اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری

اسلام ٹائمز: آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

اسلام جب اقتدار کی بات کرتا ہے تو وہ صرف حاکم و محکوم کے تعلقات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسے نظام کی بات کرتا ہے، جو عدل، مشاورت، امانت اور عوامی شراکت پر قائم ہو۔ یہی اصول اسلامی جمہوریت کی روح ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے ہاں اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق پر گفتگو ہوتی ہے تو فکری استدلال کے بجائے جذباتی شور و غوغا غالب آجاتا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریت اور ولایت فقیہ کو متضاد قرار دیتے ہیں، یہ بات بلا شبہ فکری تنگ نظری کی مظہر ہے۔ گذشتہ روز ایک تحریر نظر سے گزری، جسے عون نقوی صاحب نے تدوین کیا ہے اور مدرس کا نام سید حسن رضوی لکھا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور امام خمینیؒ کی طرف جمہوریت کی نسبت دینا ان کے افکار میں تحریف اور خیانت کے مترادف ہے۔

یہ موقف نہ صرف سیاق و سباق سے کٹے ہوئے اقتباسات پر مبنی ہے بلکہ فکری دیانت اور تاریخی تسلسل سے بھی محروم ہونے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا قول واضح ہے کہ ہماری حکومت اسلامی جمہوری ہے؛ جمہوری اس معنی میں کہ عوام اسے قبول کریں اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کے قوانین اسلام کے مطابق ہوں(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۴۷۸)۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے اسی فکر کو ان الفاظ میں دہرایا کہ اسلامی جمہوریت وہ نظام ہے، جس میں عوامی ارادہ اور دینی اصول باہم مل کر فیصلے کرتے ہیں (تبریز،2001ء)۔ ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ولایت فقیہ جمہوریت کی نفی نہیں، بلکہ اس کی اسلامی تشکیل نو ہے۔ نہ یہ آمریت ہے اور نہ لادین لبرلزم، بلکہ ایسا متوازن نظام ہے، جو دین کی روح اور عوامی شعور کو باہم مربوط کرتا ہے۔

یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ اگر کسی ملک میں فی الحال نظام ولایت فقیہ کا مکمل نفاذ ممکن نہ ہو تو کیا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جائے اور ملت اپنے سیاسی، آئینی اور شہری حقوق سے دستبردار ہو جائے؟ یقیناً نہیں۔ عقلِ سلیم کی صدا یہی ہے کہ جس خطے میں ولایت کا عملی نظام فی الوقت قابلِ نفاذ نہ ہو، وہاں جمہوری عمل سے کٹ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ملتِ تشیع کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ایسے میں شعور، تدبر اور قومی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ملت تشیع پاکستان کے جمہوری نظام میں فعال شرکت کرے، پارلیمان کا حصہ بنے اور اپنی آواز بلند کرکے اپنے دینی، سماجی و قانونی حقوق کا دفاع کرے۔ یاد رہے کہ خاموشی، لاتعلقی اور کنارہ کشی نے تاریخ میں کبھی کسی قوم کو نجات نہیں دی ہے۔

مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے نجف اشرف کی سرزمین پر اپنے حالیہ خطاب میں علم، عقل اور تہذیب کو دینی نظام کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے علم کو صرف انفرادی فریضہ نہیں، بلکہ اجتماعی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور واضح کیا کہ علم کا حصول واجب ہے، کیونکہ یہ کائنات خدا کی کتاب ہے، جسے انسان کو سمجھنے اور مسخر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف علم ہی نہیں بلکہ عقل و شعور کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے فرمایا کہ معاشرتی ترقی و پیشرفت کے لئے تنہا علم کافی نہیں، بلکہ افراد کو عاقل بھی ہونا ہوگا۔ ہمیں علمی جہالت کے ساتھ ساتھ اجتماعی جاہلیت کے خلاف بھی کھڑا ہونا ہے۔ یہ نکتہ امام خمینیؒ کے اس بیان کی روشنی میں مزید مستحکم ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریت میں عوام کی شرکت ایک فریضہ ہے، نہ کہ صرف ایک سیاسی سرگرمی۔

رہبر معظم کا یہ بیان قابل غور ہے کہ اسلامی جمہوریت فقط انتخابات کا نام نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرتی شرکت کا مظہر ہے۔(قم، 2013ء)۔ جب کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت کا نظام طاغوتی ہے، سیکولر اور غیر اسلامی ہے، لوگوں کو اس کے پاس بھی نہیں جانا چاہیئے تو یہ دعویٰ ملت کے ضرر میں ہے بلکہ ملت تشیع کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کے گرداب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اس کے تمام قوانین قرآن و سنت سے مشروط کرکے بنائے گئے تھے۔ اگر آج حکمران اس پر عمل نہیں کر رہے تو خطا نظام کی نہیں، بلکہ حکمرانوں کی ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریت اور اسلامی جمہوری نہیں بلکہ کہ اسلامی آیت اللہ کرتا ہے کہ فکری کی روح

پڑھیں:

اجتماع عام آئین سے منحرف ظالمانہ نظام بدلنے کی تحریک کا آغاز ہے‘لیاقت بلوچ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-01-9

لاہور(نمائندہ جسارت)نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ناظم اجتماع عام لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ہمارااجتماع عام ظلم و جبر کے مسلط نظام کی تبدیلی کے لیے ہے۔ آئین کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے اور مفاد پرست ٹولہ اپنی مرضی سے اس میں تبدیلیاں کررہا ہے۔ ہم ملک میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کے آئین سے متصاد م نظام کو بدلنے کی بات کررہے ہیں۔ملک میں فساد پھیل گیا اورانتشار بڑھتا جارہا ہے۔ بگڑتی صورتحال قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔عوام کے اندر بے چینی اور مایوسی ہے۔عوام کو حوصلہ دینا اور مایوسی سے نکالنا ضروری ہوگیا ہے۔مفاد پرست قوتوں نے پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع عام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مینار پاکستان اجتماع عام کے مقام پر پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر مرکزی نائب امیرڈاکٹر اسامہ رضی،ڈپٹی سیکرٹری جنرل اظہر اقبال حسن،سید وقاص انجم جعفری،شیخ عثمان فاروق، سیکرٹری اطلاعات شکیل احمد ترابی،پنجاب وسطی کے امیر جاوید قصوری،حلقہ لاہور کے امیرضیا الدین انصاری،نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی،ذکراللہ مجاہد اور حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا طارق،سمیحہ راحیل قاضی اوردیگر ذمے داران بھی موجود تھیں۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ 21تا 23نومبر کو مینار پاکستان کی تاریخی اجتماع گاہ میں منعقد ہونے والا اجتماع عام ایک نئی تاریخ رقم کرے گا اور آئندہ آنے والے مراحل کے لیے مضبوط جدوجہد کا استعارہ بنے گا۔پورے ملک میں اجتماع عام کی تیاریاں جاری ہے۔بلوچستان ، خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر سے نوجوان، طلبہ، اساتذہ،وکلا،کسان مزدوراور خواتین لاکھوں کی تعداد میں اس اجتماع میں شریک ہوںگے۔یہ اجتماع عام دعوت دین اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہوگا۔ 21نومبر کونماز جمعہ کے بعد3 روزہ اجتماع عام کا آغاز ہو گا۔جمعہ تاریخی بادشاہی مسجد میں ہوگا اور اتحاد العلما العالمی المسلمین کے سربرہ الشیخ الدکتورعلی محی الدین قرہ داغی خطبہ جمعہ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ 2014کے بعدیہ اجتماع عام منعقد ہورہا ہے اس میں جماعت اسلامی کی 11 سالہ کارکردگی بھی سامنے آئے گی، مختلف عنوانات پر پروگرام ہوں گے جس میں ماہرین پوری قوم کی رہنمائی کریں گے اور ظلم و جبر کے اس نظام کو بدلنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کریں گے۔ معیشت،معاشرت،تعلیم،عدل و انصاف اور زندگی کے تمام شعبوں میں حقیقی تبدیلی اور آئین و قانون کی سربلندی کے تحریک کے خدوخال طے کیے جائیں گے۔ اجتماع عام میں مشاعرے کا اہتمام اور علم و ادب کے حوالے سے بھی پروگرام ہوں گے۔خواتین کی عالمی کانفرنس میں بین الاقوامی شخصیات شرکت کریں گی۔یوتھ اور طلبہ سیشن نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ 40 ممالک سے 200 کے قریب شخصیات اجتماع میں شرکت کریں گی۔ ایک سوال کے جواب میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ مارشل لا شرابی ہو یا نمازی اس کے نتائج ایک ہوتے ہیں۔استعفے اورگرفتاریاں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ہم نے ہمیشہ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کو مقدم رکھا ہے۔جماعت اسلامی اجتماع عام بدل دو نظام کے سلوگن پرمنعقد کررہی ہے۔اس لیے اس اجتماع عام کا مرکزی نقطہ ہی نظام کی تبدیلی ہوگا۔ اجتماع عام پر عزم پیغام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔حالات و واقعات سے مایوس عوام کو رہنمائی دینے کے لیے یہ اجتماع ہے۔ملکی منظر نامے کے حوالے سے پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کی قیادت وہاں کے مسائل کے حوالے سے اجتماع کو آگاہ کرے گی۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن قوم کو آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے، مختلف سیشنزمیں امیر جماعت کے خطاب ہوں گے۔اس اجتماع کے 17 نائب ناظمین اور50 مختلف شعبوں کے ناظمین متعین کیے ہیں۔ اجتماع عام کی سیکورٹی سمیت 5ہزار کارکن مختلف ڈیوٹیاں دیں گے ۔

لاہور: نائب امیر جماعت اسلامی و ناظم اجتماع عام لیاقت بلوچ مینار پاکستان پر پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں، ڈاکٹر اسامہ رضی ، اظہر اقبال حسن و دیگر بھی موجود ہیں

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • فارم 47 کی بنیاد پر حکومت بنے گی تو لوگوں کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا، حافظ نعیم الرحمان
  • استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
  • اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر
  • چہرے نہیں ‘نظام بدلنے سے قوم کی تقدیر بدلے گی‘ منعم ظفر خان
  • اجتماع عام آئین سے منحرف ظالمانہ نظام بدلنے کی تحریک کا آغاز ہے‘لیاقت بلوچ
  • ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
  • ہمارا اجتماع عام نظام بدلو کے عنوان سے ہوگا،لیاقت بلوچ
  • 27 ویں آئینی ترامیم آئین اور جمہوریت پر شب خون
  • بدل دو نظام: ایک قومی نظریاتی سمت
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی