ٹرمپ نے پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا ہی کاانتخاب کیوں کیا؟ الیگزینڈر بوبروف کا تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
الاسکا کو 15 اگست 2025 کے ڈونلڈ ٹرمپ–ولادیمیر پوتن دوطرفہ اجلاس کے مقام کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ محض ایک جغرافیائی سہولت نہیں بلکہ ایک نادر قسم کی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔
یہ ماضی کی گہرائیوں میں جاتا ہے، موجودہ جغرافیائی و سیاسی توازن کی عکاسی کرتا ہے، اور مستقبل کے امریکا روس تعلقات کے ممکنہ خدوخال کی جھلک دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا
تاریخی یادداشت کے لحاظ سے امریکا میں کوئی اور جگہ ایسی نہیں جو ’ہمسائیگی‘ اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کی اُس روح کو اس قدر نمایاں کرے جو سرد جنگ کے دوران ختم ہو گئی۔
1737 سے 1867 تک یہ وسیع اور کم آبادی والا خطہ ’روسی امریکا‘ کہلاتا تھا، روسی سلطنت کا نیم دُورافتادہ حصہ، جو اپنے یوریشیائی مرکز سے الگ لیکن ایک اور ریاست کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔
زاریہ الیگزینڈر دوم کا الاسکا کو 72 لاکھ ڈالر میں امریکا کو فروخت کرنے کا فیصلہ 19ویں صدی کی سب سے زیادہ بحث انگیز سفارتی ڈیلز میں سے ایک تھا۔
اُس وقت سینٹ پیٹرزبرگ میں یہ بات واضح تھی کہ اگر الاسکا کو چھوڑ دیا گیا تو وہ برطانوی سلطنت کے ہاتھ لگ سکتا ہے، جو اُس وقت روس کی سب سے بڑی حریف تھی۔ چنانچہ اسے واشنگٹن کے حوالے کرنا کمزوری نہیں بلکہ مستقبل کے تعلقات میں ایک سرمایہ کاری سمجھی گئی۔
20ویں صدی میں یہ علامتی رشتہ ایک نئی معنویت اختیار کر گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران، فیئربینکس شہر، جس کی آبادی صرف تیس ہزار تھی، ’لینڈ-لیز‘ پروگرام کا ایک اہم مرکز بنا، جہاں سے امریکا نے سوویت یونین کو جہاز، سازوسامان اور مواد فراہم کیا۔ الاسکا کے ہوائی اڈے امریکی طیاروں کو مشرقی محاذ تک پہنچانے کے اہم راستے تھے۔
آج بھی الاسکا کو امریکا کی ’سب سے روسی‘ ریاست سمجھا جاتا ہے، جہاں 19ویں صدی میں مذہبی آزادی کی تلاش میں آنے والے ’اولڈ بیلیورز‘ آباد ہیں، اور جہاں آرتھوڈوکس چرچ، نیکولائیفسک اور ووزنی سینسک جیسے مقامات کے نام، اور روسی جھیلوں کے کنارے اب بھی موجود ہیں۔
لیکن الاسکا کا انتخاب صرف تاریخ کو سلامی نہیں، بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ ٹرمپ واضح طور پر یہ نہیں چاہتے کہ کسی تیسرے فریق جیسے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان یا متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان، جو اہم بین الاقوامی ثالثی کردار ادا کرتے ہیں، اجلاس کے ایجنڈے اور لہجے کو بدلیں۔
ٹرمپ نے امریکا کی سب سے جغرافیائی طور پر دُور دراز ریاست کا انتخاب کر کے اپنے ڈیموکریٹک حریفوں اور نیٹو اتحادیوں سے فاصلے کا اشارہ دیا ہے۔ ان اتحادیوں کی بڑی تعداد، کیف کے مفاد میں، کسی بھی ممکنہ پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی۔
عملی اعتبار سے بھی یہ فیصلہ موزوں ہے
الاسکا کی کم آبادی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے دہشتگردی یا کسی منصوبہ بند اشتعال انگیزی کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے گرفتاری وارنٹ کے قانونی مسائل سے بچاتی ہے۔ امریکہ 2002 میں روم اسٹیچیوٹ سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنی زمین پر ICC کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔
اس انتخاب کا ایک اور پہلو بھی ہے
الاسکا امریکہ کا واحد حقیقی آرکٹک خطہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ کینیڈا اور گرین لینڈ پر زیادہ امریکی اثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ’ہائی نارتھ‘ ایک اہم اسٹریٹجک میدان بن رہا ہے۔ روس اور امریکا کے یہاں مشترکہ مفادات ہیں، برنگ اسٹریٹ کے راستے ’شمالی سمندری راہداری‘ کی ترقی سے لے کر سمندری تیل و گیس کے ذخائر تک۔ لومانوسوف رِج، جسے روس اپنے براعظمی شیلف کا فطری حصہ قرار دیتا ہے، اس کی ایک مثال ہے۔
مشترکہ آرکٹک منصوبے اس خطے کو دنیا کے خوشحال ترین علاقوں میں بدل سکتے ہیں، یا پھر یہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات اور فضائی دفاعی مشقوں کا میدان بھی بن سکتا ہے۔
یوکرین کا مسئلہ اس اجلاس کے ایجنڈے پر غالب رہے گا۔ مغربی میڈیا نے پہلے ہی علاقائی تبادلوں کے امکان کی خبر دی ہے، مثلاً روس کی جانب سے سومی، خارکیف، دنیپروپیٹرووسک اور نکولائیف کے کچھ حصوں میں رعایت کے بدلے یوکرینی افواج کا دونیتسک عوامی جمہوریہ سے انخلا۔ مغربی تجزیہ کار بھی مانتے ہیں کہ یہ ماسکو کی بڑی سفارتی کامیابی ہوگی، کیونکہ روس جس غیر مقبوضہ علاقے پر قبضہ کرے گا وہ ان علاقوں سے چار گنا بڑا ہوگا جن سے وہ دستبردار ہوگا۔
الاسکا اس قسم کی بات چیت کے لیے موزوں علامتی پس منظر فراہم کرتا ہے
اس کی اپنی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ سرحدی ملکیت کوئی ابدی حقیقت نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی متغیر ہے جو مخصوص تاریخی مواقع پر بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے طے پاتا ہے۔
الاسکا میں ہونے والا یہ اجلاس محض دو رہنماؤں کی ملاقات نہیں بلکہ براہِ راست اور بلاواسطہ مکالمے کی واپسی، تاریخی روابط کی یاد دہانی، اور اس بات کا امتحان ہے کہ آیا ماسکو اور واشنگٹن اُن جگہوں پر ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جہاں اُن کے مفادات نہ صرف ملتے ہیں بلکہ یکساں بھی ہو سکتے ہیں۔
الاسکا کی کہانی روسی طور پر شروع ہوئی، امریکی طور پر جاری رہی — اور اب یہ ایک مشترکہ باب بن سکتی ہے، اگر دونوں فریق اسے موقع سمجھیں، خطرہ نہیں۔
تجزیہ نگار الیگزینڈر بوبروف تاریخ میں پی ایچ ڈی، انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک ریسرچ اینڈ فار کاسٹس کے شعبۂ سفارتی مطالعات کے سربراہ، کتاب The Grand Strategy of Russia کے مصنف، اور Diplomacy and the World ٹیلیگرام چینل کے منتظم ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الاسکا امریکا روس صدر پیوٹن صدر ٹرمپ مذاکرات یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الاسکا امریکا صدر پیوٹن مذاکرات یوکرین الاسکا کو نہیں بلکہ ہیں بلکہ کے لیے
پڑھیں:
واشنگٹن میں وفاقی پولیس کا پہلا آپریشن، قتل اور منشیات سمیت مختلف جرائم پر گرفتاریاں
وائٹ ہاؤس کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی پولیس کو وفاقی کنٹرول میں لینے کے بعد 23 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا میں احتجاج کا دائرہ بڑھ گیا، مظاہروں کو سختی سے کچلا جائیگا، صدر ٹرمپ
ترجمان کیرولین لیوٹ نے بتایا کہ یہ گرفتاریاں مختلف جرائم میں کی گئیں، جن میں قتل، منشیات کی اسمگلنگ، کرایہ چوری، نشے کی حالت میں گاڑی چلانا اور دیگر جرائم شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 6 غیر قانونی پستول بھی برآمد کی گئیں۔
لیوٹ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ تو صرف آغاز ہے۔ آئندہ ایک ماہ کے دوران، ٹرمپ انتظامیہ ہر اُس پرتشدد مجرم کو تلاش کرکے گرفتار کرے گی جو قانون توڑتا ہے، عوامی تحفظ کو نقصان پہنچاتا ہے اور قانون پر عمل کرنے والے امریکیوں کی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا میں ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے باہر شہریوں کا احتجاجی مظاہرہ
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے بھی گرفتاریوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو صرف شروعات ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اداروں نے مقامی پولیس کے ساتھ مل کر 23 گرفتاریاں کیں۔ جب اچھے پولیس اہلکاروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے، تو وہ ہمارے شہر کی سڑکوں کو صاف کر سکتے ہیں اور وہ بھی تیزی سے۔
یہ واضح نہیں کہ میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے وفاقی کنٹرول میں آنے سے پہلے عام طور پر ایک رات میں کتنی گرفتاریاں ہوتی تھیں، تاہم لیوٹ نے بتایا کہ پیر کی رات تقریباً 850 پولیس اہلکار اور وفاقی ایجنٹس واشنگٹن ڈی سی کی سڑکوں پر تعینات کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کیخلاف امریکا بھر میں احتجاج، مظاہرین کیا چاہتے ہیں؟
ٹرمپ نے دارالحکومت میں نیشنل گارڈ تعینات کرنے کی بھی منظوری دی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ پیر کے اعلان کے بعد کسی فوجی دستے نے ابھی تک واشنگٹن کا رخ کیا ہے یا نہیں۔
ٹرمپ نے پیر کو کہا یہ ڈی سی میں آزادی کا دن ہے اور ہم اپنا دارالحکومت واپس لے رہے ہیں۔ ہم اسے واپس لے رہے ہیں۔ میں نیشنل گارڈ کو تعینات کر رہا ہوں تاکہ واشنگٹن ڈی سی میں قانون و امان اور عوامی تحفظ کو بحال کیا جا سکے اور انہیں صحیح معنوں میں اپنا کام کرنے دیا جائے گا۔
اعداد و شمار کے مطابق، واشنگٹن ڈی سی کا شمار امریکا کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
یہ شہر امریکی حکومت کے کئی اہم اداروں اور عمارتوں کا مرکز ہے، جن میں وائٹ ہاؤس، کانگریس (کیپیٹول)، محکمہ انصاف، محکمہ خزانہ، محکمہ خارجہ، ایف بی آئی، خفیہ سروس اور دیگر شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پولیس صدر ٹرمپ واشنگٹن واشنگٹن ڈی سی