برطانیہ میں پوسٹ آفس کی تاریخ کی سب سے بڑا اسکینڈل بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
لندن : برطانیہ کے پوسٹ آفس کی تاریخ کا بدترین اسکینڈل، جس میں 900 سے زائد بے گناہ ملازمین کو مجرم بنا دیا گیا، آخر کار ایک سرکاری انکوائری کے ذریعے پوری شدت کے ساتھ بے نقاب ہو چکا ہے۔
اس اسکینڈل کو ’ہورائزن اسکینڈل‘ کا نام دیا گیا ہے، جس کا تعلق پوسٹ آفس کے کمپیوٹر سسٹم میں موجود ایسی سنگین خرابیوں سے ہے جنہوں نے لاکھوں پاؤنڈ کے فرضی مالی خسارے ظاہر کیے۔
یہ خرابی جاپانی کمپنی فوجتسو کے بنائے گئے ہورائزن سافٹ ویئر میں تھی، جو 1999 سے برطانیہ بھر میں استعمال ہو رہا تھا۔
کئی پوسٹ ماسٹرز نے مالی عدم توازن کی شکایت کی تو بجائے ان کی بات سنی جائے، انہیں مجرم قرار دے کر قید، برطرفی اور ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔ 236 افراد کو قید کی سزا سنائی گئی جبکہ متعدد افراد نے خودکشی کی۔
2021 میں شروع ہونے والی سرکاری انکوائری نے ثابت کیا کہ پوسٹ آفس اور فوجتسو دونوں کو خرابی کا علم تھا لیکن انہوں نے سچ کو چھپایا اور بے گناہوں پر مقدمات چلائے۔
برطانوی حکومت نے اب تک ایک ارب پاؤنڈ سے زائد کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ متعدد متاثرین کی سزائیں کالعدم ہو چکی ہیں جبکہ دیگر مقدمات دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔
اس اسکینڈل کی مرکزی شخصیت سمجھی جانے والی سابق سی ای او پولا وینلز پر سخت عوامی دباؤ اور تنقید جاری ہے۔
اس مسئلے پر بننے والی مشہور ٹی وی سیریز "Mr.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پوسٹ آفس
پڑھیں:
یوسف رضا گیلانی ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل کے مزید 9 مقدمات سے بری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سینیٹ کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) کے میگا کرپشن اسکینڈل سے جڑے مزید 9 مقدمات میں بری کر دیا گیا۔
وفاقی انسداد بدعنوانی عدالت (کراچی) کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے میں استغاثہ کے ناکافی شواہد کی بنیاد پر گیلانی سمیت دیگر شریک ملزمان کو بری کیا گیا۔
یہ مقدمات ان 26 مختلف کیسز کا حصہ تھے جو ایف آئی اے نے 2013 اور 2014 کے دوران ٹڈاپ اسکینڈل کے حوالے سے دائر کیے تھے۔ گیلانی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم جعلی کمپنیوں کے ذریعے فریٹ سبسڈی کی مد میں اربوں روپے کی خوردبرد کی اور مبینہ طور پر 50 لاکھ روپے بطور رشوت وصول کیے۔
وکیلِ صفائی فاروق ایچ نائیک کے مطابق نہ تو کوئی براہ راست ثبوت پیش کیا جا سکا اور نہ ہی کوئی گواہ سامنے آیا، جس کے باعث عدالت نے ان مقدمات کو بے بنیاد قرار دے کر ختم کر دیا۔
یاد رہے کہ ان مقدمات کی ابتدائی تحقیقات سال 2009 میں شروع ہوئی تھیں، تاہم مقدمات کا باقاعدہ اندراج 2013 میں ہوا اور 2015 میں یوسف رضا گیلانی کا نام حتمی چالان میں شامل کیا گیا۔ اب تک وہ ان 26 میں سے 13 مقدمات سے بری ہو چکے ہیں جب کہ باقی مقدمات پر فیصلے زیر التوا ہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ان کے خلاف چلنے والے یہ مقدمات درحقیقت سیاسی نوعیت کے تھے جو انہیں اور ان کی جماعت کو بدنام کرنے کے لیے بنائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات گزشتہ 12 برسوں سے لٹک رہے تھے اور انصاف کی تاخیر خود ایک طرح کی ناانصافی ہے۔
سیاسی امور پر بات کرتے ہوئے گیلانی نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پنجاب میں نئی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت کر رہی ہے اور یہ وہی قیادت فیصلہ کرے گی کہ پارٹی وفاقی حکومت کا حصہ بنے یا نہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ حکومت کے ترجمان نہیں بلکہ سینیٹ کے متفقہ چیئرمین ہیں، اور اپنے سیاسی کردار کو آئینی حدود کے اندر رکھتے ہیں۔
ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا اور بتایا کہ ہائی کورٹ میں زیر التوا 14 مقدمات میں بھی اب تک کوئی گواہ یا شواہد پیش نہیں کیے جا سکے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان مقدمات کو بھی جلد از جلد نمٹایا جائے یا مناسب قانونی کارروائی کے تحت واپس بھیجا جائے۔