جنگ نہیں امن: پاکستان کی حکمتِ عملی اور بھارتی سیاست کا بحران
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
جنوبی ایشیا ایک بار پھر پاک - بھارت کشیدگی کے سائے میں آیا، مگر اس بار سیاسی، سفارتی اور جغرافیائی توازن نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ جہاں بھارت کو اپنی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث شدید داخلی و خارجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، وہیں پاکستان نے متوازن حکمت عملی، فعال سفارت کاری اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع کیا بلکہ ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنی عالمی حیثیت کو مزید مضبوط کیا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے ہمیشہ قومی سلامتی اور عسکری قوت کے بیانیے کو انتخابی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔ حالیہ کشیدگی میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا گیا، جہاں بھارتی حکومت نے ایک جانب عسکری کارروائیوں کے دعوے کیے تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ تاہم جب نتائج ان دعوؤں کے برعکس نکلے تو اپوزیشن نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے دوران بھارتی فضائیہ کے طیاروں کے نقصان پر مودی سرکار سے سخت سوالات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی کوئی بڑی عسکری کامیابی حاصل ہوئی ہے تو بھارت عالمی حمایت سے کیوں محروم رہا؟ سوشل میڈیا پر بھی ’’فیک وار‘‘، ’’الیکشن اسٹنٹ‘‘ اور ’’ریاستی ڈرامہ‘‘ جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ عوام میں سرکاری بیانیے پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔
نریندر مودی کو جس تنظیم کی مکمل حمایت حاصل رہی، وہ ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) تھی۔ لیکن حالیہ واقعات نے اس تنظیم کے سینئر رہنماؤں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ کئی رہنماؤں نے غیرعلانیہ طور پر مودی کی جنگی پالیسی کو ’’ناکام شو آف پاور‘‘ قرار دیا۔ بی جے پی کے بعض اراکین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ مودی کی جارحانہ حکمت عملی بھارت کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
اگر نریندر مودی کے 2014 سے اقتدار میں آنے کے بعد کیے گئے بیرونی دوروں کا تنقیدی و تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو نریندر مودی نے 2014 سے اب تک 70 سے زائد غیر ملکی دورے کیے۔ ان میں امریکا، چین، روس، یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ ابتدا میں ان دوروں کو بھارت کی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش سمجھا گیا، لیکن بعد ازاں یہ سوالات جنم لینے لگے کہ ان دوروں کا عملی فائدہ کیا ہوا؟ پاکستان جیسے اہم علاقائی فریق کے خلاف بھارت کوئی خاطر خواہ سفارتی حمایت حاصل نہ کرسکا۔ او آئی سی نے کشمیر پر بھارت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں قراردادیں منظور کیں، جبکہ اقوام متحدہ نے بھارت کی یکطرفہ کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان نے کشیدگی کے آغاز ہی سے متوازن اور بردبار حکمت عملی اپنائی۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ آپریشن ’’سندور‘‘ کے دعوے کیے گئے، تو پاکستان نے عسکری محاذ پر بھرپور تیاری کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی فوری اقدامات کیے۔ پاکستان نے ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کا آغاز کیا، جس کا مقصد محض عسکری جواب دینا نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی بیانیہ مضبوط کرنا تھا۔
’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کو نہ صرف پاکستانی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوئی بلکہ عالمی مبصرین نے بھی اسے ایک متوازن، محدود اور مؤثر عسکری حکمت عملی قرار دیا۔ پاکستان نے اشتعال انگیزی سے گریز کرتے ہوئے دفاع کا حق استعمال کیا، اور اپنے اقدامات کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پیش کیا۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نئی توانائی ملی اور اسے ایک پرامن اور ذمے دار نیوکلیئر ریاست کے طور پر سراہا گیا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ اور فوجی قیادت نے مشترکہ حکمت عملی کے تحت دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین، چین، ترکی اور دیگر اہم ممالک سے براہِ راست رابطے کیے۔ ان رابطوں نے واضح کیا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری سے رابطے میں ہے اور ذمے داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
چین، ترکی اور آذربائیجان نے پاکستان کے مؤقف کی نہ صرف زبانی بلکہ عملی حمایت کی۔ چین نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور بھارت کی یکطرفہ پالیسیوں پر تنقید کی۔ ترکی نے بھارتی اشتعال انگیزی پر براہِ راست بیانات جاری کیے اور پاکستان کے دفاعی حق کو تسلیم کیا۔ آذربائیجان نے بھی بھرپور سفارتی حمایت فراہم کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کی سفارتی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔
اس کے برعکس، بھارت کو روایتی حمایت تک میسر نہ آ سکی۔ یورپی ممالک اور کئی نیوٹرل طاقتیں اس بار بھارت کے موقف کی حمایت سے گریزاں رہیں۔ بعض مبصرین نے بھارت کی پالیسی کو علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے اس بحران میں جس تدبر، صبر اور ذمے داری کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس سفارتی کامیابی کو ایک نئے آغاز میں تبدیل کرے۔ اقتصادی سفارت کاری کو فروغ دینا، سی پیک جیسے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنا، اور علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات قائم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
داخلی سطح پر اتحاد، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور میڈیا کے شعبوں میں اصلاحات سے نہ صرف قومی ترقی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک جدید، معتدل اور قابلِ اعتبار ریاست کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے قومی پالیسیوں میں تسلسل، میڈیا کا مثبت کردار، نوجوانوں کی شمولیت اور عالمی سطح پر مؤثر عوامی سفارت کاری ضروری ہو گی۔
پاک بھارت حالیہ کشیدگی نے ایک نیا منظرنامہ پیش کیا ہے، جہاں پاکستان نے ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے عسکری، سفارتی اور سیاسی محاذوں پر بہترین حکمت عملی اختیار کی۔ یہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کےلیے پاکستان جیسے باوقار شراکت دار کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان کو اب ان کامیابیوں کو مستقبل کی ترقی، استحکام اور امن کی بنیاد بنانا ہوگا، تاکہ خطے میں ایک متوازن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت دی جا سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان نے پاکستان کے کہ پاکستان کرتے ہوئے حکمت عملی کے طور پر بھارت کی بھارت کو کے ساتھ نے ایک
پڑھیں:
دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
سٹی42: چھ سے نو مئی کے دوران 90 گھنٹے کی جنگ میں خارش زدہ کتے جیسی حالت ہو جانے کے بعد بھارت کی ہندوتوا پرست حکومت تو اب تک زخم چاٹ رہی ہے اور ذلت کے داغ دھونے کے لئے آج کل گودی میڈیا میں پاکستانی سرحد کے ساتھ "کراچی پر قبضہ کر نےکی جنگی مشق" کا ڈھونگ رچا رہی ہے لیکن بھارت میں رہنے والے سکھ بھارتی حکومت کی خود ساختہ کشیدگی کا کوئی اثر نہیں لے رہے اور سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیو جی کے جنم دن پر کثیر تعداد میں پاکستان آ رہے ہیں۔ اس صورتحال پر بھارت کی ہندوتوا پرست مودی حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
بھارتی نژاد دنیا کی معروف کمپنی کو اربوں کا چونا لگا کر فرار
بھارت کی اپوزیشن کانگرس کے ساتھ وابستہ اخبار "قومی آواز" نے بھی پاکستان کے سکھ یاتریوں کو گورونانک دیو جی کے جنم دن کی مذہبی تقریبات کے لئے پاکستان آنے کی کھلی اجازت دینے کے عمل کو آپریشن سیندور کی تلخی کم کرنے کی کوشش کا رنگ دیا ہے۔ حالانکہ مودی حکومت کے نام نہاد ’آپریشن سندور‘ کے بعد ہند-پاک تعلقات میں آئی ہوئی تلخی آج کل پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی فوج کی جنگی مشقوں کی آڑ میں نئی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ایک بار پھر عروج پر ہے۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا
پاکستان نے 2100 سکھ زائرین کو بابا گورونانک جی کے جنم دن کی تقریبات کے لئے ویزے جاری کئے ہیں ۔ پاکستان کے سرکاری ذرائع کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ پاکستان سکھ کمیونٹی کو بھارت کی ہندوتوا پرست مرکزی حکومت کے ساتھ کشیدگی کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ پاکستان سکھ کمیونٹی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ارکان کا دوسرا گھر ہے۔ یہاں ان کے مقدس ترین استھان ہیں، سکھوں کی مذہبی رسومات میں شرکت کے لئے سہولیات فراہم کرنے میں پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔
اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان نے سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کے یوم پیدائش کی مذہبی تقریبات میں شرکت کے لئے 4 سے 13 نومبر تک پاکستان آنے والے ہندوستانی سکھ زائرین کو 2100 سے زائد ویزے جاری کیے ہیں۔
دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن نے رواں ہفتہ بتایا کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کا یوم پیدائش منانے کے لیے 4 سے 13 نومبر تک پاکستان جانے والے ہندوستانی سکھ زائرین کو 2100 سے زائد ویزے جاری کیے گئے ہیں۔
نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی
واضح رہے کہ ہر سال ہزاروں سکھ زائرین ویزا-فری کرتارپور کوریڈور کے ذریعہ پاکستان جاتے ہیں۔ یہ کوریڈور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع گرودوارہ دربار صاحب کو ہندوستان کے گرداس پور ضلع کے گرودوارہ ڈیرہ بابا نانک سے جوڑتا ہے۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق زائرین اپنے سفر کے دوران ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتارپور صاحب گرودواروں کی زیارت کریں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ویزا جاری کرنے کا عمل 1974 میں بنائے گئے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے دو طرفہ پروٹوکول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان میں پاکستان کے قائم مقام سفارت کار سعاد احمد واریچ نے ہندوستانی سکھ زائرین کو روحانی طور پر خوشحال اور اطمینان بخش سفر کی نیک خواہشات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کے تحت زیارت گاہوں کے سفروں کو آسان بناتا رہے گا۔
ننکانہ صاحب ہندوستان کی سرحد سے 85 کلومیٹر (52 میل) مغرب میں لاہور سے آگے واقع ہے۔ وہاں جانے کے لئے سکھ یاتری پہلے لاہور آتے ہیں، پھر خصوصی بسوں سے ننکانہ صاحب جاتے ہیں۔ لاہور مین بھی سکھ مذہب کے کئی مقدس استھان ہیں، جن کی زیارت کسی بھی موقع کے لئے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کی یاترا کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔
محسن نقوی کا ٹی چوک فلائی اوور ،شاہین چوک انڈر پاس منصوبوں کا دورہ
گورو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات کی شروعات منگل سے ہو گی۔ اٹاری-واہگہ زمینی سرحد جو دونوں ممالک میں منقسم پنجاب کے عوام کو جوڑتی ہے، مئی میں بھارت کے پاکستان پر بلا اشتعال حملوں سے شروع ہونے والی جنگ کے باعث بند کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے سرحد کو بھارت کے لئے اب بھی بند کر رکھا ہے اور شاید یہ طویل عرصہ تک بند ہی رہے گی لیکن مشرقی پنجاب کی سکھ کمیونٹی ایک الگ معاملہ ہے، سکھوں کے لئے پاکستان کے دروازے اب بھی ہمیشہ کی طرح کھلے ہیں۔
پنجاب : لاؤڈ سپیکر ایکٹ سختی سے نافذ کرنے کا فیصلہ
قابل ذکر ہے کہ سکھ مذہب کے مقدس مقامات اور سکھ ثاقفتی ورثہ کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں واقع ہے۔ 1947 میں برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ہندوستان کا تقسیم ہوا تب کرتارپور پاکستان میں چلا گیا، جبکہ زیادہ تر سکھ برادری کے لوگ ہندوستان میں رہ گئے۔ 7 دہائیوں سے زائد وقت تک سکھ برادری کو کرتار پور آنےئ کے لئے لاہور کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ 2019 میں پاکستان کی جانب سے کرتارپور کوریڈور کھولنے کے فیصلے کو بین الاقومی سطح پر سکھ کمیونٹی میں کافی پذیرائی ملی۔ اب کرتار پور کے نزدیکی علاقوں کے لوگ لاہور آنے کی بجائے براہ راست کرتار پور کوریڈور تک گورو نانک جی کے اس آخری استھان تک آ سکتے ہیں۔
ہندوستان کی جانب سے فی الحال ویزا جاری کرنے کو لے کر کوئی آفیشیل بیان سامنے نہیں آیا ہے، لیکن ہندوستانی اخبارات نے ہفتے کے روز اطلاع دی ہے کہ حکومت منتخب گروپوں کو سکھ مذہب کے بانی کی یوم پیدائش منانے کے لیے 10 روزہ تقریب میں حصہ لینے کی اجازت دے گی۔