پشاور:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور کی قیادت میں صوبائی حکومت نے گڈ گورننس، اسمارٹ ڈیویلپمنٹ اور مضبوط سکیورٹی پر مشتمل ایک جامع روڈ میپ کا باضابطہ اجرا کر دیا ہے۔

روڈ میپ کو ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جو آئندہ 2 برس کے دوران ٹھوس اصلاحات، مؤثر سروس ڈیلیوری اور عوامی توقعات کے مطابق گورننس ماڈل کی تشکیل کے لیے ایک مشترکہ فریم ورک کے طور پر کام کرے گا۔

وزیراعلیٰ کی زیر قیادت جاری کردہ اس پلان میں 12 ذیلی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں صحت، تعلیم، اربن و رورل ڈویلپمنٹ، معیشت، سماجی تحفظ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، ایز آف ڈوئنگ بزنس، ڈیجیٹل سروسز، قانونی ڈھانچہ، گورننس کلینڈر، میرٹ پر مبنی تقرریاں اور پسماندہ علاقوں میں روزگار کی فراہمی شامل ہیں۔

روڈ میپ کے تحت سکیورٹی کے شعبے کو مستحکم بنانے کے لیے پراوِنشل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا جائے گا، جب کہ اسمارٹ ڈیویلپمنٹ کے دائرہ کار میں میگا پراجیکٹس کی بروقت تکمیل، سرمایہ کاری کے فروغ اور اہم عوامی منصوبوں کے لیے فنڈز کی ترجیحی فراہمی شامل ہے۔

اہم اہداف:

صحت کے شعبے میں 250 بنیادی و دیہی مراکز صحت کو اپ گریڈ کیا جائے گا، ہر وقت زچگی خدمات کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی، 100 سے زائد اسپتالوں کو جدید طبی سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا اور جنوبی اضلاع میں پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ہر بچے تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیم میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی اور 1500 کمزور کارکردگی والے اسکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کا ہدف شامل ہے۔ سماجی تحفظ کے شعبے میں 10 ہزار خصوصی افراد کو وظائف اور آلات دیے جائیں گے، جبکہ ڈیجیٹل ویلفیئر رجسٹری بھی قائم کی جائے گی۔ معیشت میں 3 نئے اکنامک زونز مکمل کیے جائیں گے، 32 فنی تربیتی اداروں کی اپ گریڈیشن، 751 ایکڑ پر ڈیری فارم کی تعمیر، سالانہ ایک کروڑ مچھلیوں کی افزائش اور زراعت میں پھل دار باغات و 20 لاکھ جنگلی زیتون کے پودوں کی قلم کاری شامل ہے۔ انفرا اسٹرکچر میں ڈی آئی خان تا پشاور موٹر وے پر کام کا آغاز، پشاور نیو جنرل بس اسٹینڈ کی تکمیل اور چھوٹے پیمانے کی کان کنی کے لیے 4 منرل زونز قائم کیے جائیں گے۔ ہاؤسنگ کے شعبے میں نیو پشاور ویلی میں 14 ہزار پلاٹس تیار ہوں گے اور 1.

3 لاکھ گھرانوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ سیاحت میں 50 نئے سیاحتی مراکز کی ترقی، 7 اضلاع میں ہوم اسٹے پروگرام کا آغاز اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ڈیجیٹائزیشن کے تحت ’’دستک پورٹل‘‘سے 100 سے زائد سرکاری خدمات آن لائن فراہم ہوں گی، سرکاری اداروں میں ڈیجیٹل نظام کا نفاذ کیا جائے گا۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں افسران کے تبادلے کی نئی پالیسی، میرٹ پر مبنی جزا و سزا کے نظام کے لیے پرفارمنس ڈیش بورڈ کا استعمال شامل ہے۔

ان اہداف کے لیے تمام محکموں نے اپنے ایکشن پلانز تیار کر لیے ہیں۔ عملدرآمد کی مانیٹرنگ کے لیے چیف سیکرٹری آفس اور پرفارمنس منیجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ ذمہ دار ہوں گے، جو جیو ٹیگنگ، ڈیش بورڈز اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے مسلسل نگرانی کریں گے۔

وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سہ ماہی بنیاد پر اجلاس منعقد کیے جائیں گے تاکہ پیشرفت کا جائزہ لیا جا سکے اور درپیش رکاوٹوں کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔یہ گڈ گورننس روڈ میپ خیبرپختونخوا کو مؤثر انتظام، بہتر خدمات اور عوامی خوشحالی کی نئی سمت دینے کے لیے حکومت کا ایک مربوط اور دوررس اقدام ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیا جائے گا جائیں گے کے شعبے شامل ہے روڈ میپ کے لیے

پڑھیں:

ترسیلات زر بھیجنے والوں کو مزید سہولیات فراہم کی جائیں، قائمہ کمیٹی اراکین کا مطالبہ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ترسیلات زر پر فیس کی ادائیگی سے متعلق معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں کمیٹی اراکین نے مطالبہ کیا کہ ترسیلات زر بھیجنے والے افراد کو حکومت کی جانب سے مزید سہولیات فراہم کی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترسیلات زر کا نیا ریکارڈ: جون میں 3.4 ارب ڈالر، سالانہ بنیاد پر 26.6 فیصد اضافہ

اسٹیٹ بینک کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومتی پالیسیوں کے باعث ترسیلات زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ حکام کے مطابق ترسیلات زر 18 ارب ڈالر سے بڑھ کر 36 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔

بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ایک فری پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے، جبکہ ماضی میں حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کا رجحان اس لیے زیادہ تھا کہ اس میں صارفین کو بہتر منافع حاصل ہوتا تھا۔

حکام نے آگاہ کیا کہ اب بینکوں کو فیس کی ادائیگی حکومت خود کرتی ہے، کیونکہ یہ بوجھ کسی نہ کسی کو اٹھانا تھا تاکہ ترسیلات زر بھیجنے والوں کا اعتماد بحال رہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے اس موقع پر کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی سخت نگرانی کے باعث بھی حوالہ ہنڈی کا استعمال کم ہوا ہے اور لوگ اس سے پیچھے ہٹے ہیں، تاہم حکام نے سینیٹر محسن عزیز کے اس بیان کو غیر متعلقہ قرار دیا۔

اسٹیٹ بینک کے حکام کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی شرائط صرف بڑی کمرشل ٹرانزیکشنز پر لاگو ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترسیلات زر میں تاریخی اضافہ، سرمایہ کاری میں کمی: وزارتِ خزانہ کی ماہانہ معاشی رپورٹ

چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے انکشاف کیا کہ ماضی میں حکومت ترسیلات زر پر سالانہ 30 ارب روپے کی ادائیگی کرتی تھی، جو اب بڑھ کر 130 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ترسیلات زر حکومت پاکستان سہولیات فراہمی سینیٹر سلیم مانڈوی والا مطالبہ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • اجرک والی نمبر پلیٹس مفت فراہم کی جائیں، سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • ’’اجرک والی نمبر پلیٹس مفت فراہم کی جائیں‘‘؛ عدالت میں درخواست
  • کوئٹہ، بی این پی کی مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ
  • وفاقی وزیر تعلیم نے نان فارمل ایجوکیشن رپورٹ جاری کردی، نئے اہداف مقرر
  • خیبر پختونخوا میں اے این پی کو بڑا دھچکا، اہم رہنماء مسلم لیگ نون میں شامل
  • ترسیلات زر بھیجنے والوں کو مزید سہولیات فراہم کی جائیں، قائمہ کمیٹی اراکین کا مطالبہ
  • خیبر پختونخوا میں اے این پی کو بڑا دھچکا، اہم رہنما  مسلم لیگ ن میں شامل
  • خیبر پختونخوا میں اے این پی کو بڑا دھچکا، اہم رہنما مسلم لیگ ن میں شامل
  • خیبر پختونخوا: اے این پی کو بڑا سیاسی جھٹکا، بلور خاندان کی اہم شخصیت ن لیگ میں شامل
  • سویڈن میں ویزہ بحالی کے بعد پاکستانیوں کے لیے تعلیم و روزگار کے نئے امکانات