الاسکا کو 15 اگست 2025 کے ڈونلڈ ٹرمپ–ولادیمیر پوتن دوطرفہ اجلاس کے مقام کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ محض ایک جغرافیائی سہولت نہیں بلکہ ایک نادر قسم کی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔

یہ ماضی کی گہرائیوں میں جاتا ہے، موجودہ جغرافیائی و سیاسی توازن کی عکاسی کرتا ہے، اور مستقبل کے امریکا روس تعلقات کے ممکنہ خدوخال کی جھلک دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا

تاریخی یادداشت کے لحاظ سے امریکا میں کوئی اور جگہ ایسی نہیں جو ’ہمسائیگی‘ اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کی اُس روح کو اس قدر نمایاں کرے جو سرد جنگ کے دوران ختم ہو گئی۔

1737 سے 1867 تک یہ وسیع اور کم آبادی والا خطہ ’روسی امریکا‘ کہلاتا تھا، روسی سلطنت کا نیم دُورافتادہ حصہ، جو اپنے یوریشیائی مرکز سے الگ لیکن ایک اور ریاست کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔

زاریہ الیگزینڈر دوم کا الاسکا کو 72 لاکھ ڈالر میں امریکا کو فروخت کرنے کا فیصلہ 19ویں صدی کی سب سے زیادہ بحث انگیز سفارتی ڈیلز میں سے ایک تھا۔

اُس وقت سینٹ پیٹرزبرگ میں یہ بات واضح تھی کہ اگر الاسکا کو چھوڑ دیا گیا تو وہ برطانوی سلطنت کے ہاتھ لگ سکتا ہے، جو اُس وقت روس کی سب سے بڑی حریف تھی۔ چنانچہ اسے واشنگٹن کے حوالے کرنا کمزوری نہیں بلکہ مستقبل کے تعلقات میں ایک سرمایہ کاری سمجھی گئی۔

روس و امریکا کا مابین الاسکا کی خرید و فروخت سے متعلق حتمی مذاکرات مصور کی نظر کا منظر مصور کی آنکھ سے

20ویں صدی میں یہ علامتی رشتہ ایک نئی معنویت اختیار کر گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران، فیئربینکس شہر، جس کی آبادی صرف تیس ہزار تھی، ’لینڈ-لیز‘ پروگرام کا ایک اہم مرکز بنا، جہاں سے امریکا نے سوویت یونین کو جہاز، سازوسامان اور مواد فراہم کیا۔ الاسکا کے ہوائی اڈے امریکی طیاروں کو مشرقی محاذ تک پہنچانے کے اہم راستے تھے۔

آج بھی الاسکا کو امریکا کی ’سب سے روسی‘ ریاست سمجھا جاتا ہے، جہاں 19ویں صدی میں مذہبی آزادی کی تلاش میں آنے والے ’اولڈ بیلیورز‘ آباد ہیں، اور جہاں آرتھوڈوکس چرچ، نیکولائیفسک اور ووزنی سینسک جیسے مقامات کے نام، اور روسی جھیلوں کے کنارے اب بھی موجود ہیں۔

لیکن الاسکا کا انتخاب صرف تاریخ کو سلامی نہیں، بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ ٹرمپ واضح طور پر یہ نہیں چاہتے کہ کسی تیسرے فریق جیسے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان یا متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان، جو اہم بین الاقوامی ثالثی کردار ادا کرتے ہیں، اجلاس کے ایجنڈے اور لہجے کو بدلیں۔

ٹرمپ نے امریکا کی سب سے جغرافیائی طور پر دُور دراز ریاست کا انتخاب کر کے اپنے ڈیموکریٹک حریفوں اور نیٹو اتحادیوں سے فاصلے کا اشارہ دیا ہے۔ ان اتحادیوں کی بڑی تعداد، کیف کے مفاد میں، کسی بھی ممکنہ پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی۔

عملی اعتبار سے بھی یہ فیصلہ موزوں ہے

الاسکا کی کم آبادی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے دہشتگردی یا کسی منصوبہ بند اشتعال انگیزی کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے گرفتاری وارنٹ کے قانونی مسائل سے بچاتی ہے۔ امریکہ 2002 میں روم اسٹیچیوٹ سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنی زمین پر ICC کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔

اس انتخاب کا ایک اور پہلو بھی ہے

الاسکا امریکہ کا واحد حقیقی آرکٹک خطہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ کینیڈا اور گرین لینڈ پر زیادہ امریکی اثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ’ہائی نارتھ‘ ایک اہم اسٹریٹجک میدان بن رہا ہے۔ روس اور امریکا کے یہاں مشترکہ مفادات ہیں، برنگ اسٹریٹ کے راستے ’شمالی سمندری راہداری‘ کی ترقی سے لے کر سمندری تیل و گیس کے ذخائر تک۔ لومانوسوف رِج، جسے روس اپنے براعظمی شیلف کا فطری حصہ قرار دیتا ہے، اس کی ایک مثال ہے۔

مشترکہ آرکٹک منصوبے اس خطے کو دنیا کے خوشحال ترین علاقوں میں بدل سکتے ہیں، یا پھر یہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات اور فضائی دفاعی مشقوں کا میدان بھی بن سکتا ہے۔

یوکرین کا مسئلہ اس اجلاس کے ایجنڈے پر غالب رہے گا۔ مغربی میڈیا نے پہلے ہی علاقائی تبادلوں کے امکان کی خبر دی ہے، مثلاً روس کی جانب سے سومی، خارکیف، دنیپروپیٹرووسک اور نکولائیف کے کچھ حصوں میں رعایت کے بدلے یوکرینی افواج کا دونیتسک عوامی جمہوریہ سے انخلا۔ مغربی تجزیہ کار بھی مانتے ہیں کہ یہ ماسکو کی بڑی سفارتی کامیابی ہوگی، کیونکہ روس جس غیر مقبوضہ علاقے پر قبضہ کرے گا وہ ان علاقوں سے چار گنا بڑا ہوگا جن سے وہ دستبردار ہوگا۔

الاسکا اس قسم کی بات چیت کے لیے موزوں علامتی پس منظر فراہم کرتا ہے

اس کی اپنی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ سرحدی ملکیت کوئی ابدی حقیقت نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی متغیر ہے جو مخصوص تاریخی مواقع پر بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے طے پاتا ہے۔

الاسکا میں ہونے والا یہ اجلاس محض دو رہنماؤں کی ملاقات نہیں بلکہ براہِ راست اور بلاواسطہ مکالمے کی واپسی، تاریخی روابط کی یاد دہانی، اور اس بات کا امتحان ہے کہ آیا ماسکو اور واشنگٹن اُن جگہوں پر ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جہاں اُن کے مفادات نہ صرف ملتے ہیں بلکہ یکساں بھی ہو سکتے ہیں۔

الاسکا کی کہانی روسی طور پر شروع ہوئی، امریکی طور پر جاری رہی — اور اب یہ ایک مشترکہ باب بن سکتی ہے، اگر دونوں فریق اسے موقع سمجھیں، خطرہ نہیں۔

تجزیہ نگار الیگزینڈر بوبروف تاریخ میں پی ایچ ڈی، انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک ریسرچ اینڈ فار کاسٹس کے شعبۂ سفارتی مطالعات کے سربراہ، کتاب The Grand Strategy of Russia کے مصنف، اور Diplomacy and the World ٹیلیگرام چینل کے منتظم ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الاسکا امریکا روس صدر پیوٹن صدر ٹرمپ مذاکرات یوکرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الاسکا امریکا صدر پیوٹن مذاکرات یوکرین الاسکا کو نہیں بلکہ ہیں بلکہ کے لیے

پڑھیں:

بچن فیملی ایک ساتھ دو گھڑیاں کیوں پہنتی ہے؟

بالی ووڈ کے معروف اداکار ابھیشیک بچن نے دونوں ہاتھوں میں گھڑی پہننے کی وجہ بیان کردی۔ بولی ووڈ اداکار ابھیشیک بچن کا کہنا ہے کہ وہ دو گھڑیاں پہنتے ہیں اور اپنی زندگی میں وقت کی طرح خاندان کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ ایک خصوصی انٹرویو میں اداکار نے فلموں، فیملی اور گھڑیوں کے شوق سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ابھیشیک بچن کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ ایسی فلمیں چنتے ہیں جو انہیں بطور اداکار متاثر کریں اور ناظرین کے دل میں جگہ بنائیں۔ ان کے مطابق، “میں زیادہ سلیکٹیو نہیں ہوں، میں وہی فلم کرتا ہوں جو مجھے اندر سے متاثر کرے۔”

اداکار نے بتایا کہ ان کی فلم ”گھومر“ دوبارہ سینما گھروں میں ریلیز کی گئی ہے، جو بھارتی خواتین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کے اعزاز میں کیا گیا قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”یہ ہماری جانب سے ان بہادر خواتین کو خراجِ تحسین ہے جنہوں نے ورلڈ کپ جیت کر ملک کا نام روشن کیا۔“

ابھیشیک بچن نے کہا کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے کہانی سنانے کا انداز بدل دیا ہے اور یہ نئی نسل کے فنکاروں، ہدایتکاروں اور مصنفین کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔ ان کے مطابق، “یہ ایک مثبت قدم ہے، اب ہر ہنر مند کو اپنی صلاحیت دکھانے کا پلیٹ فارم مل رہا ہے۔”

البتہ ان کا ماننا ہے کہ سینما کی جادوگری کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ “فلم دیکھنے کا مزہ بڑے پردے پر ہی ہے، یہ روایت کبھی نہیں مٹے گی۔”

خاندان اور ذاتی زندگی
اداکار نے بتایا کہ مصروف شیڈول کے باوجود وہ ہمیشہ اپنے خاندان کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “جب میں کام نہیں کر رہا ہوتا تو فیملی کے ساتھ وقت گزارتا ہوں۔ میرے لیے اصل لگژری یہ ہے کہ سب ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھائیں، یہی سب سے قیمتی لمحہ ہوتا ہے۔”

گھڑیوں کا شوق کیوں؟
ابھیشیک بچن نے بتایا کہ انہیں گھڑیوں کا شوق اپنے والد امیتابھ بچن سے وراثت میں ملا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، “میرے والد پہلے دو گھڑیاں پہنا کرتے تھے، اب عمر کی وجہ سے نہیں پہنتے، مگر میں نے یہ عادت سنبھال لی ہے۔ میں بھی اب دو گھڑیاں پہنتا ہوں، ایک بھارتی وقت کی اور دوسری سوئس وقت کی، یہ میری ماں (جیا بچن) کو خراجِ عقیدت ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس او میگا برانڈ کی 40 سے زائد گھڑیاں ہیں، جن میں سے کچھ انہیں تحفے میں ملی ہیں جبکہ کئی انہوں نے خود خریدی ہیں۔

ابھیشیک بچن نے بتایا کہ “گھڑی میرے لیے صرف ایک چیز نہیں، بلکہ یادوں، درستگی اور خوبصورتی کی علامت ہے۔” اداکار کا ماننا ہے کہ وقت کی قدر اور خاندان کے ساتھ لمحے گزارنا ہی زندگی کی اصل کامیابی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے غزہ استحکام فورس کے قیام کیلئے نئی ترمیم شدہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کردی
  • پیوٹن کا ’سوجا اور زخمی‘ ہاتھ، روسی صدر کس بیماری کا شکار ہوگئے؟
  • وانا، اسلام آباد حملے بھارت اور افغان طالبان گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں، دفاعی تجزیہ کار
  • ٹرمپ سے  شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ
  • احمد الشرع کی ٹرمپ سے ملاقات، امریکا نے شام پر عائد پابندیاں عارضی طور پر ختم کردیں
  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • صدر ٹرمپ سے نہیں ڈرتا، زیلنسکی
  • عدالتی حکم کے باوجود وزیراعلیٰ کے پی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پرتوہین عدالت کی درخواست دائر
  • بچن فیملی ایک ساتھ دو گھڑیاں کیوں پہنتی ہے؟
  • شامی صدر پہلے سرکاری دورے پر امریکا پہنچ گئے‘ ٹرمپ سے آج ملاقات ہوگی