Express News:
2025-05-29@06:38:11 GMT

سفرِ جنوں (دوسری قسط)

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

اچانک مجھے یاد آیا، ہم دینہ سے پہلے کالا گجراں ریلوے اسٹیشن کی طرف بھی تو گئے تھے۔ ہم جہلم شہر سے نکلے تو سڑک کے بیچوں بیچ کالا گجراں پولیس اسٹیشن کا بورڈ تھا۔ میں نے چوں کہ جی پی ایس سسٹم آن کر رکھا تھا تو جی پی ایس بتانے لگا کہ اب ہمیں جرنیلی سڑک سے بائیں جانب مڑنا ہے۔ اس سفر میں ہمارے پاس دو موٹر سائیکلیں تھیں اور ہم کُل چار لڑکے تھے۔

دوسری بائیک والوں کو حالاں کہ میں نے منع بھی کیا تھا کہ مجھ سے آگے نہیں نکلنا مگر وہ لوگ تیزی سے بہت آگے چلے گئے۔ ہم جب چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن سے نکلے تھے تو اگلی ٹرینوں بارے معلومات لی تھیں۔ چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن سے معلوم ہوا کہ تقریباً 40 سے 45 منٹ کے بعد کالا گجراں ریلوے اسٹیشن پر تیزگام جو کہ راولپنڈی سے لاہور جا رہی تھی اور لاہور سے پنڈی جانے والی نان اسٹاپ ٹرین کا کراس پڑے گا۔ جہلم کے تھوڑا بعد ہی کالا گجراں ریلوے اسٹیشن ہے جہاں اب ویسے تو ریل نہیں رکتی مگر اس ریلوے اسٹیشن کو ٹرینوں کی کراسنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جرنیلی سڑک سے جہاں ہمیں مڑنا تھا وہاں کھڑے ہو کر میں نے دوسرے لڑکوں کو کال ملائی اور انہیں اپنی جانب آنے کا کہا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا مگر وہ لوگ اتنا آگے جا چکے تھے کہ واپس مجھ تک نہ پہنچ سکے۔ میں نے اپنے موبائل پر لائیو لوکیشن آن کی اور دوسرے لڑکوں کو بھیج دی کہ وہ مجھے اس لوکیشن سے فالو کرتے ہوئے کالا گجراں ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جائیں۔ ہم کئی گلیوں سے ہوتے ہوئے کالا گجراں ریلوے اسٹیشن کی جانب رواں دواں تھے کہ آگے ایک بند پھاٹک نظر آیا۔ دائیں جانب دور کالا گجراں ریلوے اسٹیشن کا بورڈ نصب تھا اور وہاں ایک ٹرین کھڑی تھی۔ یقینی طور پر یہ ٹرین تیزگام ہی تھی۔

پہلا خیال تو مجھے یہ آیا کہ چوں کہ پھاٹک بند ہے تو تیزگام اس ریلوے اسٹیشن سے بس چلنے والے ہی ہوگی مگر کچھ ہی لمحوں بعد چوآ کڑیالہ ریلوے اسٹیشن کے اسٹیشن ماسٹر کی بات یاد اگئی کہ کالا گجراں ریلوے اسٹیشن پر دونوں ٹرینوں کا کراس ہو گا۔ میں سمجھ گیا کہ تیز گام ابھی کالا گجراں ریلوے اسٹیشن پر ہی کھڑی رہے گی۔ اسے لاہور سے چلنے والی نان سٹاپ ٹرین کراس کرے گی اور تیزگام اس کے بعد لاہور کی جانب رواں دواں ہوگی کیوں کہ لاہور سے پشاور کے درمیان ابھی تک صرف سنگل ریلوے ٹریک ہے۔

میرے آگے فصیح بائیک چلا رہا تھا۔ میں نے فصیح کو کہا کہ وہ موٹر سائیکل پٹری پر ڈال دے۔ ہم نے موٹر سائیکل کو مشکل سے اٹھایا اور پٹری کو پار کیا۔ راستہ نہ صرف گندا بلکہ بہت گندا تھا۔ سڑک پر عجیب و غریب سے پتھر تھے بلکہ سڑک تھی ہی نہیں اچانک فصیح نے موٹر سائیکل روک دی اور کہنے لگا کہ اس کی آنکھ میں کچھ پڑگیا ہے۔

میں نے فصیح کو ایک موٹی سی گالی دی اور اسے چلنے کے لیے کہہ دیا۔ فصیح بائیک چلاتا رہا اور کچھ ہی دیر بعد ہم کالا گجراں ریلوے اسٹیشن پر تیزگام کے پاس موجود تھے۔ اسی وقت دور سے ریل کی سیٹی سنائی دی اور ہمیں لاہور سے پنڈی جانے والی نان اسٹاپ ٹرین اپنی جانب آتے ہوئے دکھائی دی۔ کچھ ہی دیر بعد کالا گجراں ریلوے اسٹیشن پر ایک دل فریب منزل دیکھنے کو ملنے والا تھا۔ ہمارے پاس ہی تیزگام کھڑی تھی اور بہت تیزی کے ساتھ لاہور سے پنڈی جانے والی ریل کار گزر گئی کچھ لمحوں بعد تیزگام نے بھی سی ٹی بجائی اور لاہور کی جانب چل پڑی۔ ماجد اور دوسرا لڑکا بھی موٹرسائیکل پر ہمارے پاس پہنچ گئے اور ہم پھر سے جرنیلی سڑک پر واپس آ گئے اور اپنا سفر پھر سے شروع کردیا۔

ہم گلزار کے شہر دینہ سے نکلے سے تو ایک بہت اہم اور حشرات الارض خاص کر سانپوں کے لیے مشہور ترک شدہ ریلوے اسٹیشن رتیال کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا۔ مجھے علم تھا کہ رتیال میرا وقت کھا جاتا اور ڈکار بھی نہ لیتا مگر رتیال بہت ضروری بھی تھا۔ ترک شدہ رتیال ریلوے اسٹیشن ایک ایسا پروجیکٹ تھا جس کے لیے میں دوبارہ بھی سیال کوٹ سے آ سکتا تھا۔ یہ بھاگم بھاگ ہونے والا کام نہیں تھا۔ سنا تھا کہ جہاں تک موٹرسائیکل جاتی ہے وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر کا ٹریک کر کے ایک پہاڑی پر جانا پڑے گا۔ مزید یہ بھی کہ یہاں احتیاط بہت ضروری تھی۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا تھا۔ اس لیے رتیال کو اگلی بار کے لیے چھوڑا اور جرنیلی سڑک پر سفر جاری رکھا۔ جلد ہی بائیں جانب وہ اٹھتی ہوئی سڑک گزری جو ڈومیلی ریلوے اسٹیشن کو جاتی تھی۔

میں ڈومیلی ریلوے اسٹیشن پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ اس لیے بھاری دل کے ساتھ سفر کو ایک بار شیرشاہ سوری کی مرمت کردہ جرنیلی سڑک پر جاری رکھا۔ بلاشبہ ہمارے پوٹھوہار کے ریلوے اسٹیشن ایسے خوب صورت اور پُر کشش ہیں کہ انھیں بار بار دیکھا جا سکتا ہے، ان کی جناب سفر کئی بار کیا جا سکتا ہے مگر دور سے آنے کی وجہ سے وقت کی کمی آڑے آتی ہے۔ ڈومیلی گزرا اور پھر وہ سیلابی پانی کی گزر گاہ بھی آئی جہاں میں ریل کو گزرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا مگر چند لمحوں کی دیری سے نہ دیکھ پایا۔ یقیناً چند لمحے پہلے ہی عوام ایکسپریس یہاں سے گزری ہو گی۔

اب یہاں میں ایک بات بھول گیا کہ یہ پوٹھوہاری علاقہ ہے اور یہاں تقریباً ساری ریلوے لائن سانپ کی طرح بَل کھاتے ہوئے گزرتی ہے۔ سیدھی نہیں ہوتی، اس لیے ریل کی رفتار بھی کم ہوتی ہے۔ میں تو سیدھا سیدھا بائیک پر تیزی سے چل کر یہاں آیا تھا۔ میں جوں ہی اس سیلابی گزرگاہ پر بنے پُل کو پار کر کے آگے آیا تو ریل کی سیٹی میرے کانوں میں گونجی اور چند سیکنڈ کے بعد میرے پیچھے سے عوام ایکسپریس برآمد ہوگئی۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ پہلے میری ذہن میں یہ بات کیوں نہ آئی کہ اس علاقے میں ریل کی رفتار کم ہوتی ہے۔ اگر میں زیادہ سے زیادہ تیس سیکنڈ اس پُل پر انتظار کرتا تو عوام ایکسپریس مجھے اسی پُل سے گزرتے ہوئے مل سکتی تھی مگر یہ موقع ضائع ہو چکا تھا۔ ابھی چند دن پہلے ہی محترم قیوم صاحب کی بھیج ہوئی تصاویر موصول ہوئیں۔ تصاویر دیکھیں تو وہ اسی پُل کی تھیں، جہاں سے میں ریل کو گزرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔

ہماری اگلی منزل بکڑالہ ریلوے تھی اور مصیبت یہ تھی کہ بکڑالہ ریلوے اسٹیشن کی لوکیشن گوگل میپ پر موجود نہ تھی۔ پہلا خیال تو ذہن میں یہی آیا کہ بکڑالہ قصبے میں ہی بکڑالہ ریلوے اسٹیشن ہو گا۔ گوگل میپ بکڑالہ قصبے کی لوکیشن تو دے رہا تھا مگر بکڑالہ ریلوے اسٹیشن کی لوکیشن مانگنے پر منہ میں گھنگھریاں ڈال کر بیٹھ گیا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ پچھلی بار جیسے میں ڈومیلی جاتے ہوئے بھٹکا تھا، بالکل ایسے ہی میں نے بکڑالہ جانے ہوئے بھٹک رہا تھا۔ میرے بائیں ہاتھ میرے ساتھ ساتھ ریلوے لائن چل رہی تھی اور بکڑالہ جانے کے لیے گوگل میپ کے مطابق مجھے اب دائیں ہاتھ مڑنا تھا۔ اگرچہ کہ عقل اس بار کو تسلیم نہ کر رہی تھی مگر میں چوں کہ خطرناک حد تک کافروں کی بنائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتا ہوں، اس لیے میں اپنی عقل اور ریلوے لائن دونوں کو ایک طرف کرتے ہوئے جرنیلی سڑک کے دائیں ہاتھ مڑ کر چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے لگے۔

بہزاد لکھنوی نے تو نہ جانے کس موڈ میں کہا تھا کہ اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے مگر میں حقیقی طور پر بھٹک گیا جب منزل میرے بالکل قریب بلکہ سامنے تھی۔ گوگل میپ کے مطابق ہم جرنیلی سڑک کے دائیں ہاتھ رفتہ رفتہ اونچائی چڑھتے ہوئے بکڑالہ قصبے میں پہنچ چکے تھے اور یہاں ایک بڑے سے بورڈ پر بکڑالہ لکھا بھی ہوا تھا مگر بکڑالہ ریلوے اسٹیشن کا یہاں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ کسی ایک دو راہ گزرتے شخص سے پوچھا بھی بکڑالہ ریلوے اسٹیشن ہمیں کہاں ملے گا تو سب نے نفی میں سر ہلایا۔ میرا خدشہ سچ ثابت ہوا تھا۔ جیسے ڈومیلی کہیں اور تھا اور اس کا ریلوے اسٹیشن کہیں اور بالکل اسی طرح بکڑالہ کہیں اور تھا اور بکڑالہ ریلوے اسٹیشن کہیں اور ہم جی ٹی روڈ پر واپس آن ٹپکے۔ فیصلہ ہوا کہ کسی بڑی عمر کے شخص سے پوچھا جائے کہ بکڑالہ ریلوے اسٹیشن کدھر ہے۔ میری عمر کے لوگ تو بکڑالہ ریلوے اسٹیشن سے مکمل ناواقف تھے۔

آخر کار ایک بڑے بزرگ نے دور کہیں سفید رنگ کے کھوکھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کھوکھے کے ساتھ ایک پکی سڑک نیچے اترے گی، وہ سڑک نیچے اتر جائیں اور جہاں جہاں سڑک جائے، اسی کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو آپ کو بکڑالہ ریلوے اسٹیشن مل جائے گا۔ اب کھوکھا کوئی ایسا لفظ تو ہے نہیں جس کے مطلب سے آپ لوگ ناواقف ہوں۔ ویسے بھی ہمارے گلی محلوں میں ہر دوسری گلی کی نُکڑ پر آپ کو پان سگریٹ کا کھوکھا ضرور ملے گا۔ ہم پھر اسی جگہ پر آ گئے جہاں سے بھٹکے تھے اور جرنیلی سڑک سے ایک بار پھر نیچے اتر گئے مگر اب کی بار ہمیں دائیں جانب اترنا تھا۔ ہم چلتے جاتے تھے کہ ایک دم سے ہمیں سفید چونے کی ایک عمارت نے روک لیا۔ یہی بکڑالہ ریلوے اسٹیشن تھا۔ ترکی ریلوے اسٹیشن جہاں پاکستان ریلوے کی تاریخ کا سب سے لمبا موڑ جو ترکی موڑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

میں بکڑالہ ریلوے اسٹیشن پر تھا اور دور سے بل کھاتی ہوئی جعفر ایکسپریس کو دیکھ رہا تھا۔ میرے دائیں جانب شہرِدل رُبا راول پنڈی کی جانب ایک بلند سبز پہاڑ تھا جس کی بھول بھلیوں میں جعفر ایکسپریس گھوم رہی تھی۔ میرے سامنے جعفر ایکسپریس نیچے سے اوپر کی جانب بڑھتی چلی گئی اور پھر کہیں کھو سی گئی۔ کچھ ہی لمحوں میں جعفر ایکسپریس پھر سے نمودار ہوئی۔ اب یہ اوپر سے نیچے آ رہی ہے۔ یہ اچانک پھر غائب ہو گئی مگر میں چوں کہ عین ریل کی پٹری پر کھڑا تھا اس لیے جعفر ایکسپریس کی دھمک کو محسوس کر سکتا تھا۔ یہی جعفر ایکسپریس جب بولان کی پہاڑیوں پر چلتی ہے تو دور و قریب کے سب دشمنوں کے سینے میں بہت درد اٹھتا ہے۔ خدا میری جعفر ایکسپریس کو سلامت رکھے، میری بولان کی پہاڑیوں کو سلامت رکھے۔ جعفر ایکسپریس پھر سے میرے سامنے آ گئی۔

اب یہ واضح طور پر میری جانب بالکل سیدھی آ رہی تھی۔ میں اپنی جعفر ایکسپریس کے سامنے لُڈی ڈالنے لگا۔ اسے بکڑالہ ریلوے اسٹیشن پر خوش آمدید کہا اور خدا کی امان میں دے کر بلوچستان کی طرف روانہ کر دیا۔ جعفر ایکسپریس تو گزر گئی مگر میرا دل سامنے پہاڑ کی بھول بھلیوں میں کھو سا گیا۔ نہ جانے یہ کیسا پہاڑ تھا، یہ کیسی بھول بھلیاں تھیں۔ میرا جی چاہا کہ اسی پہاڑ کی بھول بھلیوں میں چلا جاؤں مگر سڑک بالکل الگ تھی اور پہاڑ کے گرد چکر لگاتی یہ ریل بالکل الگ۔ اگرچہ کہ میرا دل اسی پہاڑ کی بھول بھلیوں میں اٹک گیا تھا مگر میرا سفر ابھی طویل تھا۔ میں نے اس پہاڑ سے منہ موڑا اور اسٹیشن ماسٹر کی طرف آ گیا۔ مجھے بکڑالہ ریلوے اسٹیشن سے ترکی ریلوے اسٹیشن جانا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر سے استفسار کیا کہ ترکی ریلوے اسٹیشن کہاں ہے۔

اسٹیشن ماسٹر نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اسی پہاڑ کی جانب کرتے ہوئے کہا، سامنے والے پہاڑ کی بھول بھلیوں میں۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسٹیشن ماسٹر بتانے لگا کہ یہاں سے جب ہم جرنیلی سڑک پر پہنچیں گے تو زیادہ سے زیادہ پانچ سیکنڈ کے بعد ہی سڑک پھر سے نیچے بائیں جانب اترے گی۔ سڑک کے کونے پر بوہڑ کا ایک پرانا سا درخت ہو گا۔ اسی سڑک سے نیچے اتر جائیں اور جہاں جہاں سڑک جائے بس چلتے جائیں۔ راستے میں ایک چوکی بھی پڑے گی۔ اگر وہ روکیں تو رک کر اپنا تعارف کروائیں اور پھر آگے چلتے بنیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ پہلے جرنیلی سڑک پر آئے اور پھر بوہڑ کے درخت کے ساتھ بائیں جانب نیچے کو اتر گئے۔ سڑک بل کھانے لگی اور نہ جانے کہاں کہاں جانے لگی۔ اچانک سامنے ’’ممنوع راستہ‘‘ کا بورڈ آ گیا اور سڑک دائیں جانب مڑ گئی۔ ہم بھی دائیں جانب مڑ گئے۔ بائیں جانب مزید ایک چوکی آئی۔

چار سنتری ہمیں گھورتے رہے مگر ہم نے ان کی جانب دیکھنے سے گریز کیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ کچھ مزید آگے جا کر دائیں جانب ایک سفید سی عمارت آئی جس پر ترکی لکھا تھا۔ مجھے محترم ریاض انجم صاحب کی بدولت ہی معلوم پڑا کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے سینے پر بھی ترکی کا ریلوے اسٹیشن چھریاں چلا چکا ہے اور تارڑ صاحب ماضی بعید میں اس ریلوے اسٹیشن کا ذکر اپنے کسی کالم میں بھی کر چکے ہیں جب وہ پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد سنٹر میں کام کرتے تھے اور ہر ہفتے چھٹی پر لاہور آتے تھے۔ محترم ریاض انجم صاحب نے تارڑ صاحب کے اس کالم کا ابتدائی حصہ خود اپنے قلم سے لکھ کر سنبھال رکھا تھا۔ تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ جہلم اور گوجر خان کے درمیان ترکی کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ ترکی کہیں نہیں صرف اس کا اسٹیشن ہے۔ اگر آپ لاہور سے بذریعہ ٹرین جا رہے ہوں تو ترکی سے تین چار کلومیٹر ادھر ٹرین سیدھی چلتی چلتی یک دم کمر میں بل ڈال کر رینگنے لگتی ہے۔ پہاڑی علاقے میں یہ لوپ بڑا حیرت انگیز ہے۔ آپ ٹرین کی پچھلے ڈبے میں ہیں تو اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے آپ انجن کو مڑتا ہوا دیکھتے ہیں۔ تین چار کلومیٹر کے اس علاقے میں ٹرین جیسے گم ہو جاتی ہے اور راستہ تلاش کرتی ہے۔

کبھی ادھر آتی ہے اور کبھی اُدھر کو نکل جاتی ہے۔ راول پنڈی جاتے یا لاہور آتے ہوئے کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی کراس کی وجہ سے ٹرین ترکی کے ویران اسٹیشن پر کھڑی ہو گئی۔ سردیوں میں اس کی دھوپ بہت خوش گوار اور حدت دینے والی ہوتی ہے لیکن گرمیوں میں یہ علاقہ تنور بنا ہوتا ہے۔ ترکی کے اسٹیشن پر جھکی ہوئی ایک بڑی چٹیل چٹان میں ایک عمارت ہے۔ جب میں راولپنڈی جاتا تو اس عمارت کو شوق سے دیکھتا بلکہ انتظار کرتا کہ ترکی کے لوپ پر گول ہوتی ریل گاڑی اب اس چٹان کے قریب سے گزرے گی۔ اس پر میرا خیال تھا کہ ایک قدیم مسجد یا کوئی معبد ایستادہ ہے جو دور سے ایک مندر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

بہت ساری چھوٹی خواہشوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں کبھی اس چٹان پر چڑھ کر اس مندر کو جا کر دیکھوں کہ یہ ہے کیا اور کیا یہ آباد ہے یا ویران ہے۔ جب کبھی کراس کی وجہ سے ٹرین رکتی تو میں پلیٹ فارم پر اتر کر چٹان کے اوپر کھڑے ہوئے اس مندر کو دیکھتا۔ کئی بار جی چاہا کہ ذرا شتابی سے اسے دیکھ آؤں بلکہ ایک مرتبہ میں نے انجن ڈرائیور سے بات کی کہ بھائی جان اگر آپ واقعی یہاں نصف گھنٹہ انتظار کریں گے میری وجہ سے نہیں بلکہ دوسری جانب سے آنے والی ٹرین کے لیے تو میں ذرا بھاگ کر اس قدیم عمارت کو دیکھ آؤں۔ انجن ڈرائیور کہنے لگا جناب بات یہ ہے کہ آپ آدھ گھنٹے میں وہاں جا کر واپس نہیں آ سکتے اور ہم آپ کا انتظار نہیں کر سکتے تو وعدہ نہیں کر سکتا۔ چناںچہ میں نے یہ خطرہ مول لینا مناسب نہ جانا کہ صرف ایک قدیم عمارت کے لیے ترکی ایسی دور افتادہ اور ویران جگہ پر خود بھی ویران ہوجاؤں۔۔۔ نوے کی دہائی کا ترکی ریلوے اسٹیشن کا احوال تو آپ نے تارڑ صاحب کی زبانی معلوم کر ہی لیا۔ اب ذرا محترم ریاض انجم صاحب کے ترکی ریلوے اسٹیشن پر جانے کا دل چسپ احوال بھی پڑھیں جب وہ اپنے دوستوں کے ہم راہ غالباً 2002 میں اس طرف گئے تھے۔

منگلہ کینٹ سے باہر آ کر میرپور دینہ روڈ سے جرنیلی سڑک پر آتے ہی کھلی دو رویہ سڑک اور ہمارا رخ شمال مغرب کو راولپنڈی اور گوجر خان کی جانب کیوںکہ اب پشاور سے واپسی ہو رہی ہے۔ دور تک جاتی فراح جی ٹی روڈ پر راز محمد نے خاصی تیزرفتار سے گاڑی چلائی اور راولپنڈی کی جانب فاصلہ کم ہوتا رہا۔ دینہ سے کم و بیش پندرہ یا بیس منٹ کے لگ بھگ چلیں ہوں گے کہ بائیں ہاتھ ایک سائن بورڈ پر لکھا نظر آیا، ترکی اور تیر کا نشان بھی بائیں جانب اشارہ کر رہا تھا۔ سائن بورڈ دیکھتے ہی مجھے فوراً ایک پرانی تحریر یا آگئی جو آج سے کم و بیش دس یا پندرہ سال بیشتر میں نے ایک سنڈے میگزین شاید روزنامہ مشرق میں پڑھی تھی۔

اس تحریر میں بھی ملک ترکی نہیں بلکہ اسی ترکی قصبے کا ذکر تھا جو جہلم سے راولپنڈی جاتے ہوئے دینہ اور گوجر خان کے بیچ میں پڑتا ہے اور اب جس کے قریب سے ہم گزر رہے ہیں، کاروان سرائے کے عنوان سے یہ مضمون مشہور کالم نگار اور سیاح مستنصر حسین تارڑ کا تحریر کردہ تھا جسے پڑھ کر اس مقام ترکی کے بارے میں مجھے نہ صرف علم ہوا بلکہ اس قدیم ترکی مندر کو بھی کبھی نہ کبھی دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی رہی۔ آج حسن اتفاق سے جب کہ ہم اسی راستے سے گزر رہے ہیں اور سائن بورڈ کا تیر ترکی جانے والی سمت بتا رہا ہے تو کیوں نہ ترکی اور اس کا مندر دیکھا جائے۔

ایسے مواقع روز تو نہیں آتے۔ میں نے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کے لیے کہا اور تحریر کے بارے میں ساتھیوں کو بتانے لگا۔ چناںچہ خالد خان اور باقی دوستوں نے بھی اس مقام کو دیکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔ راز محمد گاڑی پیچھے کرکے بورڈ کے قریب لایا اور ہم نے وہاں موجود کسی صاحب سے ترکی ریلوے اسٹیشن بارے پوچھ بھی لیا تو بتایا گیا کہ جی ہاں اِدھر ریل اسٹیشن تو ہے لیکن قریب نہیں بلکہ دو اڑھائی کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ بہرحال کوئی بات نہیں آج تو ہمارے پاس وقت بھی ہے اور گاڑی بھی جس کے لیے یہ فاصلہ زیادہ نہیں۔ خشک نشیبی نالوں میں اترتی، پھر سطح مرتفع قسم کے بلند ٹیلوں پر چڑھتی زِگ زیگ نیم پختہ راستے پر گاڑی آگے بڑھتی رہی۔ سارا راستہ بندہ نہ بندے دی ذات۔ غیردل کش قسم کا نیم بنجر ویران راستہ اونچی نیچی گھاٹیاں مگر ریلوے اسٹیشن کا کوئی نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ ترکی ریلوے اسٹیشن سطح مرتفع طرز کا میدانی علاقہ ہے۔

پہاڑی دیوار کے دامن میں غازی ناڑا کا مزار اور میاں صاحب کی خاندانی رہائش گاہ ہے۔ پہاڑی وادی میں ریل گاڑی کے غائب اور حاضر ہونے کی کیفیت بھی۔ آپ ماحول کے جغرافیے کو دیکھیں تو ایک تو ترکی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بچھی پٹریاں ہیں جو مزید جنوب میں جا کر دائیں طرف مڑتی دکھائی دیتی ہیں اور ریل گاڑی اسی یو (U) موڑ پر ایک لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ اسی لائن پر آجاتی ہے جو غازی ناڑا والی چٹان کے قریب بلکہ نیچے معلوم ہوتی ہے اور جس کے مندر کی عمارت چھائی نظر آتی ہے۔ مزار کی عمارت کے عین نیچے آپ کو ایک اچھا سا دو کھڑکیوں والا کمرہ بالکل واضح نظر آتا ہے۔ وہ دوسری ریلوے لائن اس کے قریب سے گزر رہی ہے مگر یہاں سے دکھائی اس لیے نہیں دے سکتی، کیوںکہ کسی قدر نشیب میں جھاڑیوں کے اندر چھپ چکی ہے۔

ہاں اگر کوئی شخص ریل گاڑی میں سوار اپنی سیٹ پر بیٹھا ہو تو بلند ہو جانے کی وجہ سے دکھائی دیتی ہوگی اور اسی کے اوپر ابھری چٹان پر واقع وہ مندر یا مزار بھی واضح نظر آئے گا۔ ریل گاڑی کے چکر اور بھول بلیوں والے لوپ تو اس کا سبب یہاں کا پہاڑی محل وقوع اور اس کے تنگ موڑ ہیں جس کے باعث ریل گاڑی اچانک مڑ نہیں سکتی بلکہ ٹیکنیکل طریقے کار اپنا کر اسے دور جا کر موڑ کاٹنا اور پھر واپس آنا پڑتا ہے۔ ہم جیسے سفرپسند مسافروں کے لیے یہ چکر اور غائب و حاضر ہونے کا عمل واقعی ایک دل چسپ کھیل کی مانند دکھائی دیتا ہے ورنہ ریل گاڑی کے عام مسافروں کو اس بات سے کیا غرض کہ ٹرین پہاڑی موڑ میں کہاں غائب ہورہی ہے اور پھر کدھر سے نمودار ہو رہی ہے۔ باریک بینی سے اس قسم کی کیفیت صرف وہی مسافر بیان کر سکتے ہیں جو ہماری طرح ارد گرد کے نظاروں اور جغرافیائی محلے وقوع میں دل چسپی رکھنے کے شوق میں مبتلا ہوں۔

میں آپ کو ترکی ریلوے اسٹیشن کے بارے میں چند معلومات دیتا چلوں کہ یہ خوب صورت علاقے میں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حساس علاقے میں واقع ریلوے اسٹیشن ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر جاتے ہوئے جب آپ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو آپ کو حساسیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہاں جاتے وقت اپنا شناختی کارڈ ضرور پاس رکھیں۔ عین ممکن ہے کہ سنتری آپ کو روک کر آپ کی شناخت طلب کریں۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت سے تقریباً ایک کلو میٹر پہلے پاک فوج کا سپلائی ڈپو ہے۔ قریب ہی آپ کو پہاڑی پر ایک مندرنما جو عمارت نظر آتی ہے، وہ مندر نہیں بلکہ غازی ناڑا ہے جہاں ایک چشمہ ہے اور صدیوں سے ہے اور چند قبریں۔ غازی ناڑا میاں صاحب نامی ایک شخص سے منسوب ہے جو علاقے کے ایک شریف اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل انسان تھے۔

یہ غازی ناڑا ایک درگاہ ہے اور اس درگاہ کے ساتھ ہی میاں صاحب کے خاندان کی قبریں ہیں۔ تو واضع رہے کہ ترکی کی پہاڑیوں میں بلندی پر آپ کو جو پرانی عمارت نظر آتی ہے، وہ کوئی مندر نہیں بلکہ ماضی کی ایک درس گاہ ہے جہاں صدیوں سے گندھک کا ایک چشمہ بہہ رہا ہے۔ کہتے ہیں جب منگلا ڈیم بن رہا تھا تو ترکی کی پہاڑیوں میں سے پتھر نکال کر وہاں لے جایا جاتا تھا۔ منگلہ ڈیم بنتے وقت یہاں ایک بستی آباد ہوگئی تھی مگر ڈیم مکمل ہوتے ہی یہ بستی بھی ختم ہوگئی۔ ترکی ریلوے اسٹیشن سے نکلے تو ہماری اگلی منزل سوہاوہ ریلوے اسٹیشن تھا۔ دھوپ اچھی خاصی تیز ہوچکی تھی اور لڑکوں کو پیاس لگی تھی۔

میرا اپنا حلق تقریباً خشک ہوچکا تھا۔ پانی پینے کے لیے ایک چھوٹی سی بریک رکھی گئی جو کہ کچھ زیادہ ہی لمبی ہوگئی۔ تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر ہی نیند کا ہلکا پھلکا غلبہ طاری ہونے لگا تھا۔ میں نے زبردستی سب کو اٹھایا اور سوہاوہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ ریل کی پٹری اب ہمارے دائیں جانب مڑ چکی تھی۔ خوش قسمتی سے گوگل میپ سوہاوہ ریلوے اسٹیشن کی لوکیشن دے رہا تھا۔ ہم بھی گوگل میپ کے مطابق جرنیلی سڑک کے دائیں جانب مڑ گئے اور کچھ ہی دیر میں سوہاوہ ریلوے اسٹیشن آ گیا۔ سوہاوہ ریلوے اسٹیشن اپنے خوب صورت موڑ کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔

یہاں ریل پلیٹ فارم میں داخل ہونے سے پہلے ایک انتہائی خوب صورت موڑ لیتی ہے۔ میری پوری کوشش تھی اور دعا تھی کہ ہم یہاں اس ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کو وہ موڑ مڑتا ہوا دیکھیں مگر یہاں بھی ہمارے ساتھ چوآ کڑیالہ والا حال ہی ہوا بلکہ اس سے بری ہوئی۔ چوآ کڑیالہ میں تو پھر بھی ہمیں کیمرا نکالنے کا وقت مل گیا تھا مگر جب میں سوہاوہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر داخل ہوا تو ٹرین آدھی گزر چکی تھی اور باقی آدھی ٹرین کو میں حسرت سے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اگلی ریل بارے معلومات لیں تو پتا چلا کہ کم از کم دو گھنٹے بعد رحمان بابا سوہاوہ سے گزرے گی۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ سوہاوہ ریلوے اسٹیشن کے خوب صورت موڑ کو اپنے کیمرے کی زینت بنایا اور شہاب الدین غوری کے مزار کی طرف چل پڑے۔ جرنیلی سڑک پر چکوال موڑ پر جہاں سڑک بائیں جانب چکوال کو مڑتی ہے، وہیں اسی موڑ سے دائیں جانب سڑک اوپر کو اٹھتی ہے اور شہاب الدین غوری کے مزار کی طرف چلی جاتی ہے۔

وہی شہاب الدین غوری جس کے نام پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے اپنے پہلے تقریباً اٹامک میزائل کا نام غوری میزائل رکھا تھا۔ اسی میزائل کے کام یاب تجربے کے بعد دنیا کی ہر بڑی طاقت کے کان کھڑے ہوگئے تھے اور ہم ایک ہی زبان پر بس ایک ہی بات تھی کہ یہ میزائل تجربہ اٹامک پاور کے بنا نہیں ہوسکتا۔ آج میزائل ٹیکنالوجی میں ہم جو کچھ بھی ہیں، اس کا سب سے پہلا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے سَر ہی ہے۔ اگر آپ کچھ غوروفکر اور مطالعہ کریں تو جانیں گے کہ ہم نے مذہبی و سیاسی طور پر بہت سے کام فقط ایک دوسرے کی مخالفت میں کر رکھے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ اگر بھارت ایٹمی پروگرام شروع نہ کرتا تو پاکستان بھی یہ پروگرام شروع نہ کرتا۔ جب بھارت یہ پروگرام شروع کرچکا تو ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا کہ ہم بھی اپنا اٹامک پروگرام نہ صرف شروع کریں بلکہ اس میں دن دگنی رات چگنی ترقی بھی کریں۔ بھارت نے اگر پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو اسی وقت پاکستان نے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دھماکے کئے۔ بھارت نے جب اپنے پرتھوی میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تو اسی وقت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے بھی ایک میزائل کا شان دار تجربہ کیا۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان نے یہ میزائل پہلے سے تیار کر رکھا تھا، انتظار صرف اور صرف بھارت کی جانب سے پہل کا تھا۔ یہاں بھارت نے اپنے پرتھوی میزائل کا کام یاب تجربہ کیا، جسے ہندوستان کے ایک عظیم جنگجو پرتھوی راج چوہان کا نام دیا گیا تھا۔

پاکستان نے بھی اسی وقت بھارت کو ٹکر کا جواب دیا۔ نہ صرف پرتھوی میزائل کے مقابلے پر ایک میزائل داغ ڈالا بلکہ اس کا نام بھی غوری میزائل رکھا کیوں کہ شہاب الدین غوری وہ افغانی جنگجو تھا جس نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دی تھی۔ اپنے میزائل کا نام غوری میزائل رکھ کر ہم نے ایک ہی تیر سے دو شکار کیے۔ تو ہم ہندوستان کے ایک بڑے جنگجو سلطان شہاب الدین غوری کے مزار پر کھڑے تھے جن سے ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کو بڑی عقیدت تھی اور ہمیں بطورِ پاکستانی ڈاکٹر عبد القدیر خان سے بڑی عقیدت ہے۔ عقیدت کیوں کر نہ ہو، حالیہ پاک بھارت کشیدگی کو ہی دیکھ لیں۔ چند دن پہلے خبریں تھیں کہ یہ رات پاکستانیوں پر خاص کر ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر رہنے والوں کے لیے بہت بھاری ہے۔

میں اور میرے دوست عمر طفیل نے پروگرام بنایا کہ آج کی رات بار بی کیو کی دعوت اڑائی جائے گی۔ نہ صرف ہم دونوں بلکہ بہت سے سیالکوٹی اس ہلکی گرم رات کے مزے لینے کے لیے سیال کوٹ کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے اور کسی کو ذرا بھی پروا نہیں تھی کہ ورکنگ باؤنڈری پر بہت قریب ہونے کی وجہ سے ہم پر حملہ بھی ہو سکتا ہے، وجہ صرف اور صرف ہمارا ایٹمی پروگرام تھا اور پھر پیشہ ور فضائی افواج۔ اگرچہ کہ میں اپنے ’’بڑے ابو‘‘ کے خواہ مخواہ سیاست میں مداخلت کا سخت ناقد ہوں مگر جو بات سچ ہے، وہ سچ ہے۔ اس رات جب میں اور عمر طفیل جنگ کی باتوں کو ہوا میں اڑا کر کبابوں کے مزے لے رہے تھے اور اس ریسٹورنٹ کے کبابیے کے قصیدے پڑھ رہے تھے کہ یہ ظالم کبابیہ کس قدر لذیذ کباب بناتا ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف ضرورت سے کچھ زیادہ ہی پیشہ ور ہماری افواج ہی تھیں۔

سلطان شہاب الدین غوری جس کا اصل نام محمد تھا، نے 1169 میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر غزنی میں اپنی پہلی باقاعدہ حکومت قائم کی۔ شہاب الدین غوری چوں کہ چھوٹا تھا، اس لیے غزنی حکومت کا نائب مقرر ہوا۔ سلطان کی نظر ہر افغانی کی طرح سونے کی چڑیا ہندوستان پر تھی، اس لئے سلطان کے پیٹ میں ہر وقت اس علاقے کے لوگوں کی آخرت بارے درد ہوتا رہتا تھا کہ اگر ہندوستان کے لوگ اسی گمراہ کن عقائد کے ساتھ مر گئے تو کل قیامت کے روز سلطان شہاب الدین غوری اپنے خدا کو کیا منہ دکھائے گا۔ اسی لیے 1175 میں سلطان نے ملتان اور اوچ شریف پر حملہ کیا اور گردونواح کے بہت سے علاقوں کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ بعد میں 1179 میں سلطان نے پشاور کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کیا۔

1182 میں سندھ اور 1186 میں لاہور پر کام یاب حملوں کے بعد سلطان شہاب الدین غوری کا مقابلہ ہندوستان کی مٹی کے بیٹے پرتھوی راج چوہان سے ہوا تو پہلی جنگ میں سلطان کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر اگلے ہی سال سلطان ایک بار پھر پرتھوی راج چوہان کے مقابلے پر آیا اور پرتھوی راج چوہان اپنی ہی زمین کی حفاظت کرتے ہوئے اس پر قربان ہوگیا۔

اس زمانے میں روایت بھی یہی تھی کہ جس نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر جو علاقہ فتح کرلیا وہ اس کا۔ ورنہ نہ تو سکندر اعظم کو کوئی شوق تھا کہ وہ اتنی دور ہندوستان میں آ کر زہر کے تیر کھاتا اور نہ ترکوں کو یورپ میں دھکے کھانے کی پڑی تھی۔ اس وقت روایت ہی یہی تھی کہ عقل مند وہی ہے جو دشمن کے حملہ کرنے سے پہلے حملہ کردے۔ کتابیں گواہ ہیں کہ پوٹھوہار کے گگھڑوں نے بھی کسی کی غلامی قبول نہیں کی خواہ وہ شیر شاہ سوری جیسے جرنیل ہی کیوں نہ ہوں۔ گگھڑ لڑے ہیں اور اپنی آخری سانسوں تک لڑے ہیں۔ سلطان شہاب الدین نے جب پوٹھوہار پر حملہ کیا تو ناکام رہا۔ پھر اپنے پیرومرشد خواجہ معین الدین چشتی کی دعاؤں سے پوٹھوہار پر حملہ آور ہوا تو کام یابی نے اس کے قدم چومے مگر کسی غدار نے عین نماز کی حالت میں سلطان پر خنجر سے حملہ کیا اور سلطان شہاب الدین غزنی سے ہندوستان کے لوگوں کی آخرت کو سنوارنے کا جو مشن کے کر آیا تھا، وہ سینے میں دبائے اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گیا مگر کہتے ہیں کہ ہندوستان کے تقریباً دو لاکھ ہندو شہاب الدین غوری کی وجہ سے مسلمان ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ میرے اور آپ کے ہندو پرکھوں کے مسلمان ہونے کی وجہ بھی یہی سلطان شہاب الدین غوری ہی ہو۔ سلطان شہاب الدین غوری کے کچھ غلاموں نے بھی بہت نام پایا جن میں سے سے بڑا نام سلطان التمش بھی تھا۔ وہی سلطان التمش جو حضرت بختیار کاکی کا مرید تھا۔ ’’روایت ہے‘‘ کہ جب بختیار کاکی کا انتقال ہوا تو انھوں نے وصیت کی کہ میرا جنازہ صرف وہ شخص پڑھائے جس نے اپنی پوری زندگی کبھی غیرموکدہ سنتوں کو بھی نہ چھوڑا ہو۔ ایسے میں جب کوئی شخص بھی سامنے نہ آیا تو سلطان التمش صفوں سے باہر نکلے اور بختار کاکی کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ کہنے لگے کہ بختیار کاکی خود تو دنیا سے رخصت ہوگئے مگر میرا پردہ فاش کر گئے۔

بھارت کی طرف سے ہر جارحانہ اقدام پر جیسے ہمیں اطمینان ہوتا ہے کہ ہماری افواج بھارت سے نمٹ لیں گی۔ ہمیں ذہنی سکون ہوتا ہے کہ ہماری حفاظت کرنے والے ابھی زندہ ہیں۔ اے کاش کہ زندگی کے باقی ہر شعبے میں بھی ایسا ہی ہوتا۔ ابھی چند دن پہلے ہی بھارت کی جانب سے بھارت میں مقیم تمام پاکستانیوں کو نوٹس دیا گیا کہ وہ دو دنوں میں بھارت کو چھوڑ دیں۔ ایسے میں بہت سے مریض جو بھارت میں زیرِعلاج تھے، وہ سخت پریشان ہوئے اور اپنا علاج ادھورا چھوڑ کر انھیں پاکستان آنا پڑے گا۔ بارہ سالہ بچے کا باپ جو پاک بھارت سرحد پر پریشان کھڑا تھا کہ اس کے بیٹے کا اب دل کا آپریشن نہیں ہوسکے گا، کاش کہ وہ باپ بھی ایسے ہی مطمئن ہوتا کہ اگر بھارت کے ڈاکٹر اس کے بیٹے کا علاج نہیں کر سکے تو اپنے وطن کے ڈاکٹر اس کا کام یاب علاج کرلیں گے مگر افسوس کہ ہم میزائل ٹیکنالوجی کے علاوہ شاید ہر دوسری سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھارت سے بہت پیچھے ہیں۔

نہ صرف پیچھے ہیں بلکہ شاید ریس سے ہی باہر ہوچکے ہیں۔ خدا ہمیں بھی علم کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین سر جلال خان اگر آپ نے سوہاوہ ریلوے اسٹیشن دیکھا ہو تو آپ اس بات سے انکار کر ہی نہیں سکتے کہ سوہاوہ پاکستان کے خوب صورت ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے اور اس کے خوب صورت ہونے کی واحد وجہ اس کے پلیٹ فارم کے ساتھ ہی بنا انتہائی گولائی کا ریلوے ٹریک ہے۔ ریل جب راول پنڈی کی طرف سے سوہاوہ کی طرف آتی ہے تو ایک خوب صورت چکر لے کر اس کے پلیٹ فارم میں داخل ہوتی ہے۔ اسی طرح پلیٹ فارم سے نکلتے ہی یہ پھر ایک موڑ مڑتے ہی پلیٹ فارم سے باہر نکل جاتی ہے۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ سوہاوہ کے ریلوے اسٹیشن میں ایک کج رائی سی ہے۔ سوہاوہ کا ریلوے اسٹیشن تو جرنیلی سڑک سے دائیں جانب تھوڑا ہٹ کر ہے۔ اگر آپ جرنیلی سڑک پر ہی سیدھا چلتے جائیں تو تھوڑا سا آگے ہی بائیں جانب سڑک چکوال کو مڑ جاتی ہے جب کہ دائیں جانب اوپر کی طرف ایک سڑک اٹھتی ہے جو آپ کو سلطان شہاب الدین غوری کے مزار کی طرف لے جائے گی۔

یہ سڑک بنیادی طور پر ایک چھوٹے سے قصبے ’’کرونٹہ‘‘ کی طرف جاتی ہے جہاں ’’شاہی فرود گاہ یا فردو خانہ‘‘ سیاحوں کا منتظر ہے۔ مقامی طور پر اسے ’’سر جلال خان‘‘ کہا جاتا ہے۔ جلال خان یہاں کا حکم راں تھا جس نے یہ تالاب بنوایا تھا۔ سَر کا مطلب پانی یا تالاب ہے۔ فردو فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ ٹھہرنے کی جگہ کے ہیں۔ یعنی یہ جگہ ایک سرائے تھی۔ آج سے پانچ چھے سو سال پہلے جب اس سرائے کو تعمیر کیا گیا تھا تو دہلی سے کابل تک کی سڑک یہیں قریب سے گزرتی تھی۔ بادشاہ اور مسافر لوگ یہیں پر قیام کرتے تھے اور رومانی ماحول سے اپنے سفر کی تھکان کو اتارتے تھے۔ فرود خانے میں درخت آج بھی اسی دور کے لگے ہوئے ہیں جب اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ وہاں لگے ایک بورڈ کے مطابق سولہویں صدی کے بالکل آخر میں اس فرود خانے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ سرائے قلعہ نما تو تھی مگر قلعہ بند نہیں تھی۔ یہ علاقہ ہمیشہ ہی سے گھگڑوں کا علاقہ رہا ہے.

جنھوں نے شیر شاہ سوری کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ اس فرود خانے کی اب صرف ایک دیوار ہی بچی ہے۔ بقیہ عمارت وقت کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ علاقے کی خوب صورتی بارشوں کے موسم میں یا کنول کے پھولوں کے وقت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ پہلے یہ تالاب تقریباً 29 کنال کے پھیلا ہوا تھا جو اب 16 کنال رہ گیا ہے۔ بارشوں کے موسم میں تازہ پانی جمع ہونے کی وجہ سے تالاب پُرکشش شکل اختیار کرلیتا ہے جب کہ کنول کے موسم میں تالاب کی اوپر والی سطح مکمل طور پر کنول کے پھولوں سے بھر جاتی ہے۔ فرود خانے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی تاریخی مسجد ہے جس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی فرود خانے کی خود۔ مسجد جنجوعہ خاندان کی کسی رانی کی تعمیرکردہ ہے۔

اگر آپ فرود خانے کی طرف سے مسجد کو دیکھیں گے تو یہ آپ کو نئی مسجد ہی معلوم پڑے گی کیوں کہ مسجد کے صحن میں آپ جدید پتھر لگا دیا گیا ہے مگر مسجد کو پچھلی طرف سے دیکھنے پر آپ خود اس کے تاریخی ہونے کی گواہی دیں گے۔ مسجد کی پچھلی جانب جوں کی توں محفوظ ہے میں آنے والے چھوٹے موٹے سیاحوں نے یہاں درودیوار پر اپنی نشانیاں ضرور چھوڑی ہیں۔ مسجد کے متوازی ہی ایک صوفی بزرگ بابا شاہ جہاں محمد چشتی کا مزار ہے جنھوں نے اشاعت اسلام کے لیے بہت سا کام کیا اور آس پاس کے بہت سے لوگ ان ہی کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام بھی ہوئے۔ ہم جرنیلی سڑک سے بہت دور آچکے تھے اور اب ہماری اگلی منزل کشمیر اور پاکستان کی سرحد پر واقع قلعہ سنگنی تھا۔آپ پاکستان میں جہاں کہیں بھی ہیں، اگر سنگنی قلعہ جانا چاہتے ہیں تو چپ چاپ اپنے موبائل کے جی پی ایس پر سنگنی قلعہ کی لوکیشن لگائیں اور کسی سے بنا پوچھے، بنا کسی چوں چراں کے سنگنی قلعہ پہنچ جائیں۔ میں تو خدا کے منکرین کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا جنھوں نے ہمارے لیے اس قدر سہولیات پیدا کر رکھی ہیں۔

ہم دوپہر سلطان شہاب الدین غوری کے مزار پر پہنچے تو مجھ سمیت تقریباً سب ہی تھکاوٹ کا شکار ہوچکے تھے۔ جلد ہی کرونٹہ میں سر جلال خان کے تالاب اور اس تاریخی دیوار پر پہنچے اور میں نے سیدھا سنگنی قلعہ کا جی پی ایس لگا دیا۔ نہ جانے کفار کا بنایا ہوا یہ پیارا سا جی پی ایس ہمیں کہاں کہاں سے لے کر سنگنی قلعہ پہنچ گیا۔ بَل کھاتی ہوئی چوڑی سڑکیں نہ جانیں کب چھوٹی ہوگئیں، پتا ہی نہیں چلا اور ہم تقریباً نوے منٹ کی مسافت کے بعد قلعہ سنگنی کے سامنے کھڑے تھے۔ قلعہ سنگنی جسے قلعہ کہنا زیادتی ہے۔ بس ایک چھوٹی سی چاردیواری ہے، جس کے تین اطراف  کھائیاں ہیں اور ایک جانب سڑک اور اسی سڑک سے ہوتے ہوئے آپ سنگنی قلعے میں داخل ہوتے ہیں۔ شہرِ دل رُبا راول پنڈی سے 57 کلومیٹر، گوجر خان سے 25 کلومیٹر اور کلر سیداں سے 11 کلومیٹر دور پنجاب اور کشمیر کے سنگم پر یہ چھوٹا سا قلعہ ایک چوکی کے طور پر کام کرتا ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اٹک سے لے کر روہتاس تک کا پوٹھوہار کا یہ علاقہ قلعوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ قلعہ کب تعمیر ہوا؟ اس پر اختلاف ہے۔

قلعے کا دروازہ مغلیہ طرز کا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ اسے مغلیہ دور میں تعمیر کیا گیا ہوگا۔ قوی امکان یہ بھی ہے کہ اسے ڈوگرا راج میں تعمیر کیا گیا ہوگا۔ قلعے کے چار بڑے برج جب کہ ایک چھوٹا برج بھی ہے۔ پاکستان کی طرف کے زیرِانتظام کشمیر میں باغ سَر کے علاقے میں بھی ایک قلعہ تنہا کھڑا ہے جسے قلعہ باغ سر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قلعہ باغ سر کی طرز پر ہی یہ ایک چوکی نما قلعہ سنگنی بھی ہے جو پنجاب اور کشمیر کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے اہم تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اس کا پورا دھیان ہندوستان اور افغانستان کی طرف ہی رہا مگر بعد میں آنے والے مغل بادشاہوں نے کشمیر کو جانا اور اس پر توجہ دینا شروع کی۔ مغلوں کے بعد جب کشمیر میں ڈوگرا راج قیام ہوا تو پنجاب کی جانب سے دفاعی نظام کو ترتیب دینے کے لیے عین ممکن ہے کہ قلعہ سنگنی کو تعمیر کیا گیا ہو یا پھر اسے اکبر کے بعد کسی مغل بادشاہ نے تعمیر کروایا ہو۔ قلعہ جس کسی نے بھی تعمیر کروایا ہو مگر آج قلعہ، قلعہ نہیں رہا بلکہ ایک مزار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

قلعہ سنگنی جسے انگریز ایک جیل خانے کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے، آج ایک مزار کی شکل اختیار کرچکا ہے اور یہ مزار ایک بزرگ صاحب زادہ عبد الحکیم سے منسوب ہے جو ایران سے تبلیغ کے واسطے اس علاقے میں تشریف لائے اور پھر یہیں رہ گئے۔ اس وقت اس علاقے میں ڈوگروں کی حکومت تھی۔ صاحب زادہ عبدالحکیم نے اس علاقے میں دین کی تبلیغ کا بہت کام کیا اور یہیں فوت ہوئے اور اسی علاقے میں دفن بھی ہوئے۔ یہاں تک تو سب باتیں درست ہیں اور سمجھ بھی آتی ہیں مگر اپنے فوت ہونے کے تقریباً پچاس سال کے بعد وہ اپنے بیٹے کے خواب میں آئے اور انھیں نصیحت کی کہ ان کی جسدِخاکی کو ان کی قبر سے قلعے میں منتقل کردیا جائے۔ چناںچہ پیر صاحب کی قبر کی مٹی کو (پچاس سالہ قبر میں سے مٹی کے علاوہ اور کیا نکلنا تھا) قلعے کے اندر منتقل کردیا گیا اور یوں صاحب زادہ عبد الحکیم کے مزار کی بنیاد قلعہ سنگنی میں رکھ دی گئی۔

دوسرے لفظوں میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یوں پیر صاحب کے اہل وعیال کی جانب سے قلعے پر قبضہ کرلیا گیا۔ قلعہ پر ’’قبضہ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا یہاں اس لیے بھی درست ہے کہ جب ہم ایک سیاح اور مسافر کی حیثیت سے پہنچے تو معلوم ہوا کہ قلعے کے اندر نکاح کی تقریب جاری تھی۔ دولہا صاحب مکمل عربی لباس ملبوس تھے جس سے گمان گزرا کہ یہ پیر صاحب کے خاندان سے ہی ہوں گے اور دلہن بھی مکمل سفید فراک پہنے اور سر پر ایک سفید تاج لگائے اسٹیج پر موجود تھیں۔ کچھ بچوں نے نفیس سبز رنگ کی ہی عربی طرز پر لمبی لمبی قمیضیں پہن رکھی تھیں۔ قلعے کے برجوں پر چڑھنے کے راستے تو بند کردیے گئے ہیں کہ پیر صاحب کی قبر کی توہین نہ ہو مگر نکاح یا شادی کے نام پر آپ قلعے میں تقریبات منعقد کریں تو وہ سب ٹھیک ہوگا اور مزار بھی وہ جو پیر صاحب کے فوت ہونے کے پچاس سال بعد ان کی مٹی کو یہاں منتقل کرکے بنایا گیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب ہمارے قلعوں پر سیاست کے بعد مذہب کے نام پر قبضہ جمالیا گیا ہے، جسے مکمل طور پر سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ گندم کے کھیتوں کے پیچھے کھڑا چھوٹا سا قلعہ سنگنی تو سورج ڈوبنے کے ساتھ ساتھ بھلا لگتا ہی ہے مگر قلعے کے درمیان نظر آنے والا مزار کا سفید گنبد بالکل ایسے ہی عجیب سا نظر آتا ہے جیسے سفید چادر پر سیاہ دھبہ۔ قلعہ سنگنی سے نکلے تو سورج تیزی سے ڈوب رہا تھا اور میں کم از کم ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ قلعہ راوت ضرور دیکھنا چاہتا تھا۔

شہرِ دل رُبا راول پنڈی سے تقریباً بیس کلو میٹر پہلے ہی ایک قصبہ نما شہر کسی زمانے میں روات تھا جو اب تقریباً شہرِ دل رُبا کا حصہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کو جانے والی ایکسپریس وے کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے۔ روات کی ایک وجہ شہرت جرنیلی سڑک کنارے قلعہ ہے جسے قلعہ روات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قلعہ روات اصل میں قلعہ کی بجائے ایک کارواں سرائے ہے جہاں کسی زمانے میں جرنیلی سڑک کے مسافر استراحت کیا کرتے تھے مگر اب یہاں کوئی مسافر نہیں رکتا۔ رکنا تو دور کی بات ہے، کارواں سرائے راوت کی جانب اب کوئی دیکھتا بھی نہیں۔ نہ اب وہ مسافر رہے اور نہ قلعہ روات۔ نہ اب کوئی کابل سے دہلی جاتا ہے اور نہ کوئی یہاں رکتا ہے۔ لاہور سے راول پنڈی جانے والی تیزرفتار گاڑیاں بھی فراٹے بھرتے ہوئے یہاں سے گزر جاتی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جرنیلی سڑک سے گزرنے والے مسافروں کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ وہ ماضی کی ایک عظیم سرائے کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔

سڑک پر قلعہ روات کا بورڈ ضرور نصب ہے مگر کوئی اس جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ نہ جانے سرائے راوت کو قلعہ راوت لکھنا درست لکھت ہے یا نہیں مگر چوں کہ اب ہمیں قلعہ راوت ہی کہنے کی عادت ہے، اس لیے ہم اسے قلعہ روات ہی لکھیں گے مگر کبھی کبھی اسے سرائے لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ قلعہ روات سے جڑے احاطوں میں آج روشنی نہیں مگر یہ کمرے ہمیشہ سے بنا روشنی کے نہیں تھے۔ قلعہ روات کے دو دروازے ہیں۔ صدردروازے کا رخ مشرق کی جانب جب کہ عقبی دروازے کا رخ شمال کی جانب ہے۔ سرائے روات 24 کنال اور 11 مرلے کے احاطے پر واقع ہے۔ فنِ تعمیر سلاطینِ دہلی جیسا ہے۔ اس کی تعمیر کا غالب امکان پندرہویں صدی عیسوی کا آخر ہی ہے۔ بعض مورخین سرائے راوت کو محمود غزنوی سے بھی منسوب کرتے ہیں۔

محمد قاسم فرشتہ کے مطابق 1021 میں آدم گگھڑ نے پشاور کے مقام پر محمودغزنوی کے حملے کو پسپا کیا۔ 1036 عیسوی میں محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کو اس کے اپنے ہی باغی سپاہیوں نے پکڑ کر پہلے سرائے روات میں قید کیا اور پھر ٹیکسلا لے جا کر قلعہ گری میں قتل کردیا۔ شیر شاہ سوری نے 1539 اور 40 میں دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں پر پہ در پہ حملے کر کے اسے ہندوستان سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ پوٹھوہار کے گگھڑ قبائل کا حکم راں سردار سارنگ خان تھا جس کی وفاداریاں مغلوں کے ساتھ تھیں۔ گگھڑ قبائل نے شیرشاہ سوری کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ شیرشاہ سوری اور سردار سارنگ خان کے درمیان 1546 میں جنگ ہوئی تو اس سردار کے سولہ بیٹے اپنی پوٹھوہاری مٹی پر قربان ہوئے اور سردار سارنگ خان کی اسی سرائے میں زندہ حالت میں کھال کھنچوا دی گئی۔ سرائے روات میں چند قبریں آج بھی موجود ہیں جن میں سے سب سے اونچی قبر اسی سردار سارنگ خان کی ہے۔ قلعہ روات کے چاروں اطراف حجرے ہیں جو عام حالات میں تو مہمان خانوں کے طور پر استعمال ہوتے تھے جب کہ جنگ میں دفاعی اعتبار سے بھی اہم ثابت ہوتے تھے۔ سرائے میں تین گنبدوں والی ایک مسجد بھی تھی جو آج بھی قائم ہے جہاں پنج وقتہ نماز باقاعدگی سے ادا کی جارہی ہے۔

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے سورج مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔ جرنیلی سڑک مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوب چکی تھی۔ یہاں سے ہمیں واپس ہونا تھا مگر پہلے کھانا پینا ضروری تھا۔ یہیں ایک ٹرک ہوٹل پر کھانا کھایا اور کچھ دیر سستانے کے بعد واپسی کی راہ لی مگر میں مندرہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہتا تھا۔ چائے پی اور موٹر سائیکلوں کو مندرہ ریلوے اسٹیشن کی جانب موڑ دیا۔ مندرہ۔۔۔۔ کبھی ایک خوب صورت جنکشن تھا مگر اب صرف ایک ریلوے اسٹیشن ہے۔ خدا برباد کرے ان لوگوں کو جنھوں نے بھون تا مندرہ ٹریک برباد کردیا۔ ظالموں نے پٹری تک نہیں چھوڑی۔ کہتے تھے کہ فی الحال بھون مندرہ ٹریک منافع نہیں دے رہا۔ مان لیا، نہیں دے رہا ہو گا، وقتی طور پر بند کر دیتے مگر ایسی بھی کیا ملک دشمنی کہ آپ نے نہ صرف روٹ بند کیا بلکہ اتنی لمبی پٹری اکھاڑ کر ہڑپ کرلی اور ڈکار بھی نہیں لی۔

میرا پیارا چکوال بھی بھون مندرہ ٹریک پر ہی تھا مگر اب یہاں ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے علاوہ ریلوے کی اور کوئی نشانی نہیں۔ کوئی سگنل، کوئی پٹری تک نہیں چھوڑی ظالمو نے۔ اس ’’مندرہ بھون‘‘ سیکشن کو مزید آگے کلرکہار ریسورٹ تک بڑھانے کی بجائے پورے ریلوے سیکشن کو تباہ کرکے ان حکم رانوں نے عوام کی بددعائیں ہی لی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان ظالموں کو ہماری بد عائیں بھی نہیں لگتیں۔ سرکاری پٹڑیاں اونے پونے بیچ کر ہڑپ کرلی گئیں۔ ہم اور آپ تو صرف ’’بھون‘‘ کا اجڑا ہوا اسٹیشن دیکھنے ہی جا سکتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ مندرہ ریلوے اسٹیشن پر موجود ٹرن ٹیبل ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ اس ملکِ خداداد میں ریلوے کا مستقبل روشن نہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سلطان شہاب الدین غوری کے شہاب الدین غوری کے مزار ترکی ریلوے اسٹیشن کا ریلوے اسٹیشن ریلوے اسٹیشن کے ریلوے اسٹیشن کی ریلوے اسٹیشن کا ریلوے اسٹیشن ہے اس ریلوے اسٹیشن ریلوے اسٹیشن سے پنڈی جانے والی ریلوے اسٹیشن ا جعفر ایکسپریس تعمیر کیا گیا اسٹیشن ماسٹر فرود خانے کی کے پلیٹ فارم اس علاقے میں ہندوستان کے نے کی وجہ سے کیا جاتا ہے ہونے کی وجہ مغل بادشاہ ریلوے لائن دائیں ہاتھ کی جانب سے کے مزار کی غازی ناڑا کی لوکیشن جاتے ہوئے قلعہ روات میزائل کا تارڑ صاحب ہمارے پاس ساتھ ساتھ کے درمیان راول پنڈی دکھائی دی نہیں بلکہ کرتے ہوئے تی ہے اور ا اور پھر جی پی ایس ریل گاڑی گوجر خان ایک چوکی کہیں اور گوگل میپ لاہور سے نہیں تھا کے مطابق سکتے ہیں رکھا تھا نیچے اتر بھی نہیں پیر صاحب جلال خان جنھوں نے ہیں بلکہ شاہ سوری کے علاوہ یہ ہے کہ کا بورڈ سے نکلے قلعے کے نے والے ہیں مگر ہی نہیں تھی مگر رہی تھی صاحب کے بالکل ا پہلے ہی چکا تھا پر حملہ کے بیٹے میں ریل گیا تھا یہاں سے صاحب کی تھی اور ہیں اور تھے اور کام یاب میں کہا بھی ایک کو دیکھ پر پہنچ جاتی ہے سکتا ہے تھا اور اور کچھ تیزی سے تے ہوئے کے ساتھ کیا اور نہیں

پڑھیں:

بیک وقت 2 لڑکیوں کی ایک لڑکے سے شادی: ’ایک کو بھگا کر لایا، دوسری خود پہنچ گئی‘

خیبرپختونخوا کے ضلع اپر چترال کے دور افتادہ گاؤں تورکہو (سوریچ) میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور دلچسپ واقعہ پیش آیا، جہاں ایک نوجوان نے بیک وقت 2 لڑکیوں سے ان کی رضامندی سے نکاح کرلیا۔

پولیس کے مطابق دلہا کی شناخت سرتاج احمد کے نام سے ہوئی ہے جو سوریچ کا رہائشی اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کا اہلکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں اقرار الحسن 3 بیویوں کے ہمراہ ہنسی خوشی زندگی کیسے بسر کر رہے ہیں؟، فرح اقرار نے سب بتا دیا

’ایک کو بھگا کر لایا، دوسری خود پہنچ گئی‘

مقامی پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سرتاج احمد نے اپنی پسند کی ایک لڑکی کو بھگا کر اپنے گھر پہنچایا تاکہ اس سے نکاح کرسکے، لیکن جب وہ گھر پہنچا تو حیرت انگیز طور پر ایک اور لڑکی بھی وہیں موجود تھی، جو خود اس سے شادی کے لیے آئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دوسری لڑکی کی موجودگی سے حالات کچھ کشیدہ ہوگئے، کیونکہ دونوں لڑکیاں سرتاج کے ساتھ نکاح کی خواہش رکھتی تھیں۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ سرتاج کا دونوں لڑکیوں کے ساتھ بیک وقت رابطہ تھا اور اس نے دونوں سے شادی کا وعدہ کر رکھا تھا۔

’دونوں لڑکیوں کی رضامندی سے نکاح پڑھایا گیا‘

پولیس کے مطابق گھر کے بڑوں اور مقامی عمائدین نے صورتحال کو سلجھانے کی کوشش کی اور چاہا کہ دونوں میں سے ایک لڑکی واپس چلی جائے، لیکن دونوں نے انکار کردیا۔ دونوں کا مؤقف تھا کہ سرتاج نے ان سے وعدہ کیا تھا اور وہ اس نکاح کے لیے تیار ہیں۔

صورتحال کے پیش نظر علاقے کے ایک مذہبی عالم سے رابطہ کیا گیا۔ عالم دین نے دونوں لڑکیوں سے الگ الگ ان کی رضامندی لی، اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ دونوں نکاح کے لیے تیار ہیں، تو مولانا نے سرتاج احمد کا نکاح دونوں سے 9،9 لاکھ روپے حق مہر پر پڑھا دیا۔

’پکڑ لو، بھاگ نہ جائے‘

مقامی افراد کے مطابق نکاح سے قبل ماحول میں بے چینی تھی، لیکن نکاح کے بعد خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اہلِ گاؤں بڑی تعداد میں مبارکباد دینے پہنچے، ان کے مطابق یہ گاؤں کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔

بعد ازاں دلہا اور دونوں دلہنوں کی ایک ویڈیو بھی منظرِ عام پر آئی، جس میں دونوں بیویاں سرتاج کے ساتھ کھڑی ہیں اور دوست احباب خوشی سے مبارکباد دے رہے ہیں۔ ویڈیو میں ایک خاتون مذاق میں کہتی ہیں۔ ’اچھی طرح پکڑ لو، بھاگ نہ جائے۔‘

یہ بھی پڑھیں ’پہلی بیوی خود شوہر کا دوسرا نکاح کرائے‘، دوسری شادی کے خواہشمندوں کے لیے بڑی خوشخبری

مقامی ذرائع کے مطابق نکاح لڑکیوں کی رضامندی سے ہوا، لیکن ان کے والدین کی طرف سے تاحال اس کی منظوری نہیں دی گئی، ان کی رضامندی حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انوکھا واقعہ خیبرپختونخوا دلہا دو لڑکیاں مولانا نکاح نوجوان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • کراچی، ٹریفک پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ درج
  • بیک وقت 2 لڑکیوں کی ایک لڑکے سے شادی: ’ایک کو بھگا کر لایا، دوسری خود پہنچ گئی‘
  • بھارت کو خطے کا پولیس مین بنانے کا منصوبہ خاک میں مل گیا: لیاقت بلوچ
  • مال بردار ٹرین 15 جون سے روس تک جائے گی، وزیر ریلوے
  • بیٹوں نے 90سالہ باپ کی دوسری شادی کی خواہش پوری کر دی
  • معرکہ حق، پاکستان نے ایک ہزار بھارتی فوجی مارے،وزیر ریلوے حنیف عباسی کا دعوی
  • بیٹوں نے 90 سالہ بابے کی دوسری شادی کی خواہش پوری کر دی
  • محکمہ ریلوے کے ملازمین تنخواہوں سے محروم
  • دنیا کا سب سے بڑا پیٹرول اسٹیشن کہاں ہے؟