صرف تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈال سکتے، معاشی بحالی میں ہر شعبے کو کردار ادا کرنا ہوگا،وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی بحالی میں ہر شعبے کو کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کی معاشی بحالی اجتماعی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے ہم یہ بوجھ صرف رسمی شعبے اور تنخواہ دار طبقے پر نہیں ڈال سکتے۔
وزارت خزانہ کے مطابق انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسر( پی اے ایل ایس پی) کے پیٹرن ان چیف عباس اکبر علی کی قیادت میں ملاقات کیلئے آئے ہوئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ملاقات میں وفد نے اسٹیل انڈسٹری کو درپیش توانائی کی بلند لاگت، ریگولیٹری تضادات، اور دیرپا سرمایہ کاری کے لیے مستحکم پالیسی ماحول جیسے اہم مسائل کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے رسمی کاروباری اداروں پر ٹیکس پالیسیوں کے اثرات کا بھی ذکر کیا اور حکومت سے مساوی مواقع کی فراہمی کے لیے حمایت کی درخواست کی۔
وزیرِ خزانہ نے صنعت کے خدشات کو تسلیم کیا اور معیشت کے پیداواری شعبوں کی حمایت کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیل سیکٹر ملک میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یقین دلایا کہ ان کے نکات کو بجٹ سے متعلقہ اجلاسوں اور پالیسی مشاورت میں شامل کیا جائے گا۔
بات چیت کے دوران سینیٹر محمد اورنگزیب نے زور دیا کہ پاکستان کی معاشی بحالی اجتماعی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے ہر شعبے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ہم یہ بوجھ صرف رسمی شعبے اور تنخواہ دار طبقے پر نہیں ڈال سکتے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ حکومت ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے، زیادہ ٹیکس شدہ طبقات پر انحصار کم کرنے، اور غیر دستاویزی معیشت کو رسمی دائرے میں لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم خود باقاعدگی سے اجلاسوں کی قیادت کر رہے ہیں تاکہ معاشی نظم و نسق کو مضبوط بنایا جا سکے اور تمام شعبوں میں مساوات کو یقینی بنایا جا سکے۔
وزیرِ خزانہ نے پی اے ایل ایس پی کی تعمیری شرکت کو سراہا اور حکومت و صنعت کے مابین مسلسل رابطے اور عملی اصلاحات کی مطابقت کو فروغ دینے پر زور دیا۔
انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت کی اقتصادی پالیسی شفاف، جامع، اور ترقی پر مبنی ہو گی اجلاس کا اختتام اس باہمی اتفاق رائے پر ہوا کہ مستقبل میں بھی رابطے جاری رکھے جائیں گے اور صنعت سے متعلق پالیسی میں بہتری کے لیے مل کر کام کیا جائے گا۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں
وزیر خزانہ سے عبدالرحمٰن طلت کی سربراہی میں آل پاکستان سیرامک ٹائلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی۔
اس موقع پر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومت توانائی کی قیمتوں کو قابل اعتماد اور قابل استاطعت( affordability، reliability) اور موٴثر قیمتوں کے تعین کے لیے اصلاحاتی اقدامات کر رہی ہے جبکہ حکومت ریگولیٹری طریقہ کار کو سادہ بنانے، تعمیل کی لاگت کم کرنے، اور پالیسی میں استحکام لانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مسلسل مشاورت کر رہی ہے۔
وفد نے صنعت کی تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت سیرامک ٹائلز کی یومیہ پیداواری صلاحیت تقریباً پانچ لاکھ ساٹھ ہزار مربع میٹر ہے جس کے پیچھے 100 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری موجود ہے جس کا تقریباً 60 فیصد غیر ملکی سرمایہ، بالخصوص چین سے آیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صنعت نے مقامی وسائل پر انحصار میں نمایاں پیش رفت کی ہے درآمدی انحصار 74 فیصد سے کم ہو کر صرف 4 فیصد رہ گیا ہے، اور اب تقریباً تمام خام مال اور افرادی قوت مقامی طور پر دستیاب ہے۔
وفد نے اس ہدف کو جلد ہی 1 فیصد تک لانے کے عزم کا اظہار کیا، اور سیرامک صنعت کو مقامی صنعتی صلاحیت کی ایک روشن مثال قرار دیا۔
وزیرِ خزانہ نے اس شعبے کی لوکلائزیشن کی کوششوں کو سراہا اور اس کی درآمدی متبادل، روزگار کی فراہمی، اور ملکی ویلیو چینز میں کردار کو تسلیم کیا۔
انہوں نے حالیہ دورہ گوجرانوالہ کے دوران سیرامک یونٹس میں جدید ٹیکنالوجی اور اعلیٰ معیار کی مقامی پیداوار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیرامک جیسی صنعتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ درست پالیسی معاونت سے پاکستانی مینوفیکچرنگ عالمی معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔
ملاقات میں وفد کے ساتھ ہونیوالی بات چیت میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور کاروباری آسانی کو بہتر بنانے سے متعلق امور بھی زیر بحث آئے۔
وزیرِ خزانہ نے یقین دہانی کرائی کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں، اور حکومت affordability، reliability، اور موٴثر قیمتوں کے تعین کے لیے اصلاحاتی اقدامات کر رہی ہے۔
ease of doing business کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت ریگولیٹری طریقہ کار کو سادہ بنانے، تعمیل کی لاگت کم کرنے اور پالیسی میں استحکام لانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مسلسل مشاورت کر رہی ہے۔
وزیرِ خزانہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مالی توازن اور معیشت میں انصاف کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانا ناگزیر ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کا عزم ہے کہ ٹیکس کا بوجھ ان شعبوں پر منتقل کیا جائے جو اب تک غیر دستاویزی یا کم ٹیکس شدہ رہے ہیں، بجائے اس کے کہ بوجھ صرف رسمی شعبے اور تنخواہ دار طبقے پر ڈالا جائے۔
اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ذاتی طور پر اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی قیادت کر رہے ہیں تاکہ شفافیت، دستاویزی نظام، اور معاشی مساوات کے لیے اصلاحات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
ایسوسی ایشن کے وفد نے حکومت کے جامع مشاورتی عمل کو سراہا اور پاکستان کی صنعتی مسابقت اور معاشی استحکام کے لیے حکومتی پالیسیوں کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا۔
چھوٹے کسانوں کے لیے بغیر ضمانت قرض کی سہولت کے قومی اقدام سے متعلق جائزہ اجلاس
وزارت خزانہ کے مطابق اجلاس میں چھوٹے کسانوں کو بغیر ضمانت رسمی قرض کی فراہمی سے متعلق ٹاسک فورس کی پیش رفت اور سفارشات پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں پاکستان کے مالیاتی شعبے کے سینئر نمائندگان، کمرشل بینکوں، ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئیز)، ریگولیٹرز اور ترقیاتی شعبے کے ماہرین نے شرکت کی، جو ٹاسک فورس کا مرکزی حصہ ہیں۔
اجلاس کا مرکز ’نیشنل سبسٹنس فارمرز سپورٹ انیشی ایٹو‘ کے تحت پیش کردہ سفارشات تھیں، جس کا مقصد چھوٹے پیمانے کے کسانوں کے لیے ٹیکنالوجی پر مبنی جدید حل کے ذریعے بغیر ضمانت قرضے کی راہیں کھولنا ہے۔
وزیر خزانہ کو بتایا گیا کہ یہ سفارشات ایک جامع تجزیے کے بعد تیار کی گئی ہیں جس میں چھوٹے کسانوں، بالخصوص بٹائی داروں کو درپیش عملی اور نظامی چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس اقدام کا مقصد چھوٹے کسانوں کو رسمی مالی نظام میں شامل کرنا، دیہی معیشت کو متحرک کرنا اور خوراک کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے وہ بھی بغیر روایتی ضمانتی رکاوٹوں کے۔
وزیر خزانہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسانوں کی جامع معاونت کے لیے ایک پائیدار اور دیہی ترقی پر مبنی ماڈل تیار کیا گیا ہے جو مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر مبنی ہوگا تاکہ شفافیت، کارکردگی اور صارف کے لیے آسانی کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ اسکیم ایک وفاقی پروگرام کی حیثیت سے پورے ملک میں نافذ کی جائے گی اور اس کا مقصد زرعی پیداوار میں اضافہ، غذائی تحفظ کو بہتر بنانا اور زرعی شعبے کے جامع فروغ کے ذریعے ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرنا ہے۔
ٹاسک فورس نے اجلاس میں ایک نیا اسکور کارڈ پیش کیا، جس میں زرعی عوامل کا تناسب 40 فیصد سے بڑھا کر 60 فیصد کیا گیا ہے، جبکہ مالیاتی اشاریوں کا تناسب 40 فیصد برقرار رکھا گیا ہے تاکہ اس ماڈل کو چھوٹے کسانوں کی حقیقی ضروریات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
یہ تجویز وزارتِ خزانہ کی ’ٹاسک فورس برائے ایکسیس ٹو فنانس‘ کی جانب سے تیار کردہ پائلٹ اسکیم ہے، جو کثیر بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں کے اشتراک سے ایک متحدہ طریقہ کار کے تحت نافذ کی جائے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ کسانوں تک رسائی اور طریقہ کار میں یکسانیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے سفارشات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کو وقت کے پابند اور عملی نتیجہ خیز مراحل میں آگے بڑھایا جائے تاکہ دیرپا اثرات حاصل کیے جا سکیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مویشی اور ڈیری کے شعبے کے لیے ایک الگ، ٹیکنالوجی سے معاون ماڈل بھی فوری طور پر تیار کیا جائے، کیونکہ دیہی علاقوں میں بیشتر چھوٹے کسان مویشی رکھتے ہیں لیکن مویشیوں کی خرید، دیکھ بھال اور دودھ کی مارکیٹنگ کے لیے مالیاتی سہولتوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
وزیر خزانہ نے ڈیری کے شعبے کی معاشی و غذائی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ٹاسک فورس کو ہدایت دی کہ فصلوں اور مویشیوں دونوں کو ایک مربوط مالیاتی فریم ورک کے تحت شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل میں کسان کا تجربہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور ہمیں ایک ایسا ڈیجیٹل ماڈل تشکیل دینا ہوگا جو سہولت، شمولیت، اور آسانی کو ترجیح دے، اور پاکستان کے زرعی منظرنامے میں حقیقی بہتری لائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے پر محمد اورنگزیب چھوٹے کسانوں انہوں نے کہا بنایا جا سکے معاشی بحالی پاکستان کی طریقہ کار کی فراہمی ٹاسک فورس کر رہی ہے کی معاشی کیا جائے کہ حکومت بتایا کہ کے شعبے لانے کے شعبے کے زور دیا کے تحت کہا کہ گیا ہے کے لیے وفد نے
پڑھیں:
بجٹ کے نام پرآئی ایم ایف کی شرائط کا ڈاکیومنٹ مسلط ہوگا، لیاقت بلوچ
انہوں نے کہا کہ اس کا بوجھ تنخواہ دار اور دیگر طبقے پر پڑے گا، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے نے رواں سال 391 ارب روپے انکم ٹیکس دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ قوم پر بجٹ کے نام پرآئی ایم ایف کی شرائط کا پابند ڈاکیومنٹ مسلط ہوگا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ حیران کن ہے کہ بڑے زمینداروں کو زرعی آمدن سے ٹیکس استثنیٰ حاصل رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بوجھ تنخواہ دار اور دیگر طبقے پر پڑے گا، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے نے رواں سال 391 ارب روپے انکم ٹیکس دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ناکام معاشی تجربات سے نجات کیلئے قومی میثاق معیشت پر اتفاق کیا جائے۔