پی ڈی ایم اے نے درجہ حرارت میں اضافے ،ہیٹ ویو بارے نیا الرٹ جاری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2025ء) پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے درجہ حرارت میں اضافے اور ہیٹ ویو بارے نیا الرٹ جاری کرتے ہوئے صوبہ بھر کے کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کر دیں ۔ ریلیف کمشنر پنجاب نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ سمیت متعلقہ محکمے متوقع ہیٹ ویو کے پیش نظر الرٹ رہیں۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق محکمہ سکولزایجوکیشن، ہیلتھ، ٹرانسپورٹ، لوکل گورنمنٹ، ریسکیو 1122 اور دیگر متعلقہ محکموں کو الرٹ جاری کیا گیا ہے ۔20 مئی سے 24 مئی تک پنجاب کے بڑے شہروں اور میدانی علاقوں میں درجہ حرارت بڑھنے اور ہیٹ ویو کے خدشات ہیں۔آئندہ چند روز میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا خدشہ ہے۔ 24 مئی تک درجہ حرارت 05 سے 07 ڈگری سینٹی گریڈ معمول سے زیادہ رہنے کا خدشہ ہے ۔(جاری ہے)
گرمی کی لہر کے باعث میدانی علاقوں میں بعض مقامات پر تیز ہوا اور آندھی کے امکانات بھی ہیں۔ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے احکامات کے مطابق ضلعی انتظامیہ کو الرٹ جاری کر دیا ہے۔ انتظامیہ عوامی مقامات پر صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ہسپتالوں اور موبائل ہیلتھ یونٹس میں ہیٹ سٹروک سے متعلق ابتدائی طبی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔گرمی اور لو کی شدت میں اضافے سے عوام الناس کو بھی محتاط رہنا ہو گا۔دوپہر کے وقت کام کرنے والے لو سے بچنے کا اہتمام کریں۔ ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں ،سر ڈھانپ کر رکھیں ۔ بچوں بزرگوں کا خاص خیال رکھیں ،غیر ضروری سفر سے گریز کریں ۔انہوں نے کہا کہ پرنٹ ،سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ہیٹ ویو بارے آگاہی دی جا رہی ہے ایمرجنسی میں پی ڈی ایم اے ہیلپ لائن 1129 یا ریسکیو 1122سے رابطہ کریں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ڈی ایم اے الرٹ جاری ہیٹ ویو
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔