WE News:
2025-11-12@05:48:01 GMT

مودی کی 56 انچ کی چھلنی چھاتی اور جھکی جھکی نگاہیں

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں نے طاقت کے ریجنل مراکز میں سرگرمیوں کو تیز کر دیا ہے۔ انڈین نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے ماسکو کا دورہ ( 5۔ 7 اگست) کیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف بھی روسی قیادت سے ملاقات کے لیے ماسکو میں موجود تھے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر 2 ماہ سے کم مدت میں دوبارہ امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں۔ فلوریڈا میں سنٹ کام کمانڈ تبدیلی کی تقریب میں فیلڈ مارشل شرکت کریں گے۔

31 اگست سے 1 ستمبر تک چین کے شہر تیانجن میں ایس سی او کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے انڈین وزیراعظم نریندر مودی  7 سال بعد چین کا دورہ کریں گے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی 20 اگست سے پاکستان کا دورہ کریں گے۔ و انگ یی کا دورہ چین پاکستان اسٹریٹیجک ڈائلاگ کے لیے ہو رہا ہے۔ روسی صدر پیوٹن اگست کے آخر میں متوقع طور پر انڈیا کے دورے پر آ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کپتان کی گرفتاری کی برسی، رہائی کے لیے ختم شریف ٹرائی کریں

ہمارا بھارت مہان امریکی ٹیرف سے بچنے کی کوشش میں ناکام رہا ہے۔ امریکا نے جنوبی ایشیا میں پاکستان پر 19 فیصد، بنگلہ دیش اور سری لنکا پر 20 فیصد جبکہ بھارت پر مجموعی طور پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے۔ 25 فیصد اضافی ٹیرف روس سے تیل کی خریداری کرنے کی وجہ سے عائد کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ امریکا کی طرف سے سرکاری طور پر یہ بتائی گئی کہ بھارت نے یوکرین جنگ کے بعد ماسکو کو الگ تھلگ کرنے کی امریکی اپیلوں کو نظرانداز کرکے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی۔

بھارت یوکرین جنگ پر غیر جانبدار رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ بھارت اپنی ضرورت کا 35 فیصد خام تیل رعایتی نرخوں پر روس سے خریدتا ہے۔ اس تیل سے بھارت نے 3 سال میں 17 ارب ڈالر بچت کی ہے ۔ روس سے خریداری بند کر کے اگر بھارت دوسرے ذرائع سے تیل خریدے تو اس کا امپورٹ بل 11 ارب ڈالر سالانہ بڑھ جائے گا۔ بھارتی صارفین کو مہنگا تیل خریدنا پڑے گا۔ بھارت کی جانب سے ایرانی اور وینزویلا کے تیل کی درآمد میں کمی، امریکی تیل کی خرید میں اضافہ اور کچھ اشیا پر ٹیرف میں کمی جیسے اقدامات بھی پابندیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔

انٹیلی جنس آن لائین کی ایک رپورٹ کے مطابق ’الیکٹرانک وارفیئر کے انڈین ماہرین نے رافیل کی الیکٹرانک شیلڈ کے تجزیے کے لیے فرانس سے رابطہ کیا ہے ۔ فرانس کے الیکٹرانک وارفیئر پروگرامنگ اینڈ ٹریننگ اسکواڈرن کی ٹیم انڈین درخواست پر تحقیق کر رہی ہے۔ رافیل طیاروں میں نصب کارڈز سے حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے وجوہات کا تعین کیا جا رہا ہے۔ رافیل میں سپیکٹرا الیکٹرانک وارفیئر سوٹ نصب ہے‘۔

فرنچ ایئر فورس اور اسپیس فورس کے حکام بھی رافیل کے گرنے اور سپیکٹرا کے، توقعات کے مطابق کام نہ کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔ رافیل کو ایئر شوز میں دنیا کے بہترین فائٹر جیٹ اور الیکٹرانک وارفیئر سوٹ اسپیکٹرا رکھنے والے لڑاکا طیارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فرنچ ماہرین کے مطابق پاکستان نے مختلف اقسام کے سسٹم کے مربوط استعمال سے رافیل کو نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیے: بھینس کا یار لیڈر

رافیل کے الیکٹرانک سوٹ پر کئی جانب سے الیکٹرانک دباؤ ڈالا گیا۔ اس سے رافیل کے سپیکٹرا نظام کی خطرے کی شناخت کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسپیکٹرا کا خود کار سسٹم، بروقت مخالف سگنل کو شناخت کرنے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے وہ حملے سے نہ بچاؤ کرسکا اور نہ ہی اس کا توڑ کرسکا۔ فرنچ ماہرین کے مطابق، پاکستان کا الیکٹرانک حملہ اس شدت کا تھا کہ رافیل کے ڈیٹا لنک میں بار بار رکاوٹ آئی اور وہ ٹارگٹ لاک کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اس ناکامی کی وجہ سے اب اسپیکٹرا نظام کی صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

فرنچ ماہرین کا ماننا ہے کے رافیل اور سپیکٹرا کی ناکامی سے زیادہ یہ انڈین انٹیلیجنس کی ناکامی ہے۔ انڈیا کے پاس روسی، فرنچ، یورپی اور کسی حد تک امریکی طیاروں کے متعلق معلومات موجود تھیں۔ پاکستانی ایئر فورس کی صلاحیت اور چینی طیاروں کے حوالے سے انڈیا کے پاس انٹیلیجنس معلومات موجود نہیں تھیں۔

سگنل انٹیلی جنس اور الیکٹرانک وارفیئر کے انڈین ڈیٹا بیس میں چینی عسکری آلات کے حوالے سے معلومات بھی  نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستانی پائلٹ دوست ملکوں کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں رافیل کی صلاحیت بھی جانچ چکے تھے۔ رافیل کی فسٹ ہینڈ جانکاری پاکستان ایئر فورس کے پاس موجود تھی۔

مزید پڑھیں: ڈونگا گلی سے کابل، پشاور اور سینیٹ الیکشن تک

کہتے ہیں کب جب رب کسی کے خلاف ہوتا ہے تو اس کے پیچھے ڈانگ لے کر نہیں آتا۔ اس کی بس مت ہی مارتا ہے۔ سرینڈر مودی کی بس مت ہی ماری گئی تھی۔ اب اپنی 56 انچ کی چھلنی چھاتی اور جھکی جھکی نگاہیں لے کر مودی مہاراج چین جا رہے ہیں۔ یورپ امریکا جانے کو ان کا دل نہیں کرتا اب۔ ویسے آپس کی بات ہے حوالدار بشیر کے ساتھ پاکستانیوں کے ہنسی مذاق کبڈی اور غصے کا مودی نے غلط حساب لگایا۔ اب جب اسے ہاتھ لگے ہیں تو خوار پھر رہا ہے۔ ہمارا ویسے پوچھنا بنتا ہے کے ہنڑ آرام اے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

امریکا امریکی ٹیرف بھارت فرنچ ایئر فورس مودی مودی کی چھاتی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا امریکی ٹیرف بھارت فرنچ ایئر فورس مودی کی چھاتی الیکٹرانک وارفیئر ایئر فورس کی صلاحیت کی وجہ سے رافیل کے کے مطابق کا دورہ رہے ہیں رہا ہے کے لیے تیل کی

پڑھیں:

ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق

ریاض احمدچودھری

تقسیم ہند کے وقت ریاست جونا گڑھ کے حکمران نواب سر مہابت خانجی نے مملکت خدادا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ انکا یہ فیصلہ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے عین مطابق تھا جس میں562ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ نواب سر مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جونا گڑھ کی اسٹیٹ کونسل کے سامنے جو مسلمانوں، ہندوئوں، پارسیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی پیش کیا جس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ منظور کیا۔یوں 15ستمبر1947 کو الحاق کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے قائداعظم محمد علی جنا ح نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے جبکہ ریاست جونا گڑھ کی طرف سے نواب مہابت خانجی نے دستخط کئے۔ پاکستان کی اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے اس الحاق کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ بھارت جس نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔ کانگریسی رہنمائوں نے نواب صاحب کو مختلف ترغیبات دے کر اس فیصلے کو تبدیل کرانے کی بے انتہا کوششیں کیں حتیٰ کہ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا مگر نواب جونا گڑھ ثابت قدم رہے۔ نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔ حکومت ہندوستان نے اسے مجاہد آزادی کا خطاب دیا موجودہ دور میں لاتعداد اسکول، کالج اور ہسپتال اس کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔
بھارتی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اس نے ریاست جونا گڑھ کی آئینی اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے اور ریاست پر غیر قانونی تسلط جمانے کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ بعد ازاں9 نومبر 1947 کو بھارت نے جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے بل پر تسلط قائم کیا۔ بھارتی فوجیوں نے جونا گڑھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور مسلمانوں کی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا۔حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت پر سخت احتجاج کیا اور اپنا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس منعقدہ 11فروری 1948 میں پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ بھارت جونا گڑھ سے اپنی فوجیں واپس بلائے تاہم بھارت ٹس سے مس نہ ہوا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے فروری 1971 میں جونا گڑھ کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر سے منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور بے اصولی کے باعث اس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔بھارت نے جونا گڑھ پر غاصبانہ قبضے کے وقت یہ دلیل دی تھی کہ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر بھارت سے متصل ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ متصل ہے اور جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند ہیں ، پر بھی بھارت گزشتہ 78برس سے قابض ہے اور کشمیری بھارتی تسلط سے آزادی کے مطالبے کی پاداش میں روز بھارتی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی محمیہ ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جواہر لال نہرو (14 فروری 1950ء ) کو خط لکھا جس میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے جونا گڑھ پر پاکستان کا سرکاری موقف واضح کیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ سلامتی کونسل میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بعد جونا گڑھ کے مسئلے پر بات کی جائے گی۔”یہ بتانا ضروری ہے کہ جوناگڑھ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد نمٹا جائے گا اور اسے ایک مردہ مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا”ـ
بد قسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن کشمیری آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے بھارتی الزامات کے جواب میں درج کروائی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان نے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر پر بات نہیں کی تھی بلکہ اس کے علاوہ جونا گڑھ سمیت پاکستان کے بھارت کے ساتھ متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ حل طلب تھے۔

متعلقہ مضامین

  • سازش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، دہلی کار دھماکہ پر نریندر مودی کا ردعمل
  • ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ
  • نئی دہلی دھماکا، عینی شاہد نے مودی سرکار کی کہانی جھوٹی ثابت کردی
  • مودی حکومت مشکل میں؟ کانگریس کا دہلی کار دھماکے کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار
  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • راہل گاندھی نے دہلی میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا
  • بہار انتخابات، مودی پر ووٹ خریدنے کے سنگین الزامات
  • بہار انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی، مودی پر ووٹ خریدنے کے سنگین الزامات
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل