اسماء عباس اور زارا نور عباس کی کلاسیکل ڈانس پرفارمنس نے دل جیت لیے، مداحوں اور فنکاروں کی جانب سے بھرپور داد وصول کی۔

معروف اداکارہ اسماء عباس اور ان کی صاحبزادی، باصلاحیت اداکارہ زارا نور عباس کی کلاسیکل رقص کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں دونوں ماں بیٹی نے مل کر کتھک ڈانس پرفارمنس پیش کی۔

View this post on Instagram

A post shared by Zara Noor Abbas Siddiqui (@zaranoorabbas.

official)

یہ دلکش رقص ایک کلاسک گیت پر کیا گیا جو عظیم گلوکارہ میڈم نور جہاں کی آواز میں ہے، اس پرفارمنس کو سوشل میڈیا پر مداحوں اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی جانب سے خوب سراہا جا رہا ہے۔

ویڈیو میں زارا نور عباس نے زرد چنری ساڑھی جبکہ اسماء عباس نے گلابی رنگ کی خوبصورت چنری ساڑھی زیب تن کر رکھی ہے، دونوں کی ہم آہنگی، ڈانس مووز اور جذبات نے دیکھنے والوں کو مسحور کر دیا۔

زارا نور عباس نے اس پرفارمنس کو اپنی والدہ کے نام کرتے ہوئے ایک جذباتی پیغام بھی تحریر کیا۔

انہوں نے لکھا کہ اماں، آپ وہ سب سے مضبوط عورت ہیں جو میں نے زندگی میں دیکھی، آپ سے میں نے یہ سیکھا کہ دکھ کو خاموشی سے کیسے سہنا ہے، بغیر داد کے قربانی کیسے دینی ہے اور دنیا چاہے سراہائے یا نہ سراہائے، وقار کے ساتھ کیسے جینا ہے، لیکن آج میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ شاید اماں، آپ کو اتنی قربانیاں نہیں دینی چاہییں تھیں، شاید آپ کے خواب بھی اہم تھے اور شاید مجھے بھی اپنی ماں کی طرح بے حد بے لوث بننے کی ضرورت نہیں، تاکہ میں ان کے خواب ان کے ساتھ جینے کی کوشش کر سکوں۔

سوشل میڈیا پر شائقین کے علاوہ شوبز شخصیات جیسے زویا ناصر، حرا مانی، حرا خان اور دیگر فنکاروں نے بھی ان کی تعریف کی۔

ایک مداح نے تبصرہ کیا اسماء عباس کی توانائی آج بھی ویسی ہی ہے، ان کا رقص بےمثال ہے۔

ایک اور صارف نے لکھا اس گیت کی آواز اسماء عباس کی شخصیت سے بالکل میل کھاتی ہے۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اسماء عباس عباس کی

پڑھیں:

مخصوص نشستیں کیس؛ دو ججز خود بینچ میں نہیں بیٹھ رہے تو زبردستی کیسے بٹھائیں، آئینی بینچ

اسلام آباد:

مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب دو ججز خود بینچ میں نہیں بیٹھ رہے تو انھیں زبردستی کیسے بٹھائیں، تمام آئینی بینچز کے لیے نامزد ججز کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ وکیل حامد خان اور فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے متفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔ آئینی بینچ کے سرابراہ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست ہمیں ابھی نہیں ملی، آپ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سے پتہ کریں۔

وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری دو متفرق درخواستیں بینچ کے سامنے ہیں، میں نے اس بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا ہے۔ نظرثانی ہمیشہ مرکزی کیس سننے والا بینچ سنتا ہے، مرکزی کیس 13 رکنی بینچ نے سنا تو وہی بینچ اب نظرثانی سنے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس اب چھوٹا بینچ بھی سن سکتا ہے، ترمیم کے بعد 13 رکنی بینچ کا فیصلہ اب 8 یا 9 رکنی آئینی بینچ بھی سن سکتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے لیے تمام ججز قابل احترام ہیں، میرا بینچ کے کسی ممبر کے وقار پر بھی کوئی اعتراض نہیں، میرے 11 رکنی بینچ کی تشکیل پر آئینی و قانونی اعتراضات ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ میں واضح کر دوں کہ دونوں ججز نے خود بینچ سے علیحدگی اختیار کی، دو ممبران کی خواہش پر 11 رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ نظرثانی کے لیے ججز کی تعداد کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہاں 13 رکنی بینچ تھا دو خود علیحدہ ہوگئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ دو ممبران نے نوٹس نہ دینے کا خود فیصلہ کیا، آپ ان ججز کو کیوں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ججز کے اپنے اعتراض کے بعد پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وہ دونوں ججز اب بیٹھ کر کیا کریں گے، دونوں ججز اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟

فیصل صدیقی نے بتایا کہ اعتراضات پر تفصیل سے دلائل دوں گا، کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں ایک سماعت اور لے لوں گا، میں کل بھی یہاں ہوں گا کل دلائل دے دوں گا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ اعتراضات پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے لیے یہ کیس ضروری نہیں اور میرا موکل بھی ضروری نہیں ہے، میرے لیے عدالت کا نظرثانی دائرہ سماعت ضروری ہے، ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بینچ سنے گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب دو ججز خود نہیں بیٹھنا چاہتے تو آپ کیوں انھیں بٹھانا چاہتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے دو ججز تو اکثریتی فیصلے میں اپنی رائے شمار کرنے پر بھی راضی نہیں ہیں، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ دونوں ججز کے اختلافی نوٹ کو اکثریتی فیصلے میں شمار کیا جائے گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین یا قانون میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ اختلافی نوٹ کو شمار کیا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب دو ججز نے درخواستیں پہلی ہی سماعت پر خارج کر دیں تو پھر انھیں کیسے بٹھائیں۔

وکیل فیصل صدیق نے کہا آئینی کنونشن کا تقاضا ہے کہ وہی عددی تعداد والا بینچ نظرثانی درخواستیں سنے جس نے پہلے سنا ہو، مستقبل کے لیے کم از کم اصول طے ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب دو ججز خود بینچ میں نہیں بیٹھ رہے تو انھیں زبردستی کیسے بٹھائیں، تمام آئینی بینچز کے لیے نامزد ججز کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد تو 13 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف 8 یا 9 آئینی ججز کیس سن سکتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئینی بینچ میں مقدمات خودکار طور پر منتقل ہو جاتے ہیں، آئینی بینچ میں نامزد ججز کی کل تعداد 15 ہے، دو ججز ایسے ہیں جو پشاور ہائیکورٹ میں اس کیس کو سن چکے ہیں، باقی تمام ججز کو اس بینچ میں شامل کیا گیا ہے، بینچ کی تشکیل میں ججز کو پسند ناپسند کی بنیاد پر شامل نہیں کیا گیا، ہم نے تو چار یا تین والی بحث سے بچنے کے لیے یہ طے کیا کہ دو ججز کی رائے کو آخر میں شمار کیا جائے گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ میں ایک تجویز دینا چاہتا ہوں، سنی اتحاد کونسل نظرثانی درخواستوں پر سماعت روکی جائے اور جوڈیشل کمیشن اجلاس بلا کر دو مزید ججز کو بینچ میں شامل کیا جائے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے آپ دلائل دیں فیصلہ تو ہم نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ویسے مزید ممبرز کو شامل کرنے پر کوئی پابندی تو نہیں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ دیکھیں ہم کسی کی خواہش پر نہ کیس بنا سکتے نہ کیس چلا سکتے ہیں، 23ویں آئینی ترمیم کے بعد اب طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مستقبل کے لیے اصول طے کریں، کہیں کل یہ نہ ہو کہ آئینی بینچ کے تین جج بیٹھ کر فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیس سن رہے ہوں، میں کل اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے رجسٹرار آفس سے چیک کروایا ہے، رجسٹرار آفس نے کہا ہے ہماری درخواست میں توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے، آپ اس کا تعین کھلی عدالت میں کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر ہمارے سامنے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں تو کیا ہوگا؟

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر رجسٹرار آفس اعتراضات لگائے تو آپ اپیل دائر کر دیں۔

آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔ بینچ پر اعتراض سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک چین سفارتی تعلقات کی 74ویں سالگرہ، طلبا و طالبات کا شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ
  • شمالی قبرص‘ پاکستانی طالبات نے انسانی جذبات جانچنے کا آلہ بنا کر مقابلہ جیت لیا
  • آزاد فضاؤں میں اڑنے والا بگلا ایک ماہی گیر کے گھر کا فرد کیسے بنا؟
  • زارا نور کا والدہ اسما عباس کے ساتھ نور جہاں کے شہرۂ آفاق نغمے پر کلاسیکل رقص؛ ویڈیو وائرل
  • مخصوص نشستیں ِ، 2جج کود میں نہیں بیٹھ رہے تو زبردستی کیسے بٹھائیں جسٹس علی مظہر
  • ’مشن امپاسیبل 8‘ نے ریلیز سے قبل ہی 12 ملین ڈالرز کا بزنس کرلیا، مگر کیسے؟
  • پرائیڈ آف پرفارمنس ملنے پر ُسونا اور چاندی‘ کے اعزاز میں تقریبِ پذیرائی
  • میرے ہوتے ہوئے اداروں سے کرپشن کا خاتمہ نہ ہونا افسوسناک ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز
  • مخصوص نشستیں کیس؛ دو ججز خود بینچ میں نہیں بیٹھ رہے تو زبردستی کیسے بٹھائیں، آئینی بینچ