اﷲ تعالیٰ نے ماہ ذوالحجہ کو بالخصوص اس کے پہلے عشرے کو حرمت، برکت، عظمت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس مہینے کا شمار ان چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) میں ہوتا ہے جن کو حرمت عزت والے مہینے کہا جاتا ہے ان میں خون ریزی، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد وغیرہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’زمانہ گھوم کر اسی حالت پر آگیا جیسے اس دن تھا، جب اﷲ رب العزّت نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار حرمت یعنی عزت و احترام والے ہیں: تین تو اکٹھے ترتیب کے ساتھ ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)
اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’عشرہ ذوالحجہ میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے عام دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں زیادہ فضیلت والے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یا رسول اﷲ ﷺ! کیا جہاد (جیسی عظیم عبادت) بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان جان و مال میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے۔‘‘ (یعنی وہ شہید ہوجائے) (صحیح البخاری)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں عشرۂ ذوالحجہ زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی عام ایام کی بہ نسبت اﷲ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اﷲ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اﷲ کہو، تکبیر یعنی اﷲ اکبر اور تحمید یعنی الحمدﷲ کہو۔‘‘
اس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے اہم ترین رکن ’’حج‘‘ کی ادائی کا مہینا ہے۔ اس لیے اس مہینے کا نام ہی ذوالحجہ رکھا گیا ہے یعنی حج والا مہینا۔ اس مہینے کے مخصوص ایام (نویں ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذوالحجہ کی نماز عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے عشرے (پہلے نو دن) کے روزوں کا ثواب بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔
حضرت ابُوہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرۂ ذو الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے، اس ایک دن کا روزہ (عام دنوں کے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور (عشرۃٔ ذوالحجہ کی) ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع الترمذی)
اہم نوٹ: (یہ فضیلت یکم سے نو ذوالحجہ تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ رسول اﷲ ﷺ ذوالحجہ کے (پہلے) نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔) (سنن ابی داؤد)
اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل فرمایا اور اپنی نعمت کو پُورا فرمایا۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنینؓ! آپ کی کتاب (قرآن کریم) میں ایک آیت ایسی ہے اگر وہ ہمارے اوپر یعنی دین یہود میں نازل کی جاتی ہے تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت عمرؓ نے اس یہودی سے پوچھا: کون سی آیت؟ یہودی نے کہا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بہ حیثیت دین پسند کرلیا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا: ہم اس دن کو خوب جانتے ہیں اور اس جگہ کو بھی اچھی طرح سے جہاں یہ آیت نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی آپؐ یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ) بہ روز جمعہ میدان عرفات میں وقوف فرما رہے تھے۔ (صحیح البخاری)
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ کا روزہ ہے۔ جس کا احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ اجر ذکر کیا گیا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’عرفہ (نویں ذوالحجہ) کے دن کے روزہ (کا ثواب) ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت فضل بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص عرفہ کے دن اپنی زبان کی، اپنے کانوں کی اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس دن سے لے کر دوسرے سال عرفہ کے دن تک کے اس کے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حج کے دس دنوں میں سے ہر دن کو ہزار دنوں کے برابر جب کہ عرفہ کے دن کو دس ہزار دنوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
حضرت ابُوقتادہ انصاریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’میں اﷲ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے سے پہلے اور بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جا ئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اہم نوٹ: ’’پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کے لیے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔‘‘
اس مہینے کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ میں اﷲ رب العزت لوگوں کو جہنم سے کثرت کے ساتھ آزاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابن المسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ رب العزت باقی ایام کی بہ نسبت یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ) والے دن لوگوں کو کثرت کے ساتھ جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم)
اس مہینے کی دسویں تاریخ کو نماز عید ادا کی جاتی ہے، عید کا دن بھی فضیلت والا ہوتا ہے اور اس کی رات بھی۔ عیدین کی راتیں ایسی مبارک راتیں ہیں اگر کوئی شخص ان میں اﷲ کی عبادت کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہول ناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ حضرت ابُوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن زندہ رہے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
اس مہینے کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو اﷲ کے نام پر متعین جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یعنی قربانی کے مبارک عمل کی ادائی کی جاتی ہے اس دن اس عمل سے زیادہ کوئی اور عمل زیادہ اجر و ثواب والا نہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو عید قربان والے دن قربانی پر کیا جا ئے۔‘‘ (سنن الدارقطنی)
اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’عیدالاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کُھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘
(جا مع الترمذی)
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ نے سوال کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تمہارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت (طریقہ) ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے (پھر سوال کیا) یارسول اﷲ ﷺ! اون (کے بدلے کیا ملے گا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
جس شخص نے قربانی کرنی ہو اسے چاہیے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔ حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی ذو الحج کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اﷲ کریم ہمیں ان مبارک ایام کی قدر توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے سے مروی ہے کہ نویں ذوالحجہ اس مہینے کی کے برابر ہے فرماتے ہیں اﷲ تعالی یوم عرفہ کے روزوں کی عبادت کا روزہ دنوں کے کے ساتھ کیا جا کے ہاں ہے اور میں کی
پڑھیں:
خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔
جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)
’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)
نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘
یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔
’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(سورۃ الشوریٰ 42:40)
معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔
’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘
(سورۃ النور 24:22)
جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔
جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)
ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔
ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)
انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔
غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔
رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔
ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔
اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔
ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔
(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)