پیوٹن کی پہلی مرتبہ الاسکا آمد، جنگ بندی پر مذاکرات کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
فروری 2022 سے جاری یوکرین جنگ کے خاتمے کے امکانات پر بات چیت کی غرض سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جمعہ کے روز الاسکا میں ملاقات کریں گے، جو کئی ناکام مذاکراتی ادوار، ٹیلی فونک رابطوں اور سفارتی دوروں کے بعد ہو رہی ہے جن میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جولائی 2025 میں ترکی کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان 3 مذاکراتی ادوار ہوئے، جن میں قیدیوں کے تبادلے اور لاشوں کی واپسی پر تو اتفاق ہوا، مگر جنگ بندی طے نہ ہو سکی، یہ جنگ اب تک لاکھوں فوجیوں اور شہریوں کی جان لے چکی ہے اور دونوں یورپی ہمسایہ ممالک کی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ اور پیوٹن کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے بعد تاریخی ملاقات الاسکا میں ہوگی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ الاسکا سمٹ میں ان کی ملاقات ایک ’ابتدائی جانچ‘ ہو گی تاکہ دیکھا جا سکے کہ پیوٹن امن معاہدے پر راضی ہیں یا نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کا ہدف ایسا ’مذاکراتی تصفیہ‘ ہے جو روس اور یوکرین دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاہم اس بات کا یقین نہیں کہ یہ ملاقات جنگ کے خاتمے کو قریب لا سکے گی۔
مزید پڑھیں:یورپی رہنماؤں کا یوکرین کے حق میں اظہارِ یکجہتی، ٹرمپ پیوٹن ملاقات سے قبل خدشات میں اضافہ
سیاسی تجزیہ کار میخائل الیکسیف کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ قابلِ عمل راستہ وہ ہو گا اگر صدر پیوٹن امریکی صدر ٹرمپ کی 30 دن کی غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیں، جس پر یوکرین پہلے ہی آمادہ ہے۔
’یہ اس پر منحصر ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات، جن میں روس کے قریب ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی کی دھمکی، بھارت پر روسی توانائی خریدنے پر اضافی محصولات، اور نیٹو کے ساتھ یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ شامل ہے، پیوٹن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ مغرب پہلے سے زیادہ یوکرین کی پشت پناہی کرے گا یا نہیں۔‘
سفارتی سرگرمیوں میں تیزیمتوقع ملاقات کی جگہ یعنی الاسکا کو دونوں ممالک کے لیے خصوصی اہمیت حاصل ہے، روسی صدر پیوٹن پہلی بار اس علاقے کا دورہ کریں گے جو 1867 تک روسی سلطنت کا حصہ تھا اور بعد میں امریکا نے اسے 72 لاکھ ڈالر میں خرید لیا تھا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ملاقات کے مقام کے اعلان کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ’منصفانہ امن‘ کے لیے امریکی کوششوں کی حمایت کی ہے، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے چار دنوں میں 13 عالمی رہنماؤں سے ملاقات یا گفتگو کی، جبکہ پیوٹن نے چین، بھارت، برازیل اور سابق سوویت ریاستوں کے رہنماؤں سے رابطے کیے۔
مزید پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا
جرمنی بدھ کو یورپی رہنماؤں کا ورچوئل اجلاس بلا رہا ہے تاکہ صدر ٹرمپ سے یورپی رابطے سے قبل روس پر دباؤ بڑھانے کی حکمتِ عملی پر بات کی جا سکے۔
صدر ٹرمپ کا متنازع زمین کے تبادلے کا منصوبہصدر ٹرمپ نے ملاقات سے قبل جنگ کے خاتمے کے لیے ’زمین کے تبادلے‘ کی تجویز دی، جسے زیلنسکی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اس منصوبے کے مطابق روس ڈونباس پر قبضہ برقرار رکھے گا جبکہ کچھ دیگر علاقوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ یوکرین کی خودمختاری کو نقصان پہنچائے گا اور روسی جارحیت کو جواز فراہم کرے گا۔
سلامتی کی ضمانتیں: اسرائیل یا تائیوان کی طرز پر؟روس اس بات پر بھی زور دے رہا ہے کہ یوکرین مستقبل میں غیرجانبدار رہے، نیٹو میں شمولیت ترک کرے اور اپنی فوجی صلاحیت محدود کرے۔ مگر ماہرین کے مطابق یوکرین کی آئینی طور پر نیٹو میں شمولیت کی خواہش موجود ہے، اور پارلیمنٹ یا عوام اسے ترک کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نیٹو رکنیت نہ بھی دی جائے تو یوکرین کو امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسی مضبوط سیکیورٹی ضمانتیں ملنی چاہییں جو 1994 کے بڈاپیسٹ میمورنڈم سے کہیں زیادہ موثرہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الاسکا امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الاسکا امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ولادیمیر پیوٹن صدر ولادیمیر امریکی صدر کے لیے
پڑھیں:
ترکیے اور قطر کے مشکور ہیں، طالبان سے بات چیت کا امکان برقرار، وزیر دفاع خواجہ آصف کا عندیہ
افغان طالبان سے دوبارہ بات چیت کا عندیہ دیتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک کی درخواست کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
جیو نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ ترکیہ کی حکومت اور عوام پاکستان کے محسن ہیں، ترکیے کے وفد کی آمد ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترکیہ اور قطر کا شکر گزار ہے جنہوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے مذاکرات میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی ناگزیر ہے، بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف
وزیر دفاع نے کہا کہ اگر ہمارے دوست ممالک کو کوئی موقع یا امکان نظر آیا ہے اور وہ رابطہ کر رہے ہیں تو بات چیت ہوسکتی ہے۔
’اگر یہ ممالک کابل سے کسی پیش رفت کے بعد کوئی تجویز دے رہے ہیں تو ہم اپنے بھائیوں کو انکار نہیں کر سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی ذاتی دلچسپی کے بھی ہم قدردان ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان بمقابلہ افغان طالبان، مذاکرات ختم، نیا محاذ تیار، افغانستان کا مودی سے گٹھ جوڑ
خواجہ آصف کے مطابق طالبان ماضی میں زبانی طور پر کچھ باتوں کو مانتے تھے لیکن تحریری ضمانت دینے پر آمادہ نہیں تھے، جبکہ کابل کی حکومت اب بھی مکمل طور پر متحد نہیں ہے۔
خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ طالبان کے کابل پر قابض ہونے کے وقت دیا گیا ان کا بیان ’پچھتاوے‘ کا باعث ہے۔
آئینی ترمیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے بعد 28ویں آئینی ترمیم بھی متوقع ہے، جس میں وہ نکات شامل کیے جائیں گے جو پہلے رہ گئے تھے۔
مزید پڑھیں: دوحہ میں نتیجہ خیز مذاکرات کے بعد پاکستان و افغانستان فوری جنگ بندی پر متفق
یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر اور ترکیہ میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
تاہم افغان طالبان کی جانب سے تحریری ضمانت نہ دیے جانے کے باعث یہ مذاکرات کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی ترمیم افغانستان ترکیہ خواجہ آصف طالبان قطر کابل وزیر دفاع