Daily Ausaf:
2025-07-07@23:23:59 GMT

غزہ، ظلم کی انتہا اور انسانیت کا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

آج کی دنیا جو بظاہر “مہذب” کہلاتی ہے، وہاں ایک ایسا انسانی المیہ جاری ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی ضمیر کے لیے سوالیہ نشان ہے بلکہ تہذیبِ انسانی کے ماتھے پر بھی کلنک کا ٹیکہ بھی۔ غزہ کی زمین اس وقت جس کرب اور بربادی سے گزر رہی ہے، اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ یہاں نہ صرف بمباری جاری ہے بلکہ انسانیت کی بنیادیں لرز چکی ہیں۔ بچوں کی لاشیں، ماؤں کی آہیں، اور بھوک سے بلکتے جسم اس خطے کی روزمرہ حقیقت بن چکے ہیں۔ سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان مظالم کا ہدف وہ طبقہ بن رہا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے یعنی عورتیں اور بچے۔ اسرائیلی بمباری میں سینکڑوں مائیں اپنے بچوں کے ساتھ شہید ہو چکی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہسپتالوں میں حاملہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حمل کے دوران زچگی کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں خواتین یا تو خود موت کا شکار ہو گئیں یا ان کے بچے پیدا ہوتے ہی زندگی کی جنگ ہار گئے۔ غزہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بچے ہیں۔ یہ معصوم جانیں نہ کسی جنگ کو سمجھتی ہیں، نہ کسی نظریے سے واقف ہوتی ہیں، مگر ان کی لاشیں ملبے تلے سے برآمد ہوتی ہیں۔ کچھ بچے اپنے پورے خاندان سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں صرف یہ سوال ہے کہ کس جرم کی پاداش میں ہم پر ظلم کی انتہاہورہی ہے؟ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، ہر گھنٹے میں اوسطاً دو فلسطینی بچے یا تو شہید ہو رہے ہیں یا شدید زخمی۔ اسرائیل کی پالیسیوں میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا ایک “پریشر ٹیکٹک” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کو کمزور کیا جا سکے۔ خوراک، پینے کا صاف پانی، اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت نے صورتحال کو قحط کی طرف دھکیل دیا ہے۔ حالیہ بمباریوں نے کھانے پینے کی تمام رسدگاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔ کھیت تباہ، فیکٹریاں ملبے کے ڈھیر اور بازار اجاڑ دیے گئے ہیں۔ امدادی قافلوں کو روکا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ اور ریڈ کراس جیسی تنظیمیں بھی بے بس نظر آ رہی ہیں۔ جب ایک پوری نسل کو منظم انداز میں مٹانے کی کوشش کی جائے، تو اسے صرف “تنازع” کہنا ناانصافی ہے۔ یہ کھلا قتلِ عام ہے، نسل کشی ہے اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ لیکن عالمی میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسے متوازن رپورٹنگ کا نام دے کر ظالم و مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔ یہ لمحہ صرف فلسطین کا نہیں، پوری دنیا کا امتحان ہے۔ کیا ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے؟ یا ان معصوم بچوں اور عورتوں کی آہوں کا کوئی عملی جواب دیں گے؟ کیا مسلم دنیا صرف بیانات تک محدود رہے گی یا عملی اقدامات اٹھائے گی؟ سفارتی دباؤ، تجارتی بائیکاٹ، اور اجتماعی احتجاجی تحریکیں اس ظلم کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہر فرد، ہر قوم اور ہر ادارے کی یہ اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ غزہ کی ماں، اس کے یتیم بچے، اور اس کی بھوکی بیٹی ہم سے سوال کر رہی ہے کہ کیا تم ہمارے ساتھ ہو؟ غزہ کی پٹی، پچھلے کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کا میدان بنی ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں اسرائیلی جارحیت نے جو شکل اختیار کی ہے، وہ انسانیت، بین الاقوامی قوانین، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ غزہ کا ہر گھر ماتم کدہ ہے، ہر چہرہ دکھ کا آئینہ، اور ہر دل ایک ٹوٹا ہوا خواب۔ غزہ”دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل” بن چکا ہے۔ غزہ سے نکلنے والی ہر چیخ، ہر تصویر، اور ہر ویڈیو کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، انٹرنیٹ سروس معطل کی جاتی ہے تاکہ دنیا سچائی نہ جان سکے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، اور بڑی طاقتیں اکثر صرف تشویش کا اظہار کرکے خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہ دوغلا پن عالمی امن کے دعویداروں کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ فلسطین کا مقدمہ صرف زمین کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ غزہ کے بچے، مائیں، بزرگ، اور نوجوان ہم سے سوال کر رہے ہیں، کیا ہمارا کوئی حق نہیں؟ کیا ہماری چیخیں سنائی نہیں دیتیں؟ جب ظلم کا بازار گرم ہو، مظلوم کی چیخیں سننے والا کوئی نہ ہو، اور ظالم کو عالمی حمایت حاصل ہو، تو انسانیت اور انسانی حقوق کی علمبرداری صرف لفظوں تک محدود ہو جاتی ہے۔ اسرائیلی افواج کی بربریت نے نہ صرف عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا ہے، بلکہ ہر روز انسانی جسموں کو چھلنی، بچوں کو یتیم، ماؤں کو بے اولاد، اور باپوں کو لخت جگر سے محروم کر دیا ہے۔ غزہ میں خواتین کی زندگی مفلوج ہو چکی ہے۔ ہر روز اسپتالوں کے باہر خون آلود کپڑوں میں لپٹی لاشیں اُن ماؤں کی ہوتی ہیں، جو اپنے بچوں کو سینے سے لگائے پناہ کی تلاش میں مار دی گئیں۔ اسرائیلی حملوں میں کئی ہسپتالوں میں زچگی کے دوران خواتین نے جان دی، کیونکہ نہ دوائیں دستیاب تھیں، نہ ڈاکٹر، اور نہ بجلی۔ اکتوبر 2023 کے بعد سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو ایسی تباہی سے دوچار کیا ہے جسے انسانی تاریخ میں نسل کشی (Genocide) کے جدید نمونے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق، غزہ میں 50 سے زائد اسپتال یا تو تباہ کیے جا چکے ہیں یا ان کی خدمات معطل ہیں، جس کے باعث زچگی کے کیسز گھروں یا کھلے میدانوں میں ہو رہے ہیں، بغیر دوا، بجلی یا ڈاکٹر کے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یونیسف (UNICEF کے لیے غزہ دنیا کا سب سے خطرناک مقام بن چکا ہے۔” ان کی رپورٹ کے مطابق، صرف تین ماہ8000 سے زائد بچے شہید ہوئے—یعنی ہر گھنٹے میں تقریباً 3 معصوم جانیں! ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور Save the Children جیسی تنظیمیں بھی واضح کر چکی ہیں کہ بچوں کے اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، اور حتیٰ کہ اسپتالوں کو دانستہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کی رپورٹ کے مطابق، مارچ 2024 تک غزہ کی 85 فیصد آبادی “شدید غذائی قلت” (Severe Food Insecurity) کا شکار ہو چکی تھی اور اب تو حالات اس سے بھی کہیں ابتر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک (FAO) نے خبردار کیا کہ اگر فوری امداد نہ پہنچی تو غزہ میں قحط سالی کا باقاعدہ اعلان کرنا پڑے گا۔ اسرائیلی افواج نے امدادی قافلوں کو بارہا روک کر یا نشانہ بنا کر قحط کو دانستہ جنگی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ یہاں بچوں کو ماں کا دودھ نصیب نہیں، شیر خوار بچوں کے لیے فارمولہ ملک ناپید، اور بزرگوں کو پانی کی بوند تک میسر نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور ہوئیں، لیکن عملی اقدام صفر رہا۔ عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے جنوری 2024 میں یہ تسلیم کیا کہ غزہ میں ہونے والی کارروائیاں نسل کشی کے امکان” کے تحت آئیں گی، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی بمباری میں کمی نہیں آئی۔او آئی سی (OIC) کی وزرائے خارجہ کانفرنسیں، عرب لیگ کی قراردادی مذمتیں، اور مسلم ممالک کے گہرے دکھ” کے بیانات غزہ کے عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے۔ امت مسلمہ کے پاس معاشی، عسکری، سفارتی اور ابلاغی طاقت ہے، مگر افسوس کہ ان سب پر مفادات اور سیاسی مجبوریوں کا قفل لگا ہوا ہے۔ غزہ کی ہر گلی، ہر بچہ، ہر ماں، اور ہر قبر ہم سے سوال کر رہی ہے، کیا تم صرف تصویریں دیکھ کر افسوس کرو گے یا عملی اقدام بھی کرو گے؟ یہ کالم صرف ایک تحریر نہیں، بلکہ ضمیر کی پکار ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو ہم بھی تاریخ میں ان مجرموں کی صف میں کھڑے ہوں گے جنہوں نے ظلم کو دیکھا اور کچھ نہ کہا یا کر سکنے کے باوجود کچھ نہ کیا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور انسانی کے مطابق بچوں کو اور ہر رہا ہے کے لیے غزہ کی رہی ہے

پڑھیں:

راجن پور،سبیل کا دوددھ پینے سے بچوں سمیت 45 افراد کی حالت غیر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راجن پور(مانیٹرنگ ڈیسک)راجن پور میں 9 محرم الحرام کے حوالے سے لگائی جانے والی سبیل سے مبینہ طور پر دودھ پینے سے بچوں اور خواتین سمیت 45 افراد کی حالت غیر ہو گئی۔ متاثرہ افراد کو ڈسٹرک ہیڈ کوارٹرزاسپتال منتقل کر دیا گیا، مقامی ڈاکٹرز نے بتایا کہ دودھ میں بظاہر زہریلی مواد کی کوئی علامت نہیں ملی، تاہم لیبارٹری سے تحقیق کے بعد اصل حقائق سامنے
آسکیں گے۔ڈاکٹرز کے مطابق دودھ پینے سے اسپتال پہنچنے والے تمام افراد کو قے اور پیٹ میں تکلیف کا سامنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مریم نواز کا شیر کے حملے سے زخمیوں کو فی کس 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان
  • اسمارٹ فونز کے زیادہ استعمال سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، تحقیق
  • پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرسیکیورٹی کی اسامی کا پیپرلیک ہونے کا انکشاف
  • ’میری خواہش ہے کہ اپنے بچوں کو پاکستان لے جاسکوں‘، شاہ رخ خان کی ویڈیو وائرل
  • جنگ زدہ فلسطینی بچوں کے لیے پاکستانی ٹیکنالوجی امید کی کرن کیسے بن گئی؟
  • امام حسین (ع) رہتی دنیا تک انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • راجن پور،سبیل کا دوددھ پینے سے بچوں سمیت 45 افراد کی حالت غیر
  • گیند پر جھگڑا، یوسی سیکرٹری نے بچوں پر تشدد اور دھمکیاں دیں‘والدین
  • 20 بچوں کی ہلاکت، مریم نواز کے حکم پر ایم ایس اور سی ای او ہیلتھ پاکپتن گرفتار
  • ایل آر ایچ پشاور: دل کے مریض 70 بچوں کا مفت کامیاب آپریشن