فلسطینی قصبے "بروقین" پر غاصب صیہونی آبادکاروں کا دھاوا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
سلفیت کے مغرب میں واقع بروقین نامی فلسطینی قصبے پر قابض اسرائیلی آبادکاروں نے دھاوا بولتے ہوئے متعدد فلسطینی گھروں و گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا اور وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ کی کارروائیاں کیں جنکے باعث 8 فلسطینی شہری جھلس کر زخمی ہو گئے ہیں! اسلام ٹائمز۔ مقامی میڈیا کے مطابق گذشتہ رات گئے قابض اسرائیلی آبادکاروں کے ایک بڑے گروہ نے مغربی کنارے کے شمالی قصبے بروقین پر دھاوا بول دیا اور متعدد رہائشی عمارتوں اور کاروں کو آگ لگا دی۔ اس بارے فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے اعلان کیا ہے کہ اس حملے میں 8 فلسطینی شہری جھلس گئے ہیں جنہیں امدادی ٹیموں نے ابتدائی طبی امداد پہنچائی ہے۔ ادھر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں بھی بروقین کے مختلف حصوں میں آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
۔
فلسطینی خبررساں ایجنسی وفا کے مطابق، یہ حملہ عین اس وقت ہوا جب قابض اسرائیلی فوج نے آج دوسری مرتبہ اس قصبے میں داخل ہو کر تمام راستے بند کر دیئے اور کئی ایک فلسطینی گھروں میں گھس کر تلاشی لی۔ اس بارے بروقین کے میئر فائید صبرہ نے بھی الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اس حملے کے بعد قصبے کے مکین خوف و ہراس کی کیفیت میں ہیں جبکہ قابض اسرائیلی فوج نے حملہ آور غیرقانونی اسرائیلی آبادکاروں کی کھل کر حمایت کی اور ان حملوں میں سہولت فراہم کرنے کے لئے بروقین پر دو مرتبہ چھاپے بھی مارے ہیں۔
۔
واضح رہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے بروقین اور کفر الدیک کی فلسطینی بستیوں کو ''غیرقانونی اسرائیلی آبادکار کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے'' مبینہ فلسطینی مزاحمتکار کی تلاش کے بہانے سے گذشتہ ہفتے سے محاصرے میں لے رکھا ہے جبکہ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اس دوران غاصب اسرائیلی فورسز نے کئی ایک فلسطینی گھروں کو ضبط کر کے انہیں فیلڈ تفتیشی مراکز میں بھی بدل رکھا ہے۔
۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قابض اسرائیلی
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔