صدر ٹرمپ کا غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق بڑا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے ایک معاہدہ جلد طے پانے والا ہے۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایسے فریم ورک کے قریب پہنچ گئے ہیں جو نہ صرف جنگ کے خاتمے بلکہ یرغمالیوں کی واپسی کا ضامن ہوگا، تاہم انہوں نے معاہدے کی تفصیلات پر بات کرنے سے گریز کیا۔
غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ بیان پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ممکنہ ملاقات سے قبل سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں معاہدے کے بنیادی خدوخال پر تبادلۂ خیال متوقع ہے۔
امریکی صدر نے مزید بتایا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے اہم رہنماؤں سے غزہ کی صورتحال پر مثبت بات چیت کی ہے۔ چند روز قبل نیویارک میں اسلامی ملکوں کے سربراہان سے ان کی ملاقات بھی اسی تناظر میں ہوئی، جو تقریباً 50 منٹ تک جاری رہی اور جس میں علاقائی تنازعات کے پرامن حل پر زور دیا گیا۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ "اب بہت ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ رکنا چاہیے"۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکا اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دے گا اور اس سلسلے میں نیتن یاہو کے ساتھ براہِ راست گفتگو ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
صدر ٹرمپ نے عرب رہنماؤں کو غزہ جنگ بندی کیلیے 21 نکاتی امن فارمولا پیش کردیا
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے امن مشنز اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ غزہ امن اجلاس نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اجلاس میں امریکی نمائندوں نے عرب رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کانکورڈیا سمٹ سے خطاب میں بتایا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 21 نکاتی امن منصوبہ عرب رہنماؤں کو پیش کیا۔
امریکی خصوصی ایلچی کے بقول یہ امن منصوبہ اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ دنوں میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی۔
منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے۔
عرب رہنماؤں نے بڑی حد تک منصوبے کی حمایت کی، تاہم اپنی تجاویز بھی پیش کیں جن میں شامل ہیں؛
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی
یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا
غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی
غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ
اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل
علاقائی رہنماؤں نے اس ملاقات کو "انتہائی مفید" قرار دیا جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عرب رہنماؤں نے ایسی مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔
یورپی ممالک کو بھی اس امریکی امن منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا تھا جسے دو یورپی سفارتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا۔
یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کردی تھی۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے تھے۔
جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل اور قطر کے ایک اہم دورے میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ میں امن کے لیے ایک معاہدہ جلد ضروری ہے۔
اس دورے کے بعد قطر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا بشرطیکہ آئندہ اسرائیل ان کی سرزمین پر کوئی حملہ نہ کرے۔
قبل ازیں سعودیہ اور فرانس نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد متعدد یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔
اس کانفرنس کا امریکا نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے" کے مترادف ہوگا۔