جامعہ کراچی: 25 طلبہ کو پی ایچ ڈی اور 45 کو ایم فل کی اسناد تفویض
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی زیر صدارت منعقدہ ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ (اے ایس آربی) کے حالیہ اجلاس میں 25 طلبا و طالبات کو پی ایچ ڈی، 45 طلبا و طالبات کو ایم فل جبکہ ایک طالبعلم کو ڈی ایس سی اورایک طالبعلم کو کورس ورک (30 کریڈٹ آرز) مکمل کرنے پر ایم ایس کی سند تفویض کی گئی۔
رجسٹرار جامعہ کراچی کے مطابق اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا شاہ کو کیمیاء میں ڈی ایس سی کی ڈگری تفویض کرنے کی منظوری دی گئی، جبکہ پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرنے والوں میں فیروز خان (حیاتی کیمیاء)، جاوید اکرم (باٹنی آئی ایس ایچ یو)، وجیہہ اسلم (بزنس ایڈمنسٹریشن)، عرفان علی (کیمیاء)، دائم آصف راجا، لبنیٰ عطا، نمرہ نوید شیخ، انیلا فیاض، شوکت ولی (کیمیاء ایچ ای جے)، فواد حسین پاؤل (معاشیات)،ثوبیہ عرفان بٹ، لالہ رخ خورشید (بین الاقوامی تعلقات)، ثمرین زہرہ (علوم اسلامی)، نعیم محمود (قانون)، ایم عاطف ادریس (ریاضی)، محمد ارسلان، سارہ نقوی (فارماکوگنوسی) شامل ہیں۔
شاہد علی، عبداللہ (فارماکولوجی)، قرۃ العین (فعلیات)، عاصم محبوب (پبلک ایڈمنسٹریشن)، عامر وحید خواجہ (سماجی بہبود)، انتھونی گیبریل)، شمسہ صباحت (اُردو) اور اویس انور (اصول الدین) شامل ہیں۔
ایم فل کی اسناد حاصل کرنے والوں میں مریم زہرہ (اطلاقی معاشیات)، عطوفہ شبیر، ثناء فاروق (حیاتی کیمیاء)، ثناء ریاض (بائیوٹیکنالوجی)، مصدق منظور (نباتات)، سید علی نجف زیدی (بزنس ایڈمنسٹریشن)، یمنیٰ خان، محمد عمار ایوبی (کیمیاء ایچ ای جے)، درِ شہوار حسن، فرحین شاہین (کلینکل سائیکولوجی)، کرن عظیم، فائزہ قمر (کامرس)، فیصل الیاس(جرمیات)، یسریٰ رحمان (ارضیات)، نشماں کھتری(انسٹیٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی)، سلیم اللہ، محمد قسیم سعید، شیرین ہاشم (بین الاقوامی تعلقات)، محمد بلال طاہر (علوم اسلامی) شامل ہیں۔
حریم عبداللہ (کبجی)، عمامہ عبدالرزاق (خرد حیاتیات)، عائشہ صدیقہ، نمرہ مظفر سلطان (مالیکیولرمیڈیسن پی ایم ڈی سی)، ہادیہ توصیف (مالیکیولر میڈیسن آئی سی سی بی ایس)، اسماء الطاف، اسماء اِرک (فارماسیوٹیکس)، وردا فاطمہ (فارماکولوجی)، احمد مجتبیٰ (فارمیسی پریکٹس)، شہزاد احمد خان، اسماء خان (نفسیات)، منیبہ گل (فعلیات)، محمد اقبال، نوید خان، محمد ثاقب الدین، نوید اقبال (پبلک ایڈمنسٹریشن)، حافظ عثمان صفدر (قرآن و سنہ)، عبدالرحیم (اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی)، عبدالمہیمن، روبی داؤد، محمد زوہیب، محمد سعد شبیر، محمد اکمل، محمد عذیر صدیقی (اصول الدین) اور صبا جاوید، صفیہ صدیقی (حیوانیات) کو بھی ایم فل کی اسناد دی گئیں۔
کورس ورک (30کریڈٹ آرز) مکمل کرنے پر ایم ایس کی اسناد حاصل کرنے والوں میں اُجالا خالد (یورپین اسٹڈیز) شامل ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کی اسناد شامل ہیں ایم فل
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔