دہشت گرد کس قدر ظالم اور درندے ہوتے ہیں ‘اس کا ثبوت تو وہ متعدد بار اپنے عمل سے دے چکے ہیں‘ اگلے روز دہشت گردوں نے بلوچستان کے ڈسٹرکٹ خضدار میں اسکول بس پرحملہ کر کے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ دین و مذہب کے ہی باغی نہیں ہیں بلکہ ان کا انسانیت سے بھی دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ڈسٹرکٹ خضدار میں دہشت گردوں کے حملے میں 3معصوم بچے اور 2جوان شہیدہوئے ہیں جب کہ 39بچوں سمیت 53افراد زخمی ہو گئے۔زخمیوں میں سے8کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کی یہ واردات کوئٹہ کراچی ہائی وے پر زیروپوائنٹ خضدار پر پیش آئی ہے۔ جو بچے شہید ہوئے ہیں وہ اسکول کی طالبات ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے اے پی ایس پشاور جیسے سانحے کی پلاننگ کر رکھی تھی لیکن ان کا یہ منصوبہ قدرت نے ناکام بنا دیا۔
صدرمملکت آصف زرداری ‘وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف ،فیلڈ مارشل سید عاصم منیر و دیگر نے اس دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے اور بھارتی ایما پر ہونے والی دہشت گردی کو کچلنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرِ دفاع، وزیرِ داخلہ، وزیرِ اطلاعات اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور انھوں نے زخمی بچوں اور دیگر متاثرین کی عیادت کی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور کمانڈر کوئٹہ کور نے واقعے پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم اور اعلیٰ قیادت نے کہا کہ بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کی اس سفاکانہ کارروائی سے نہ صرف دہشت گردی کی اصل تصویر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوئی ہے بلکہ یہ حملہ اخلاقی اقدار اور انسانیت کے خلاف کھلی بغاوت ہے،ایسے گروہ جو نسلی بنیادوں کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کر رہے ہیں، نہ صرف بھارت کے ریاستی مقاصد کے آلہ کار ہیں بلکہ بلوچ اور پشتون عوام کی روایتی غیرت، امن پسندی اور اقدار کی بھی توہین کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بچوں کو نشانہ بنانے جیسے غیر انسانی فعل کی شدید مذمت کرے اور بھارت کی جانب سے دہشت گردی کو بطور خارجہ پالیسی استعمال کرنے کے رجحان کا نوٹس لے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بربریت میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، وزیراعظم نے اسکول بس پر بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے اسکول بس پر حملہ کر کے درندگی کی تمام حدیں پار کردی ہیں، انھیں انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔
انھوں نے واقعہ کے ذمے داران کا فوری کھوج لگانے اور قرار واقعی سزا دلانے کی ہدایت کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد میدان جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں گھناؤنی اور بزدلانہ کارروائیاںکررہے ہیں، دہشت گردی اور بدامنی پھیلائی جارہی ہے، دہشت گردوں نے خضدار میں اسکول جانے والے معصوم بچوں کی بس کو نشانہ بنایا، آپریشن بنیان مرصوص میں ناکامی اور فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں بری طرح شکست کھانے کے بعد بھارتی دہشت گرد پراکسیز پاکستان میں معصوم بچوں اور شہریوں جیسے آسان اہداف کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں نشانہ بنارہی ہیں، بھارتی حکومت کی طرف سے ریاستی پالیسی کے طور پر دہشت گردی کا استعمال نفرت انگیز، اخلاقی پستی اور بنیادی انسانی اصولوں کو نظر انداز کرنے کی واضح مثال ہے۔ ترجمان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس بزدلانہ بھارتی اسپانسرڈ حملے کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور ذمے داروں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں نئی نہیں ہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی دہشت گرد عناصر تواتر کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کا ہدف کیا ہے ‘اس حوالے سے بھی بات کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ حقائق سے پاکستان کے پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحد کی نزاکت اور کمزوری( Vulnerability) سے بھی پاکستان کے پالیسی ساز لا علم نہیں ہیں۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ پاکستان کے جس قسم کے تعلقات چلے آ رہے ہیں ‘ اس کے بارے میں بھی سب کو پتہ ہے اور اس کا بھی پتہ ہے کہ بھارتی سپانسرڈ پاکستانی گروپ خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ پتہ ہونے کے باوجود اور حقائق آشکار ہو جانے کے باوجود ‘پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کار ‘ہینڈلرز‘ فنانسرزاور کیرئیرزکیسے موجود ہیں بلکہ پوری طرح متحرک ہیں۔
پاکستان میں اسکول کے بچوں پر پہلے بھی دہشت گرد حملہ آور ہو چکے ہیں ‘دہشت گردوں کی ذہنی ساخت اور ان کی تربیت اور ان کے زیر استعمال اسلحہ کی کوالٹی بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔سانحہ پشاور میں جوکچھ ہوا وہ قوم اب تک نہیں بھولی ہے۔ صدر مملکت اور وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کی تشویش اور مذمت اپنی جگہ درست ہے اور ان کے منصب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں قوم کی ڈھارس بندھائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان ہو یا ٹیررازم کے خاتمے کے لیے دیگر معاملات ہوں ‘یہ سب کچھ کاغذوں اور کمپیوٹر کی اسکرینوں پر بریفنگز کے دوران دکھانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور پاکستان کے عوام اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی لوئر کلاس سے لے کر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس تک اپنی بساط کے مطابق پورا انکم ٹیکس ادا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی جتنے ٹیکسز عائد کیے جاتے ہیں پاکستان کی مڈل کلاس ہی یہ ٹیکس ادا کر رہی ہے۔پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات کر رہا ہے اور آئی ایم ایف پاکستان کو جو قرضہ دے رہا ہے ‘ وہ بھی پاکستان کے عوام کے ’’ بی ہاف ‘‘پر دے رہا ہے۔سعودی عرب‘قطر اور یو اے ای بھی جو قرضہ دیتے ہیں ‘اس کی ادائیگی بھی پاکستان کے عوام کی ملکیت قومی اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی ہوتی ہے۔ اس سب روداد کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ پاکستان کے عوام اگر ٹیکس دیتے ہیں تو ان کی جان اور مال کا تحفظ کرنا ریاست ‘ ریاستی اداروں اور پارلیمنٹیرینزکی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔
بھارت کے ساتھ جنگ ہو یا افغانستان کے معاملات ہوں ‘ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے بھی عوام کا مینڈیٹ حکومت اور ریاست کے پاس ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کا کوئی مخالف یا دشمن نہیں ہے۔ امریکا کو بھی مختلف ملکوں سے خطرہ ہے۔ روس کو بھی مختلف ملکوں سے خطرہ ہے۔ سعودی عرب کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دوسرے ملکوں سے خطرہ اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا ملک کے اندر پھیلے ہوئے ناسوروں سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی کے کلچر نے سوال کرنے اور ریشنل سوچ کے اظہار کا خاتمہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کے سٹیک ہولڈرز کو اپنے ملک کے اندر موجود ایسے طاقتور لوگوں کو مارجنلائزکرنا پڑے گا۔
پاکستان کے نظام کے اندر موجود نقائص پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔ یہ کام اس ملک کے پارلیمنٹیرینز کی ذمے داری ہے کیونکہ قانون سازی کرنا ان کا کام اور بنیادی ذمے داری ہے۔ پاکستان کے عوام نے انھیں یہی مینڈیٹ دیا ہے۔ پارلیمنٹیرینز پاکستان کے تعلیمی نظام اور نصاب میں تبدیلیاںلانے کے لیے قانون سازی کریں۔ سیاسی قیادت انتہا پسندی کے حوالے سے ڈھلمل سوچ کا شکار ہے۔ پاکستا ن کی سیاسی قیادت کے خیال میں یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی نظام اور نصاب میں جو تبدیلیاں کی گئیں ‘وقت آ گیا ہے کہ انھیں تبدیل کیا جائے۔
دہشت گردی کا خاتمہ ایک دن میں ممکن نہیں ہے۔ انتظامی اور عسکری انتظامات کے ساتھ ساتھ آئینی اور قانونی اصلاحات بھی انتہائی ضروری ہو چکی ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا نا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے درست راستے کا انتخاب کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو فول پروف بنانا انتہائی ضروری ہے۔ ماضی کی 70برس کی پالیسی کو تبدیل کیے بغیر پاکستان میں امن کی راہ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ دہشت گردوں کی ہمدردی کو ختم کرنے کے لیے بھی نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی لانا لازمی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے عوام دہشت گردی کی پاکستان میں پاکستان کی کرنے والے کا خاتمہ ہیں بلکہ کے مطابق کے ساتھ کے اندر رہے ہیں نہیں ہے ہے اور اور ان کے لیے
پڑھیں:
دوحہ کا وعدہ اور خوارج کی تلوار
تاریخ کے اوراق پر اگر کسی قوم نے خلوصِ نیت کے ساتھ امن کا پرچم بلند کیا تو وہ پاکستان ہے۔ وہ پاکستان جو خود خاک و خون کی نہروں سے گزرا، اپنے ہزاروں سپوتوں کی قربانی دے کر بھی اس خطے میں امن کی شمع جلانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ مگر افسوس! ہمارے خلوص کو ہماری کمزوری سمجھا گیا، ہمارے صبر کو بے بسی گردانا گیا، اور ہمارے دروازوں پر پھر سے وہی ناسور دستک دے رہا ہے جسے ہم نے خون جگر دے کر نکالا تھا۔افغان سرزمین جس پر ایک عشرہ قبل پوری دنیا نے خون کی ہولی کھیلی، اب دوبارہ اس سازشی بساط کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔ دوحہ معاہدے کا جو خواب افغان طالبان نے دنیا کو دکھایا تھا وہ خواب اب مٹی میں رل رہا ہے۔ معاہدے کی شقیں جو دنیا کے سامنے دہرا کر امید دلائی گئی تھی کہ افغان سرزمین کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی وہ صرف لفظوں کی بازی گری ثابت ہوئی۔آج جب ہم شمالی و جنوبی وزیرستان، بنوں، ڈی آئی خان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں بارود کی بو محسوس کرتے ہیں، جب مسجدوں میں سجدے کرنے والے نمازی شہید کیے جاتے ہیں جب بچوں کی اسکول وینیں دہشت کی لپیٹ میں آتی ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف دہشت گردی نہیں یہ منظم نیٹ ورکس کی کارستانی ہے۔ شمالی وزیرستان کی دھرتی پر 13 جانبازوں کی شہادت اور باجوڑ کی سرزمین پر اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو نشانہ بنانے والا بہیمانہ حملہ اس پورے سازشی جال کا پردہ چاک کر رہا ہے جس کی ڈوریاں کابل کے اندھیروں میں ہلائی جا رہی ہیں اور یہ نیٹ ورکس کہاں سے کنٹرول ہو رہے ہیں؟
یہ سوال اب سوال نہیں رہا حقیقت ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہ بالخصوص فتنہ خوارج یعنی تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) ہر حملے کے بعد افغان حدود میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔یہ کیسا اسلامی اخوت کا دعوی ہے؟ ایک جانب ہم ان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں ان کے سفارتی دفاتر کھولتے ہیں، ان کے عوام کو ریلیف مہیا کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کی سرزمین سے وہ درندے ہمارے بے گناہ شہریوں پر حملے کرتے ہیں جنہیں ہم نے ہزاروں قربانیوں کے بعد نکالا تھا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ افغان حکومت یا تو بے بس ہے یا باقاعدہ سرپرستی کر رہی ہے۔ بلوچستان کے ضلع بولان میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس جو کوئٹہ سے راولپنڈی جا رہی تھی اچانک بم دھماکے کا نشانہ بنی۔ دھماکہ اس وقت کیا گیا جب مسافر غفلت کی نیند میں تھے، مائیں اپنے بچوں کو سلانے میں مصروف تھیں اور بزرگ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ہند کی بزدلانہ کارستانی نے درجنوں شہریوں کو شہید کر دیا۔ یہ حملے نہ صرف انسانی المیہ تھا بلکہ بین الاقوامی قانون، دوحہ معاہدے اور اسلامی اخوت کے چہرے پر طمانچہ تھا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد نیٹ ورکس کا یہ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جعفر ایکسپریس پر حملے کے ماسٹر مائنڈز افغانستان میں موجود ہیں جنہیں ٹی ٹی پی کی چھتری تلے تحفظ حاصل ہے اور جنہیں بھارتی تربیت اسلحہ اور مالی مدد حاصل ہے۔ افغان حکومت اگر واقعی خودمختار ہے اگر واقعی ان کے فیصلے کابل میں ہوتے ہیں نہ کہ قندھار کے عقبی کمروں میں تو پھر وہ کھلے الفاظ میں اعلان کرے کہ ٹی ٹی پی ان کی سرزمین پر کیوں موجود ہے؟ ان کے اسلحہ خانوں تک کیسے رسائی ہے؟ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ وہاں کس حیثیت میں آپریٹ کر رہی ہے؟ اور یہ کیوں کر ممکن ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوں اور ان کے تانے بانے سیدھے افغانستان سے جا ملیں؟دنیا کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں تک مسلسل جنگ لڑی ہے۔ ضربِ عضب، ردالفساد، اور ان گنت خفیہ آپریشنز میں ہمارے جوانوں کا لہو بہا ہے۔
ہمارے بچوں نے یتیمی کا درد سہا ہے، ماں نے سروں پر دوپٹے باندھ کر اپنے بیٹوں کو کفن پہنایا ہے۔ ہم نے کبھی دہشت گردی کو جنم نہیں دیا لیکن جب دہشت آئی ہم نے اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی لغت میں سرینڈر کا لفظ ہی نہیں، ہم لڑے، مرے مگر جھکے نہیں۔اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا خاموشی کے بت کو توڑے اور افغان حکومت سے کھل کر پوچھے کہ وہ دوحہ معاہدے کے کس حصے پر قائم ہے؟ کیا بین الاقوامی برادری کے سامنے کیا گیا وعدہ کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی صرف ایک وقتی چال تھی؟ یا اب وہ اس وعدے کی لاش کو دفنا چکے ہیں؟پاکستان بار بار امن کی بات کرتا ہے۔ ہم نے بھارت سے بھی کہا کہ آئیے کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے مسائل پر کھل کر بات کریں لیکن برابری کی سطح پر۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو بھی تیار ہیں بشرطیکہ وہ اپنے عزائم ترک کرے ’’را‘‘کی سرگرمیوں کو بند کرے اور دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی سے باز رہے۔یہ وقت ہے افغان قیادت کے امتحان کا۔ یا تو وہ دنیا کے سامنے اپنے وعدے پورے کرے یا یہ تسلیم کرے کہ اس کی سرزمین اب بھی عالمی دہشتگردی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ اگر افغان طالبان واقعی اسلامی حکومت کے دعوے دار ہیں تو وہ خوارج کے خلاف تلوار اٹھائیں اور ان عناصر کو بے نقاب کریں جنہوں نے افغانستان کی زمین کو بھارت کے اڈے میں تبدیل کر رکھا ہے۔دنیا سے ہمارا مطالبہ واضح ہیکہ پاکستانی پاسپورٹ، قربانیوں اور عزم کا احترام کیا جائے۔ ہم کوئی کرائے کی فوج نہیں ہم اس خطے کے اصلی محافظ ہیں۔ اور اگر دشمن نے ہمیں کمزور سمجھا ہے تو وہ پاکستان کے ماضی سے واقف نہیں۔ کیا دنیا نے آپریشن بنیان المرصوص میں پاکستان کے وار نہیں دیکھے ؟ کیا بھارت کی ٹھکائی افغان طالبان نظر انداز کر سکتے ہیں ؟ یہاں ہر مٹی کا ذرہ شہید کے لہو سے رنگا ہے اور ہر بچہ اپنے سینے پر کلمہ لکھوا کر پیدا ہوتا ہے۔اگر افغان حکومت نے اب بھی ہوش نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب ان کی اپنی سرزمین بھی ان فتنوں کی آگ میں جھلس جائے گی۔ جو خنجر آج وزیرستان میں لہرا رہا ہے وہ کل کابل کے دروازے پر بھی رقص کر سکتا ہے۔