معاشی بہتری کی رفتار پر دنیا حیران : پاک افواج کی جتنی مددکرسکے کرینگے یہ‘ پاکستان کی ضرورت ہے : وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام آچکا ہے اور دنیا پاکستان کی معاشی بہتری کی رفتار پرحیران ہے۔ پاکستان میکرو اکنامک استحکام کی جانب گامزن ہے۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ کم ہونے کی توقع ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات لا رہے ہیں۔ پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی سے معیشت پر مثبت اثرات ہوئے۔ ایف بی آر میں انسانی مداخلت کم ہونے سے شفافیت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے ری لانچ کے عمل سے گزر رہی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس جمع کرانے کا عمل آسان بنائیں گے۔ معیشت میں ٹیکنالوجی ٹرانسفارمیشن کی جانب جارہے ہیں۔ افواج پاکستان کی جتنی مدد کرسکے پوری مدد کریں گے۔ یہ صرف افواج کی نہیں پاکستان کی ضرورت ہے۔ بھارت نے آئی ایم ایف بورڈ میں قرض پروگرام ڈی ریل کرنے کی کوشش کی۔ کوشش کی گئی اجلاس نہ ہو اور پاکستان کا ایجنڈا ڈسکس نہ ہو۔ پاکستان کا کیس میرٹ پر ڈسکس ہوا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے تمام اہداف پورے کئے۔ اگر پاکستان اہداف پورے نہ کرتا تو مشکل پیش آتی۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل جاری رکھیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ تعمیری بات چیت ہوئی اور مشن واپس جا چکا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ رواں ہفتے ورچوئل بات چیت جاری رہے گی۔ سول اور ملٹری تنخواہوں کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آج دنیا پاکستان کی معاشی کارکردگی کی معترف ہے۔ حکومت معاشی ترقی کا مستحکم حل چاہتی ہے۔ معاشی ترقی کیلئے ٹرانسفارمیشن ضروری ہے۔ حکومت طویل المدتی اصلاحات کیلئے پرعزم ہے۔ ٹیکس نظام اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ انرجی سیکٹر میں بھی اصلاحات ہو رہی ہیں۔ تقریب کے اختتام پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ واشنگٹن اور لندن میں سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں میں معیشت کے بارے میں مثبت ردعمل آیا ہے۔ شرح سود میں نمایاں کمی کے معیشت پر مثبت اثرات پڑے۔ واشنگٹن اور لندن میں سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں میں معیشت پر مثبت رد عمل آیا۔ دنیا پاکستان کے مائیکرو اکنامک استحکام سے مطمئن ہے جب کہ حکومت طویل المدتی اصلاحات کے لیے پرعزم ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔ حکومت تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس جمع کرانے کا عمل آسان بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے پیسے اکاؤنٹ میں آتے ہی ٹیکس کٹوتی ہو جاتی ہے۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے ریلیف کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پنشن اصلاحات پر بھی کام کر رہے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ کم ہونے کی توقع ہے۔ اگلے سال ڈیٹ مینجمنٹ سسٹم کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔ 400 ارب کی معیشت بننا پاکستان کے لیے اچھی پیش رفت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اصلاحات کررہے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہو گی اس بار بجٹ کو زیادہ تزویراتی بنایا جائے۔ برآمدات پر مبنی ترقی کی ضرورت پر زور دیتے کہا مطمئن ہیں پاکستان کی معیشت 400 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ جس طرح بھارتی جارحیت کے دوران اتقاق اور اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا تھا، معاشی محاذ پر بھی اسی اتفاق واتحاد کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس میں کمی کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ پاکستان بینک ایسوسی ایشن کے زیراہتمام اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اندرون اور بیرون ممالک پاکستان کے دوطرفہ اورکثیرالجہتی شراکت داروں، دوست ممالک کے وزرائے خزانہ، اور سرمایہ کاروں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں سے ہمیں دو واضح پیغامات ملے ہیں۔ پہلا یہ کہ دوطرفہ اور کثیرالجہتی شراکت دار، دوست ممالک کے وزرائے خزانہ، اور سرمایہ کار پاکستان کی اقتصادی و معاشی بہتری اور کلی معیشت کے استحکام سے مطمئن ہیں۔ وہ اقتصادی استحکام بالخصوص پالیسی ریٹ ومہنگائی میں کمی اور معاشی اشاریوں میں بہتری کی رفتارکی بھی تعریف کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ پاکستان کو پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔ ٹیکس کے حوالہ سے لوگوں، پراسیس اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی جارہی ہے۔ ایف بی آر کی مکمل ڈیجیٹلائزیشن کی جارہی ہے جس میں نجی شعبہ قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ پرال بورڈ کے چیئرمین اور زیادہ تر اراکین کا تعلق نجی شعبہ سے ہے۔ ایف بی آر کی ٹرانسفارمیشن میں کارانداز کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔ شفافیت کو یقینی بنانے اور ٹیکس چوری کی روک تھام میں ڈیجیٹلایزیشن کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے عمل کو آسان بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ کیلئے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کو آسان بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبہ میں اویس لغاری اور علی پرویز ملک کام کررہے ہیں۔ ایس او ایز میں اصلاحات کا عمل بھی جاری ہے۔ 24اداروں کو نجکاری کیلئے نجکاری کمشن کے سپرد کردیا گیا ہے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جس میں گزشتہ سال ہماری کارگردگی بہتر نہیں رہی۔ مشیر محمد علی کی قیادت میں اس عمل کو تیز کیا جا رہا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ تین ڈسکوز کی نجکاری ہورہی ہے۔ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کا عمل مرحلہ وار جاری ہے۔ جاری مالی سال کے دوران قرضوں کی واپسی میں ایک ٹریلین روپے کی کمی ہوئی۔ آئندہ مالی سال کے دوران ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو جدید خطوط پر استوارکیا جائے گا۔ اس کیلئے مختلف ماڈلز کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ بجٹ میں دلیرانہ فیصلے کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جی ڈی پی 400ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ مستقبل کے اہداف کے حصول میں بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیاں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہیں۔ اس حوالہ سے ہم نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے بات کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہمیں بنیادی ڈھانچہ کیلئے معاونت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی مسلح افواج اور سیاسی قیادت نے حالیہ بھارتی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ پوری قوم نے پاکستان کی فتح پر خوشی کا اظہارکیا۔ ہم نے تنائو کے ماحول میں بھی ان امور کو آگے بڑھایا ہے۔ ملک تب ترقی کرے گا جب ٹیکس کے اہل افراد اپنا ٹیکس بروقت ادا کریں گے۔قرضوں میں ادائیگی کا بوجھ کم ہونے کی توقع ہے، وفاقی وزارت خزانہ،کارانداز پاکستان اور پاکستان بنکس ایسوسی ایشن کے تعاون سے’’ویلیو سے وژن تک: پاکستان کے مالیاتی شعبے کی جانب سے بامقصد فنانسنگ‘‘ کے عنوان پر دو روزہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے محمد اورنگ زیب نے کہا کہ یہ کوشش کی گئی آئی ایم ایف کا بورڈ اجلاس نہ ہو اور پاکستان کا ایجنڈا ڈسکس نہ ہو تاہم پاکستان کا کیس میرٹ پر ڈسکس ہوا۔ وفاقی وزارت خزانہ، کارانداز پاکستان اور پاکستان بنکس ایسوسی ایشن کے تعاون سے’’ویلیو سے وژن تک: پاکستان کے مالیاتی شعبے کی جانب سے بامقصد فنانسنگ‘‘ کے عنوان پر دو روزہ تربیتی ورکشاپ شروع ہو گئی۔ یہ ورکشاپ آج 27 مئی کو بھی جاری رہے گی۔ جس میں تجارتی بنکوں، ترقیاتی مالیاتی اداروں، ریگولیٹرز اور سرمایہ کاری کے ماہرین سمیت پاکستان کے مالیاتی شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر سینئر نمائندگان شرکت کر رہے ہیں تاکہ مؤثر مالیات کے اْصولوں کو مرکزی مالیاتی آپریشنز میں شامل کرنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کر سکیں۔ کارانداز کے چیئرپرسن، سید سلیم رضا نے کہا:’’کارانداز کو پاکستان کے مالیاتی شعبے کی مدد کرنے پر فخر ہے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے برٹش ہائی کمشن، اسلام آباد کی ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ، جو میور نے کہا کہ ’’یہ تربیت پاکستان کے مالیاتی شعبے کے ساتھ برٹش ہائی کمیشن کے طویل مدتی روابط کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک دہائی قبل، ہم نے کارانداز کو ایک خصوصی مقصد پر اثر انداز ہونے والی مالیاتی وسیلے کے طور پر تخلیق کرنے کی حمایت کی تھی۔ یہ اس شعبے کے لیے ایک لائٹ ہاؤس کے طور پر کام کرتا ہے، جو جامع اور پائیدار فنانس کے لیے سکیل ایبل ماڈل کا مظاہرہ‘ پاکستان بنکس ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور سیکرٹری جنرل، منیر کمال نے پائیدار فنانس کے شعبے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کے بنکاری شعبے کو آگے بڑھ کر قیادت کرنا چاہئے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان کے مالیاتی شعبے تنخواہ دار طبقے کے ایسوسی ایشن کے انہوں نے کہا اور پاکستان ا ئی ایم ایف کی ضرورت ہے پاکستان کا پاکستان کی کر رہے ہیں کررہے ہیں کرتے ہوئے نے کہا کہ کے دوران کم ہونے کی جانب کام کر رہی ہے کے لیے رہا ہے کا عمل
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔