فروری 2022 سے جاری یوکرین جنگ کے خاتمے کے امکانات پر بات چیت کی غرض سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جمعہ کے روز الاسکا میں ملاقات کریں گے، جو کئی ناکام مذاکراتی ادوار، ٹیلی فونک رابطوں اور سفارتی دوروں کے بعد ہو رہی ہے جن میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

جولائی 2025 میں ترکی کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان 3 مذاکراتی ادوار ہوئے، جن میں قیدیوں کے تبادلے اور لاشوں کی واپسی پر تو اتفاق ہوا، مگر جنگ بندی طے نہ ہو سکی، یہ جنگ اب تک لاکھوں فوجیوں اور شہریوں کی جان لے چکی ہے اور دونوں یورپی ہمسایہ ممالک کی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ اور پیوٹن کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے بعد تاریخی ملاقات الاسکا میں ہوگی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ الاسکا سمٹ میں ان کی ملاقات ایک ’ابتدائی جانچ‘ ہو گی تاکہ دیکھا جا سکے کہ پیوٹن امن معاہدے پر راضی ہیں یا نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کا ہدف ایسا ’مذاکراتی تصفیہ‘ ہے جو روس اور یوکرین دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاہم اس بات کا یقین نہیں کہ یہ ملاقات جنگ کے خاتمے کو قریب لا سکے گی۔

مزید پڑھیں:یورپی رہنماؤں کا یوکرین کے حق میں اظہارِ یکجہتی، ٹرمپ پیوٹن ملاقات سے قبل خدشات میں اضافہ

سیاسی تجزیہ کار میخائل الیکسیف کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ قابلِ عمل راستہ وہ ہو گا اگر صدر پیوٹن امریکی صدر ٹرمپ کی 30 دن کی غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیں، جس پر یوکرین پہلے ہی آمادہ ہے۔

’یہ اس پر منحصر ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات، جن میں روس کے قریب ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی کی دھمکی، بھارت پر روسی توانائی خریدنے پر اضافی محصولات، اور نیٹو کے ساتھ یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ شامل ہے، پیوٹن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ مغرب پہلے سے زیادہ یوکرین کی پشت پناہی کرے گا یا نہیں۔‘

سفارتی سرگرمیوں میں تیزی

متوقع ملاقات کی جگہ یعنی الاسکا کو دونوں ممالک کے لیے خصوصی اہمیت حاصل ہے، روسی صدر پیوٹن پہلی بار اس علاقے کا دورہ کریں گے جو 1867 تک روسی سلطنت کا حصہ تھا اور بعد میں امریکا نے اسے 72 لاکھ ڈالر میں خرید لیا تھا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے ملاقات کے مقام کے اعلان کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ’منصفانہ امن‘ کے لیے امریکی کوششوں کی حمایت کی ہے، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے چار دنوں میں 13 عالمی رہنماؤں سے ملاقات یا گفتگو کی، جبکہ پیوٹن نے چین، بھارت، برازیل اور سابق سوویت ریاستوں کے رہنماؤں سے رابطے کیے۔

مزید پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا

جرمنی بدھ کو یورپی رہنماؤں کا ورچوئل اجلاس بلا رہا ہے تاکہ صدر ٹرمپ سے یورپی رابطے سے قبل روس پر دباؤ بڑھانے کی حکمتِ عملی پر بات کی جا سکے۔

صدر ٹرمپ کا متنازع زمین کے تبادلے کا منصوبہ

صدر ٹرمپ نے ملاقات سے قبل جنگ کے خاتمے کے لیے ’زمین کے تبادلے‘ کی تجویز دی، جسے زیلنسکی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اس منصوبے کے مطابق روس ڈونباس پر قبضہ برقرار رکھے گا جبکہ کچھ دیگر علاقوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ یوکرین کی خودمختاری کو نقصان پہنچائے گا اور روسی جارحیت کو جواز فراہم کرے گا۔

سلامتی کی ضمانتیں: اسرائیل یا تائیوان کی طرز پر؟

روس اس بات پر بھی زور دے رہا ہے کہ یوکرین مستقبل میں غیرجانبدار رہے، نیٹو میں شمولیت ترک کرے اور اپنی فوجی صلاحیت محدود کرے۔ مگر ماہرین کے مطابق یوکرین کی آئینی طور پر نیٹو میں شمولیت کی خواہش موجود ہے، اور پارلیمنٹ یا عوام اسے ترک کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نیٹو رکنیت نہ بھی دی جائے تو یوکرین کو امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسی مضبوط سیکیورٹی ضمانتیں ملنی چاہییں جو 1994 کے بڈاپیسٹ میمورنڈم سے کہیں زیادہ موثرہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الاسکا امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الاسکا امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ولادیمیر پیوٹن صدر ولادیمیر امریکی صدر کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا

 

ٹرمپ انتظامیہ نے عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا ہے کہ ایک سینئر انتظامی عہدیدار اور معاملے سے واقف علاقائی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کو عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس کے نتیجے میں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر تبادلۂ خیال ہوا کہ حتمی تجاویز پر کس طرح اتفاق کیا جائے جو ممکنہ طور پر اس تنازع کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
بدھ کے روز امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ آئندہ دنوں میں ’ کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت’ ہو گی لیکن انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
اسٹیو وٹکوف نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی وفد اور عرب رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد کہا کہ’ ہمارا اجلاس بہت نتیجہ خیز رہا’ ۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ کے دوران کہا کہ’ ہم نے جو پیش کیا اسے ہم مشرقِ وسطیٰ میں، غزہ میں، ٹرمپ 21 نکاتی امن منصوبہ کہتے ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ’ میرے خیال میں امن منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے تمام پڑوسیوں کے خدشات دونوں کو مدنظر رکھا گیا ہے، اور ہم پرامید ہیں، بلکہ مجھے کہنا چاہیے پراعتماد ہیں، کہ آئندہ دنوں میں ہم کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت کا اعلان کر سکیں گے۔’
امریکی انتظامیہ کے اس منصوبے میں کئی نکات شامل تھے جن کا پہلے بھی عوامی سطح پر ذکر کیا جا چکا ہے، جیسے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی، ایک الگ ذریعے کے مطابق اس منصوبے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ غزہ میں حماس کے بغیر حکومت قائم کرنے کا فریم ورک بنایا جائے اور اسرائیل بتدریج غزہ کی پٹی سے انخلا کرے۔
دو علاقائی سفارت کاروں کے مطابق علاقائی رہنماؤں نے ٹرمپ کے منصوبے کے بڑے حصے کی توثیق کی لیکن کچھ تجاویز بھی دیں جنہیں وہ کسی حتمی منصوبے میں شامل کرنا چاہتے ہیں، ان میں شامل نکات یہ تھے کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کا انضمام نہ ہونا، یروشلم کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنا، غزہ کی جنگ ختم کرنا اور حماس کی تحویل میں موجود تمام یرغمالیوں کی رہائی، غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ اور اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کا حل نکالنا۔
ایک سفارت کار نے کہا کہ’ یہ اجلاس بہت مفید رہا’ اور وضاحت کی کہ اس میں تفصیلات پر بھی بات ہوئی۔
یہ نئی پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کے لیے بمباری کی تھی جس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے ذریعے جاری تمام مذاکرات رک گئے تھے، اس حملے کے بعد خطے کے دورے میں وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکراتی تصفیے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ وقت ختم ہو رہا ہے۔’
قطریوں نے اس ہفتے ٹرمپ سے ملاقات میں یہ پیشکش کی کہ وہ ثالثی کا کردار جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ اسرائیل آئندہ ان کے ملک پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ جاری کوششوں پر مزید بات کرنے کے لیے دوبارہ ملاقات کریں گے، اور یہ ملاقات بدھ کے روز مارکو روبیو کے ساتھ ہوئی، مارکو روبیو نے اس ملاقات کے آغاز میں کہا کہ ’ غزہ اور فلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے اس وقت بھی بہت اہم کام جاری ہے۔’
یورپی حکومتوں کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کے پیش کردہ منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا اور دو یورپی سفارت کاروں نے سی این این کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنازع ختم کرنے کی ایک نئی سنجیدہ کوشش ہے۔
ایک افسر نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے، اور ایسا قدم معاہدہ ابراہیم کے پھیلاؤ کو تقریباً ناممکن بنا دے گا، جو ٹرمپ انتظامیہ کا ایک مقصد ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ منصوبہ سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس کے موقع پر خلیجی شراکت داروں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
امریکا نے اس کانفرنس کا اس بنیاد پر بائیکاٹ کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ جلد ہونے کا دعوی
  • صدر ٹرمپ کا غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بڑا اعلان
  • روسی تنصیبات پر حملوں میں امریکی حمایت حاصل ہے‘ یوکرین کا دعویٰ
  • آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ تمام میچ آفیشلز خواتین ہوں گی
  • ٹرمپ کی ترک صدر سے روسی تیل نہ خریدنے کی اپیل
  • یوکرینی صدر نے جنگ بندی پر عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کردی
  • ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا
  • آئندہ چند روز میں غزہ کے حوالے سے کسی بڑی پیش رفت کا امکان ہے، امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف
  • وزیراعظم شہباز شریف اور صدر ٹرمپ کی آج ملاقات کا امکان، فیلڈ مارشل کی شرکت متوقع
  • شہباز شریف اور ٹرمپ کی آج ملاقات کا امکان، عالمی و علاقائی امور پر گفتگو متوقع