فیلڈ مارشل عاصم منیر قسمت کا دھنی، مرد بحران
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
بعض لوگ پیدائشی خوش نصیب ہوتے ہیں، اور بعض اپنی صلاحیت، محنت اور استقامت سے قسمت کو اپنے حق میں کر لیتے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ قدرت نے انہیں خاص مقصد کے لیے چن رکھا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے، خود کو منوا کر آئے۔ انہوں نے اپنے ہر عہدے پر اپنے نقوش چھوڑے، اور اپنے ہر عمل سے ثابت کیا کہ وہ ایک غیر معمولی سپاہی اور عظیم قائد ہیں۔
ان کی زندگی کا آغاز طالب علمی سے ہوا، مگر انہوں نے عام طالب علم بن کر نہیں، بلکہ غیر معمولی ذہانت کے ساتھ تعلیمی سفر طے کیا۔ جب وہ آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا پہنچے، تو وہاں ان کا واسطہ ملک کے نوجوانوں کی کریم سے پڑا۔ تربیتی کورس میں وہ کیڈٹس شامل تھے جو ہر لحاظ سے چنیدہ تھے، لیکن عاصم منیر اپنی محنت، لگن اور غیر معمولی ذہانت کے سبب نہ صرف ان میں نمایاں ہوئے، بلکہ وہ اعزازی شمشیر کے حقدار بھی ٹھہرے ایک ایسا اعزاز جو صرف اس کیڈٹ کو ملتا ہے جو جسمانی، علمی، قائدانہ اور تربیتی تمام پہلوئوں میں اپنے کورس میٹس پر سبقت رکھتا ہے۔
یہی اعلیٰ کارکردگی ان کے عملی عسکری کیریئر کا بھی خاصہ رہی۔ جب فوجی شاہراہ پر عملی دوڑ کا وقت آیا، تو وہ ایک ایک مقام پر اپنی انفرادیت منواتے گئے۔ انہیں پاک فوج کی تقریبا ًتمام اہم اور باوقار تقرریاں حاصل ہوئیں۔ بطور میجر جنرل، انہیں سب سے مشکل اور حساس ڈویژن ایف سی این اے کی کمانڈ دی گئی، جو کارگل و سیاچن جیسے انتہائی چیلنجنگ محاذوں پر تعینات ہوتی ہے۔ وہاں ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے سب کو متاثر کیا۔
اس کے بعد انہیں ملٹری انٹیلی جنس (MI) جیسے حساس ادارے کی سربراہی سونپی گئی، جہاں انہوں نے شاندار خدمات انجام دیں۔ پھر جب وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچے، تو انہیں دنیا کی صف اول کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی کمان دی گئی۔ یہاں انہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سیکورٹی کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگرچہ آئی ایس آئی کی قیادت کا دورانیہ مختصر رہا، لیکن وہ مختصر وقت بھی ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا آئینہ دار تھا۔
بعد ازاں انہیں گوجرانوالہ کور کی کمان دی گئی۔ جہاں انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور حکمت عملی سے بھرپور اثر چھوڑا۔ کور کمانڈ کی معیاد مکمل ہونے پر وہ جنرل ہیڈکوارٹرز(جی ایچ کیو) میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات ہوئے۔ گویا عسکری میدان کا ہر سنگ میل، ہر اہم ترین عہدہ ان کے قدموں تلے آیا۔
پھر وقت بدلا، ملکی سیاست میں ہلچل برپا ہوئی۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے کئی کرداروں کو بدل کے رکھ دیا۔ ایسے میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ قریب آئی اور حیرت انگیز طور پر عاصم منیر، جو خود بھی جلد ریٹائر ہونے والے تھے، ان چند ناموں میں شامل ہو گئے جنہیں آرمی چیف کے لیے زیر غور لایا جارہا تھا۔ جیسے ہی یہ خبر منظر عام پر آئی، کچھ سیاسی حلقوں میں جیسے زلزلہ آ گیا۔ ان کی راہ میں سازشوں کے کانٹے بچھائے گئے، کردار کشی کی مہمات چلائی گئیں، دبائو بڑھانے کے لیے لانگ مارچ کیے گئے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
سازشیں خاک ہوئیں، مخالفتیں پگھل گئیں اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ایک ایسا ستارہ، جو ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا، وہ ماہتاب بن کر ابھرا۔ وہ جنہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، وہ پاکستان کے سپہ سالار مقرر ہو گئے۔ یہ محض ایک تقرری نہیں تھی، بلکہ اس قوم کے لیے ایک نئی امید تھی۔
بطور آرمی چیف، انہیں قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا رہا۔ ملک میں سیاسی بے چینی، اداروں پر حملے، سوشل میڈیا پر مہمات، اور فوج کے خلاف نفرت آمیز بیانیہ سب کا مرکز بنے عاصم منیر۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ صبر، حکمت اور غیر معمولی استقامت سے ان تمام محاذوں کا مقابلہ کیا۔ وہ کبھی اشتعال میں نہیں آئے، نہ کوئی جلد بازی کی، بلکہ ایک پیشہ ور سپاہی کی طرح ہر رکاوٹ کو ایک ایک کر کے ہٹاتے گئے۔
جب دہشت گردی کی نئی لہر نے سر اٹھایا، تو یہ انہی کی قیادت تھی جس نے اسے کچل دیا۔ ان کے فیصلوں کی تیز رفتاری، انٹیلی جنس کی مضبوطی، اور افواج کی مکمل ہم آہنگی نے دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
لیکن مشکلات ختم نہ ہوئیں۔ ایک طرف دہشت گردی تھی، تو دوسری طرف اندرونی محاذ پر کچھ سیاسی عناصر مسلسل ان کے خلاف کردار کشی کی مہمات چلا رہے تھے۔ لیکن یہ شخص، جس کی رگوں میں قرآن کی تلاوت گونجتی ہے، اپنے عزم، وقار اور بردباری سے ڈٹا رہا۔ ان کی تقاریر میں شامل قرآنی آیات، ان کے لہجے کا دبدبہ، اور ان کی پالیسیوں کا تدبر دشمن کے دلوں پر لرزہ طاری کر گیا۔
بین الاقوامی سازشیں شروع ہوئیں، دشمن ممالک نے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستانی فوجی تنصیبات اور شہری علاقوں پر میزائل داغے، تو جواب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی دفاعی حکمت عملی نے دشمن کو منہ کی کھانے پر مجبور کر دیا اور پھر دس مئی کی صبح، پاکستانی افواج نے دشمن کے دو درجن سے زائد فوجی مراکز کو نشانہ بنا کر نیست و نابود کر دیا۔ بھارت کی مغربی پٹی تباہی کی تصویر بن گئی، اور میزائلوں کی درست نشانہ بازی نے دشمن کو عالمی برادری کے سامنے سیز فائر کی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔
پاکستان نے اپنی فتح کے مقام پر جنگ بندی کی پیشکش قبول کی۔ ملک بھر میں جشن منایا گیا، اور آرمی چیف کی اعلیٰ قیادت اور حکمت عملی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ دشمن ملک کو نہ صرف عسکری بلکہ نفسیاتی طور پر بھی شکست ہوئی۔ اس شاندار کارکردگی، بے مثال جرات، اور قوم کی رہنمائی پر حکومت پاکستان نے انہیں مسلح افواج کے بلند ترین منصب فیلڈ مارشل پر فائز کر دیا۔
یہ مقام ان کے لیے اللہ کی طرف سے خاص انعام تھا۔ جو شخص کل ریٹائر ہونے والا تھا، وہ آج قوم کا فخر، فوج کا سالار اور تاریخ کا ہیرو بن چکا ہے۔یہی تو ہے اصل کامیابی۔’’وتعز من تشاء و تذل من تشاء۔‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: غیر معمولی فیلڈ مارشل انہوں نے آرمی چیف کر دیا کے لیے
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔