جنوبی افریقہ سے غیرقانونی طور پر بندروں کی منتقلی، تحویل کا معاملہ عدالت پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
لاہور:
جنوبی افریقہ سے غیر قانونی طور پر لائے گئے بندروں کی تحویل، دیکھ بھال اور محفوظ پناہ گاہ میں منتقلی کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے جہاں کیس کی سماعت جمعرات کو متوقع ہے۔
جنوبی افریقہ سے غیرقانونی طور پر لائے گئے بندر رواں برس جنوری میں کراچی ایئرپورٹ پر کسٹمز حکام نے تحویل میں لیے تھے، جن کی مجموعی تعداد 24 تھی، کسٹمز کی کارروائی کے بعد یہ بندر جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم اے سی ایف کے حوالے کیے گئے، تاہم منتقلی کے دوران دو بندر ہلاک ہوگئے تھے۔
جانوروں کے حقوق کے وکیل التمش ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ مقدمہ پاکستان میں جنگلی جانوروں کی نجی ملکیت، غیر فطری ماحول میں رکھے جانے اور نمائش کے خلاف ایک اہم قانونی مثال بن سکتا ہے۔
التمش سعید کے مطابق پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جنگلی جانوروں کو نجی ملکیت میں رکھنے پر پابندی عائد کی جائے اور ان کے لیے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ مراکز یعنی سینچری طرز کی محفوظ پناہ گاہیں قائم کی جائیں۔
لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت کیس میں درخواست گزاروں کی نمائندگی التمش سعید ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ کے وکیل محمد احمد پانسوٹہ اور لاہور ہائی کورٹ کی وکیل صباح فاروق کر رہی ہیں جبکہ کیس میں سیکریٹری جنگلات اور جنگلی حیات اور فشریز پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے ایک کمیٹی کے ذریعے اے سی ایف کی پناہ گاہ کا معائنہ کرنے کے بعد بندروں کو لاہور چڑیا گھر منتقل کرنے کی سفارش کی ہے، وزارت نے فوری منتقلی کی ہدایت جاری کرتے ہوئے لاہور چڑیا گھر کو ترجیحی مقام قرار دیا ہے تاہم اس تجویز پر سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اور اے سی ایف دونوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سندھ وائلڈ لائف نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ بندر "تحفظ یافتہ" جانور ہیں اور ان کا کیس فی الحال کراچی کی کسٹمز عدالت میں زیرِ سماعت ہے لہٰذا کسی بھی منتقلی سے قبل قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2020 کے تحت محکمہ سندھ میں لائے گئے، جنگلی جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا مجاز ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور سندھ وائلڈ لائف پر مشتمل ماہرین کی ایک کمیٹی نے اے سی ایف سینٹر کا معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں بندروں کی لاہور منتقلی کو ان کی فلاح کے منافی قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق بندروں کے لیے مخصوص قدرتی ماحول درکار ہے، جو لاہور چڑیا گھر میں ممکن نہیں ہے۔
ادھر جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم اے سی ایف کا کہنا ہے کہ پچھلے 5 ماہ سے بندروں کی مسلسل نگہداشت کی جا رہی ہے اور اب انہیں واپس لینا ناانصافی ہے۔
تنظیم نے سوال اٹھایا کہ اگر ان کی دیکھ بھال میں کوئی کمی تھی تو جب یہ معاملہ تین ماہ قبل سوشل میڈیا پر سامنے آیا تھا، تب ہی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
التمش سعید کا کہنا تھا کہ وہ بھی ان بندروں کو لاہور چڑیا گھر منتقل کرنے کے حق میں نہیں ہیں، ان بندروں کو ان کے قدرتی ماحول یا اس سے ہم آہنگ ماحول میں منتقل کیا جانا چاہیے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کا یہ اختیار نہیں کہ وہ ان بندروں کی منتقلی کے بارے میں فیصلہ کرسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ وائلڈ لائف لاہور چڑیا گھر بندروں کی اے سی ایف کے لیے
پڑھیں:
وفاق نے غیرقانونی طور پر ضم اضلاع کے فنڈز اپنے پاس رکھے ہیں: بیرسٹر محمد علی سیف
---فائل فوٹومشیرِاطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ ضم اضلاع میں امن و امان ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، وفاق نے غیرقانونی طور ضم اضلاع کے فنڈز اپنے پاس رکھے ہیں۔
بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے بیان میں کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں ضم اضلاع کے فنڈز صوبے کو منتقل کرنا ناگزیر ہے، انضمام کے بعد ضم اضلاع کے فنڈز بھی صوبے کا حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کو فنڈز سے محروم رکھنا آئینی و قانونی خلاف ورزی ہے، وفاق سیاسی بغض و عناد بالائے طاق رکھ کر امن و امان جیسے اہم مسئلے پر صوبے کے ساتھ تعاون کرے۔
وزیراعلیٰ کے پی نے صوبے کے ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق تشکیل دی گئی وفاقی حکومت کی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کردیا جبکہ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا۔
بیرسٹر سیف نے یہ بھی کہا کہ کے پی اپنے وسائل کے مطابق ضم اضلاع میں امن وامان قائم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس اور سی ٹی ڈی کی استعدادکار بڑھانے کے لیے اربوں روپے مختص کیے ہیں، وفاق خیبر پختون خوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بند کرے۔