Daily Ausaf:
2025-05-23@19:56:47 GMT

غزہ، ظلم کی انتہا اور انسانیت کا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

آج کی دنیا جو بظاہر “مہذب” کہلاتی ہے، وہاں ایک ایسا انسانی المیہ جاری ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی ضمیر کے لیے سوالیہ نشان ہے بلکہ تہذیبِ انسانی کے ماتھے پر بھی کلنک کا ٹیکہ بھی۔ غزہ کی زمین اس وقت جس کرب اور بربادی سے گزر رہی ہے، اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ یہاں نہ صرف بمباری جاری ہے بلکہ انسانیت کی بنیادیں لرز چکی ہیں۔ بچوں کی لاشیں، ماؤں کی آہیں، اور بھوک سے بلکتے جسم اس خطے کی روزمرہ حقیقت بن چکے ہیں۔ سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان مظالم کا ہدف وہ طبقہ بن رہا ہے جو سب سے زیادہ کمزور ہے یعنی عورتیں اور بچے۔ اسرائیلی بمباری میں سینکڑوں مائیں اپنے بچوں کے ساتھ شہید ہو چکی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہسپتالوں میں حاملہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حمل کے دوران زچگی کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں خواتین یا تو خود موت کا شکار ہو گئیں یا ان کے بچے پیدا ہوتے ہی زندگی کی جنگ ہار گئے۔ غزہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بچے ہیں۔ یہ معصوم جانیں نہ کسی جنگ کو سمجھتی ہیں، نہ کسی نظریے سے واقف ہوتی ہیں، مگر ان کی لاشیں ملبے تلے سے برآمد ہوتی ہیں۔ کچھ بچے اپنے پورے خاندان سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں صرف یہ سوال ہے کہ کس جرم کی پاداش میں ہم پر ظلم کی انتہاہورہی ہے؟ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، ہر گھنٹے میں اوسطاً دو فلسطینی بچے یا تو شہید ہو رہے ہیں یا شدید زخمی۔ اسرائیل کی پالیسیوں میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا ایک “پریشر ٹیکٹک” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کو کمزور کیا جا سکے۔ خوراک، پینے کا صاف پانی، اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت نے صورتحال کو قحط کی طرف دھکیل دیا ہے۔ حالیہ بمباریوں نے کھانے پینے کی تمام رسدگاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔ کھیت تباہ، فیکٹریاں ملبے کے ڈھیر اور بازار اجاڑ دیے گئے ہیں۔ امدادی قافلوں کو روکا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ اور ریڈ کراس جیسی تنظیمیں بھی بے بس نظر آ رہی ہیں۔ جب ایک پوری نسل کو منظم انداز میں مٹانے کی کوشش کی جائے، تو اسے صرف “تنازع” کہنا ناانصافی ہے۔ یہ کھلا قتلِ عام ہے، نسل کشی ہے اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ لیکن عالمی میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسے متوازن رپورٹنگ کا نام دے کر ظالم و مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔ یہ لمحہ صرف فلسطین کا نہیں، پوری دنیا کا امتحان ہے۔ کیا ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے؟ یا ان معصوم بچوں اور عورتوں کی آہوں کا کوئی عملی جواب دیں گے؟ کیا مسلم دنیا صرف بیانات تک محدود رہے گی یا عملی اقدامات اٹھائے گی؟ سفارتی دباؤ، تجارتی بائیکاٹ، اور اجتماعی احتجاجی تحریکیں اس ظلم کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہر فرد، ہر قوم اور ہر ادارے کی یہ اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ غزہ کی ماں، اس کے یتیم بچے، اور اس کی بھوکی بیٹی ہم سے سوال کر رہی ہے کہ کیا تم ہمارے ساتھ ہو؟ غزہ کی پٹی، پچھلے کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کا میدان بنی ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں اسرائیلی جارحیت نے جو شکل اختیار کی ہے، وہ انسانیت، بین الاقوامی قوانین، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ غزہ کا ہر گھر ماتم کدہ ہے، ہر چہرہ دکھ کا آئینہ، اور ہر دل ایک ٹوٹا ہوا خواب۔ غزہ”دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل” بن چکا ہے۔ غزہ سے نکلنے والی ہر چیخ، ہر تصویر، اور ہر ویڈیو کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، انٹرنیٹ سروس معطل کی جاتی ہے تاکہ دنیا سچائی نہ جان سکے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، اور بڑی طاقتیں اکثر صرف تشویش کا اظہار کرکے خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہ دوغلا پن عالمی امن کے دعویداروں کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ فلسطین کا مقدمہ صرف زمین کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ غزہ کے بچے، مائیں، بزرگ، اور نوجوان ہم سے سوال کر رہے ہیں، کیا ہمارا کوئی حق نہیں؟ کیا ہماری چیخیں سنائی نہیں دیتیں؟ جب ظلم کا بازار گرم ہو، مظلوم کی چیخیں سننے والا کوئی نہ ہو، اور ظالم کو عالمی حمایت حاصل ہو، تو انسانیت اور انسانی حقوق کی علمبرداری صرف لفظوں تک محدود ہو جاتی ہے۔ اسرائیلی افواج کی بربریت نے نہ صرف عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا ہے، بلکہ ہر روز انسانی جسموں کو چھلنی، بچوں کو یتیم، ماؤں کو بے اولاد، اور باپوں کو لخت جگر سے محروم کر دیا ہے۔ غزہ میں خواتین کی زندگی مفلوج ہو چکی ہے۔ ہر روز اسپتالوں کے باہر خون آلود کپڑوں میں لپٹی لاشیں اُن ماؤں کی ہوتی ہیں، جو اپنے بچوں کو سینے سے لگائے پناہ کی تلاش میں مار دی گئیں۔ اسرائیلی حملوں میں کئی ہسپتالوں میں زچگی کے دوران خواتین نے جان دی، کیونکہ نہ دوائیں دستیاب تھیں، نہ ڈاکٹر، اور نہ بجلی۔ اکتوبر 2023 کے بعد سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو ایسی تباہی سے دوچار کیا ہے جسے انسانی تاریخ میں نسل کشی (Genocide) کے جدید نمونے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق، غزہ میں 50 سے زائد اسپتال یا تو تباہ کیے جا چکے ہیں یا ان کی خدمات معطل ہیں، جس کے باعث زچگی کے کیسز گھروں یا کھلے میدانوں میں ہو رہے ہیں، بغیر دوا، بجلی یا ڈاکٹر کے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یونیسف (UNICEF کے لیے غزہ دنیا کا سب سے خطرناک مقام بن چکا ہے۔” ان کی رپورٹ کے مطابق، صرف تین ماہ8000 سے زائد بچے شہید ہوئے—یعنی ہر گھنٹے میں تقریباً 3 معصوم جانیں! ہیومن رائٹس واچ (HRW) اور Save the Children جیسی تنظیمیں بھی واضح کر چکی ہیں کہ بچوں کے اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، اور حتیٰ کہ اسپتالوں کو دانستہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کی رپورٹ کے مطابق، مارچ 2024 تک غزہ کی 85 فیصد آبادی “شدید غذائی قلت” (Severe Food Insecurity) کا شکار ہو چکی تھی اور اب تو حالات اس سے بھی کہیں ابتر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک (FAO) نے خبردار کیا کہ اگر فوری امداد نہ پہنچی تو غزہ میں قحط سالی کا باقاعدہ اعلان کرنا پڑے گا۔ اسرائیلی افواج نے امدادی قافلوں کو بارہا روک کر یا نشانہ بنا کر قحط کو دانستہ جنگی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ یہاں بچوں کو ماں کا دودھ نصیب نہیں، شیر خوار بچوں کے لیے فارمولہ ملک ناپید، اور بزرگوں کو پانی کی بوند تک میسر نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور ہوئیں، لیکن عملی اقدام صفر رہا۔ عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے جنوری 2024 میں یہ تسلیم کیا کہ غزہ میں ہونے والی کارروائیاں نسل کشی کے امکان” کے تحت آئیں گی، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی بمباری میں کمی نہیں آئی۔او آئی سی (OIC) کی وزرائے خارجہ کانفرنسیں، عرب لیگ کی قراردادی مذمتیں، اور مسلم ممالک کے گہرے دکھ” کے بیانات غزہ کے عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے۔ امت مسلمہ کے پاس معاشی، عسکری، سفارتی اور ابلاغی طاقت ہے، مگر افسوس کہ ان سب پر مفادات اور سیاسی مجبوریوں کا قفل لگا ہوا ہے۔ غزہ کی ہر گلی، ہر بچہ، ہر ماں، اور ہر قبر ہم سے سوال کر رہی ہے، کیا تم صرف تصویریں دیکھ کر افسوس کرو گے یا عملی اقدام بھی کرو گے؟ یہ کالم صرف ایک تحریر نہیں، بلکہ ضمیر کی پکار ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو ہم بھی تاریخ میں ان مجرموں کی صف میں کھڑے ہوں گے جنہوں نے ظلم کو دیکھا اور کچھ نہ کہا یا کر سکنے کے باوجود کچھ نہ کیا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور انسانی کے مطابق بچوں کو اور ہر رہا ہے کے لیے غزہ کی رہی ہے

پڑھیں:

جوہری بلیک مارکیٹ بھارت کی جوہری سلامتی پر سنگین سوالیہ نشان ہے، ترجمان دفتر خارجہ

دفتر خارجہ نے بھارت میں ایٹمی مواد کی چوری اور غیر قانونی فروخت کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری بلیک مارکیٹ کا وجود بھارت کے جوہری سلامتی کے نظام پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کو اپنے جامع جوہری تحفظاتی نظام اور مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول اسٹرکچر پر مکمل اعتماد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ سابق امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جیسے انتہا پسند سیاستدان کے متنازع بیان کی بنیاد پر پاکستان پر سوالات اٹھائے۔

مزید پڑھیں: جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں امریکی صدر بننے کے لائق نہیں، جان بولٹن

ترجمان کے مطابق راج ناتھ سنگھ کا تعلق ایک ہندو انتہا پسند جماعت سے ہے جو پاکستان کو مسلسل جارحانہ دھمکیاں دیتی رہی ہے۔ ایسے متعصب افراد کے ہاتھوں بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی سیاسی و سماجی انتہا پسندی، میڈیا کے رویے اور ایٹمی مواد کی غیر قانونی خرید و فروخت کے واقعات عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ عالمی برادری کو بھارت کے ایٹمی پروگرام اور اس کے سیکیورٹی نظام پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن ایٹمی پروگرام دفتر خارجہ راج ناتھ سنگھ ہندو انتہا پسند جماعت

متعلقہ مضامین

  • دنیا کی محبت انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے، علامہ رانا محمد ادریس 
  • خضدار میں سکول بچوں کی بس پر حملہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے، خرم نواز گنڈاپور
  • اسرائیلی جارحیت کی انتہا ، فضائی بمباری سے 80 شہید ، بھوک سے 29 بچے جاں بحق
  • جوہری بلیک مارکیٹ بھارت کی جوہری سلامتی پر سنگین سوالیہ نشان ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • خضدار سانحہ: معصوم بچیوں پر حملہ انسانیت سوز عمل ہے، سینیٹر عرفان صدیقی
  • بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے مکروہ واقعات میں ملوث ہے، راجہ فاروق
  • بچوں کو نشانہ بنانا ظلم کی انتہا اور بزدلی: حافظ نعیم
  • خضدار میں بچوں کی بس کو نشانہ بنانا انسانیت پر حملہ ہے: میر سرفراز بگٹی
  • خضدار اسکول بس حملہ: سینیٹر روبینہ خالد کی شدید مذمت، دہشتگردوں کو انسانیت کا دشمن قرار دیا