ٹرمپ ٹیرفس: یورپی یونین اقتصادی نمو کے اہداف بدلنے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2025ء) یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ 20 ممالک پر مشتمل سنگل کرنسی ایریا یورو زون کی معیشت 2025ء میں 0.9 فیصد کی شرح سے بڑھے گی جو گزشتہ اندازوں یعنی 1.3 فیصد سے کافی کم ہے۔
یورپی یونین نے 2026ء میں یورو زون کی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کو بھی کم کر کے 1.4 فیصد کردیا ہے، جو گزشتہ سال نومبر میں کی گئی پیش گوئی 1.
ٹرمپ کے نئے محصولات ’عالمی معیشت کے لیے دھچکا‘، یورپی یونین
اسٹریٹیجک دھاتیں: یورپی یونین کے سینتالیس منصوبوں کا اعلان
یورپی یونین کے اقتصادی امور کے نگران کمشنر والڈیس ڈومبروفسکِس کے مطابق، ''مضبوط لیبر مارکیٹ اور بڑھتی ہوئی اجرتوں کی بنیاد پر 2025ء میں ترقی جاری رہنے کی توقع ہے، مگر درمیانی رفتار سے۔
(جاری ہے)
‘‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین اور دیگر ممالک سے اسٹیل، المونیم اور گاڑیوں کی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کیے ہیں اور اگر یورپی بلاک واشنگٹن کے ساتھ کسی معاہدے تک نہیں پہنچتا، تو اسے مزید بھاری محصولات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اپریل میں یورپی یونین کی زیادہ تر مصنوعات پر 20 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ درجنوں دیگر ممالک پر بھی محصولات عائد کیے گئے تھے۔
مذاکرات کو موقع دینے کے لیے عملی طور پر یہ اقدام جولائی تک مؤخر کر دیا گیا ہے لیکن صدر ٹرمپ نے 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین سمیت دنیا بھر سے درآمدات پر 10 فیصد 'بنیادی‘ ٹیرف برقرار رکھا ہے۔
2025ء میں جرمنی میں اقتصادی شرح نمو صفریورپی یونین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس بلاک کی سب سے بڑی معیشت یعنی جرمنی کی 2025ء میں شرح نمو میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، جو گزشتہ سال کی پیش گوئی یعنی 0.7 فیصد سے نمایاں کم ہے۔
یورپی یونین کے کمشنر والڈیس ڈومبروفسکِس کے مطابق اقتصادی ترقی میں کمی کے خطرات ہیں، لہٰذا یورپی یونین کو مسابقت بڑھانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا چاہییں۔
اپنی تازہ پیش گوئی کے پیچھے کارفرما سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے یورپی یونین نے چینی امریکی تجارتی جنگ کی طرف بھی اشارہ کیا، جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر درآمدی محصولات میں اضافہ کیا تاہم پھر عارضی طور پر کشیدگی میں کمی کے لیے ان میں کمی بھی کر دی گئی۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ 12 مئی کو چین اور امریکا کے درمیان طے پانے والی محصولات کی شرحیں اندازوں سے کم ہیں لیکن پھر بھی اتنی زیادہ ہیں کہ امریکا اور چین کے تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ موجود ہے۔
تجارتی تناؤ کے علاوہ یورپی یونین نے متنبہ کیا ہے کہ آب و ہوا سے متعلق آفات جیسے جنگلات کی آگ اور سیلاب سے بھی معاشی ترقی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
ادارت: مقبول ملک
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین نے پیش گوئی کے لیے
پڑھیں:
مارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی
مارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 July, 2025 سب نیوز
بیجنگ :”نکی ایشیا” نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: “مسٹر جاپان نے ٹرمپ کو “ڈیڈی” کہنے سے انکار کر دیا، اور یہ صحیح ہے”۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور جاپان تجارتی مذاکرات کر رہے ہیں، لیکن” ایشبا حکومت” کا رویہ توقعات سے زیادہ سخت ہے، اور یہ ایک صحیح اقدام ہے۔ یہ انہوں نے” ایبے حکومت” کے تجربے سے سیکھا ہے، جو ٹرمپ کے سامنے زیادہ جھک گئی تھی، لیکن انہیں کسی فائدے کے بدلے میں کچھ نہیں ملا۔ٹرمپ کو “ڈیڈی” کہنے کا مذاق اس وقت شروع ہوا جب پچھلے مہینے 25 تاریخ کو ہیگ میں نیٹو سمٹ کے دوران ایک صحافی نے ٹرمپ سے اسرائیل اور ایران کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ان کے سخت الفاظ کے بارے میں پوچھا۔ اس موقع پر موجود نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹ نے کہا: “دادا ابو کو کبھی کبھی سخت الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔” رات کو جب صحافیوں نے ٹرمپ سے روٹ کے “دادا” والے خطاب کے بارے میں پوچھا تو ٹرمپ نے کہا: “میرے خیال میں وہ مجھے پسند کرتے ہیں… ‘دادا، آپ میرے دادا ہیں—روٹ نے یہ الفاظ بہت پیار سے کہے۔” یہی اس مذاق کی اصل کہانی ہے۔
چینی کہاوت ہے کہ اگر کوئی حد سے زیادہ مذاق کرے تو کہا جاتا ہے: “تم کس قسم کا بین الاقوامی مذاق کر رہے ہو ؟” اگرچہ مذکورہ واقعے کے فریقین نے اسے صرف مذاق قرار دیا، لیکن غور کریں کہ امریکیوں نے کبھی یورپ کو “دادا” کہنے والا مذاق کیوں نہیں کیا؟ نیز، نیٹو سربراہی اجلاس جیسے بین الاقوامی فورم پر اگرچہ ماحول دوستانہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ کوئی بار یا گولف کلب نہیں جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کی بات کرے۔ یہ “دادا والا مذاق” اس لیے سرخیوں میں آیا کیونکہ اس کے پیچھے چھپے مفاہیم اور بولنے والے کے ذہنی رویے پر غور کرنا لازمی ہے۔ میرے نزدیک، یہ مذاق محض یورپ کی جانب سے امریکہ کی خوشامد کے لیے “عزت کی قربانی” کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یورپ کی سلامتی، معیشت اور دیگر شعبوں میں امریکہ پر انتہائی انحصار کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جس سے یورپ اور امریکہ کے درمیان طاقت کا عدم توازن عیاں ہوتا ہے۔ یہ منظر مجھے 10 ویں صدی عیسوی کے اوائل کی یاد دلائے بغیر نہیں رہ سکتا، جب چینی علیحدگی پسند جنگجو شی جنگ تھانگ نے بادشاہت کے خواب سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہو جن خاندان کی حکومت قائم کی، اس نے خود کو خانہ بدوش قوم چھیتان کے بادشاہ کا ” شاہی بیٹا ” کہا اور اپنی کچھ زمین چھیتان کے حوالے کر دی تاکہ چھیتان کی پناہ اور عارضی سلامتی حاصل کی جا سکے ۔ آج یورپی رہنما امریکہ کے سامنے اسی طرح عاجزی دکھا رہے ہیں، جو شی چنگ تھانگ کی طرح ذلت آمیز ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یورپی تہذیب کے گہرے بحران کو بھی ظاہر کرتا ہے—یہ وہ براعظم جس نے روشن خیالی تحریک اور صنعتی انقلاب کو جنم دیا تھا، آج سلامتی اور دفاعی خودمختاری کے معاملے میں مکمل طور پر دوسروں کا محتاج بن چکا ہے، اور کافی، دھوپ اور چھٹیوں کے نرم و نازک دام میں اس طرح گرفتار ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپی سیاسی اشرافیہ اس طرح کی رسوائی اور “امریکی پرست رویے” کو معمول سمجھتی ہے۔ یورپ کا امریکہ پر انحصار حد سے کہیں زیادہ ہے، اور یورپی باشندے “امن کے لیے امریکہ پر بھروسہ” کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
اس انحصار کی قیمت بہت بھاری ہے—یورپ کو سیاسی، معاشی اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف میدانوں میں امریکی حکمت عملی کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یورپی معاشرے کو اس ” ذلت” کی عادت ہو چکی ہے:ایسے میں جب ان کے رہنما بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سر جھکائے پھرتے ہیں، تو یورپی لوگ اس بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں کہ دھوپ سینکنے کے لئے چھٹیوں پر کہاں جانا ہے، اور کس برانڈ کا نیا ہینڈ بیگ فروخت ہو رہا ہے ، اور اس طرح کی قومی سیاسی بے حسی اور لذت پرستی یورپ کی تزویراتی خودمختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ کے پاس راستہ موجود ہے، لیکن اس کے لیے ہمت اور دوراندیشی درکار ہے۔ سب سے پہلے، یورپ کو امریکہ پر انحصار ختم کرنے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یورپ کو ایک “ذہنی نشاۃ ثانیہ” کی ضرورت ہے—صرف عیش و آرام کی لت سے چھٹکارا پا کر ہی یورپ دوبارہ بین الاقوامی احترام حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی توہین کے بعد اگرچہ کچھ یورپی سیاست دانوں نے آنسو بہائے ہیں اور کچھ نے زیادہ خود مختار یورپ کی بات کی ہے، مگر جب اناپرست ٹرمپ خوش ہو کر کوئی اچھا رویہ دکھائے گا، یا امریکہ اگلے انتخابات میں کوئی نیا “ابو” منتخب کر کے یورپ کو کوئی چھوٹی سی مٹھائی پیش کرے گا، تو کیا یورپ پھر سے “ابو واپس آ گئے” کہہ کر خوشی سے نہال نہیں ہو جائے گا؟
اور سب سے آسان سوال – کیا امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس واشنگٹن کو یورپ جیسی فربہ بھیڑ کو چھوڑنے دے گا؟ مشکل ہے! تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ عزت کی قربانی کی قیمت پر حاصل کردہ سلامتی کبھی پائیدار نہیں ہوتی۔ آج یورپ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: کیا وہ امریکہ کا “فرمانبردار بچہ” بن کر رہے گا یا ایک باوقار خودمختار طاقت بنے گا؟ پہلا راستہ دوسروں کے سائے میں زندگی گزارنے کے مترادف ہے، جبکہ دوسرا راستہ مشکل ضرور ہے، لیکن یورپ کی عظمت کو بحال کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یورپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی سیاست کے جنگل میں کوئی قوم کسی دوسرے پر انحصار کر کے حقیقی سلامتی اور عزت حاصل نہیں کر سکتی۔ صرف خود انحصاری ہی “شاہی بیٹا” جیسی تاریخ کو دہرانے سے بچا سکتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ کا ایلون مسک کے تیسری سیاسی جماعت کے اعلان پر ردعمل سامنے آگیا دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان چین-وسطی ایشیا تعلقات کا نیا دور ایک فرمان بردار بیٹا ’’جیانگ سو سپر لیگ‘‘ ، کھیل اور معیشت کا بہترین امتزاج پاک فضائیہ نے بھارت کا کولڈ اسٹارٹ جنگی نظریہ ناکام بنا دیا، ایئر یونیورسٹی سابق وائس چانسلر فائز امیر سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم