شہیدی جوڑ میلہ 30 مئی اور 16 جون کو منانے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
لاہور:
پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی نے سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو جی کا شہیدی جوڑ میلہ 16 جون کے علاوہ 30 مئی کو بھی منانے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان میں گرو ارجن دیو جی کا شہیدی دن نانک شاہی کلینڈر کے مطابق ہر سال 16 جون کو گورودوارہ ڈیرہ صاحب لاہور میں منایا جاتا ہے جبکہ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی امرتسر سال یہ دن 30 مئی کو مناتی ہے۔
مزید پڑھیں: سکھوں کو کرتارپور آنے سے روکنا مودی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو بےنقاب کرتا ہے، محسن نقوی
شہیدی جوڑ میلہ منانے کے دن پر تنازع کی وجہ سے بھارت سے سکھ یاتریوں کی کم تعداد پاکستان آتی ہے تاہم پاکستان سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی نے دو تاریخوں کا تنازع ختم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس سال سے گروارجن کا شہیدی جوڑ میلہ 16جون کے ساتھ ساتھ 30 مئی کو بھی منایا جائے گا۔
پاکستان سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردار رمیش سنگھ اروڑہ اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے ایڈیشنل سیکرٹری شرائنز سیف اللہ کھوکھر نے بتایا کہ 30 مئی سے 16 جون تک گروارجن دیو کے شہیدی دن اور جوڑ میلہ کی تقریبات کے لیے وقف رہے گا ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پی ایس ایل کی مالی بے ضابطگی سے پی سی بی کو اربوں روپے کا نقصان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی انتظامی سطح پر کی گئی ایک اہم مالیاتی تبدیلی نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے لیے سنگین مالی نقصان کے امکانات پیدا کردیے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک حالیہ سرکاری اجلاس کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ فرنچائزز کو کل آمدنی میں سے دیے جانے والے حصے میں مبینہ طور پر قاعدے سے ہٹ کر اضافہ کیا گیا، جس کے باعث پی سی بی کو اربوں روپے کے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر باضابطہ آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ منافع کی تقسیم میں کی جانے والی اس غیر مجاز تبدیلی سے قومی کرکٹ بورڈ کو ایک ارب 63 کروڑ روپے سے زائد کا مالی نقصان پہنچا ہے۔
آڈٹ پیرا کے مطابق پی ایس ایل کی آمدن میں سے فرنچائزز کو دیا جانے والا منافع مقررہ فارمولے سے زیادہ دیا گیا اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب ملک کورونا وبا کی لپیٹ میں تھا۔
پی سی بی حکام کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ کورونا کے دوران لیگ کے مالی حالات متاثر ہوئے تھے، اس لیے فرنچائزز کی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ ریونیو شیئرنگ کا تناسب تبدیل کیا گیا،مگر اس معاملے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ معاہدے کی شقوں میں تبدیلی کیے بغیر اس طرح کا فیصلہ خلاف ضابطہ تصور کیا جاتا ہے۔ معاہدے معطل کیے بغیر منافع میں تبدیلی قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ذیلی کمیٹی نے پی سی بی کو اس معاملے پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ اگلے 90 دن کے اندر اندر تمام مالی اور انتظامی قواعد و ضوابط کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور ایسی کوئی بھی پالیسی جو غیر شفاف یا یکطرفہ بنیاد پر ہو، فوری طور پر درست کی جائے۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ قومی اداروں کی مالی شفافیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین کے مطابق یہ معاملہ نہ صرف پی سی بی کی مالی پالیسیوں پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے بلکہ اس سے بورڈ کی مجموعی انتظامی صلاحیت پر بھی حرف آتا ہے۔ پی ایس ایل جیسا برانڈ جو حالیہ برسوں میں قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مثبت تشخص کا ذریعہ بن چکا ہے، اس میں اس نوعیت کی مالی بے ضابطگی کا سامنے آنا بلاشبہ تشویشناک ہے۔
دوسری جانب کرکٹ حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ بحث ہے کہ آیا فرنچائزز کو منافع کی شرح میں اضافے سے حاصل ہونے والا فائدہ واقعی وقتی ریلیف تھا یا ایک مستقل رعایت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش؟ اگر مستقبل میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا تو پی سی بی کے مالی ذخائر اور خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔