تکفیریوں کے کارڈ سے امریکہ کا کھیل
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ براہ راست داعش کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ یہ گروہ بدستور خطے میں اس کے مفادات کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ بالواسطہ طور پر داعش کو جولانی پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ نے شام پر پابندیاں ختم کرنے کو غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو ملک سے نکال باہر کرنے سے مشروط کیا ہے۔ یوں اس نے جولانی رژیم کو بہت سخت دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جولانی اقتدار میں باقی رہنے کے لیے ہمیشہ اس کا محتاج رہے۔ امریکہ دوسری طرف شام میں داعش کے خطرے کو بڑا کر کے دکھا رہا ہے جبکہ اس کے خاتمے کے لیے کوئی موثر اقدام بھی انجام نہیں دیتا۔ اس کا مقصد شام میں ایک مضبوط مرکزی حکومت تشکیل پانے کو روکنا ہے۔ داعش کی حمایت کا آخری مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا ہے۔ تحریر: علی احمدی
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے منگل 20 مئی کے دن خبردار کیا کہ شام میں محض چند ہفتے بعد ممکن ہے بھرپور پیمانے پر خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے۔ مارکو روبیو نے سینیٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے مزید کہا: "ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ درپیش چیلنجز کے باعث شام کی نگران حکومت نہ چند ماہ بلکہ محض چند ہفتے ہی چل سکے گی اور اس کے خاتمے پر اس ملک میں شدید خانہ جنگی اور ٹوٹ پھوٹ شروع ہو سکتی ہے۔" دوسری طرف دہشت گرد گروہ داعش کے بچے کھچے عناصر اور ھیئت تحریر الشام کے پرانے اتحادیوں نے شام میں ابو محمد الجولانی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس ملک کے وسیع علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے ان کے اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں موجودہ نگران حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانا شروع کر دیا ہے۔ ابو محمد الجولانی ھیئت تحریر الشام کا سربراہ بھی ہے۔ دوسری طرف مغربی حکمران دمشق کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو اپنے ملک میں پناہ دینے سے گریز کریں۔ ایسے میں شام میں موجود غیر ملکی دہشت گرد عناصر کا مسئلہ ایک شدید بحران کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور نگران حکومت اسے حل کرنے سے عاجز ہو چکی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ مندرجہ بالا حالات کے پیش نظر آئندہ چند ہفتوں میں شام میں مختلف دہشت گرد گروہوں اور تکفیری دھڑوں کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہو جائیں گی جن کے باعث یہ ملک ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے خطرے سے بھی روبرو ہو سکتا ہے۔
داعش کی جانب سے جولانی کو غدار قرار دینا
ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں موجودہ نگران حکومت اس وقت تشکیل پائی جب سابق صدر بشار اسد کو ملک سے نکال باہر کر دیا گیا۔ صدر بشار اسد حکومت کے خاتمے میں کچھ علاقائی اور مغربی حکومتوں نے خفیہ کردار ادا کیا تھا جبکہ غیر ملکی دہشت گرد عناصر نے اس میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت شام کی نگران حکومت شدید تضادات کا شکار ہو چکی ہے۔ ابو محمد الجولانی جو کسی زمانے میں خود کو ایک "مجاہد" کے طور پر پیش کرتا تھا آج مغرب نواز رجحانات کی جانب یوٹرن لے کر مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس یوٹرن کے بعد کابینہ میں بے پردہ خواتین کی شمولیت، شراب کی خرید و فروش کی اجازت اور حتی ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات جیسے اقدامات انجام پائے ہیں۔
یہ تمام اقدامات حتی ھیئت تحریر الشام کے شدت پسند عناصر کی جانب سے اصل اہداف سے غداری قرار پا رہے ہیں۔ اسی طرح ابو محمد الجولانی نے غیر ملکی وار لارڈز کو مختلف حکومتی عہدے عطا کیے ہیں جس کے باعث شام کے عوام بھی اس پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ شام کے مقامی عناصر ابو محمد الجولانی پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ طاقت کے حصول کے لیے غیر ملکی عناصر کا سہارا لے رہا ہے۔ جولانی کے ان اقدامات نے نہ صرف نگران حکومت کو ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ داعش جیسے شدت پسند گروہوں کو اکسا کر خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہونے کا باعث بنے ہیں۔ جولانی نے اپنے سیکورٹی سیٹ اپ میں غیر ملکی مسلح عناصر کو باقی رکھا ہے جن میں چینی اویغور قابل ذکر ہیں جو اس کے شخصی محافظوں میں شامل ہیں۔ اس طرح عدم استحکام کو فروغ ملا ہے۔
اندرونی تنازعات میں داعش کا کردار
شام میں خطرناک ترین گروہ کے ناطے داعش اندرونی تنازعات میں اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے ھیئت تحریر الشام سے علیحدگی اختیار کر لینے کے بعد اپنے میگزین میں جولانی پر غداری اور مغربی طاقتوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے اور اسے "کافر" اور "ٹرمپ کا بندہ" قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ داعش نے بڑے پیمانے پر نئے افراد بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے اس کے خطرناک عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ داعش غیر ملکی دہشت گرد عناصر جن کی تعداد 1500 سے 6000 کے درمیان ہے، کو جولانی کے خلاف اکسا رہی ہے اور یوں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا مقدمہ فراہم کر رہی ہے۔ یہ گروہ جولانی کی مغرب نواز پالیسیوں کے خلاف غیر ملکی دہشت گرد عناصر کی ناراضگی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر انہیں دمشق کے خلاف بغاوت پر اکسانے میں مصروف ہے۔
امریکہ اور داعش میں گٹھ جوڑ
موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ براہ راست داعش کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ یہ گروہ بدستور خطے میں اس کے مفادات کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ بالواسطہ طور پر داعش کو جولانی پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ نے شام پر پابندیاں ختم کرنے کو غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو ملک سے نکال باہر کرنے سے مشروط کیا ہے۔ یوں اس نے جولانی رژیم کو بہت سخت دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جولانی اقتدار میں باقی رہنے کے لیے ہمیشہ اس کا محتاج رہے۔ امریکہ دوسری طرف شام میں داعش کے خطرے کو بڑا کر کے دکھا رہا ہے جبکہ اس کے خاتمے کے لیے کوئی موثر اقدام بھی انجام نہیں دیتا۔ اس کا مقصد شام میں ایک مضبوط مرکزی حکومت تشکیل پانے کو روکنا ہے۔ داعش کی حمایت کا آخری مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غیر ملکی دہشت گرد عناصر کو ابو محمد الجولانی ھیئت تحریر الشام داعش کی حمایت نگران حکومت خانہ جنگی جولانی پر کے خاتمے رہے ہیں کے خلاف ہوتا ہے شام کے ہے اور کے لیے کیا ہے رہا ہے
پڑھیں:
شکست خوردہ نیتن یاہو کی ٹرمپ سے ملاقات اور خطے کا مستقبل
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشرق وسطیٰ میں بڑی تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ کے بارے میں تو ویسے ہی کہا جاتا ہے کہ ایک جھولے کی طرح ہے، جس میں کبھی ایک پلڑا اوپر چلا جاتا ہے اور کبھی دوسرا پلڑا بلند ہو جاتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی ہمیشہ اس وقت جنگ شروع کرتے ہیں، جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا نقصان برائے نام ہوگا اور وہ جنگ جیت جائیں گے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اسرائیلی پلاننگ بری طرح ناکام ہوئی اور پورا اسرائیل حملوں کی زد پر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے پہلے بار جنگ کی گرمی کو اسرائیلیوں کے گھروں تک پہنچایا۔ اس سے پہلے تو اسرائیلی شہری دوربینیں لے کر غزہ پر ہوتی بمباری کو بلند مقامات سے انجوائے کرتے تھے۔ انہیں معصوموں کی آہ و بکا سے سکون ملتا تھا، یہ لاشوں کو دیکھ کر انجوائے کرتے تھے اور بھوک و قحط مسلط کرکے اسے اپنے دفاع کا نام دیتے تھے۔ سکول، عبادتگاہیں، ہسپتال اور امدادی مراکز پر حملے کیے جاتے تھے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔
امریکی اسلحہ نے عصر حاضر کا سب سے بڑا قتل عام ممکن بنایا۔ جب ایرانی میزائل اسرائیل کی ملٹری عمارات کو نشانہ بنانے لگے تو آہ بکا شروع کر دی کہ سویلین پر حملے ہو رہے ہیں۔ ظلم، دہرا معیار اور مغربی میڈیا کی انسانیت دیشمنی دیکھیے کہ اسرائیل کے فوجی اہداف کے ساتھ موجود کچھ سول عمارتوں کے شیشے ٹوٹ جانے پر واویلا کیا جا رہا ہے، مگر یہی میڈیا ہسپتالوں میں سینکڑوں بچوں کی شہادت پر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اسرائیلی حملوں میں ایک ہزار کے قریب ایرانی شہید ہوئے، جس میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔ ان حملوں پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، مگر اسرائیل کے ان کے بقول تیس چالیس لوگ مرے، ان کو اتنا ہائی لائیٹ کیا جاتا ہے کہ جیسے بہت بڑا قتل عام ہو۔ یہ دہرا معیار اور یہ منافقت مغرب کے اصل چہرے سے نقاب ہٹا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم تمام تر قتل عام کے باوجود نہ غزہ سے قیدی چھڑا سکا اور نہ ہی مزاحمت کو ختم کرسکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں نے اس کی رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ دونوں محاذوں پر شکست کے بعد اب اسرائیلی وزیراعظم نے ٹرمپ سے کھانے پر اور اس کے بعد بھی ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں ماہرین کے مطابق تین بڑے مسئلے زیر غور آئے ہوں گے۔ پہلا، غزہ میں جنگ کا خاتمہ دوسرا، ایران کا معاملہ اور تیسرا، نام نہاد ابراہیم اکارڈ کا مسئلہ۔ اگرچہ یہ تینوں موضوعات الگ الگ ہیں، لیکن آپس میں کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کی اعلانیہ پالیسی ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکال دیا جائے اور یہ علاقہ پہلے امریکہ اور پھر بذریعہ امریکہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ غزہ کی مزاحمت نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
دو سال ہونے کو ہیں، مگر یہ اپنے انسانیت دشمن منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی شام میں اسرائیل و امریکہ نواز حکومت کا قیام ہے۔ کل ملا کر انہیں یہی بچا ہے، یہ کب تک ایسا ہی رہتا ہے، یہ وقت بتائے گا۔ ابھی تک جولانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کی توقع سے زیادہ ان کی خدمت گزار واقع ہوئی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے سے ہے، جس کا آغاز کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو بڑے خوشنما نعرے کا لباس پہنایا جائے گا اور اصل مقصد یہ ہوگا کہ کسی نا کسی طرح فلسطینیوں کو غزہ سے نکالا جائے۔ اس کے کچھ خدوخال نظر آنے لگے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ سے تمام فلسطینیوں کو علاقے کے جنوب میں واقع ایک کیمپ میں منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کریں۔ اس کیمپ سے ان کی مراد رفع کراسنگ کے پاس مصر کی سرحد پر سارے اہل غزہ کو جمع کرنا ہے۔
ابھی دنیا کو یہ دکھایا جائے گا کہ ہم پورے علاقے سے دہشتگروں کو ختم کریں گے پھر تعمیر نو کر کے لوگوں کو گھروں میں بسائیں گے۔یہ سب ڈرامہ اور فراڈ ہو گا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ ہے کہ اس نے جب بھی کسی گاوں یا شہر سے فلسطینیوں کو نکالا ہے پھر کبھی ان کی واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ اردن، شام، لبنان اور دنیا بھر میں موجود فلسطینی مہاجرین کو دیکھ لیں۔ آج اسرائیل کسی بھی صورت میں ان کے گھر واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ انسانی حقوق کے کچھ انسانیت پسند اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مائیکل سفرڈ کے مطابق یہ غزہ کی پٹی کے جنوبی سرے پر آبادی کی منتقلی کے بارے میں ہے، تاکہ پٹی سے باہر جلاوطنی کے لیے حالات سازگار کیے جا سکیں۔ انہوں نے اس اسرائیلی اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف ایک جرم قرار دیا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا تھا کہ مقبوضہ علاقے کی شہری آبادی کی ملک بدری یا جبری منتقلی بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت سختی سے ممنوع ہے اور نسل کُشی کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقاتیں دراصل خطے میں تبدیل ہوتی دفاعی صورتحال میں اسرائیل کے کردار کو بچانا ہے۔ اس کو سمجھنا مشکل نہیں اگر امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ آتا تو اسرائیل کتنے دن سروائیو کرسکتا تھا؟ جس طرح سے اسرائیلی ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، یوں لگتا تھا کہ اسرائیل ویسے ہی خالی ہو جانا ہے۔ اسرائیل کو خطے کے ایجنٹ ممالک سے تمام تر مدد کے باوجود اسرائیل کی ساخت برباد ہو گئی ہے۔اب کوئی بڑی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پہلے کے تمام دفاعی نظام تو ناکام ہوچکے ہیں اور اس سے بڑھ کر امریکہ کے پاس بھی کچھ موجود نہیں، جس سے وہ اسرائیل کی مدد کرے۔
ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔