تاج محل کو بم سے اڑانے کی دھمکی، مختلف حصوں کی مکمل تلاشی اور ہائی الرٹ
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
محکمہ سیاحت کو کیرالا سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں تاج محل کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی۔ اس اطلاع کے بعد سیکیورٹی ایجنسیاں فوری طور پر حرکت میں آئیں اور پورے علاقے میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا۔
سی آئی ایس ایف، مقامی پولیس، بم اسکواڈ، ڈاگ اسکواڈ اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے قریباً 3 گھنٹے تک تاج محل کے مختلف حصوں کی مکمل تلاشی لی۔ اس دوران کوئی مشتبہ شے برآمد نہیں ہوئی۔ تاہم، مشرقی اور مغربی دروازوں پر سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے، اور سیاحوں کو پین تک لے جانے سے روک دیا گیا ہے۔ تمام وزیٹرز پر سی سی ٹی وی کے ذریعے کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ
ڈی ایس پی آگرہ سونم کمار کے مطابق، یہ دھمکی آمیز ’ہاکس ای میل‘ کیرالا سے بھیجی گئی، جس پر سائبر سیل نے مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
سی آئی ایس ایف کمانڈنٹ ویبھو کمار دوبے نے بتایا کہ تاج محل کے تمام اہم حصے جیسے مرکزی گنبد، چمیلی فرش، مسجد، باغات اور دالانوں کی باریک بینی سے جانچ کی گئی۔
اے سی پی آگرہ عریب احمد کے مطابق، ملک کے دیگر مقامات پر بھی اسی نوعیت کے ای میل موصول ہوئی ہیں، اور ابتدائی طور پر اسے ’ماک ڈرل‘ قرار دیا گیا تاکہ عوام میں خوف نہ پھیلے۔ فی الحال تاج محل محفوظ ہے تاہم سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر الرٹ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آگرہ اے سی پی آگرہ عریب احمد بم سے اڑانے کی دھمکی تاج محل کیرالا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے سی پی ا گرہ عریب احمد بم سے اڑانے کی دھمکی تاج محل کیرالا تاج محل
پڑھیں:
خواتین سیاسی کارکنان اور جنسی تشدد کی دھمکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مئی 2025ء) بلوچ یکجہتی کمیٹی سے تعلق رکھنے والی مہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی گرفتاری کے بعد ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکن سوشل میڈیا پر یہ بحث کرنے لگے کہ ان کے کن اعضاء کے بال کس سے اتروائے جائیں گے۔ ایسے کمنٹس پڑھنا اس قدر کراہت آمیز ہے تو سوچیں جنہوں نے یہ سب لکھا ہے وہ کس ذہنیت کے مالک ہوں گے اور جن خواتین سیاسی کارکنان کے لیے یہ سب کہا جاتا ہے انہیں کیسا محسوس ہو گا۔
ریاستی تحویل یا جیل میں موجود خواتین پر جنسی تشدد یا اس کی دھمکی اُن بدترین ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے، جو خواتین سیاسی کارکنان کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف کسی فرد کی جسمانی خودمختاری اور وقار کی شدید خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کے بھی خلاف ہے۔
(جاری ہے)
خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (CEDAW) کا جنرل ریکمنڈیشن نمبر 35 (2017) واضح کرتا ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جنسی تشدد بھی صنفی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ لوگ کھلے عام ان خواتین کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دیتے ہوں اور ریاست خاموش رہے۔
یہ معاملہ فقط سیاسی اختلاف کا نہیں بلکہ یہ طاقت کا عدم توازن اور خواتین کے جسم کو ان ہی کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعما ل کرنے کا ایک حربہ بھی ہے۔ مشہور ماہر سیاسیات ڈاکٹر مونا لینا کروک لکھتی ہیں کہ سیاست میں خواتین کو دی جانے والی جنسی نوعیت کی دھمکیاں اور تشدد کا خوف محض اتفاق نہیں، بلکہ یہ طاقت کی صنفی حدود کو نافذ کرنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔
پاکستانی سیاست میں خواتین کی نمائندگی گزشتہ دہائیوں میں بڑھ ضرور رہی ہے، مگر یہ اضافہ محض اعداد و شمار تک محدود نظر آتا ہے۔آج بھی، جب کوئی عورت عوامی نمائندگی کے لیے سامنے آتی ہے تو اسے صرف نظریاتی یا انتخابی مخالفت کا سامنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ذات، جسم اور کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے اگر وہ سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں تو انہیں کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی قید و بند کی صعوبت دیکھنی پڑے تو اس مشکل کے ساتھ یہ بھی سہنا پڑتا ہے کہ آن لائن سپیس میں مرد حضرات یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہوں گے کہ جیل میں ان کی نتھ اتروائی کون کر رہا ہے۔
یہ جنسی نوعیت کی دھمکیاں، توہین آمیز تبصرے اور تشدد کی صورتیں، خواتین سیاستدانوں کو صرف خاموش نہیں کرتیں، بلکہ انہیں خوفزدہ کر کے سیاست سے باہر نکالنے کا ہتھیار بھی ہیں۔پاکستان کی سیاست میں پہلے ہی خواتین کی سیاست میں شمولیت غیر معمولی حد تک محدود ہے اور اس پر ستم یہ کہ جو خواتین سیاست میں شمولیت اختیار کرتی ہیں انہیں ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کو بطور خاتون سیاستدان اپنی زندگی میں جس نفرت، الزام تراشی اور جنسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا، وہ ہمارے قومی شعور کا ایک تلخ باب ہے۔ آج بھی، جب کوئی خاتون ایم این اے، کونسلر یا ورکر بننے کی کوشش کرتی ہے، تو اسے تضحیک آمیز رویوں اور سوشل میڈیا پر جنسی حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ایسے رہنما بھی مخالف سیاسی جماعت کی خواتین کو سیاسی جلسوں میں فحاشی پھیلانے اور ناچنے کا طعنہ دیتے رہے جن کے اپنے گھر کی خواتین عملی سیاست میں سرگرم تھیں اور پھر جوابا انہیں بھی کبھی کسی قطری کے طعنے ملے اور کبھی کسی جنرل سے تعلقات کے۔
ایسی افسوسناک صورتحال صرف سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ معاشرتی ذہنیت کی وہ پستی ظاہر کرتی ہے جو عورت کو قیادت کے قابل ہی نہیں سمجھتی۔ ایسے میں شاعرہ کشور ناہید صاحبہ کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے،ہمارے جسموں کے گناہ کی گواہی مت دو،
ہم نے سانسوں سے اپنے خوابوں کی فصلیں اگائی ہیں
2024 کے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہے، جو صنفی برابری کے حوالے سے ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
خواتین کی سیاسی شراکت داری کے حوالے سے پاکستان کا درجہ 112واں ہے، جہاں صرف 19 فیصد خواتین قانون ساز اداروں میں نمائندگی رکھتی ہیں، اور محض چھ اعشاریہ تین فیصد خواتین وزارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات میں صرف 4.6 فیصد جنرل نشستوں کے امیدوار خواتین تھیں، جبکہ 27 خواتین قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوئیں۔ اسی طرح، قومی اسمبلی کی 34 قائمہ کمیٹیوں میں سے صرف 2 کی صدارت خواتین کے پاس ہے، جبکہ سینیٹ کی 50 کمیٹیوں میں سے 10 کی صدارت خواتین کے پاس ہے۔جس معاشرے میں پہلے ہی خواتین کی سیاست میں شرکت کا یہ حال ہو وہاں جنسی ہراسانی اور جنسی تشدد کی دھمکیاں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ خواتین سیاستدانوں کو ان حملوں کے بعد اکثر سیاست کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ جن خواتین سیاستدانوں پر آن لائن جنسی حملے ہوتے ہیں، ان کے دوبارہ انتخاب لڑنے کے امکانات نمایاں حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک فرد کا سیاسی نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرے کا جمہوری نقصان ہے، کیونکہ ہم اپنے سیاسی منظرنامے سے ایک مؤثر اور حساس قیادت کو کھو دیتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم ان حملوں کو صرف 'سیاست کی تلخی‘ سمجھ کر نظرانداز کرنا بند کریں۔ ہمیں ان حملوں کو 'سیاسی دہشت گردی' کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔یقیناً، یہ صورتحال صرف خواتین سیاستدانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہے جو عوامی مکالمے اور سیاسی مباحثوں میں حصہ لینا چاہتی ہے۔ خاص طور پر آن لائن پلیٹ فارمز پر، جو اب سیاسی بیانیے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ کے ایک عالمی سروے کے مطابق وہ نوجوان خواتین جو آن لائن سیاسی آراء کا اظہار کرتی ہیں، ان میں سے نصف سے زائد کو صرف اپنے خیالات کے اظہار پر بدسلوکی اور جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بدسلوکی چند انفرادی واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک منظم معاشرتی اور سیاسی مسئلہ ہے جو جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔نیٹو کی ایک 2021 کی رپورٹ میں فن لینڈ کی حکومت کی خواتین وزراء، بشمول وزیراعظم سانا مارین، کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر موصول ہونے والی نفرت انگیز اور صنفی بنیاد پر مبنی بدسلوکی کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ان خواتین کو منظم طریقے سے "لپ اسٹک حکومت"، "فیمنسٹ کوئنٹیٹ" اور "ٹیم ٹامپیکس" جیسے توہین آمیز القابات سے نشانہ بنایا گیا۔
اس رپورٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ حملے کچھ مخصوص افراد کی ذاتی سوچ پر مبنی نہیں تھے، بلکہ یہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی منظم سازش کا حصہ تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے والے عناصر نے جان بوجھ کر خواتین کو نشانہ بنانے کو ایک مؤثر حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا ہے۔پاکستان ہو یا دنیا کے دیگر ممالک اس طرز کے حملے صرف خواتین سے نفرت کے غماز نہیں ہیں، بلکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کو جنسی تشدد کی دھمکیاں دینے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ خواتین کے خلاف نفرت انگیز مہم ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔
یو این نے یہ واضح کیا ہے کہ سیاست میں خواتین کے خلاف تشدد کا مقصد انہیں عوامی زندگی میں حصہ لینے سے روکنا ہے، یہ ایک قسم کی سیاسی دہشت گردی ہے۔لہذا حکوت کو بھی چاہیے کہ ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں جو اس سیاسی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جو عورتوں کے جسموں کو ان کی کمزوری سمجھتے ہیں، جو عورت کو ذہانت سے سر نہیں کر پاتے تو اس پر اپنی جسمانی طاقت کا خوف ڈالتے ہیں۔
ان کو جلسوں میں تقریر کرتی، آزادی کے خواب دیکھتی، ہتھکڑیوں میں جکڑی، یا نعرے لگاتی عورت فقط ایک جسم لگتی ہے جس کو وہ زیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر نہ پارٹی کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور نہ جمہوریت کے، یہ صرف اپنی پست سوچ کے غلام ہوتے ہیں۔سلام ہے ہماری بہادر بیٹیوں کو جو اس سب کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ وہ استحصال اور خوف کے اس نظام کو اپنی بہادری اور استقامت سے زیر کر رہی ہیں۔
وہ بے نظیر ہوں، مریم نواز، مہ رنگ بلوچ ، صنم جاوید یا ان جیسی ہزاروں خواتین، جو اس نظام میں اپنی جگہ بنانے کے ساتھ ان حملوں کا بہادری سے سامنا کرتی رہی ہیں۔ جمہوریت کی عمارت میں ان کی لگائی ہوئی اینٹیں ہی اس کی پختگی کی ضامن ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔