اﷲ تعالیٰ نے ماہ ذوالحجہ کو بالخصوص اس کے پہلے عشرے کو حرمت، برکت، عظمت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) میں ہوتا ہے جن کو حرمت عزت والے مہینے کہا جاتا ہے ان میں خون ریزی، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’زمانہ گھوم کر اسی حالت پر آگیا جیسے اس دن تھا، جب اﷲ رب العزّت نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں: تین تو اکٹھے ترتیب کے ساتھ ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)
اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’عشرہ ذوالحجہ میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یا رسول اﷲ ﷺ! کیا جہاد (جیسی عظیم عبادت) بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے۔‘‘ (یعنی وہ شہید ہوجائے) (صحیح البخاری)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں عشرۂ ذوالحجہ زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بہ نسبت اﷲ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اﷲ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اﷲ کہو، تکبیر یعنی اﷲ اکبر اور تحمید یعنی الحمدﷲ کہو۔‘‘
اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے اہم ترین رکن ’’حج‘‘ کی ادائی کا مہینا ہے۔ اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحجہ رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینا۔ اس مہینے کے مخصوص ایام (نویں ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحجہ کی نماز عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے عشرے (پہلے نو دن) کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔
حضرت ابُوہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرۂ ذو الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ (عام دنوں کے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور (عشرۃٔ ذوالحجہ کی) ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع الترمذی)
اہم نوٹ: (یہ فضیلت یکم سے نو ذوالحجہ تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ رسول اﷲ ﷺ ذوالحجہ کے (پہلے) نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔) (سنن ابی داؤد)
اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل فرمایا اور اپنی نعمت کو پُورا فرمایا۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنینؓ! آپ کی کتاب (قرآن کریم) میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہمارے اوپر یعنی دین یہود میں نازل کی جاتی ہے تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت عمرؓ نے اس یہودی سے پوچھا: کون سی آیت؟ یہودی نے کہا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بہ حیثیت دین پسند کرلیا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا: ہم اس دن کو خوب جانتے ہیں اور اس جگہ کو بھی اچھی طرح سے جہاں یہ آیت نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی آپؐ یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ) بہ روز جمعہ میدان عرفات میں وقوف فرما رہے تھے۔ (صحیح البخاری)
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ کا روزہ ہے۔ جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’عرفہ (نویں ذوالحجہ) کے دن کے روزہ (کا ثواب) ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت فضل بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص عرفہ کے دن اپنی زبان کی، اپنے کانوں کی اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس دن سے لے کر دوسرے سال عرفہ کے دن تک کے اس کے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حج کے دس دنوں میں سے ہر دن کو ہزار دنوں کے برابر جب کہ عرفہ کے دن کو دس ہزار دنوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
حضرت ابُوقتادہ انصاریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’میں اﷲ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے سے پہلے اور بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جا ئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اہم نوٹ: ’’پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کے لیے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔‘‘
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اﷲ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابن المسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ رب العزت باقی ایام کی بہ نسبت یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ) والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم)
اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اﷲ کی عبادت کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہول ناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ حضرت ابُوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن زندہ رہے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اﷲ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائی کی جاتی ہے اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو عید قربان والے دن قربانی پر کیا جا ئے۔‘‘ (سنن الدارقطنی)
اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’عیدالاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کُھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘
(جا مع الترمذی)
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ نے سوال کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تمہارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت (طریقہ) ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے (پھر سوال کیا) یارسول اﷲ ﷺ! اون (کے بدلے کیا ملے گا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
جس شخص نے قربانی کرنی ہو اسے چاہیے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔ حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اﷲ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے سے مروی ہے کہ نویں ذوالحجہ اس مہینے کی کے برابر ہے فرماتے ہیں اﷲ تعالی یوم عرفہ کے روزوں کی عبادت کا روزہ دنوں کے کے ساتھ کیا جا کے ہاں ہے اور میں کی
پڑھیں:
مقامِ شہادت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جِدّوجُہد کے لیے دو کلمات آئے ہیں: ایک ’’جہاد‘‘ اور دوسرا ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘۔ جہاد میں عموم ہے اور قتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ کے پاس بعض مجاہدین آئے، آپؐ نے اُن سے فرمایا: خوش آمدید! تمہارا آنا باعثِ خیر ہو، اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! جہادِ اکبر کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: بندے کا اپنے نفس کی خواہشاتِ (باطلہ) کے خلاف جِدّوجُہد کرنا‘‘۔ (الدررالمنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ) یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، مگر معناً درست ہے۔ الغرض مومن کی زندگی سعیِ پیہم اور جُہدِ مُسلسل کا نام ہے اور قِتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے، قتال فی سبیل اللہ کی تعریف اس حدیث مبارک میں موجود ہے: ’’ایک شخص نے نبیؐ کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا: یارسول اللہ! ایک شخص (ذاتی، قبائلی یا گروہی) حمیّت کی خاطر لڑتا ہے، دوسرادادِ شَجاعت پانے کے لیے لڑتا ہے اور تیسرا شان دکھانے کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کی راہ میں کون ہے، آپؐ نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے (دین) کے غلبے کے لیے لڑے، تو اللہ کی راہ میں ہے‘‘۔ (بخاری) اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کو اپنے ساتھ بیع وشراء سے تعبیر فرمایا: ’’بے شک اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے، (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، پس (کبھی دشمن کو) قتل کرتے ہیں اور (کبھی راہِ خدا میں) مارے جاتے ہیں، یہ تورات، انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کون ہے، پس تم اس سودے پر خوش ہوجائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘، (التوبہ: 111) پس اللہ کی راہ میں مارے جانے والے کو شہید کہتے ہیں۔ علماء نے بتایا: اُسے شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ زبانِ قال کے بجائے زبانِ حال سے شہادت دیتا ہے کہ اُس نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردی ہے اور اس کی روح موت کے ساتھ ہی جنت میں پہنچ جاتی ہے۔
اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں جو روحانی لذت ہے، اُس کے مقابلے میں جنت کی نعمتیں بھی کم ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: (۱) ہر وہ شخص جو جنّت میں داخل ہوگا، وہ (دوبارہ) دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا، خواہ اس کو روئے زمین کی تمام چیزیں مل جائیں، البتہ شہید جب آخرت میں اپنی عزت اور وجاہت دیکھے گا تو صرف وہ یہ تمنا کرے گا کہ وہ پھر دنیا میں جائے اور (یکے بعد دیگرے) دس بار راہِ خدا میں قتل کیا جائے‘‘۔ (بخاری)
رسول اللہ ؐ نے مقامِ شہادت کو عظمت عطا کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں گھر سے نکلا، اس کا گھر سے نکلنا صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے تھا کہ میں اس کو اجرِ کثیر یا مالِ غنیمت کے ساتھ لوٹائوں یا اس کو جنت میں داخل کروں، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی لشکر سے پیچھے بیٹھا نہ رہتا، میں اس کو ضرور پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں‘‘۔ (بخاری) یقینا آپؐ کو شہادتِ ظاہری نہیں پانا تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا: ’’اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا‘‘، (المائدہ: 67) لیکن اس کے باوجود آپ ؐ نے بار بار شہادت کی تمنا کرکے اس منصب کو عظمت عطا کی۔
’’رسول اللہؐ نے صحابہ کرام میں کھڑے ہوکر فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال میں افضل ہے، ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، آپؐ نے فرمایا: ہاں! اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے جائو درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو، پھر آپ ؐ نے فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟، اس نے عرض کیا: میں نے کہا تھا: اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کی معافی ہوجائے گی، آپؐ نے فرمایا: ہاں! درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو تو قرض کے سوا تمہارے باقی گناہ معاف کردیے جائیں گے، کیونکہ جبریل امین نے مجھے یہ ابھی بتایا ہے‘‘۔ (مسلم)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کے لیے حیاتِ جاودانی کی بشارت دی ہے: (۱) ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے، اُسے مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘، (البقرہ: 154) (۲) ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، تم انہیں ہرگزمُردہ گمان نہ کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس رزق پاتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 169) جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے، وہ طبّی اور ظاہری اعتبار سے فوت ہوجاتا ہے اور اس پر موت کے احکام جاری ہوتے ہیں، اس کی بیوی بیوہ قرار پاتی ہے، اس کی وراثت تقسیم ہوجاتی ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں مردہ کہنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی کہ اپنے ذہن میں بھی انہیں مردہ گمان نہ کرو۔ اُن کی حیات بعد الموت کی کیفیت کیا ہے، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہتر جانتا ہے، ہم غیر مشروط طور پر اس پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔
شہید کا مقام اتنا بلند اس لیے ہے کہ وہ رضا ورغبت سے اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات کو اللہ کی راہ میں قربان کردیتا ہے، مذکورہ احادیثِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ وہ جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کو پاکر بھی تمنائے شہادت کرے گا، جبکہ حدیث مبارک کی شہادت کے مطابق کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا نہیں کرے گا، جبکہ شہید زبانِ حال سے کہتا ہے:
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی بندۂ مومن نے اگر اللہ کی راہ میں جان دی ہے، تو یہ اُسی کی عطا تھی، اپنے پاس سے کیا دیا، ہاں! ایک جان کے بدلے میں سوجانیں قربان کرتا تو یہ اُس کا کمال ہوتا، مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ امام عالی مقام حسینؓ نے شبِ عاشور اپنے اہلِ بیت اور جاں نثاروں سے فرمایا: ’’جو آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قوم میرے خون کی پیاسی ہے، جب وہ مجھے شہید کردیں گے، تو دوسروں سے بے نیاز ہوجائیں گے، آپ نے اپنے چچازادوں بنو عقیل سے کہا: تمہارے حصے کی قربانی مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے دیدی ہے، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں: تم چلے جائو، سب نے یک زبان ہوکر کہا: آپ کے بعد جینا کس کام کا، لوگ کیا کہیں گے: ہم نے اپنے بزرگ، اپنے سردار، اپنے چچازاد کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا، ہم نے دنیا کی زندگی کی محبت میں ان کے ساتھ مل کر دشمن پر تیر چلایا، نہ نیزہ گھونپا اور نہ تلوار چلائی، واللہ! ہم ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، بلکہ ہم اپنی جانوں، مالوں اور اہل سمیت اپنا سب کچھ آپ پر قربان کردیں گے اور اُس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک آپ کے انجام کو نہ پہنچیں۔ مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے کہا: واللہ! ہم آپ کو مشکل وقت میں ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ دیکھ لے کہ ہم نے رسول اللہ ؐ کے غیاب میں اپنی بساط کے مطابق آپ کی حفاظت کی، واللہ! یہ تو ایک جان ہے، اگر ہمیں ہزار جانیں بھی ملیں تو ہم ایک ایک کر کے سب آپ پر قربان کردیں گے۔ ہم تب تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم اپنا سب کچھ آپ پر قربان نہ کردیں اور جب ہم شہید کردیے جائیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے حق ادا کردیا۔