امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستانی شاندار لوگ ہیں، وہ ناقابل یقین چیزیں بناتے ہیں، انھیں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکی خبر رساں ادارے فوکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میری مداخلت نے دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوںکو شدید فوجی کشیدگی کے بعد جنگ کے دہانے سے واپس لانے میں مدد کی۔ میں تجارت کو استعمال کرکے جنگوں کو روک رہا ہوں۔
بین الاقوامی طور پر امریکا سمیت دیگر ممالک نے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے اور متوقع ایٹمی جنگ کو روکنے میں مثبت اور فوری کردار ادا کیا ہے۔ جنگ بندی کو بین الاقوامی طور پر خوش آیند قرار دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے دوران در پیش مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ان کی یہ پیشکش اس وقت بھی اہم سمجھی گئی جب بھارت نے اسے سختی سے مسترد کیا ۔ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے اور کسی غیر جانبدار تیسرے فریق کی ثالثی سے حل کیا جائے۔
صدر ٹرمپ کی پیشکش دراصل اسی خواہش کا عکس تھی تاہم بھارت کی ہٹ دھرمی اور داخلی سیاست میں کشمیر کارڈ کے غلط استعمال نے ہر کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قرارداد جس پر کئی دہائیوں سے عمل نہیں کرایا جا سکا، اب اس کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے۔ کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ملکوں میں درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کر کے اپنی عام عوام کی زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔
عالمی دنیا کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ بغیر ثبوت اور تحقیق کے صرف ایک الزام کی بنیاد پر کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات اور جنگ سے بچا جا سکے۔ کیا واقعی ہم اکیسویں صدی کے 25 ویں سال میں رہ رہے ہیں، جہاں ہر مُلک میں تعمیر و ترقی کا شور ہے، مگر اِن دونوں ممالک کے عوام خوش حال زندگی کی تلاش میں اپنے اپنے ممالک سے بھاگ رہے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ بھارت خُود پر طاری جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوئی تدبیر کرے۔
ہر بار حالات کی سنگینی نے عالمی برادری کو مجبور کیا کہ وہ مداخلت کرے اور فریقین کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرے۔ تاہم یہ وقتی حل تھے، مستقل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ تلوار لٹکتی رہے گی؟ کب تک دونوں ممالک اپنی معیشتوں، انسانی وسائل اور عوامی فلاح کو نظر انداز کر کے دفاعی اخراجات پر زور دیتے رہیں گے؟ ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر کرنا کسی بھی ملک کے لیے ایک خوفناک سوچ ہے، لیکن جب دونوں ممالک کی تاریخ میں تین بڑی جنگیں ہو چکی ہوں، اور ہر وقت لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہو، تو ایٹمی جنگ کا امکان کوئی دور کی بات نہیں رہتی۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت موجود ہے، جو دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے ایک خطرناک توازن پیدا کرتی ہے۔ کوئی بھی حادثاتی یا غیر ذمے دارانہ اقدام پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان محدود ایٹمی جنگ بھی چھڑ جائے، تو کروڑوں افراد لقمہ اجل بن جائیں گے، اس کے ماحولیاتی اثرات پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اس صورت میں عالمی معیشت، خوراک کی فراہمی، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات ناقابل تصور ہوں گے۔
ایسی صورتحال میں امن کا راستہ ہی واحد حل ہے۔ سوال یہ ہے کہ امن کیسے قائم ہو؟ اس کا پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ دونوں ممالک سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کی طرف آئیں۔ ٹھوس ایجنڈے، عوامی شمولیت، اعتماد سازی کے اقدامات اور مسئلہ کشمیر کو مرکز میں رکھنا ہوگا۔
اعتماد سازی کے لیے دونوں ممالک کو تجارت، ثقافت، تعلیم، سائنس اور ماحولیات کے شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہیے۔ جب عوام کے درمیان رابطے بڑھیں گے، جب طلبہ، فنکار، صحافی، اساتذہ اور کاروباری افراد ایک دوسرے کے ملک جائیں گے، تبھی دلوں میں پیدا ہونے والی خلیج کم ہو سکیں گی۔ میڈیا کو اس میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا، جو اکثر اوقات نفرت اور تعصب کو ہوا دیتا ہے۔
طاقتور اقوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف اس لیے خاموش رہنا کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے، ایک کمزور دلیل ہے۔ سعودی عرب، ترکیہ، یواے ای، قطر، جرمنی، فرانس، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا، چین، روس اور امریکا کو مل کر اس مسئلے کو ایک منصفانہ اور پائیدار حل کی طرف لے جانا ہوگا۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
چین، جاپان اور جرمنی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے جنگوں کے بعد معیشت، تعلیم اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی، اور آج دنیا کی طاقتوں میں شامل ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی طاقت علم، معیشت اور خوشحال عوام ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ جنگ کے راستے سے ہٹ کر امن کی طرف قدم بڑھائیں۔ دشمنی ہماری قسمت نہیں، بلکہ ہماری اپنی بنائی ہوئی دیوار ہے، جسے ہم ہی گرا سکتے ہیں۔ 2023کے عالمی بینک کے ریکارڈ کے مطابق انڈیا میں 123 ملین افراد ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔
اسی طرح 2024 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی 42.
اب دنیا کے لیے نیا موقع ہے کہ پاکستان کو نئے سرے سے سمجھے اور بھوک، افلاس اور دشمنوں کی ہزاروں سازشوں کے بیچ تھوڑے وسائل سے حاصل کی بہت مؤثر، ہمہ گیر قوتوں کا ادراک کرے، ہم احترام ڈیزرو کرتے ہیں، ہمارا احترام کیا جائے۔ وار ڈپلومیسی کا پہلا قدم یا ہدف تلخی کو جنگ میں بدلنے سے روکنا ہوتا ہے اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کے درمیان رابطوں کے دروازے بند نہ ہوں۔
ویسے دشمن ممالک میں بھی بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے بات چیت کے دروازے کُھلے رہتے ہیں۔ ’’وار ڈپلومیسی‘‘ محض فریقین سے کام یاب نہیں ہوتی، اِسی لیے مختلف ممالک اُن کے ساتھ شامل ہوکر تنازعے یا جنگ کے خاتمے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دوسری پارٹیز آپس میں دوست ہوتی ہیں یا اُن کے متعلقہ ممالک سے مضبوط روابط ہوتے ہیں۔ قطر اور پاکستان نے دوحا مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے درمیان یہ کردار ادا کیا، جسے تُرکیہ، عرب ممالک، چین اور روس کی سپورٹ حاصل تھی۔
موجودہ صدی میں وار ڈپلومیسی کے تحت جنگیں رکوانے کے لیے اقتصادی دباؤ یا پابندیوں کا حربہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ وار ڈپلومیسی حالیہ زمانے میں کام یاب نہیں ہو رہی، غلط ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ سفارت کاری میں وقت درکار ہوتا ہے، یہ کوئی جنگ نہیں ہوتی کہ لمحوں میں سب کچھ تہس نہس کردیا جائے۔
اِس کے لیے صبر و حوصلے کے ساتھ، تدبر کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر عوام کی فکر کہ پراپیگنڈے کے ذریعے عام آدمی کے جذبات خواہ کتنے ہی کیوں نہ بھڑکا دیے جائیں، وہ بہرحال جنگ پسند نہیں کرتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ سُکون کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امن محض ایک نعرہ نہیں، ایک عملی عمل ہے، جو قربانی، برداشت، سمجھداری اور دور اندیشی کا تقاضا کرتا ہے، اگر دونوں ممالک اس سوچ کو اپنا لیں، تو مسئلہ کشمیر کا حل نکل سکتا ہے۔جنوبی ایشیاء کا خطہ عشروں سے عدم استحکام، کشیدگی اور خطرناک تنازعات کا شکار رہا ہے، جن میں سب سے سنگین اور دیرینہ مسئلہ پاک بھارت تعلقات اور ان کے بطن سے ابھرنے والا مسئلہ کشمیر ہے۔
یہ ایک ایسا قضیہ ہے جو نہ صرف دو ملکوں کے درمیان کشیدگی کا محور ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی پیچیدگی اس قدر گہری ہے کہ اسے محض سفارتی بیانات یا وقتی اقدامات سے سلجھایا نہیں جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک تاریخ کے زخموں کو سمجھتے ہوئے، حال کے تقاضوں اور مستقبل کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے مکالمے کا آغاز کریں، جس کا مرکز عوام کی خواہشات، انسانی حقوق کا احترام اور علاقائی سلامتی ہو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت وار ڈپلومیسی دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کے درمیان یہ ہے کہ رہے ہیں نہیں کر نہیں ہو کے لیے کی طرف جنگ کے
پڑھیں:
مریدکے: شادی میں ناکامی پر لڑکا، لڑکی نے زہریلی گولیاں کھا لیں
رانا زمان: مریدکے میں شادی میں ناکامی پر جوڑے کی زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کی کوشش، دونوں کی حالت تشویشناک بتا جارہی ہے، لڑکا، لڑکی کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
مریدکے ہسپتال ذرائع کے مطابق نوجوان لڑکی (س) نے والدین کے نہ ماننے پر گولیاں کھائیں، لڑکے(ع) نے بھی علم ہونے پر زہریلی گولیاں کھا لیں۔
دونوں کو حالت غیر ہونے پر ٹی ایچ کیو ہسپتال پہنچا دیا گیا، واقعہ تھانہ سٹی کے علاقے میں پیش آیا۔
آج کے گوشت اور انڈوں کے ریٹس -جمعہ16 مئی , 2025