Islam Times:
2025-10-04@20:13:50 GMT

اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری

اسلام ٹائمز: آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

اسلام جب اقتدار کی بات کرتا ہے تو وہ صرف حاکم و محکوم کے تعلقات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسے نظام کی بات کرتا ہے، جو عدل، مشاورت، امانت اور عوامی شراکت پر قائم ہو۔ یہی اصول اسلامی جمہوریت کی روح ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے ہاں اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق پر گفتگو ہوتی ہے تو فکری استدلال کے بجائے جذباتی شور و غوغا غالب آجاتا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریت اور ولایت فقیہ کو متضاد قرار دیتے ہیں، یہ بات بلا شبہ فکری تنگ نظری کی مظہر ہے۔ گذشتہ روز ایک تحریر نظر سے گزری، جسے عون نقوی صاحب نے تدوین کیا ہے اور مدرس کا نام سید حسن رضوی لکھا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور امام خمینیؒ کی طرف جمہوریت کی نسبت دینا ان کے افکار میں تحریف اور خیانت کے مترادف ہے۔

یہ موقف نہ صرف سیاق و سباق سے کٹے ہوئے اقتباسات پر مبنی ہے بلکہ فکری دیانت اور تاریخی تسلسل سے بھی محروم ہونے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا قول واضح ہے کہ ہماری حکومت اسلامی جمہوری ہے؛ جمہوری اس معنی میں کہ عوام اسے قبول کریں اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کے قوانین اسلام کے مطابق ہوں(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۴۷۸)۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے اسی فکر کو ان الفاظ میں دہرایا کہ اسلامی جمہوریت وہ نظام ہے، جس میں عوامی ارادہ اور دینی اصول باہم مل کر فیصلے کرتے ہیں (تبریز،2001ء)۔ ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ولایت فقیہ جمہوریت کی نفی نہیں، بلکہ اس کی اسلامی تشکیل نو ہے۔ نہ یہ آمریت ہے اور نہ لادین لبرلزم، بلکہ ایسا متوازن نظام ہے، جو دین کی روح اور عوامی شعور کو باہم مربوط کرتا ہے۔

یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ اگر کسی ملک میں فی الحال نظام ولایت فقیہ کا مکمل نفاذ ممکن نہ ہو تو کیا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جائے اور ملت اپنے سیاسی، آئینی اور شہری حقوق سے دستبردار ہو جائے؟ یقیناً نہیں۔ عقلِ سلیم کی صدا یہی ہے کہ جس خطے میں ولایت کا عملی نظام فی الوقت قابلِ نفاذ نہ ہو، وہاں جمہوری عمل سے کٹ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ملتِ تشیع کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ایسے میں شعور، تدبر اور قومی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ملت تشیع پاکستان کے جمہوری نظام میں فعال شرکت کرے، پارلیمان کا حصہ بنے اور اپنی آواز بلند کرکے اپنے دینی، سماجی و قانونی حقوق کا دفاع کرے۔ یاد رہے کہ خاموشی، لاتعلقی اور کنارہ کشی نے تاریخ میں کبھی کسی قوم کو نجات نہیں دی ہے۔

مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے نجف اشرف کی سرزمین پر اپنے حالیہ خطاب میں علم، عقل اور تہذیب کو دینی نظام کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے علم کو صرف انفرادی فریضہ نہیں، بلکہ اجتماعی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور واضح کیا کہ علم کا حصول واجب ہے، کیونکہ یہ کائنات خدا کی کتاب ہے، جسے انسان کو سمجھنے اور مسخر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف علم ہی نہیں بلکہ عقل و شعور کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے فرمایا کہ معاشرتی ترقی و پیشرفت کے لئے تنہا علم کافی نہیں، بلکہ افراد کو عاقل بھی ہونا ہوگا۔ ہمیں علمی جہالت کے ساتھ ساتھ اجتماعی جاہلیت کے خلاف بھی کھڑا ہونا ہے۔ یہ نکتہ امام خمینیؒ کے اس بیان کی روشنی میں مزید مستحکم ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریت میں عوام کی شرکت ایک فریضہ ہے، نہ کہ صرف ایک سیاسی سرگرمی۔

رہبر معظم کا یہ بیان قابل غور ہے کہ اسلامی جمہوریت فقط انتخابات کا نام نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرتی شرکت کا مظہر ہے۔(قم، 2013ء)۔ جب کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت کا نظام طاغوتی ہے، سیکولر اور غیر اسلامی ہے، لوگوں کو اس کے پاس بھی نہیں جانا چاہیئے تو یہ دعویٰ ملت کے ضرر میں ہے بلکہ ملت تشیع کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کے گرداب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اس کے تمام قوانین قرآن و سنت سے مشروط کرکے بنائے گئے تھے۔ اگر آج حکمران اس پر عمل نہیں کر رہے تو خطا نظام کی نہیں، بلکہ حکمرانوں کی ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریت اور اسلامی جمہوری نہیں بلکہ کہ اسلامی آیت اللہ کرتا ہے کہ فکری کی روح

پڑھیں:

مریم نواز کو چیلنج کرتی ہوں، سندھ اور پنجاب میں صحت کا نظام کا موازنہ کر لیتے ہیں: شرمیلا فاروقی

---فائل فوٹو 

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی کارکردگی کا بیٹھ کر موازنہ کر لیتے ہیں، مریم نواز کو چیلنج کرتی ہوں، موازنہ کر لیتے ہیں سندھ میں صحت کا نظام کیا ہے اور پنجاب میں کیا ہے۔

’جیوپاکستان‘ میں گفتگو کے دوران شرمیلا فاروقی نے کہا کہ سندھ سیلاب زدگان کے لیے کیا کر رہا ہے، پنجاب کیا کر رہا ہے، افتتاح کرنے سے اور سلائی کی مشینیں دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ جب ایک صوبے کاچیف ایگزیکٹو یہ کہے گا کہ میرا پیسہ، میرا پانی، انگلی توڑ دیں گے، یہ بدقسمتی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کی اہم اتحادی ہے اس کا ادراک ن لیگ کو ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سیلاب زدگان کو ریلیف دینے پر بات کر رہے ہیں ذاتیات پر نہیں، بلاول بھٹو نے دورۂ جنوبی پنجاب کے دوران کہا مریم بی بی اچھا کام کر رہی ہیں، انہوں نے لوگوں کی حالت دیکھی تو کہا کہ بی آئی ایس پی سے لوگوں کو رقم دے دیں۔

شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ بلاول بھٹو نے وفاق سے کیا کیوں کہ یہ وفاق کا پراجیکٹ ہے، ہم نے تو پنجاب کی بات نہیں کی، ہم تو پنجاب والوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، سندھ میں 2022ء میں سیلاب آیا، ہم نے بی آئی ایس پی کے زریعے کیش ٹرانسفر کیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوگوں کی فوری مدد کا بی آئی ایس پی کے بجائے اور کوئی ذریعہ نہیں، پیپلز پارٹی کے سوا اور کوئی حکومت ایسا پراجیکٹ بنا ہی نہیں سکی، آپ کو بی بی شہید کا نام پسند نہیں تو ان لوگوں کا کیا قصور جو سڑکوں پر ہیں،  بی آئی ایس پی کے زریعے پیسے لوگوں کی جیب میں جارہے ہیں، پیپلز پارٹی کی جیب میں نہیں۔

اِن کا کہنا تھا کہ آپ ہماری بے عزتی کریں گے تو کیا ہم حکومت بینچز پر بیٹھ کر سنتے رہیں گے، نہ یہ آپ کا پانی ہے نہ میرا، یہ پاکستان کے عوام کا ہے، پانی تقسیم کرنے کا طریقہ کار ملک میں موجود ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ نہریں نکالیں باقی دوصوبے سوکھ جائیں۔

شرمیلا فاروقی نے یہ بھی کہا کہ کل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی بیٹھک ہوئی کچھ چیزوں پر بات ہوئی ہے، اس وقت سیاست نہ کریں لوگوں کی مدد کریں یہ ہمارا مؤقف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جوائنٹ ایکشن کمیٹی کیساتھ معاہدہ طے پانا جمہوریت کی جیت ہے: احسن اقبال
  • کامیاب مذاکرات و معاہدہ آزاد کشمیر کے عوام، پاکستان اور جمہوریت کی جیت ہے، احسن اقبال
  • ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  •    آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
  • ٹرمپ کا مجوزہ غزہ امن منصوبہ نوآبادیاتی نظام کی بحالی کا اعلان ہے‘ حافظ نعیم الرحمن
  • مریم نواز کو چیلنج کرتی ہوں، سندھ اور پنجاب میں صحت کا نظام کا موازنہ کر لیتے ہیں،شرمیلا فاروقی
  • مریم نواز کو چیلنج کرتی ہوں، سندھ اور پنجاب میں صحت کا نظام کا موازنہ کر لیتے ہیں: شرمیلا فاروقی
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • وزیر مذہبی امور کی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے ملاقات