حالیہ جنگ 1971اور 1965سے زیادہ خطرناک تھی، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
حالیہ جنگ 1971اور 1965سے زیادہ خطرناک تھی، بیرسٹر گوہر WhatsAppFacebookTwitter 0 21 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ 1971 ہو یا 1965 ان دونوں جنگوں سے زیادہ خطرناک حالیہ جنگ تھی، دونوں ممالک نیوکلیئر پاور ہیں اس میں پاکستان کو کامیابی ملنا اعزاز کی بات ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران، بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ انڈیا کا غرور خاک میں مل گیا ہے، پوری قوم اتحاد قائم کرے اور متحد رہے اگر انڈیا نے دوبارہ کچھ ایسا کیا تو پوری قوم ملکر جواب دے گی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جنگ کی فضا اب بھی موجود ہے لیکن اللہ نے افواج پاکستان کو کامیابی سے نوازا ہے، پاکستان کو اللہ نے اس کامیابی سے نوازا جس کا تصور ہم نے خود بھی نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ رابطے بحال نہیں ہوئے لیکن بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوں گے، پی ٹی آئی پاکستان کی بڑی جماعت ہے اور عمران بڑے لیڈر ہیں اس لیے یہ سختیاں اب ختم ہوں۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ آرمی چیف کو جو فیلڈ مارشل کا اعزاز ملا ہے اس کے بعد ان پر اور زمہ داری عائد ہوتی ہے، ہمارا افواج کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہم اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی افواج کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور ساتھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، ایک اہم ادارہ ہے اور سیاست پر اثرانداز رہا ہے تو درخواست یہی ہے کہ بہتری کی طرف لے جانے میں جو اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کرے۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ اس لیے آئے تاکہ خان صاحب کا کیس لگ سکے، 2 سال سے زائد ہوگیا خان صاحب جیل میں ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیر ریلوے کا عیدالاضحی پر 5خصوصی ٹرینیں چلانے کا فیصلہ وزیر ریلوے کا عیدالاضحی پر 5خصوصی ٹرینیں چلانے کا فیصلہ آئیسکو ریجن میں بوجہ ضروری سسٹم مینٹیننس22مئی 2025ء عارضی بجلی بندش کا شیڈول تمام آپریشن سرکلز انچارج کل کھلی کچہری کا انعقاد کریں گے،ترجمان آئیسکو عید الاضحی کی تاریخ کے تعین کیلئے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 27مئی کو طلب بھارتی اسپانسرڈ فتنہ الخوارج مذہبی لبادے کی آڑ میں دہشتگردی میں ملوث، ویڈیوز سامنے آگئیں پاک افغان تعلقات میں بڑا بریک تھرو،دونوں ملکوں کا مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کا اصولی فیصلہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ
پڑھیں:
ابراہیمی معاہدے کی گونج
ابراہیمی معاہدہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے ٹرمپ نے اپنی گزشتہ حکومت کے دور میں متعارف کروایا تھا۔ اس معاہدے کا نام پہلے صدی کی ڈیل رکھا گیا تھا، بعد میں اس کوکچھ تبدیلیوں کے ساتھ ابراھیمی معاہدے کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا اصل مقصد دنیائے اسلام کے ممالک کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ بٹھانا اور تعلقات استوارکروانا ہے تاکہ فلسطین کا سوال ہی ختم ہوجائے۔
اس معاہدے کا آغاز پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوا۔ اس کا باضابطہ ا ظہار اگست اور ستمبر 2020 میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کر کے اعلان کیا گیا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔ عرب امارات، عرب دنیا میں اردن کے بعد پہلا ملک بن گیا جس نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو تسلیم کیا۔
اس کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اسی ابراہیمی معاہدے کی رو سے امریکی حکومت کے ساتھ مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
ابراہیمی معاہدے کے لیے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں یہودیوں سے باربار یہی سوال پوچھا گیا ہے کہ ’’ تم یہودی کہاں سے اور کیسے بنے ہو؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سوال پوچھا کہ ’’ تم ابراہیم کو مانتے ہو لیکن ابراہیم تو یہودی نہیں تھے؟‘‘ یہودیوں سے پوچھا گیا کہ ’’جنھیں تم اپنا باپ داد مانتے ہو، وہ تو یہودی نہیں تھے؟‘‘ لیکن آج یہودیوں سے بڑھ کر یہودیوں کے وفادار مسلم ممالک میں موجود ہیں اور ایسی ہی سوچ کے حاملکچھ افراد پاکستان میں بھی موجود ہیں۔
حقیقت میں امریکا نے یہ معاہدہ خطے میں فلسطین کے کازکو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے بنایا ہے اور ساتھ ساتھ عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کر کے وہ خطے میں اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے، جب کہ اس معاہدے کا ظاہر مقصد جو دنیا کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں اور اس عنوان سے آپس میں تعاون ہونا چاہیے اور پھر اس تعاون کو سیکیورٹی، معاشی اور نہ جانے کون کون سے تعاون کے ساتھ جوڑکر پیش کیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں ایران کے ساتھ امریکا اور اسرائیل کی 12روزہ جنگ کے بعد تل ابیب میں ایک بڑا بینر آویزاں کیا گیا ہے جس میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے تصویروں کے ساتھ مسلمان حکمرانوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس تصویر سے واضح ہوتا ہے کہ ان سب حکمرانوں نے فلسطین بارے امریکی موقف کی حمایت کر دی ہے ۔
اس تسلسل میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ’’ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ یہ تصور نہ کیا جانے والا ملک کون ہوسکتا ہے ؟ حالات اور واقعات کچھ اس جانب اشارے تو دے رہے ہیں،
حال ہی میں پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو تبھی تسلیم کرے گا جب فلسطین کی آزاد ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہوگا، حالانکہ اس معاملے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ خارجہ پالیسی اور نظریہ کے اصولی موقف میں کسی جگہ ایسی بات موجود نہیں ہے کہ پاکستان کسی شرط کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرے گا، بلکہ قائد اعظم کی پالیسی کے مطابق پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔
کچھ پاکستانی وزرا ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے اشارے دے رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو اس میں اپنا مفاد دیکھنا ہے یعنی ایک شک اور شبہ ایجاد کردیا۔ یہاں بھی قائداعظم محمدعلی جناح کے نظریہ اور اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
ایک حکومتی وزیر کہتے ہیں کہ پاکستان کو ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے عنوان سے عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کے بارے میں اب کوئی سوال نہیں ہوگا، یعنی فلسطین کو فراموش کیا جائے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ستر ہزار سے زائد معصوم بچوں اور خواتین کا غزہ میں بہنے والا خون ابھی تک غزہ کی گلیوں میں خشک نہیں ہوا ہے لیکن کچھ افراد امریکا اور اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں ۔
فلسطین کے مسئلے پرکسی بھی قسم کا یو ٹرن اور امریکا کے اشاروں پر ابراہیمی معاہدے میں شمولیت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے برعکس ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ ، علامہ اقبال کے افکار سب کے یہ خلاف ہے، یہ سب کچھ ابراہیمی معاہدے میں شمولیت سے ہوگا۔
پاکستان کے عوام ہمیشہ قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آج بھی حکومت کو بتا دیتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔