پختونخوا حکومت کا گڈگورننس روڈمیپ جاری؛ صحت و تعلیم سمیت 12 شعبوں میں بڑے اہداف مقرر
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
پشاور:
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور کی قیادت میں صوبائی حکومت نے گڈ گورننس، اسمارٹ ڈیویلپمنٹ اور مضبوط سکیورٹی پر مشتمل ایک جامع روڈ میپ کا باضابطہ اجرا کر دیا ہے۔
روڈ میپ کو ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جو آئندہ 2 برس کے دوران ٹھوس اصلاحات، مؤثر سروس ڈیلیوری اور عوامی توقعات کے مطابق گورننس ماڈل کی تشکیل کے لیے ایک مشترکہ فریم ورک کے طور پر کام کرے گا۔
وزیراعلیٰ کی زیر قیادت جاری کردہ اس پلان میں 12 ذیلی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں صحت، تعلیم، اربن و رورل ڈویلپمنٹ، معیشت، سماجی تحفظ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، ایز آف ڈوئنگ بزنس، ڈیجیٹل سروسز، قانونی ڈھانچہ، گورننس کلینڈر، میرٹ پر مبنی تقرریاں اور پسماندہ علاقوں میں روزگار کی فراہمی شامل ہیں۔
روڈ میپ کے تحت سکیورٹی کے شعبے کو مستحکم بنانے کے لیے پراوِنشل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا جائے گا، جب کہ اسمارٹ ڈیویلپمنٹ کے دائرہ کار میں میگا پراجیکٹس کی بروقت تکمیل، سرمایہ کاری کے فروغ اور اہم عوامی منصوبوں کے لیے فنڈز کی ترجیحی فراہمی شامل ہے۔
اہم اہداف:
صحت کے شعبے میں 250 بنیادی و دیہی مراکز صحت کو اپ گریڈ کیا جائے گا، ہر وقت زچگی خدمات کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی، 100 سے زائد اسپتالوں کو جدید طبی سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا اور جنوبی اضلاع میں پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ہر بچے تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیم میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی اور 1500 کمزور کارکردگی والے اسکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کا ہدف شامل ہے۔ سماجی تحفظ کے شعبے میں 10 ہزار خصوصی افراد کو وظائف اور آلات دیے جائیں گے، جبکہ ڈیجیٹل ویلفیئر رجسٹری بھی قائم کی جائے گی۔ معیشت میں 3 نئے اکنامک زونز مکمل کیے جائیں گے، 32 فنی تربیتی اداروں کی اپ گریڈیشن، 751 ایکڑ پر ڈیری فارم کی تعمیر، سالانہ ایک کروڑ مچھلیوں کی افزائش اور زراعت میں پھل دار باغات و 20 لاکھ جنگلی زیتون کے پودوں کی قلم کاری شامل ہے۔ انفرا اسٹرکچر میں ڈی آئی خان تا پشاور موٹر وے پر کام کا آغاز، پشاور نیو جنرل بس اسٹینڈ کی تکمیل اور چھوٹے پیمانے کی کان کنی کے لیے 4 منرل زونز قائم کیے جائیں گے۔ ہاؤسنگ کے شعبے میں نیو پشاور ویلی میں 14 ہزار پلاٹس تیار ہوں گے اور 1.3 لاکھ گھرانوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ سیاحت میں 50 نئے سیاحتی مراکز کی ترقی، 7 اضلاع میں ہوم اسٹے پروگرام کا آغاز اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ڈیجیٹائزیشن کے تحت ’’دستک پورٹل‘‘سے 100 سے زائد سرکاری خدمات آن لائن فراہم ہوں گی، سرکاری اداروں میں ڈیجیٹل نظام کا نفاذ کیا جائے گا۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں افسران کے تبادلے کی نئی پالیسی، میرٹ پر مبنی جزا و سزا کے نظام کے لیے پرفارمنس ڈیش بورڈ کا استعمال شامل ہے۔
ان اہداف کے لیے تمام محکموں نے اپنے ایکشن پلانز تیار کر لیے ہیں۔ عملدرآمد کی مانیٹرنگ کے لیے چیف سیکرٹری آفس اور پرفارمنس منیجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ ذمہ دار ہوں گے، جو جیو ٹیگنگ، ڈیش بورڈز اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے مسلسل نگرانی کریں گے۔
وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سہ ماہی بنیاد پر اجلاس منعقد کیے جائیں گے تاکہ پیشرفت کا جائزہ لیا جا سکے اور درپیش رکاوٹوں کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔یہ گڈ گورننس روڈ میپ خیبرپختونخوا کو مؤثر انتظام، بہتر خدمات اور عوامی خوشحالی کی نئی سمت دینے کے لیے حکومت کا ایک مربوط اور دوررس اقدام ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا جائے گا جائیں گے کے شعبے شامل ہے روڈ میپ کے لیے
پڑھیں:
مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے،طلبہ یونین بحال کی جائے،احمد عبداللہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز)ناظم اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب احمد عبداللہ نے پنجاب میں تعلیمی ریفرنڈم کی تحریک شروع کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ صوبہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں سال 2018سے اب تک 4500ہراساں کئے جانے کے کیس سامنے آئے ہیں جبکہ اس سے دس گنا ہراسگی کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے ،حراسگی کی کیسوں کی بنیادی وجہ مخلوط تعلیمی نظام ہے، مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے، تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو بحال اور فعال کیا جائے حکومت نے نوجوانوں کی ذہن سازی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ان خیالات کااظہارناظم اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب احمد عبداللہ نے میلوڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ناظم اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب احمد عبداللہ نے کہاکہ پنجاب میں تعلیمی ریفرنڈم کی تحریک شروع کر رہے ہیں پاکستان میں عوام مسائل کا شکار ہیں، پاکستان میں چند خاندان خوشحال ہیں ،عوام مسائل کا شکار ہے، پنجاب میں تعلیم سے متعلق بہت مسائل ہیں ،اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں ہیے، طلبہ کے ساتھ حکومت کارویہ اچھا نہیں ہے ،تعلیم پر کم ازکم مجموعی جی ڈی پی چار فی صد حصہ مختص کیا جائے، تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی فیسیں پریشانی میں اضافہ کررہی ہیں ،تعلیم ادارے دوران تعلیم فیسوں میں اضافے کردیتے ہیں ،نجی تعلیمی ادارے اس سے بڑھ کر ظلم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو بحال اور فعال کیا جائے حکومت نے نوجوانوں کی ذہن سازی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے پنجاب حکومت رائے ونڈ کی جاگیر بن چکی ہے ۔ایرڈ(بارانی ) یونیورسٹی راولپنڈی میں درس قرآن دینے پر طلبہ کے خلاف کارروائی کی گئی ایرڈ یونیورسٹی میں ویلکم پارٹی پر کوئی پابندی نہیں ہے ،پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم نے صوبائی وزیر تعلیم سے سوال کیا اس کا جواب نہیں دے سکا۔انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں منشیات نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ،تعلیمی اداروں سے منشیات کا خاتمہ کیا جائے، تعلیمی اداروں میں کو ایجوکیشن (مخلوط تعلیم)کا نظام ختم کیا جائے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔