بھارت کے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن کے رئیلٹی شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں بھارت کے یوم آزادی کے حوالے سے ریکارڈ کیے گئے شو کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔

شو میں کرنل صوفیہ قریشی، ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ اور کمانڈر پرینا دیوسھالی کو خوش آمدید کہا گیا۔ کلپ کا آغاز کرنل صوفیہ کے ساتھ ہوا جو ہاٹ سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ امیتابھ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’پاکستان یہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ تو جواب دینا بنتا تھا سر۔ اسی لیے آپریشن سندور کو پلان کیا گیا‘۔ امیتابھ نے ان کی بات سنی اور سر ہلا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’سندور بن گیا تندور‘، بھارت کے آپریشن سندور پر پاکستانی صارفین کے دلچسپ تبصرے

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین اس کا مذاق اڑاتے نظر آئے، پاکستانی صارفین کا کہنا تھا کہ جنگ ہارنے کے بعد یہ ٹی وی شو پر پاکستان سے مقابلہ کریں گے جبکہ بھارتی صارفین نے مودی کی سیاست کو شرمناک اور بےہودہ قرار دیا۔

ایک بھارتی صارف نے کہا کہ کیا آپ نے کبھی کسی سنجیدہ ملک میں فوجی کارروائی کے بعد اس طرح کی کوئی بات دیکھی ہے؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی حاضر سروس شخص کے لیے اس سب کی اجازت دی جائے؟

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت بے شرمی کے ساتھ ہمارے فوجیوں کو اپنی چھوٹی موٹی سیاست اور حد سے زیادہ قوم پرستی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

Have you ever seen anything like this after a military operation in any serious country?

How is this even allowed for someone in service?

The current regime is shamelessly using our forces for its petty politics and hyper nationalism.

pic.twitter.com/ejNKPP9BRQ

— Mohit Chauhan (@mohitlaws) August 12, 2025

ایک صارف نے کہا کہ ہم ایک فوجی آپریشن کو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ جیسے شو پر فلم کی طرح کیوں پروموٹ کر رہے ہیں۔ یہ بہت عجیب ہے۔

this is weird..why are we promoting a millitary operation like a movie on KBC..embarrassing https://t.co/20AX0Emtcq

— Radical Centrist (@swatantra54) August 13, 2025

ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ تین مسلح افواج کے افسر مکمل وردی میں ایک نجی تفریحی چینل کے گیم شو میں شرکت کریں گے اور ایک بالی ووڈ اداکار کو یہ سمجھائیں گے کہ ایک فوجی آپریشن کیوں ترتیب دیا گیا تھا۔ کوئی سنجیدہ ملک ایسی اجازت نہیں دیتا، مگر یہ نیا بھارت ہے، نریندر مودی کی قیادت میں۔

Three Officers of the Armed Forces will attend a game show in a private entertainment channel, dressed in full uniform and explain to a Bollywood star why a Military Operation was planned. No serious country will permit this but then this is New India under Narendra Modi pic.twitter.com/QAofpQpjJV

— Joy (@Joydas) August 12, 2025

ڈاکٹر یادیو نے لکھا کہ یہ حکومت اب تک کی سب سے بے شرم حکومت ہے۔ انہوں نے ہماری فوجی جوانوں کو مودی کی پی آر کے لیے ایک ٹی وی شو میں بھیجا ہے جو شرمناک بات ہے۔

This govt is most shameless govt ever.

They have sent our army personnels to a TV show for Modi’s PR.

Pathetic

pic.twitter.com/SLb8adTnil

— Dr Nimo Yadav 2.0 (@DrNimoYadav) August 12, 2025

سعدیہ خالد نے لکھا کہ آپریشن سندور والے بیانیے کی شکست کا اتنا خوف کہ مودی نے اپنی تینوں افواج کے افسران مکمل یونیفارم میں آپریشن سندور کی جھوٹی بالی ووڈ اسٹوری سنانے پرائیویٹ چینل کے پلانٹڈ ٹی وی شو پر پہنچا دیے۔

پاکستانی ISPR سے بیانئے کی شکست نے مودی کی مت مار دی!

آپریشن سیندور والے بیانئے کی شکست کا اتنا خوف کہ جوکر مودی نے اپنی تینوں افواج کے افسران مکمل یونیفارم میں آپریشن سیندور کی جھوٹی بالی ووڈ سٹوری سنانے پرائیویٹ چینل کے پلانٹڈ ٹی وی شو پر پہنچا دئیے ???? pic.twitter.com/QbbfbSD9yo

— Sadia Khalid (@SadiasOfficial) August 13, 2025

راجہ عاصم نے کہا کہ انڈین آرمی آفیسرز پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد کون بنے گا کروڑ پتی پروگرام میں شرکت کررہے ہیں اس ٹی وی پروگرام میں پاکستان سے مقابلہ کریں گے۔

انڈین آرمی آفیسرز پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد کون بنے گا کروڑ پتی پروگرام میں شرکت کررہے ہیں اس ٹی وی پروگرام میں پاکستان سے مقابلہ کریں گے

نان پروفیشنل آرمی یے عجیب اوٹ پٹانگ حرکتیں کررہے ہیں

انڈین عوام بھی کتنی بیوقوف جاہل یے
جنگ ہارنے کے بعد خوش ہےpic.twitter.com/1w16Oax4Ax

— Raja Asim (@rajaasim313) August 13, 2025

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آپریشن سندور بھارتی افواج پاکستانی افواج

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارتی افواج پاکستانی افواج ہارنے کے بعد ٹی وی شو پر پاکستان سے نے کہا کہ کریں گے مودی کی کے لیے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں؟

خیبرپختونخوا میں شدید بے امنی کے دوران رائے اس بات پر واضح طور پر منقسم ہے کہ قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں۔

ایک رائے یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے سوا کوئی اور حل موجود نہیں، اور آپریشن ہی آخری راستہ ہے۔ ان کے مطابق، طاقت کا استعمال ہی وہ ذریعہ ہے جو دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑ سکتا ہے اور عوام کو فوری ریلیف دے سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب، فوجی آپریشنز کے خلاف مقامی سطح پر کیے جانے والے مظاہروں (امن مارچ) میں یہ مطالبہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اگر آپریشن ہی آخری حل ہے تو یہ وضاحت دی جائے کہ اب تک کیے گئے بائیس بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود امن کیوں قائم نہیں ہو سکا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال کے باوجود اگر پائیدار امن حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حکمتِ عملی میں بنیادی خامی موجود ہے۔ خیبر پختونخوا کے بندوبستی اور قبائلی اضلاع میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر 7نکات پر عمل درآمد کیا جائے تو امن و امان کے قیام کی تمام کوششوں پر کافی حد تک اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔

ملک کی سطح پر ایک جامع گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تمام فریقین اور جملہ شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے ایک نیا نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جائے۔ اس ڈائیلاگ میں صرف دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسی نہیں بلکہ اس کے اسباب، خطے کی سماجی و معاشی صورتحال، اور پڑوسی ممالک سے تعلقات کے اثرات پر بھی کھل کر بحث کی جائے۔ فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فوجی آپریشن کسی اور مقصد یا کسی کے ایما پر نہیں بلکہ خالصتاً دہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے، اور اس بار اس میں کسی بھی ’اچھے‘ یا ’بُرے‘ طالبان کی تمیز نہیں کی جائے گی۔ ماضی میں ’اچھے‘ اور ’برے‘ طالبان کی پالیسی نے عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا، اس لیے اس بار شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ جامع فوجی کارروائی (کائنیٹک ایکشن) کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں غیر فوجی اقدامات (نان کائنیٹک ایکشن) بھی ضروری ہیں۔ تمام قبائلی اضلاع میں 2008ء کے بعد فوجی آپریشنز تو باقاعدگی سے ہوئے، لیکن بحالی، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، بہتر طرزِ حکومت کے نفاذ اور مقامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے، جس کے باعث مسائل حل ہونے کے بجائے مزید سنگین ہوگئے۔ مثال کے طور پر، بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان آج بھی مستقل رہائش اور روزگار کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے مقامی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ سیکورٹی فورسز کسی بھی طور اندرونی سلامتی کی براہِ راست ذمہ دار نہیں، لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قابل ہیں کہ داخلی سلامتی کے مسائل مؤثر طریقے سے حل کرسکیں؟ فی الحال، پولیس فورس کی تربیت، وسائل اور ٹیکنالوجی کے معیار میں نمایاں کمی ہے، جو دہشت گردوں کے جدید نیٹ ورک سے نمٹنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ داخلی سلامتی بہتر بنانے کے لیے پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں سرمایہ کاری اور ان کی استعدادِ کار میں اضافہ ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب مکمل طور پر سامنے آنا ہوگا۔ خاص طور پر 3 بڑی جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، کو باہمی اختلافات ختم کرکے اسٹریٹیجک نکات پر اتفاق کرنا ہوگا۔ انہیں سیکیورٹی فورسز کے پیچھے نہیں بلکہ فرنٹ پر آ کر، پالیسی کے مطابق، قیادت سنبھالنی ہوگی۔ اگر یہ سیاسی قوتیں سیکیورٹی ایجنڈے پر یکساں موقف اپنائیں تو نہ صرف عوام کا اعتماد بڑھے گا بلکہ دہشت گرد گروپوں کو بھی واضح پیغام ملے گا کہ ریاست ایک پیج پرہے۔ پچھلی 2دہائیوں سے جاری فوجی آپریشنز میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عوام نے اٹھایا ہے۔ اگر فوجی کارروائی کے دوران صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے تو عوام ان آپریشنز کی باقاعدہ حمایت کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے شہری علاقوں میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کو ترجیح دی جائے اور بے گناہ شہریوں کے نقصان کو ہرممکن حد تک روکا جائے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے ریاستی کوششوں میں مقامی لوگوں کی رائے کو مقدم رکھا جائے، اور ریاستی فیصلوں میں ان دونوں صوبوں کے آئینی حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ گیس، بجلی اور دیگر قدرتی وسائل سے متعلق فیصلوں میں مقامی آبادی کو لازماً شامل کیا جائے۔ اس شمولیت سے نہ صرف عوامی اعتماد بڑھے گا بلکہ وسائل کے منصفانہ استعمال سے احساسِ محرومی میں بھی کمی آئے گی۔

آخر میں، یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ محض بندوق اور گولی سے امن قائم نہیں ہوتا۔ امن اس وقت پائیدار بنتا ہے جب طاقت کے ساتھ انصاف، معاشی ترقی اور عوامی شمولیت کا امتزاج پیش کیا جائے۔ اگر ریاست یہ جامع حکمتِ عملی اپنائے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک نئے دور کے آغاز کی امید کی جا سکتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لحاظ علی، پشاور

خیبرپختونخوا سیاسی جماعتیں فوجی آپریشن قیام امن

متعلقہ مضامین

  • پرینکا گاندھی کا فلسطین کے حق میں بیان، بھارت میں اسرائیلی سفیر نے شرمناک قرار دے دیا
  • بھارتی فوجی افسران کی ٹی وی شو میں شرکت پر تنقید، مودی حکومت پر فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام
  • غزہ پر اسرائیلی مظالم پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک اور مجرمانہ ہے، پریانکا گاندھی 
  • غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے، پرینکا گاندھی
  • ’لاجز کے دروازے، کھڑکیاں تک مرمت نہیں کروا سکتا‘، خواجہ آصف نے اپنی بے بسی کا اظہار کردیا
  • 100 سال قبل کیمرے کیسے کام کرتے تھے، دلچسپ ویڈیو
  • خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں؟
  • اترکاشی سانحہ: مودی راج کی نااہلی اور فوجی نقصانات چھپانے کی ناکام کوشش
  • آپریشن سندور غلط چال، معلوم ہی نہیں تھا پاکستان کا ردعمل اتنا تباہ کن ہوگا ، بھارتی آرمی چیف