Islam Times:
2025-08-15@09:36:45 GMT

اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

اسلامی جمہوریت اور فکری تنگ نظری

اسلام ٹائمز: آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

اسلام جب اقتدار کی بات کرتا ہے تو وہ صرف حاکم و محکوم کے تعلقات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ ایک ایسے نظام کی بات کرتا ہے، جو عدل، مشاورت، امانت اور عوامی شراکت پر قائم ہو۔ یہی اصول اسلامی جمہوریت کی روح ہیں، لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے ہاں اسلام اور جمہوریت کے باہمی تعلق پر گفتگو ہوتی ہے تو فکری استدلال کے بجائے جذباتی شور و غوغا غالب آجاتا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریت اور ولایت فقیہ کو متضاد قرار دیتے ہیں، یہ بات بلا شبہ فکری تنگ نظری کی مظہر ہے۔ گذشتہ روز ایک تحریر نظر سے گزری، جسے عون نقوی صاحب نے تدوین کیا ہے اور مدرس کا نام سید حسن رضوی لکھا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور امام خمینیؒ کی طرف جمہوریت کی نسبت دینا ان کے افکار میں تحریف اور خیانت کے مترادف ہے۔

یہ موقف نہ صرف سیاق و سباق سے کٹے ہوئے اقتباسات پر مبنی ہے بلکہ فکری دیانت اور تاریخی تسلسل سے بھی محروم ہونے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا قول واضح ہے کہ ہماری حکومت اسلامی جمہوری ہے؛ جمہوری اس معنی میں کہ عوام اسے قبول کریں اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کے قوانین اسلام کے مطابق ہوں(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۴۷۸)۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے اسی فکر کو ان الفاظ میں دہرایا کہ اسلامی جمہوریت وہ نظام ہے، جس میں عوامی ارادہ اور دینی اصول باہم مل کر فیصلے کرتے ہیں (تبریز،2001ء)۔ ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ولایت فقیہ جمہوریت کی نفی نہیں، بلکہ اس کی اسلامی تشکیل نو ہے۔ نہ یہ آمریت ہے اور نہ لادین لبرلزم، بلکہ ایسا متوازن نظام ہے، جو دین کی روح اور عوامی شعور کو باہم مربوط کرتا ہے۔

یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ اگر کسی ملک میں فی الحال نظام ولایت فقیہ کا مکمل نفاذ ممکن نہ ہو تو کیا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جائے اور ملت اپنے سیاسی، آئینی اور شہری حقوق سے دستبردار ہو جائے؟ یقیناً نہیں۔ عقلِ سلیم کی صدا یہی ہے کہ جس خطے میں ولایت کا عملی نظام فی الوقت قابلِ نفاذ نہ ہو، وہاں جمہوری عمل سے کٹ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ملتِ تشیع کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ایسے میں شعور، تدبر اور قومی ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ ملت تشیع پاکستان کے جمہوری نظام میں فعال شرکت کرے، پارلیمان کا حصہ بنے اور اپنی آواز بلند کرکے اپنے دینی، سماجی و قانونی حقوق کا دفاع کرے۔ یاد رہے کہ خاموشی، لاتعلقی اور کنارہ کشی نے تاریخ میں کبھی کسی قوم کو نجات نہیں دی ہے۔

مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے نجف اشرف کی سرزمین پر اپنے حالیہ خطاب میں علم، عقل اور تہذیب کو دینی نظام کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے علم کو صرف انفرادی فریضہ نہیں، بلکہ اجتماعی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور واضح کیا کہ علم کا حصول واجب ہے، کیونکہ یہ کائنات خدا کی کتاب ہے، جسے انسان کو سمجھنے اور مسخر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف علم ہی نہیں بلکہ عقل و شعور کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے فرمایا کہ معاشرتی ترقی و پیشرفت کے لئے تنہا علم کافی نہیں، بلکہ افراد کو عاقل بھی ہونا ہوگا۔ ہمیں علمی جہالت کے ساتھ ساتھ اجتماعی جاہلیت کے خلاف بھی کھڑا ہونا ہے۔ یہ نکتہ امام خمینیؒ کے اس بیان کی روشنی میں مزید مستحکم ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریت میں عوام کی شرکت ایک فریضہ ہے، نہ کہ صرف ایک سیاسی سرگرمی۔

رہبر معظم کا یہ بیان قابل غور ہے کہ اسلامی جمہوریت فقط انتخابات کا نام نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرتی شرکت کا مظہر ہے۔(قم، 2013ء)۔ جب کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت کا نظام طاغوتی ہے، سیکولر اور غیر اسلامی ہے، لوگوں کو اس کے پاس بھی نہیں جانا چاہیئے تو یہ دعویٰ ملت کے ضرر میں ہے بلکہ ملت تشیع کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کے گرداب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اس کے تمام قوانین قرآن و سنت سے مشروط کرکے بنائے گئے تھے۔ اگر آج حکمران اس پر عمل نہیں کر رہے تو خطا نظام کی نہیں، بلکہ حکمرانوں کی ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی کا یہ فرمان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ تقلید، مسائل کا حل نہیں بلکہ جو اہل ہے، اسے مجتہد بننے، مسائل کو مصادر سے استخراج کرنے اور زمانے کے تقاضوں کا جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ یہ پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ فکری، دینی اور سیاسی میدانوں میں بیداری، شعور اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، نہ کہ فتووں اور الزامات سے آراستہ یک طرفہ فکری یلغار کی۔ بہر صورت اسلامی جمہوریت اور نظام ولایت فقیہ میں تضاد نہیں، بلکہ ان میں ایک گہری فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کو چاہیئے کہ فکری وسعت، اجتہادی تنوع اور اختلاف رائے کی گنجائش کو تسلیم کریں، کیونکہ یہی اسلامی روایت کی روح ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریت اور اسلامی جمہوری نہیں بلکہ کہ اسلامی آیت اللہ کرتا ہے کہ فکری کی روح

پڑھیں:

ٹرمپ نے پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا ہی کاانتخاب کیوں کیا؟ الیگزینڈر بوبروف کا تجزیہ

الاسکا کو 15 اگست 2025 کے ڈونلڈ ٹرمپ–ولادیمیر پوتن دوطرفہ اجلاس کے مقام کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ محض ایک جغرافیائی سہولت نہیں بلکہ ایک نادر قسم کی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔

یہ ماضی کی گہرائیوں میں جاتا ہے، موجودہ جغرافیائی و سیاسی توازن کی عکاسی کرتا ہے، اور مستقبل کے امریکا روس تعلقات کے ممکنہ خدوخال کی جھلک دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا

تاریخی یادداشت کے لحاظ سے امریکا میں کوئی اور جگہ ایسی نہیں جو ’ہمسائیگی‘ اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کی اُس روح کو اس قدر نمایاں کرے جو سرد جنگ کے دوران ختم ہو گئی۔

1737 سے 1867 تک یہ وسیع اور کم آبادی والا خطہ ’روسی امریکا‘ کہلاتا تھا، روسی سلطنت کا نیم دُورافتادہ حصہ، جو اپنے یوریشیائی مرکز سے الگ لیکن ایک اور ریاست کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔

زاریہ الیگزینڈر دوم کا الاسکا کو 72 لاکھ ڈالر میں امریکا کو فروخت کرنے کا فیصلہ 19ویں صدی کی سب سے زیادہ بحث انگیز سفارتی ڈیلز میں سے ایک تھا۔

اُس وقت سینٹ پیٹرزبرگ میں یہ بات واضح تھی کہ اگر الاسکا کو چھوڑ دیا گیا تو وہ برطانوی سلطنت کے ہاتھ لگ سکتا ہے، جو اُس وقت روس کی سب سے بڑی حریف تھی۔ چنانچہ اسے واشنگٹن کے حوالے کرنا کمزوری نہیں بلکہ مستقبل کے تعلقات میں ایک سرمایہ کاری سمجھی گئی۔

روس و امریکا کا مابین الاسکا کی خرید و فروخت سے متعلق حتمی مذاکرات مصور کی نظر کا منظر مصور کی آنکھ سے

20ویں صدی میں یہ علامتی رشتہ ایک نئی معنویت اختیار کر گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران، فیئربینکس شہر، جس کی آبادی صرف تیس ہزار تھی، ’لینڈ-لیز‘ پروگرام کا ایک اہم مرکز بنا، جہاں سے امریکا نے سوویت یونین کو جہاز، سازوسامان اور مواد فراہم کیا۔ الاسکا کے ہوائی اڈے امریکی طیاروں کو مشرقی محاذ تک پہنچانے کے اہم راستے تھے۔

آج بھی الاسکا کو امریکا کی ’سب سے روسی‘ ریاست سمجھا جاتا ہے، جہاں 19ویں صدی میں مذہبی آزادی کی تلاش میں آنے والے ’اولڈ بیلیورز‘ آباد ہیں، اور جہاں آرتھوڈوکس چرچ، نیکولائیفسک اور ووزنی سینسک جیسے مقامات کے نام، اور روسی جھیلوں کے کنارے اب بھی موجود ہیں۔

لیکن الاسکا کا انتخاب صرف تاریخ کو سلامی نہیں، بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ ٹرمپ واضح طور پر یہ نہیں چاہتے کہ کسی تیسرے فریق جیسے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان یا متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان، جو اہم بین الاقوامی ثالثی کردار ادا کرتے ہیں، اجلاس کے ایجنڈے اور لہجے کو بدلیں۔

ٹرمپ نے امریکا کی سب سے جغرافیائی طور پر دُور دراز ریاست کا انتخاب کر کے اپنے ڈیموکریٹک حریفوں اور نیٹو اتحادیوں سے فاصلے کا اشارہ دیا ہے۔ ان اتحادیوں کی بڑی تعداد، کیف کے مفاد میں، کسی بھی ممکنہ پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی۔

عملی اعتبار سے بھی یہ فیصلہ موزوں ہے

الاسکا کی کم آبادی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے دہشتگردی یا کسی منصوبہ بند اشتعال انگیزی کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے گرفتاری وارنٹ کے قانونی مسائل سے بچاتی ہے۔ امریکہ 2002 میں روم اسٹیچیوٹ سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنی زمین پر ICC کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔

اس انتخاب کا ایک اور پہلو بھی ہے

الاسکا امریکہ کا واحد حقیقی آرکٹک خطہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ کینیڈا اور گرین لینڈ پر زیادہ امریکی اثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ’ہائی نارتھ‘ ایک اہم اسٹریٹجک میدان بن رہا ہے۔ روس اور امریکا کے یہاں مشترکہ مفادات ہیں، برنگ اسٹریٹ کے راستے ’شمالی سمندری راہداری‘ کی ترقی سے لے کر سمندری تیل و گیس کے ذخائر تک۔ لومانوسوف رِج، جسے روس اپنے براعظمی شیلف کا فطری حصہ قرار دیتا ہے، اس کی ایک مثال ہے۔

مشترکہ آرکٹک منصوبے اس خطے کو دنیا کے خوشحال ترین علاقوں میں بدل سکتے ہیں، یا پھر یہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات اور فضائی دفاعی مشقوں کا میدان بھی بن سکتا ہے۔

یوکرین کا مسئلہ اس اجلاس کے ایجنڈے پر غالب رہے گا۔ مغربی میڈیا نے پہلے ہی علاقائی تبادلوں کے امکان کی خبر دی ہے، مثلاً روس کی جانب سے سومی، خارکیف، دنیپروپیٹرووسک اور نکولائیف کے کچھ حصوں میں رعایت کے بدلے یوکرینی افواج کا دونیتسک عوامی جمہوریہ سے انخلا۔ مغربی تجزیہ کار بھی مانتے ہیں کہ یہ ماسکو کی بڑی سفارتی کامیابی ہوگی، کیونکہ روس جس غیر مقبوضہ علاقے پر قبضہ کرے گا وہ ان علاقوں سے چار گنا بڑا ہوگا جن سے وہ دستبردار ہوگا۔

الاسکا اس قسم کی بات چیت کے لیے موزوں علامتی پس منظر فراہم کرتا ہے

اس کی اپنی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ سرحدی ملکیت کوئی ابدی حقیقت نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی متغیر ہے جو مخصوص تاریخی مواقع پر بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے طے پاتا ہے۔

الاسکا میں ہونے والا یہ اجلاس محض دو رہنماؤں کی ملاقات نہیں بلکہ براہِ راست اور بلاواسطہ مکالمے کی واپسی، تاریخی روابط کی یاد دہانی، اور اس بات کا امتحان ہے کہ آیا ماسکو اور واشنگٹن اُن جگہوں پر ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جہاں اُن کے مفادات نہ صرف ملتے ہیں بلکہ یکساں بھی ہو سکتے ہیں۔

الاسکا کی کہانی روسی طور پر شروع ہوئی، امریکی طور پر جاری رہی — اور اب یہ ایک مشترکہ باب بن سکتی ہے، اگر دونوں فریق اسے موقع سمجھیں، خطرہ نہیں۔

تجزیہ نگار الیگزینڈر بوبروف تاریخ میں پی ایچ ڈی، انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک ریسرچ اینڈ فار کاسٹس کے شعبۂ سفارتی مطالعات کے سربراہ، کتاب The Grand Strategy of Russia کے مصنف، اور Diplomacy and the World ٹیلیگرام چینل کے منتظم ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الاسکا امریکا روس صدر پیوٹن صدر ٹرمپ مذاکرات یوکرین

متعلقہ مضامین

  • کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر حاصل ملک کا نظام قرآن و سنت پر مبنی ہونا چاہیے: علامہ راغب نعیمی
  • جمہوریت، دفاع اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے، بلاول کا جشنِ آزادی پر پیغام
  • پاکستان صرف امت نہیں بلکہ دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کا ترجمان ہوگا، حافظ نعیم
  • 78 برس گزرنے کے باوجود پاکستان پر کرپٹ ٹولہ قابض ہے: حافظ نعیم
  • کراچی کے نوجوانوں کیلئے سرکاری نوکریوں کے دروازے بند ہیں( حافظ نعیم)
  • آزادی محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ذمہ داری کے اعادے کا دن ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • جرمنی کے چند دلچسپ و عجیب قوانین
  • امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی
  • ٹرمپ نے پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا ہی کاانتخاب کیوں کیا؟ الیگزینڈر بوبروف کا تجزیہ
  • عوام کی آواز نہیں سنیں گے تو ملک اور جمہوریت کیلئے سنگین خطرات ہوں گے، بیرسٹر گوہر