موت کا ذائقہ ہر جاندار کو چکھنا ہے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
مرنے سے ہر کسی کو ڈر لگتا ہے،لیکن اصل حقیقت تو یہی ہے کہ ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ تو ہر جاندار کو چکھنا ہی پڑے گا،قیامت کب آئے گی ؟اس کا علم تو اللہ پاک کے پاس ہے،لیکن آقا و مولیٰ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں ہر صاحب بصیرت انسان بہت کچھ سمجھ سکتا ہے ہم سب نے ایک نہ ایک دن قبرستانوں کا رزق بننا ہے،اس لیے ہر کسی کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ارشادہے جب میری امت میں چودہ خصلتیں پیدا ہوں تو ان پر مصیبتیں نازل ہونا شروع ہوجائیںگی، دریافت کیا گیا یا رسول اللہﷺ وہ کیا ہیں؟ فرمایا:-1 جب سرکاری مال ذاتی ملکیت بنا لیا جائے۔-2امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے۔ -3زکوٰۃ جرمانہ محسوس ہونے لگے۔ -4 شوہر بیوی کا مطیع ہو جائے۔-5بیٹا ماں کا نافرمان بن جائے۔-6 آدمی دوستوں سے بھلائی کرے اور باپ پر ستم ڈھائے۔ -7مساجد میں شور مچایا جائے۔-8 قوم کا رذیل ترین آدمی ان کا لیڈر ہو۔ -9آدمی کی عزت اس کی برائی کے ڈر سے ہونے لگے۔ -10نشہ آور اشیاء کھلم کھلا استعمال کی جائیں۔ -11مرد ریشم پہننے لگیں۔ -12آلات موسیقی کو اختیار کیا جائے۔ -13رقص و سرور کی محفلیں سجائی جائیں۔ -14اس وقت کے لوگ اگلوں پر لعن طعن کرنے لگیں،تو لوگوں کو چاہئے کہ پھر ہروقت عذاب الہی کے منتظر رہیںخواہ سرخ آندھی کی شکل میں آئے، یا زلزلے کی شکل میں یا اصحابِ سبت کی طرح صورتیں مسخ ہونے کی شکل میں(ترمذی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی ہلاکت کا فیصلہ فرماتے ہیں تو سب سے پہلے اس سے شرم و حیا چھین لیتے ہیں اور جب اس سے حیاجاتی رہی تو تم (اس کی بے حیائیوں کی وجہ سے) اسے شدید مبغوض اور قابل نفرت پائو گے، اور جب اس کی یہ حالت ہو جائے تو اس سے امانت بھی چھین لی جاتی ہے اور جب اس سے امانت چھن جائے تو تم اس کی بددیانتی کی وجہ سے اسے نراخائن اور دھوکے باز پائو گے اور جب اس کی حالت یہاں تک پہنچ جائے تو اس سے رحمت بھی چھین لی جاتی ہے اور جب رحمت چھن جائے تو تم اسے بے رحمی کی وجہ سے مردود و ملعون پائو گے اور جب وہ اس مقام پر پہنچ جائے تو اس سے اسلام کی نشانی نکال لی جاتی ہے اور اسے اسلام سے عار آنے لگتی ہے(ابن ماجہ) قیامت کے قریب عورتیں ایسا لباس پہنا کریںگی جو باریک اور تنگ ہونے کی وجہ سے عریاں نظر آئیں گی اور ان کے سربختی اونٹوں کے کوہان جیسے ہوں گے ان کے اوپر تم لعنت کرو، اس لئے کہ وہ ملعون عورتیں ہیں۔(مسلم)حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، تمہارے بعد ایسا دور ہو گا جس میں علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنہ و فساد عام ہو گا، صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! فتنہ و فساد سے کیا مراد ہے؟ فرمایا قتل(ترمذی شریف)فرمایا رسول اللہﷺ نے ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین پر قائم رہنے والے کی حالت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے انگارے کو اپنی مٹھی میںپکڑ رکھا ہو، دنیاوی اعتبار سے سب سے خوش قسمت وہ شخص ہو گا جو خود بھی کمینہ ہو اور اس کا باپ بھی کمینہ ہو۔ لیڈر بہت اور امانتدارکم ہوں گے، قیامت سے قبل فتنے فساد اور قتل و قتال ہو گا، ناگہانی اور اچانک کی موت کی کثرت ہوگی، لوگ موٹی موٹی گدیوں پر سواری کر کے مسجدوں کے دروازوں تک آئیں گے، ان کی عورتیںکپڑے پہنتی ہوں گی مگر (لباس باریک اور چست ہونے کی وجہ سے)وہ ننگی ہوں گی،ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح ہوں گے، لچک لچک کر چلیں گی اور لوگوںکو اپنی طرف مائل کریںگی، یہ لوگ نہ جنت میں داخل ہوں گے،نہ اس کی خوشبو پائیں گے، مومن آدمی ان کے نزدیک باندی سے زیادہ رذیل ہو گا، مومن ان برائیوں کو دیکھے گا مگرانہیں روک نہیں سکے گا،جس کی وجہ سے اس کادل اندر اندر گھلتا رہے گا۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت کی کثرت ہو جائے گی، زنا اور شراب کا استعمال عام ہو جائے گا ،مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت ہو جائے گی، یہاںتک کہ پچاس عورتوں کے لئے ایک نگران ہو گا۔(متفق علیہ) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا،لوگوں کے اوپر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انہیں کوئی فکر نہ ہوگی کہ ان کے پاس مال حلال طریقے سے آیا ہے یا حرام طریقے سے۔(نسائی)حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا’’اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم کثرت سے آنسوبہائو اور ہنسنا کم کردو، کہ نفاق ظاہر ہو گا، امانت اٹھا لی جائے گی، رحمت خداوندی قبض کر لی جائے گی، امانت دار پر تہمت لگائی جائے گی اور غیر امانت دار کے پاس امانت رکھوائی جائے گی اور تمہارے اوپر فتنوں کے کالے پہاڑ جو تاریک رات کی مانند ہوں گے وہ پڑاو ڈالیں گے۔‘‘ (مستدرک حاکم) حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی،جب تک ایک روز ایسانہ آئے کہ قاتل کو پتہ نہ ہو کہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ پتہ نہ ہو کہ اسے کیوںقتل کیا گیا، آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایسا کیسے ہوگا؟ تو آپﷺ نے فرمایا ہرج(فتنے)کی وجہ سے اور پھر فرمایا کہ ایسے میں قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا، دونوں جہنم میں جائیں گے۔ (مسلم)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رسول اللہﷺ اور جب اس کی وجہ سے ہو جائے جائے تو جائے گی گی اور ہوں گے
پڑھیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔
رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:
پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔
دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔
پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔
یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔
ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔
یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔
اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔
چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔
یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں