’اے آئی‘ انقلاب: خواتین اور دفتری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں، اقوام متحدہ کی وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اقوام متحدہ کے ادارہ محنت (ILO) اور پولینڈ کے قومی تحقیقی ادارے نے مشترکہ جائزے میں خبردار کیا ہے کہ تخلیقی مصنوعی ذہانت (جنریٹیو اے آئی) خواتین اور دفتری ملازمین کی نوکریوں میں بڑی تبدیلی لائے گی، جس سے ان کے روزگار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بلند آمدنی والے ممالک میں خواتین کی 9.6 فیصد ملازمتیں خودکار نظاموں سے متاثر ہو سکتی ہیں، جو مردوں کے مقابلے میں قریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر خواتین کی 4.
مزید پڑھیں: تخلیقی مصنوعی ذہانت کے پیٹنٹ میں چین نے دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا
’اے آئی‘ خاص طور پر ڈیٹا انٹری، ڈاکیومنٹ فارمیٹنگ اور شیڈولنگ جیسے دفتری کاموں کو خودکار بنا رہی ہے، جس سے ملازمین کی ذمہ داریاں محدود، اجرت کا اضافہ رک سکتا ہے اور کام کا معیار گرنے کا اندیشہ ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ملازمین کو ڈیجیٹل مہارت نہ دی گئیں اور ’اے آئی‘کے استعمال پر مشمولہ پالیسی نہ بنائی گئی تو خاص طور پر خواتین ملازمین کی نوکریاں غیر محفوظ ہو سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستانیوں کو ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے رشتہ کی تلاش
رپورٹ میں حکومتوں، آجروں اور مزدور تنظیموں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر فیصلہ کن اقدامات کریں، کارکنوں کو نئی مہارتیں سکھائیں، سماجی مکالمہ کو فروغ دیں اور یقینی بنائیں کہ ’اے آئی‘ ترقی کی رکاوٹ نہیں بلکہ مددگار بنے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ILO اے آئی‘ انقلاب تخلیقی مصنوعی ذہانتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے آئی انقلاب تخلیقی مصنوعی ذہانت ملازمین کی اے آئی
پڑھیں:
سلامتی کونسل: پیچیدہ تنازعات افریقہ کی ترقی میں رکاوٹ، یو این نمائندہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اکتوبر 2025ء) افریقن یونین کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ نوجوان آبادی، وافر قدرتی وسائل اور صارفین کی تیزی سے پھیلتی منڈیوں کی بدولت براعظم کے پاس ترقی کے بھرپور امکانات ہیں لیکن پیچیدہ تنازعات کے باعث اسے آگے بڑھنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
خصوصی نمائندے پارفیت اونانگا انیانگا نے اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں بالخصوص افریقی یونین کے درمیان تعاون پر منعقدہ اجلاس میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افریقہ نے اپنی مکمل صلاحیت سے تاحال پوری طرح کام نہیں لیا۔
براعظم معاشی میدان میں تواتر سے قابل تعریف کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن بعض علاقوں میں بڑھتے ہوئے اور پیچیدہ تنازعات باعث تشویش ہیں۔(جاری ہے)
کمزور یا غیر موثر ریاستی ادارے، تشدد اور انتہاپسندی کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی، قدرتی وسائل کا غیر منصفانہ استعمال، منظم جرائم، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، شدید غذائی عدم تحفظ اور بعض صورتوں میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ان تنازعات کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور افریقن یونین کے درمیان شراکت داری کو مضبوط بنانے سے متعلق سیکرٹری جنرل کی رپورٹ کا جائزہ پیش کیا جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران کئی افریقی ممالک میں آزادانہ، منصفانہ اور قابل اعتماد انتخابات منعقد ہوئے۔
سوڈان کا بحراناونانگا انیانگا نے سوڈان میں جاری تنازع کی جانب خاص توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے جس میں جبری نقل مکانی کا مسئلہ خاص طور پر باعث تشویش ہے۔
انہوں نے حالیہ ہفتوں میں اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں میں آںے والی نئی تیزی کا خیرمقدم بھی کیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تنازعات سے متاثرہ علاقوں، خاص طور پر جمہوریہ کانگو کے مشرقی علاقوں اور سوڈان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے جہاں صنفی بنیاد پر تشدد اور جنگی حالات میں جنسی تشدد کے واقعات عام ہیں۔
خصوصی نمائندے نے کہا کہ اقوام متحدہ اور افریقن یونین کے درمیان مضبوط اور دیرپا شراکت داری اور دیگر علاقائی تنظیموں کے ساتھ قریبی تعاون، مؤثر اور مربوط کثیرالفریقیت کی بنیاد ہے۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کی معاون سیکرٹری جنرل برائے افریقہ مارتھا پوپی نے سلامتی کونسل کی قرارداد 2719 کے نفاذ سے متعلق تازہ ترین پیش رفت پر روشنی ڈالی۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ اور افریقن یونین کے درمیان تعاون کے لیے 2023 میں منظور کی گئی تھی۔
مارتھا پوپی نے کہا کہ یہ قرارداد اس مقصد کے لیے منظور کی گئی تھی کہ افریقن یونین کے امن و سلامتی سے متعلق ڈھانچے میں ایک دیرینہ خلا کو پر کیا جا سکے تاکہ عالمی برادری کے تعاون سے براعظم میں مسلح تنازعات پر موثر انداز میں قابو پانا ممکن ہو۔
انہوں نے بتایا کہ اس قرارداد کے چار اہم شعبوں یعنی مشترکہ منصوبہ بندی، اقوام متحدہ کی کارروائیوں میں تعاون، مالیات و میزانیے، اصولوں کی پاسداری اور شہریوں کے تحفظ میں اب تک قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ مشترکہ فہم اور حقیقت پسندانہ توقعات کسی بھی کامیاب شراکت داری کی بنیاد ہوتی ہیں اور افریقن یونین کے ساتھ اقوام متحدہ کی شراکت میں بھی یہی بات مدنظر رکھنا ہو گی۔
سلامتی کے سنگین خطراتاقوام متحدہ میں افریقن یونین کے مستقل نمائندے محمد ادریس نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس ایک ایسے وقت پر منعقد ہو رہا ہے جب افریقہ کو سلامتی سے متعلق خطرات کی غیرمعمولی لہر کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے افریقی ممالک کو باہم متحد ہو کر اور عالمی برادری کے تعاون سے کام کرنا ہو گا۔
انہوں نے لیبیا سے لے کر ساہل، جھیل چاڈ کے طاس اور مغربی افریقہ تک پھیلے بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سوڈان میں امن قائم کرنے کے لیے بھی اسی عزم کے ساتھ کوششیں کی جانا چاہئیں۔
مشرقی افریقہ اور شاخ افریقہ میں کسی ممکنہ تنازع کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور جمہوریہ کانگو اور گریٹ لیکس خطے میں استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سہولت فراہم کی جائے۔محمد ادریس نے اس بات پر زور دیا کہ کثیرالطرفہ کوششیں اور بین الاقوامی برادری کی معاونت کو اس انداز میں بروئے کار لانا چاہیے کہ اس سے افریقی قیادت اور مقامی ملکیت کو مضبوطی حاصل ہو۔