حیدرآباد، کراچی، لاہور، راولپنڈی، خانپور، رحیم یار خان، میانوالی سمیت ملک بھر میں حضرت امام حسینؑ کے چہلم کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت اور غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔

تمام شہروں میں امام بارگاہوں، مجالس اور مرکزی جلوسوں کی نگرانی سی سی ٹی وی کیمروں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز سے کی جارہی ہے، جبکہ کئی شہروں میں موبائل فون سروس بھی معطل ہے۔

کراچی میں چہلم کے موقع پر 11 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ نشتر پارک سے برآمد ہونے والا مرکزی جلوس اپنے روایتی راستوں سے گزرتا ہوا حسینیہ ایرانیان کھارادر پر اختتام پذیر ہوگا۔

ایم اے جناح روڈ اور اطراف کی گلیاں کنٹینرز سے بند ہیں، بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جلوس کے راستوں کی کلیئرنس مکمل کر لی ہے، جب کہ ٹریفک کے لیے متبادل راستے دیے گئے ہیں۔ شہر میں دفعہ 144 نافذ اور بعض مقامات پر موبائل فون سروس بند ہے۔

حیدرآباد میں مرکزی جلوس اور امام بارگاہوں کی سیکیورٹی کے لیے 1600 سے زائد افسران و اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ روف ٹاپس پر بھی سیکیورٹی اہلکار موجود ہیں اور جلوس کی مانیٹرنگ سینٹرل کنٹرول روم سے کی جا رہی ہے۔

لاہور میں حویلی الف شاہ سے مرکزی جلوس برآمد ہوا جو اپنے قدیمی راستوں پر گامزن ہے۔ برآمدگی سے قبل علامہ صبیح حیدر شیرازی نے مجلس سے خطاب کیا۔

راولپنڈی میں امام بارگاہ عاشق حسین تیلی محلہ سے مرکزی جلوس برآمد ہوا، شہر میں میٹرو بس سروس راولپنڈی صدر اسٹیشن سے فیض آباد تک معطل ہے۔ 4000 سے زائد پولیس اہلکار، 200 ٹریفک وارڈنز اور سنائپرز جلوس کی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔

خانپور میں آستان لوہاراں سے مرکزی جلوس برآمد ہوا جو اپنے روایتی راستوں سے گزرتا ہوا رات 9 بجے گولڈن پھاٹک پر اختتام پذیر ہوگا۔ داخلی و خارجی راستوں کو بند کر کے خواتین پولیس اہلکار بھی تعینات کی گئی ہیں۔

رحیم یار خان میں امام بارگاہ لنگر حسینی سے جلوس برآمد ہوا، راستوں پر سبیل اور لنگر کا اہتمام ہے، جب کہ 2 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔

میانوالی میں وادی اسلام سے جلوس برآمد ہوا، جلوس کے تمام راستے خار دار تاروں سے بند کر دیے گئے ہیں اور سی سی ٹی وی نگرانی جاری ہے۔

ملک کے مختلف شہروں میں علم، تعزیہ اور ذوالجناح کے جلوسوں میں عزاداران کی بڑی تعداد شریک ہے، جبکہ سیکیورٹی ادارے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ہائی الرٹ ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جلوس برآمد ہوا مرکزی جلوس گئے ہیں

پڑھیں:

حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 

اسلام ٹائمز: "بتول الموسوی" نے حزب اللہ میں اپنے والد کے مقام اور کردار کے بارے میں مزید کہا ہے کہ "میرے والد کے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، وہ حزب اللہ کی ممتاز شخصیات اور ابتدائی بانیوں میں سے ایک تھے اور بہت سے لوگوں کی نظر میں، وہ ایک بہترین رہنماء، مثالی انسان اور بہترین شخصیت تھے۔ ایسے بہادر لیڈر جن کو دشمن کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے والد، جیسا کہ وہ کہتے تھے، "کفار کے خلاف سخت اور اپنے دوستوں پر مہربان تھے۔" ترتیب و تنظیم: علی واحدی

لبنان میں حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید عباس موسوی ایک ایسی شخصیت ہیں، جن کی زندگی اور راستہ سب کے لیے واضح اور متاثر کن تھا۔ ایک ایسا آدمی جس نے میدان جنگ میں اور خاندانی زندگی میں ہمت، ایمان اور وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ صرف ایک سیاسی اور جہادی رہنماء تھے بلکہ ایک ایسے والد بھی تھے، جنہوں نے مزاحمت اور قربانی کی اقدار کو اگلی نسل تک پہنچایا اور امام خمینی (رح) کے خط اور انقلاب سے وفاداری کا راستہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے واضح و نمایاں کیا۔ ان کی بیٹی، بتول موسوی، آج ایک انٹرویو میں اس باپ کے سائے میں پرورش پانے کے تجربے کی بات کر رہی ہیں، جس کی مذہب سے محبت، مزاحمت کا عزم اور مقاومت کے اصولوں سے وفاداری کوئی راز نہیں تھا، بلکہ اس  راستے پر چلنے والوں کے لیے ایک واضح اور متاثر کن حقیقت تھی۔ ان کی زندگی جرأت، قربانی اور راہ حق پر قائم رہنے کی زندہ مثال ہے۔

اسلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتول الموسوی نے اپنے والد کی امام خمینی سے محبت اور ان کی زندگی اور جدوجہد کے راستے پر اس کے اثرات کو اس طرح بیان کیا ہے۔ میرے والد سید عباس موسوی کو امام خمینی سے گہری اور پرجوش محبت تھی۔ وہ لبنان میں استقامت کی بانی شخصیات میں سے ایک تھے اور انقلاب اور امام خمینی (رح) کے لیے جدوجہد کرنے والے اولین گروہ میں سے تھے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ امام خمینی کے افکار و نظریات میرے والد کے پورے وجود اور عمل میں ظاہر ہوتے تھے۔ امام خمینی (رح) کے انتقال کے بعد میرے والد فرماتے تھے، ہم نے دنیا کو ان کی آنکھوں سے دیکھا۔ میرے والد ہمیشہ امام اور ولایت کے راستے کے وفادار اور مخلص رہے۔

بتول الموسوی مزید کہتی ہیں، امام خمینی کو بھی میرے والد سے بہت محبت اور پیار تھا۔ وہ میرے والد کو طویل نجی ملاقاتوں میں مدعو کرتے اور ان کے ساتھ بیٹھتے اور ان کا خاص احترام کرتے۔ دشمنوں نے میرے والد کو "لبنان کا خمینی" بھی کہا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے کس طرح لبنان اور خطے کے نوجوانوں میں امام  خمینی (رح) کے انقلاب کی روح کو پھیلایا، جبکہ دشمنان اسلام اس دین اور انقلاب کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ "بتول الموسوی" امام خمینی (رح) کے انقلاب کے مسلمانوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ امام نے اپنے انقلاب سے دنیا کے مشرق و مغرب کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور اسلام اور مسلمانوں کو وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا سبق دیا۔

جب میں بچپن میں تھی تو میں اس وقت سے "نہ مشرق نہ مغرب، اسلامی جمہوریہ" کے نعرے کو جانتی تھی اور میرے والد نے مجھے سکھایا تھا کہ ایک شخص کس طرح اسلام، دین اور قرآن کے لیے اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان و مال کو فدا کرسکتا ہے۔ یہ وہ سبق ہے، جو ہم نے امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے سیکھا: مشکلات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، صبر کرنا ہے اور راہ حق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اپنے والد کے نقطہ نظر کے بارے میں کہتی ہیں "میرے والد اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ایک جامع نظریہ رکھتے تھے، ایک ایسا نظریہ جس میں بیک وقت قرآنی، مذہبی، نظریاتی، سیاسی، تزویراتی، حتیٰ کہ عسکری جہتیں بھی شامل تھیں۔ اسلامی جمہوریہ ہمیشہ مظلوموں، محروموں اور ان لوگوں کی امید رہا ہے، جو اسلامی اقدار کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کرتے ہیں۔

"بتول الموسوی" نے حزب اللہ میں اپنے والد کے مقام اور کردار کے بارے میں مزید کہا ہے کہ "میرے والد کے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، وہ حزب اللہ کی ممتاز شخصیات اور ابتدائی بانیوں میں سے ایک تھے اور بہت سے لوگوں کی نظر میں، وہ ایک بہترین رہنماء، مثالی انسان اور بہترین شخصیت تھے۔ ایسے بہادر لیڈر جن کو دشمن کا سامنا کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے والد، جیسا کہ وہ کہتے تھے، "کفار کے خلاف سخت اور اپنے دوستوں پر مہربان تھے۔" ان کے الفاظ، خطبات، روح اور ثقافت آج بھی حزب اللہ کے پیروکاروں اور دنیا کے تمام آزاد لوگوں کے درمیان زندہ ہے۔ وہ اپنی علمی، جہادی اور اخلاقی زندگی میں ایک منفرد نمونہ تھے۔ میرے دل اور دماغ میں ان کی موجودگی کا اب بھی احساس ہوتا ہے۔

"بتول الموسوی" نے مزید کہا ہے کہ میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ ان کی شفاعت مجھ پر اور میرے اہل خانہ تک پہنچے اور میں ان کا اطمینان حاصل کروں، کیونکہ والدین کا اطمینان بچوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے اور یہ اطمینان خدا کی رضا کی کنجی ہے۔ زندگی میں مجھے جو بھی کامیابی ملی ہے، وہ میرے والدین کی دعاؤں اور ان کے صبر کی وجہ سے ہے، جو انہوں نے برداشت کیا ہے۔ آخر میں بتول الموسوی نے شہداء کے اہل خانہ کے بارے میں کہا کہ شہداء کے اہل خانہ کا صبر و استقامت انہیں شہداء کے ثواب میں شریک کرتا ہے۔ جیسا کہ امام خامنہ ای اور امام خمینی (رح) نے تاکید کی ہے کہ شہداء کے اہل خانہ اپنی ثابت قدمی اور ایمان کے ساتھ شہید کی راہ میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی قربانیوں کا ثمر معاشرے اور راہ حق میں منتقل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اجتماع عام کیلیے مختلف داخلی اور خارجی راستوں پر استقبالیہ کیمپ قائم
  • سکھر ،جماعت اسلامی یوتھ کا اجتماع عام کا آغاز
  • حرمِ مطہر امام رضا علیہ‌السلام میں علامہ طباطبائیؒ کی یاد میں تقریب
  • اسلام آباد میں مسلح ڈاکوؤں کی پولیس پر فائرنگ، 3 گرفتار، اسلحہ برآمد
  • پڈعیدن: پولیس کا کریک ڈاؤن، 7ملزمان گرفتار کرلیے
  • راولپنڈی میں پاکستان اور سری لنکا ون ڈے سیریز کے دوران 5,500 اہلکار تعینات
  • راولپنڈی، پاکستان اور سری لنکا ون ڈے سیریز میں 5500 اہلکاروں نے فول پروف سیکیورٹی فراہم کی
  • مزدور رہنما پاشا احمد گل مرحوم کی یاد میں منعقدہ تقریب کے موقع پر EPWA کے چیئرمین اظفر شمیم، جنرل سیکرٹری علمدار رضا، متین خان، سینئر نائب صدر، ممبر ایگزیکٹو کمیٹی محمد اخلاق، احتشام الحسن، حسین زیدی، سلیم بھائی اور ایپوہ کے ممبران خصوصاً محمد جعفر، شہباز
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • مولانا فضل الرحمان نے مرکزی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا