جنوبی ایشیا میں دو طاقت ور لہریں متحرک تھیں۔ ایک لہر کا تعلق خطے میں بھارت کی بالادستی سے تھا اور دوسری کا رخ اس کے بالکل الٹ یعنی پرامن بقائے باہمی، امن اور سلامتی کی طرف تھا۔ 10 مئی نے خطے میں دھونس، دھاندلی کے ساتھ بالادستی کا غرور خاک میں ملا دیا ہے اور اب جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جس میں بھارت کو بالادستی کی خواہش ترک کر کے ترقی کے ایک مشترکہ ویژن میں سب کا ساتھ دینا ہو گا دوسری صورت میں اسے مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارت نے پہلگام کا ڈرامہ رچا کر پاکستان پر الزام کیوں عاید کیا اور اس پر جنگ کیوں مسلط کی؟ یہ معمہ ناقابل فہم نہیں۔ اس کی وجوہات واضح ہیں۔ چھٹی عالمی طاقت بننے کا خناس بھارت کے ذہن میں ایک عرصے سے تھا۔ اس کا خیال یہ تھا کہ وہ بڑوسی ملکوں کو اپنا تابع مہمل بنا کر یہ مقصد حاصل کر سکتا ہے۔
اس مقصد کے لیے وہ بنگلا دیش سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کے ساتھ درشتی سے پیش آتا اور ان کے وسائل پر قبضہ جماتا آیا ہے جس کا خطے میں شدید ردعمل تھا۔ اس ردعمل کا پہلا عملی اظہار بنگلا دیش میں بھارت کی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے کی صورت میں ہوا جس کے نتیجے میں مسلم بنگال انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ خطے کے تمام چھوٹے ملکوں نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا۔
یہ صورت حال بھارت کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ وہ درست طور پر سمجھتا تھا کہ بنگلا دیش میں رونما ہونے والی تبدیلی نے اس کی خواہشات کا خون کر دیا ہے۔ اگر معاملات کو واپس پرانی ڈگر پر لانا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے پاکستان کو غیر مٹر کرنا۔ اس مقصد کے لیے امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کو استعمال کر کے پہلگام کا ڈرامہ رچایا گیا۔
ایسا کرتے ہوئے بھارت کئی حقائق نظر انداز کر گیا۔ اہم عالمی شخصیات کے دورہ بھارت کے موقع پر کشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے اور پاکستان کو دبا میں لانے کے لیے خون ریزی جیسے ڈرامے پہلے ہی بے نقاب ہو چکے تھے، اس لیے یہ طریقہ مؤثر نہیں رہا۔ یہ حقیقت تنگ نظر بھارتی قیادت پر واضح ہونی چاہیے تھی لیکن نفرت اور لالچ کے وفور میں یہ حقیقت نظر انداز ہو گئی۔دوسرے بھارت نے پاکستان کے بارے میں غلط ا ندازے قائم کیے۔
بھارت کا اندازہ یہی تھا کہ اقتصادی بحران میں گردن گردن تک دھنسا ہوا پاکستان معیشت کی کمر توڑ دینے والی جنگ کا سامنا نہیں کر سکے گا اور بہت جلد گھٹنے ٹیک دے گا۔ بھارت کا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔ جنگیں صرف طاقت کے زور پر نہیں لڑی جاتیں۔ جنگ جیتنے کے لیے کچھ اور عوامل بھی اہم ہوتے ہیں جیسے جنگ کا اخلاقی جواز۔
یہ جواز بھارت کے پاس نہیں تھا جب کہ پاکستان کا یہ پہلو مضبوط تھا جسے دنیا نے تسلیم کیا۔ اس ضمن میں ایک بات اور بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے مالی مشکلات کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کے جارحانہ عزائم کی طرف سے وہ کبھی غافل نہیں رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بے پناہ وسائل سے محروم تھا لیکن درست حکمت عملی کے لیے وسائل سے زیادہ بیدار ذہن کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان اس معاملے میں خوش قسمت رہا۔
دوسرے پاکستان نے جدید ٹیکنالوجی پر توجہ دی جس میں آزمودہ دوستوں کا تعاون اسے حاصل رہا۔ پاکستان کی اسی حکمت عملی نے اس جنگ میں پانسا پلٹ دیا اور بھارت کی بالادستی کی خواہش خاک میں مل گئی۔ اس تجربے کے بعد اب ان لوگوں کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے جو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی دفاعی تیاریوں کی مخالفت پر ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔
پاکستان کو اللہ نے اس کڑے امتحان میں کامیابی عطا کی، اس پر ہمیں غرور سے بچتے ہوئے باری تعالی کا شکر ادا کرنا ہے اور یہ سمجھنا ہے کہ وہ کون سے پس پردہ عوامل تھے جن کے بغیر ہماری کام یابی ممکن نہ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی اور بنیادی بات ہے ذمے دارانہ طرز عمل، قیادت سے لے کر ذرائع ابلاغ تک ہمارے یہاں اس ضمن میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔ البتہ سیاسی تفریق کے باعث ہمارے یہاں کچھ شخصیات تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں ان میں سب سے نمایاں نام میاں نواز شریف کی ہے۔
بین الاقوامی بحرانوں کے موقع پر بیان بازی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں تدبر اور باوقار انداز کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر وقت کی بیان بازی اور مخالفین کے لیے خواہ وہ دشمن اور غیر ملکی ہی کیوں نہ ہوں، درست نہیں ہوتا۔
بدزبانی کے رویے کا نتیجہ ہم نے بھارت میں بھی دیکھ لیا ہے اور پاکستان کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ سنجیدہ سفارتی عمل اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے باوقار حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان خوش قسمت رہا ہے۔
جلد یہ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ بھارت کی جارحیت کے موقع پر میاں نواز شریف کا تجربہ اور پس پردہ سفارتی سرگرمی ہماری پشت پر نہ ہوتی تو یہ سرخروئی ہمارے حصے میں نہ آتی۔ کارگل کے تعلق سے محض سیاسی کدورت کی وجہ سے جو الزامات میاں صاحب ہر عاید کیے گئے تھے، اس بحران میں میاں صاحب کے مدبرانہ کردار نے ان سب الزامات کو دھو دیا ہے۔
میاں نواز شریف کا تو اہم ہے ہی اس مرحلے پر وزیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے جس جاں فشانی سے اپنے کردار ادا کیا، عالمی راہنماں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو انگیج رکھا، یہ مثالی سے بھی بڑھ کر تھا جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
جنگ یقینا بد قسمتی ہے لیکن قوموں کی زندگی میں یہ بعض اوقات ناگزیر بھی ہو جاتی ہے جیسے بھارت کی حالیہ جارحیت کے موقع پر یہ ناگزیر ہو گئی تھی۔ ایسے مراحل پر عسکری قیادت کی ہمت اور حوصلے کے ساتھ بروقت فیصلہ سازی کی اہمیت بنیادی ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور فضائیہ کے سربراہ ظہر احمد بابر سندھو کا کردار شان دار رہا ہے جس پر قوم نے انھیں بجا طور پر خراج تحسین پیش کیا۔ موجودہ بحران کے موقع پر ہماری عسکری قیادت کے تحرک اور چابک دستی نے ہمیں بدنہاد دشمن پر بالادستی دلائی جس پر قوم بارگاہ ایزدی میں سر بہ سجود ہے اس تجربے نے ہمیں یہ بھی سکھا دیا ہے کہ قومی ترقی کے لیے سنجیدہ اور باوقار سیاست ہی ہماری ضرورت ہے لہذا اب وقت آگیا ہے کہ لا ابالی کی سیاست کو بھی خدا حافظ کہہ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں پاکستان کی فتح نے صرف جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز نہیں کر دیا بلکہ ملک اندر بھی یہی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنوبی ایشیا کے موقع پر بھارت کی بھارت کے یہ حقیقت میں ایک ہوتی ہے دیا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کا بھیانک چہرہ اور ناپاک عزائم بے نقاب کر دیے
ربیعہ اعجاز کا کہنا تھا کہ ’’بی جے پی، آر ایس ایس کے تحت بھارت ایک اکثریتی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں تمام اقلیتیں مسلمان، عیسائی اور دلت مسلسل خوف و جبر کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں بھارت کا بھیانک چہرہ اور ناپاک عزائم دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ بھارتی بیان کے جواب میں سیکنڈ سیکرٹری ربیعہ اعجاز نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جوابی بیان دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’’مجھے بھارتی مندوب کے ریمارکس کا جواب دینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک کلاسیکی مثال ہے جس میں مظلوم بننے کا دعویٰ اصل میں مظالم ڈھانے والا کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ریاستی نظام، جس نے نفرت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، ہجوم کے تشدد کو معمول بنایا اور امتیازی سلوک کو اپنے ہی شہریوں اور مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے خلاف قانون کا حصہ بنا دیا۔ اسے "ذمہ داری برائے تحفظ" (R2P) پر کوئی اخلاقی جواز حاصل نہیں۔ ربیعہ اعجاز کا کہنا تھا کہ ’’بی جے پی، آر ایس ایس کے تحت بھارت ایک اکثریتی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں تمام اقلیتیں مسلمان، عیسائی اور دلت مسلسل خوف و جبر کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ لنچنگ پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ بلڈوزر اجتماعی سزا کا ذریعہ بن چکے ہیں، مساجد کو شہید کیا جاتا ہے اور شہریت کا حق مذہب کی بنیاد پر چھینا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ کسی عوام کی حفاظت نہیں، بلکہ ان کا ریاستی سطح پر ظلم ہے۔ ایسا ظلم جو قانون کی آڑ میں کیا جاتا ہے، اقتدار اسے فخر سے پیش کرتا ہے اور پھر بھی بھارتی وفد بین الاقوامی اصولوں کی بات کرتا ہے، جب کہ بھارت نے نہ صرف اپنے ہی لوگوں بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بھی دبا رکھا ہے، خاموش کرا رکھا ہے اور بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی سیکنڈ سیکرٹری کا مزید کہنا تھا کہ ’’جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، بھارت کا یہ دعویٰ کہ یہ اس کا "اٹوٹ انگ" یا "اندرونی معاملہ" ہے، مکمل طور پر سیاسی اور قانونی طور پر جھوٹ پر مبنی ہے کیوں کہ جموں و کشمیر نہ کبھی بھارت کا حصہ تھا، نہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے متنازع علاقہ تسلیم کیا ہے۔ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں، جن میں قرارداد 47 (1948)، 91 (1951) اور 122 (1957) شامل ہیں اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان کی قراردادیں، کشمیری عوام کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں کہ وہ آزاد اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے ان قراردادوں کو تسلیم کیا تھا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت اس پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ اس سے انکار بین الاقوامی قانون کی مسلسل خلاف ورزی ہے، لیکن بھارت کے جرائم صرف قبضے تک محدود نہیں۔ 6 اور 7 مئی 2025ء کو بھارت نے پاکستان کے شہری علاقوں پر بلااشتعال اور جان بوجھ کر حملہ کیا، جس میں 35 معصوم افراد شہید ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں پاکستان، بچوں کے تحفظ سے اپنی وابستگی کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ برائے بچوں اور مسلح تنازعات سے نکالا جا رہا ہے، وہیں بھارت نے حال ہی میں پاکستان میں 15 بچوں کو شہید کیا۔ یہ کوئی عسکری جھڑپ نہیں تھی، بلکہ ایک قتلِ عام تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی جب کہ ہم نے ان مظالم کو اقوام متحدہ کی تمام متعلقہ رپورٹوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ربیعہ اعجاز نے کہا کہ بھارت کی ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی بھی دستاویزی طور پر ثابت ہے۔ 2014ء کے آرمی پبلک اسکول پر حملے سے لے کر حالیہ خضدار اسکول بس پر حملے تک، بھارتی خفیہ اداروں کے نشانات واضح ہیں۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کی بھارتی پشت پناہی کے ذریعے بھارت پاکستان کے خلاف ایک خفیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں بلکہ بھارتی سابقہ حکام کے عوامی اعترافات اس کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ذمہ داری برائے تحفظ" (R2P) ان ریاستوں کے لیے ایک نعرہ نہیں بننا چاہیے جو خود مسلسل مظالم کے مرتکب ہوں۔ یہ ان کے لیے پردہ نہیں بن سکتی جو اپنے ملک میں حقوق کا انکار کرتے ہیں اور بیرون ملک انتشار پھیلاتے ہیں۔ اگر بین الاقوامی برادری واقعی تحفظ کے اصول پر سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے ان ریاستوں سے کمزور اور مظلوم آبادیوں کو بچانا ہو گا، جن میں بھارت بھی شامل ہے۔