صدر زرداری کو ناکردہ گناہوں کی سخت سزا ملی ہے جو اداروں کے لوگوں کو نہیں ملتی،، فرحت اللہ بابر
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب میں سابق ترجمان صدر زرداری نے کہا کہ میں نے صرف تاریخی واقعات لکھے ہیں، اسامہ بن لادن کو امریکی لے گئے اس وقت ایوان صدر میں کیا ہوا تھا، ریاستی اداروں کا اس وقت کردار کیا تھا، یہ ایک ایسے شخص کی کتاب ہے جو ان واقعات کا عینی گواہ تھا۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر سیاستدان اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدر زرداری کو نا کردہ گناہوں کی سخت سزا ملی ہے، ناکردہ یا کردہ گناہوں کی سزا صرف سیاست دانوں کو ملتی ہے، دیگر اداروں کے لوگوں کو سزا نہیں ملتی، سیاست دانوں کے ساتھ کچھ لوگوں نے چوہے بلی کا کھیل کھیلا ہے، زرداری پر میمو گیٹ خودکش حملہ تھا، نواز شریف نے خود کہا کہ میمو گیٹ غلطی تھی، اس کا نقصان صدر زرداری کے ساتھ پورے ملک کو ہوا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں اپنی کتاب ”دی زرداری ریزیڈنسی“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے آکسفورڈ پریس کی امینہ سید نے بھی خطاب کیا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس پریس کلب میں ہماری قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کئی بار آئیں تھیں، مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کتابیں لکھنے کے لئے کہا تھا، میں نے کہا تھا کہ تب لکھوں گا جب پارٹی میں عہدے پر نہیں رہوں گا، صدر زرداری کے ساتھ پانچ سال تک پریس ترجمان رہا ہوں، یہ کتاب ایک شخصیت کے بارے میں نہیں ہے، اس کتاب میں آصف زرداری کے ساتھ جو اہم واقعات ہوئے ان کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں اہم واقعات کا ذکر ہے، کسی کو توقع ہوگی کہ کتاب میں عجب کرپشن کی غصب کہانی ہوگی یا ایک زرداری سب پہ بھاری کا بیانیہ ہوگا لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں ہے میں نے صرف تاریخی واقعات لکھے ہیں، اسامہ بن لادن کو امریکی لے گئے اس وقت ایوان صدر میں کیا ہوا تھا، ریاستی اداروں کا اس وقت کردار کیا تھا، یہ ایک ایسے شخص کی کتاب ہے جو ان واقعات کا عینی گواہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ میمو گیٹ اسکینڈل کے بعد صدر زرداری بیمار ہوگئے، میں نے میمو گیٹ اسکینڈل کی پوری ڈائری لکھی ہے، میمو گیٹ اسکینڈل صدر زرداری پر خودکش حملہ تھا، اس میں زرداری بری طرح زخمی ہوئے تھے، اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نے کالا کوٹ پہن کر کہا کہ میمو گیٹ زرداری نے کیا ہے، میرے سامنے تاریخ مرتب ہو رہی تھی، میں تاریخی اہمیت سے واقف تھا، نواز شریف نے خود کہا کہ میمو گیٹ غلطی تھی، اس کا نقصان زرداری کے ساتھ پورے ملک کو ہوا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ چوہدری افتخار اور صدر زرداری کے درمیاں جنگ کیوں شروع ہوئی تھی پھر افتخار چوہدری کو کیسے بحال کیا گیا، اس بارے میں بھی کتاب میں لکھا گیا ہے، چوہدری افتخار ایک بہت اونچے گھوڑے پر سوار تھے، منتخب وزیراعظم پر وار ہوا تھا، آج عدلیہ کی صورتحال اس جنگ کا شاخسانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے زرداری کو کہا کہ مشرف کو نہیں چھوڑنا، جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے کس طرح نکالا گیا تھا اس کی بھی ایک کہانی ہے، جنرل مشرف کے خلاف چارج شیٹ بنی پھر جنرل مستعفی ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر امریکی سفیر اس وقت بے چین اور پریشان تھا، امریکی سفیر صدر زرداری سے ملا تھا، وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نا منظور ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی بنانے صدر زرداری نے اہم کردار ادا کیا تھا، صدر زرداری نے بھارت کو ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا کہا تھا، اس کے بعد میں خوفناک نتائج ملے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کتاب میں صدر زرداری کے کئی پہلو ہیں، میرا شمار صدر رداری کے قریبی لوگوں میں نہیں تھا، مجھے ایوان صدر کا ترجمان بنایا گیا میرے لئے حیرت ناک تھا، میرا اندازہ تھا کہ صدر زرداری پانچ سال مکمل نہیں کریں گے، صدر زرداری نے مجھے کئی بار کہا کہ تم بھی مجھے لیڈر نہیں مانتے ہو، آصف زرداری فرشتہ نہیں ہیں، وہ ایک انسان ہیں اور خطاؤں سے مبرا نہیں ہے، صدر زرداری کو نا کردہ گناہوں کی سخت سزا ملی ہے، ناکردہ یا کردہ گناہوں کی سزا صرف سیاست دانوں کو ملتی ہے، دیگر اداروں کے لوگوں کو سزا نہیں ملتی، سیاست دانوں کے ساتھ کچھ لوگوں نے چوہے بلی کا کھیل کھیلا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فرحت اللہ بابر نے کہا انہوں نے کہا کہ کردہ گناہوں کی زرداری کے ساتھ صدر زرداری کے سیاست دانوں زرداری کو ایوان صدر کتاب میں کہا تھا
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔