دوست، ہم راز، ہمنوا اور ان کے دیگر ہم معنی الفاظ جب ہماری سماعتوں سے گزرتے ہیں تو فوراً اپنے ہم عمر ساتھیوں کی تصویر ہمارے ذہنوں میں آجاتی ہے جب کہ میری ذاتی رائے ہے کہ اولاد کے لیے والدین سے بہتر دوست کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔
دنیا کے باشعور معاشروں میں ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ تصورکی جاتی ہے، دوسری جانب باپ کی پدرانہ شفقت اور دوستانہ رویہ بچپن میں ہی اولاد کے وجود میں اعتماد کا بیچ بو دیتا ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پھلتا پھولتا اُس کی جوانی تک کامیابی کے تناور درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہمارے دیسی معاشروں میں پلنے والے افراد کی کثیر تعداد جب اولاد کا کردار نبھا رہی ہوتی ہے تو اپنے والدین کو ہٹلر کا جانشین تصور کرتی ہے لیکن جب اُن کی خود والدین بننے کی باری آتی ہے تو اس رشتے میں کوئی خاص انقلاب برپا کرتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ماں، باپ اور اولاد کے درمیان رشتے کے حوالے سے دیسی معاشروں کا حال ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر ہم جو دیکھ نہیں پا رہے ہیں یا جانتے بوجھتے اَن دیکھا کررہے ہیں وہ مغربی ممالک میں اس مقدس رشتے کی پامالی ہے۔ پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ملکوں میں رہنے والے امراء و سلاطین سے لے کر غریب آدمی تک ہر انسان مغربی دنیا کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہاں زندگی گزارنے کا خواہاں بھی ہے۔
انسان کو ہمیشہ دور کے ڈھول سُہانے لگتے ہیں، دیسی اور پردیسی قوموں میں رشتوں کی حرمت کا فرق ماضی میں جتنا واضح تھا اُس میں آج بھی کوئی خاص بہتری رونما نہیں ہوئی ہے، البتہ مزید بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ ہم مشرقی لوگ مغرب کی تقلید میں بے حد فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی مجموعی طور پر ہماری سب سے بڑی خرابی ہے، نقل میں عقل درکار ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ بات کہاں سمجھ آرہی ہے بس بِنا سوچے سمجھے غلط راہوں پر ہم سب محوِ سفر ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے والدین اور اولاد کے درمیان بہت خوبصورت رشتہ قائم کیا ہے جو اس دنیا کے باسیوں کے درمیان تخلیق کیے گئے بیشمار رشتوں میں سب سے زیادہ خاص اور انمول ہے۔ اس سوہنے رشتے کی اہمیت کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جاسکتا ہے، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا سب سے بہترین دروازہ ہے۔ والدین کے تقدس پر بیشمار حدیثیں موجود ہیں، ایک مقام پر نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ رب العزت کی رضا ماں باپ کی رضا میں پوشیدہ ہے اور اللہ پاک کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں پوشیدہ ہے۔
‘‘ قرآنِ شریف میں بھی اولاد کو جگہ جگہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، ہمارے خالقِ حقیقی نے ہمیں اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے والدین کے سامنے اُف کریں، اُنھیں جھڑکیں یا اُن کے ساتھ بدسلوکی کی جسارت کریں۔
ربِ کائنات نے جس بات کو اپنے محبوب بنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے مختلف انداز میں متواتر بار اپنے بندوں تک پہنچایا ہے ساتھ اپنی آخری مقدس کتاب قرآنِ مجید میں بھی متعدد مقامات پر جس کے حوالے سے حکم صادر فرمایا ہے وہ کس قدر اہمیت کی حامل ہوگی۔
اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اتنی انگنت تنبیہات اور احکاماتِ خداوندی کو جانتے ہوئے ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ ایک طرف والدین کے سامنے خدا تعالیٰ نے اُف کرنے تک منع فرمایا ہے، دوسری طرف ہم اُن کے وجود سے ہی بیزار ہوئے بیٹھے ہیں۔
لوحِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ میں ماں باپ سے بدسلوکی کرنے کی سختی سے ممانعت ہے جب کہ ہم اُنھیں اپنے برابرکا یا شاید خود سے کم عمر سمجھ کر بدلحاظی کی ہرگزرتے دن نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ افسوس خود کو عقلِ کُل سمجھنے والی اولاد اپنے تمام غلط رویوں پر نادم ہے نہ شرمندہ بلکہ وہ تو یہ بدتمیزی اپنا حق سمجھ کر کر رہی ہے اور زیادہ زبان درازی پر اُتر آئے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچاتی ہے کہ آپ نے بھی اپنے والدین کے ساتھ یہی سب کیا ہوگا۔ ویسے کسی بھی امر میں تمام افرادِ بنی نوح انسان کو ایک لکڑی سے ہانکنا جائز بات نہیں ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں قائم معاشرے بگاڑکے راستے پر ہیں، معاملات مجموعی طور پر خرابی کے دہانے پر آچکے ہیں مگر پھر بھی ابھی مکمل مایوسی نہیں چھائی ہے۔ اس کرہ ارض پر جنم پانے والی ہر اولاد نالائق و نافرمان نہیں ہے اور بالکل اسی طرح تمام والدین بھی مثالی ہونے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ ماں باپ کو اچھے یا برے ہونے کا تمغہ نہیں دیا جاسکتا ہے، وہ ہر طور پر قابلِ احترام ہیں اور اس بات میں بحث کی قطعی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔
ہر ماں، باپ کا اندازِ ترتیب مختلف ہوتا ہے مگر اپنے بچوں سے محبت سب کو ایک جیسی ہوتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں چاہتے ہیں، ہاں البتہ اُن کے پیار و شفقت کو ظاہرکرنے میں سختی اور غصے کا دخل ہوسکتا ہے مگر اُن کا دائمی مقصد اولاد کی بہتری و بقا ہی ہوتا ہے۔میں اپنی نجی زندگی کے بارے میں بات کروں تو دوستوں کے حوالے سے میرا حلقہ احباب کافی وسیع ہے مگر اُن تمام کی پُرخلوص محبت کے باوجود میری جو دوستی اپنے امی و ابو کے ساتھ ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
میرے والدین اس دنیا کے بہترین ماں باپ میں سے ایک ہیں، انھوں نے مجھے اعتماد کے انمول تحفے سے نوازا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اُن دونوں سے ہر طرح کی بات بلاجھجک کرسکتی ہوں۔ تمام والدین کو بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے، کسی انسان کے خلاف پوری دنیا متحد ہو جائے لیکن اگر اُس کے ماں باپ کا یقین، اعتماد، بھروسہ اور دعائیں اُس کے ہمراہ ہوں تو وہ دنیا میں باآسانی اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ سکتا ہے۔
یہ اس جدید دورکا اہم تقاضہ ہے کہ والدین اور بچے مل کر اپنے درمیان موجود رشتے کو بھیانک شکل اختیارکرنے سے بچائیں۔ اس بدلتے زمانے کے ساتھ تھوڑا ماں باپ اور زیادہ اولاد کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے قارئین کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ والدین کو اپنا دوست بنائیں، یقین جانیے آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے: شیخ حسینہ واجد
عدالتی فیصلے سے قبل بنگلادیش کی برطرف سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے حامیوں کے نام آڈیو پیغام جاری کر دیا، جس میں کہا گیا کہ محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق بنگلادیشی وزیراعظم نے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے فیصلے سے قبل اپنے حامیوں کے نام جاری آڈیو پیغام میں کہا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور میں ایسے فیصلوں کی پروا نہیں کرتیں۔
آڈیو پیغام میں عوامی لیگ کی 78 سالہ رہنما نے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی زیرقیادت عبوری حکومت پر ان کی جماعت کو ختم کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بنگلادیش کا آئین منتخب نمائندوں کو زبردستی ہٹانے کو جرم قرار دیتا ہے اور یونس نے یہی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں، عوامی لیگ نچلی سطح سے وجود میں آئی ہے، اقتدار کے کسی غاصب کی جیب سے نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے حامیوں نے احتجاج کی کال پر فوری ردعمل دیا اور عوام نے مجھ پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اس کرپٹ اور دہشت گرد یونس اور اس کے معاونین کو بتائیں گے کہ بنگلادیش کو کیسے درست سمت میں لایا جا سکتا ہے اور انصاف عوام خود کریں گے۔
شیخ حسینہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا کہ میں نے 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو تحفظ دیا اور اب مجھ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ تاہم پریشان نہ ہوں، میں زندہ ہوں اور عوام کی بھلائی کے لیے کام جاری رکھوں گی۔
بنگلادیش کی سابق وزیراعظم نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ عدالت کے فیصلے مجھے نہیں روک سکتے۔
انہوں نے پارٹی کارکنوں سے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آنے دیں، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، اللّٰہ نے مجھے زندگی دی ہے، وہی اسے لے لے گا۔ لیکن میں اپنے ملک کے لوگوں کے لیے کام کرتی رہوں گی۔ میں نے اپنے والدین، بہن بھائیوں کو کھو دیا ہے۔ اور انہوں نے میرا گھر جلا دیا۔
علم میں رہے کہ شیخ حسینہ واجد پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ شیخ حسینہ پر 2024 میں طلبہ تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کے احکامات دینے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق بنگلادیش مظاہروں کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔