وزیراعظم و آرمی چیف کے مشترکہ دورے پاکستان کی بین الاقوامی حمایت میں اضافے کا پتہ دیتے ہیں: سفارتی ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف اس وقت 4 مُلکی سفارتی مشن پر ہیں۔ اس وقت وہ آذربائیجان کے دورے پر وہاں کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ایران اور اُس سے پہلے ترکیے کا دورہ مکمل کیا۔ آذربائیجان کے بعد وہ تاجکستان کے دورے پر بھی جائیں گے۔
ان دوروں کا بنیادی مقصد پاک بھارت کشیدگی کے دوران ان ممالک کے جانب سے پاکستان کو ملنے والی بے مثال عملی اور سفارتی حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کرنا اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ایک پیغام دینا بھی ہے کہ دنیا اس وقت پاکستان کی حمایت میں ساتھ کھڑی ہے۔ پاک بھارت فوجی کشیدگی کے دوران ترکیہ اور آذربائیجان نے جس طرح بے مثال انداز میں پاکستان کی حمایت کی وہ لائق تحسین ہے اور یہی وجہ تھی کہ بھارت میں ترکیہ اور آذربائیجان کے بائیکاٹ کی مہم چلی۔
25 سے 30 کے طے شدہ دوروں کے پہلے مرحلے میں وزیراعظم شہباز شریف 25 مئی کو ترکیہ پہنچے جہاں تُرک وزیر دفاع یشار گلر اور دیگر اعلٰی حکام نے اُن کا استقبال کیا۔ اِس کے بعد صدر رجب طیب اردوان نے انتہائی گرمجوشی سے ملاقات کی اور اُن کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ دونوں رہنماؤں کی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تصویر کے سوشل میڈیا پر چرچے رہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی گرمجوشی کے حوالے سے ایک اہم پیغام تھا۔ وزیراعظم نے 6 سے 10 مئی کے دوران بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی کے معاملے پر ترکیے کی غیرمتزلزل اور مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
اس دورے میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ جنرل عاصم منیر نے پاکستانی وفد کے حصے کے طور پر دفاعی اور اسٹریٹجک تعاون سے متعلق مذاکرات میں حصہ لیا، خاص طور پر پاک-ترک فوجی تعلقات، مشترکہ مشقوں اور دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی۔
اس دورے کے دوران پاک-ترک رہنماؤں نے غزہ کے انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور فوری جنگ بندی کے ساتھ فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچائے جانے پر زور دیا۔
ترکیے کا دورہ مکمل کرکے وزیراعظم شہباز شریف 26 مئی کو ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ دورہ سفارتی، اسٹریٹجک اور علاقائی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل اور انتہائی کامیاب دورہ تھا۔ 6 سے 10 مئی پاک بھارت فوجی کشیدگی کے دوران ایران کی پاکستان کے لیے سفارتی حمایت ایک انتہائی اہم فیکٹر رہی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہمراہ اُسی کا شکریہ ادا کرنے ایران پہنچے۔ 26 مئی کو تہران کے مہرآباد ایئرپورٹ پر ایرانی وزیر داخلہ اسکندر مومنی، ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو، اور ایران کے پاکستان میں سفیر رضا امیری مقدم نے ان کا استقبال کیا۔ ایرانی فوج کے چاق چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وزیراعظم نے ایرانی صدر مسعود پُزشکیان سے سعد آباد پیلیس میں ملاقات کی۔
دورے کی اہم بات وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات تھی جس میں پاک بھارت کشیدگی پر ایران کی حمایت پر شکریہ ادا کیا گیا۔ شہباز شریف نے جوہری مذاکرات میں ایرانی قیادت کی بصیرت کی تعریف کی اور آیت اللہ خامنہ ای کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔
ایرانی سپریم لیڈر نے پاکستان کے اسلامی دنیا میں مقام کی تعریف کی اور غزہ میں صیہونی جرائم روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔ اس ملاقات کے دوران پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیے وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدر سے ملاقات، پاک بھارت کشیدگی کے دوران حمایت پر شکریہ ادا کیا
ایران کا دورہ مکمل کر کے وزیراعظم اس وقت آذربائیجان میں ہیں۔ آذربائیجان کے لوگ پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اس جنگ میں اُنہوں نے پاکستان کی کھل کر حمایت کی۔ وزیراعظم آذربائیجان کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اس وقت آذربائیجان میں موجود ہیں۔ آذربائیجان کے شہر لاچین کے ہوائی اڈّے پر آذربائیجان کے وزیر خارجہ جیہون بیراموف، آذربائیجان میں پاکستانی سفیر قاسم محی الدین، اور دیگر سفارتی حکام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
اس دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تو پاکستان ترکی آذربائیجان سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی، جس میں ترک صدر رجب طیب ایردوان اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں تینوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک، اقتصادی، اور دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے بعد وزیراعظم نے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے دوطرفہ ملاقات بھی کی۔
شہباز شریف نے صدر الہام علیوف کے ساتھ آزاد کرائے گئے علاقے کاراباخ کے شہر فزولی کا خصوصی دورہ کیا، جو آذربائیجان کی نگورنو کاراباخ تنازع کے بعد بحالی کی علامت ہے۔ اس دورے نے پاکستان کی جانب سے آذربائیجان کے موقف کی حمایت کو اجاگر کیا۔
اس دورے کے دوران پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری، توانائی اور دفاعی تعاون کی کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔
جنگ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں، پاکستان کو دوستوں کی ضرورت ہے: ایمبیسیڈر مسعود خانامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق نمائندے ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ دورے کرنا ضروری تھا۔ مشکل وقت میں جو ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے اُن کا شکریہ ادا کرنا ضروری تھا۔ بعض ممالک نے پاکستان کی عملی مدد کی، بعض نے سفارتکاری کے ذریعے سے ہماری مدد کی تو اُن کے ساتھ تعلق کو مزید مضبوط کرنا انتہائی ضروری تھا۔ اور اسی لیے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ نے چین کا دورہ کر کے اُن کا بھی شکریہ ادا کیا۔
یہ بھی پڑھیے خطے میں امن کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
ان دوروں کی اہمیت نہ صرف علامتی اعتبار سے ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی ہے۔ علامتی اعتبار سے ہمیں دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ساتھ کون کون کھڑا ہے اور ترکیے نے تو اس فوجی کشیدگی کے دوران ہمیں بہت مدد فراہم کی۔ معنوی اعتبار سے ان دوروں کی اہمیت اس لیے ہے کہ ابھی جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ آپریشن ابھی روکا ہے ختم نہیں کیا۔ خاص طور پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت اگر اپنی خلاف ورزی پر مُصِر رہتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ہمیں دوستوں کی ضرورت ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے دورے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل بننے کے بعد یہ اُن کا پہلا دورہ ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کا اکٹھا ہونا اِس ملک کے لیے بہت اچھا ہے۔ 6 مئی کی رات سے پاک بھارت کشیدگی کے بعد جس طرح سے پاک فوج نے جواب دیا اُس سے پاک فوج کی عزّت نہ صرف اندرونِ ملک بڑھی ہے بلکہ اسے بیرونی ممالک سے بھی بہت تعریف ملی ہے۔ اور بیرونی دنیا کے سربراہان بھی پاک فوج کے سربراہ بھی یقیناً سے ملنے کے مشتاق ہوں گے۔
وزیراعظم اور آرمی چیف کے مشترکہ دورے سویلین اور فوجی قیادت کی ہم آہنگی کو ظاہر کرتے ہیں، ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا ترکیے، ایران اور آذربائیجان کا دورہ اچھا پیغام ہے۔ بنیادی طور پر وہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران ان ممالک کی حمایت پر شکریہ ادا کرنے گئے ہیں۔ ساتھ میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے جانے سے اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں سویلین اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے اور فوج کے سربراہ چونکہ بذات خود اُن ملاقاتوں میں موجود تھے تو اُنہیں اُن ممالک کے پاکستان کے بارے میں براہِ راست گفتگو سننے کا بھی موقع ملا۔
اس سے قبل جنگ بندی کے کچھ دنوں بعد نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار بھی چین گئے تھے جس کا مقصد بھی دوست ممالک کے ساتھ پاکستان کے لیے حمایت کی تجدید حاصل کرنا تھا۔
اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں وزیراعظم ترکیے پہنچے تھے۔ ہم ترکیے سے دفاعی ساز وسامان بھی لیتے ہیں۔
دورہ ایران میں وزیراعظم کا یہ کہنا کہ پاکستان ایران کی پرامن مقاصد کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ یہ اہم بات ہے کیونکہ اس وقت امریکا اور ایران کے درمیان جوہری ڈیل کے حوالے سے باتیں چل رہی ہیں اور اُن کے نتائج کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہے۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ تجارت بڑھانے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ اس ضِمن میں امریکی پریشر تو آئے گا لیکن ایران ہمارا ہمسایہ ہے، اُس کے ساتھ ہم کیوں تجارت کو نہ بڑھائیں۔ یہ ہمارا قانونی حق ہے۔
وزیراعظم اور آرمی چیف کے مشترکہ دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے ملک میں اتحاد کا پیغام جاتا ہے جو کہ خوشد آئند ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: وزیراعظم شہباز شریف پاک بھارت کشیدگی کے حمایت پر شکریہ ادا ایمبیسیڈر مسعود اور ا ذربائیجان کشیدگی کے دوران ا ذربائیجان کے فوجی کشیدگی کے شکریہ ادا کیا کا شکریہ ادا میں پاکستان کے حوالے سے نے پاکستان پاکستان کے پاکستان کی فیلڈ مارشل کرتے ہوئے کے درمیان سے ملاقات ا رمی چیف کی حمایت ممالک کے ایران کے کا دورہ میں پاک کے ساتھ دورے کے کے دورے کے لیے سے پاک کے بعد
پڑھیں:
وزیراعظم کی ترکیہ اور ایران کی قیادت سے مثبت ملاقاتیں
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) وزیراعظم محمد شہباز شریف حالیہ بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے پرشکریہ ادا کرنے کیلئے دوست ممالک کے
دورے پر ہیں ، پہلے مرحلیانہوں نے تر کیہ کا2روزہ دورہ کیا جہاں صدررجب طیب اردوان سے وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں پاک ترکیہ سٹرٹیجک شراکت داری کو مزید بلندیوں تک لے جانے پر اتفاق اور علاقائی امن کے لئے مل کر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا، وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت سے کشیدگی کے دوران حمایت اور مسئلہ کشمیر پر ساتھ دینے پر ترک حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا،بلاشبہ علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والے پیشرفت کے تناظرمیں وزیراعظم کادورہ ترکیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر ترکیہ نیبھارتی جارحیت پر جس اندازمیں پاکستان کاساتھ دیااوراس کے موقف کی تائیدکی اس پر پاکستانیوں کے دلوں میں اس کی قدرومنزلت مزیدبڑھ گئی ہے ،ترکیہ کاشمارپاکستان کے ان بہترین اورقابل اعتماد دوست ملکوں میں ہوتا ہے جس نے ہرمشکل وقت میں اس کاساتھ دیا، زلزلہ ہویاسیلاب ،ہرناگہانی آفت میں ترکیہ مددکے لئے سب سے پہلے پہنچااورہمیشہ اسی جذبے کامظاہرہ پاکستان کی طرف سے بھی کیاگیا، پاکستان اور ترکیہ نے ہرعلاقائی اورعالمی فورمزپرہمیشہ ایک دوسرے کاساتھ دیا،ترکیہ نے جہاں مسئلہ کشمیرپر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی تائیدکی وہیں قبرص کے معاملے پر پاکستان ہمیشہ ترکیہ کے ساتھ کھڑہوا،دورے کے دوسرے مرحلے میں وزیراعظم ایران پہنچے تہران میں صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکین کے ساتھ حالیہ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم نے علاقائی امن کے لیے بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بشمول جموں و کشمیر اور پانی کے مسائل حل کرنے کی اپنی آمادگی کا اعادہ کیا ،حالیہ دنوں میں ایران نے پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں جو متوازن اور تعمیری کردار ادا کیا ہے، وہ قابلِ ستائش اور قابلِ توجہ ہے۔ایران، جو تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا قریبی ہمسایہ ہے، ہمیشہ جنوبی ایشیائی سیاست کو سنجیدگی سے دیکھتا رہا ہے۔ ایرانی حکام کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے جو سفارتی کوششیں کی گئیں، وہ نہ صرف علاقائی امن کے لیے نیک شگون ہیں بلکہ ایران کے بدلتے ہوئے علاقائی وعن کی عکاسی بھی کرتی ہیں، تہران نے نہایت محتاط مگر واضح پیغام دیا کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں اور جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ایران کا یہ کردار اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ الگ الگ تعلقات رکھتا ہے۔ ایک جانب وہ بھارت کے ساتھ تجارتی اور توانائی کے منصوبے چلا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے ساتھ مذہبی و ثقافتی قربت اور سرحدی روابط رکھتا ہے۔ ایسے میں ایران کا غیر جانب دارانہ اور امن پر مبنی مؤقف نہ صرف پاکستان کے لیے حوصلہ افزا ہے بلکہ بھارت کے لیے بھی ایک مثبت پیغام ہے کہ مسئلہ کشمیر یا دیگر تنازعات کو طاقت کے بجائے بات چیت سے سلجھایا جا سکتا ہے۔مزید یہ کہ ایران کی موجودگی ایک نئی جغرافیائی حقیقت کو بھی نمایاں کرتی ہے ۘ کہ اب مغرب نہیں بلکہ خطے کے ممالک خود امن کے داعی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران کا یہ قدم چین کی ثالثی کوششوں کے بعد ایک اور مثال ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں کے تنازعات کو باہر سے نہیں بلکہ اندرونی اور علاقائی طاقتوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی رہائی کی تحریک کے معاملے پر پی ٹی آئی تذب کاشکارہے،کوئی عمران خان کی رہائی کے لئے بیک ڈوررابطوں اورکوئی احتجاج کی بات کررہاہے،جنیداکبرکاکہناہیکہ عمران خان کی رہائی کے لئے صوابی اورمارگلہ میں ٹینٹ ویلج قائم کریں گے ،انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورکی قیادت پر اعتمادہے وہ جو فیصلہ کریں گے اس پرعمل ہوگاتاہم پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹرگوہرنے کہاہے کہ کارکن جذباتی نہ ہوں ،بانی کی رہائی کے لئے کوششیں جاری ہیں،معاملات عدالتوںمیں ہیں ،190ملین پاونڈکیس جلداسلام آباد ہائی کورٹ میں لگ جائے گا،بظاہرپی ٹی آئی ایک بیانیہ بنانے میں ناکام ہے خاص طور پر کے پی میں پارٹی کو دباؤکاسامناہے جہاں خیبرپختونخواحکومت کی کرپشن کی باتیں زبان زدعام ہیں ،بہترہے کہ پارٹی قیادت مل بیٹھے اور پہلے یہ طے کیاجائے کہ آیاعمران خان کی رہائی کے لئے عدالتوں پر انحصارکیاجائے یاپھر تحریک چلائی جائے گی جس کے بعدمتفقہ موقف اختیارکیاجائے تاکہ کارکنوں میں گومگوصورتحال ختم ہو،علاوہ ازیں ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے سات اہم رہنماؤں کی طرف سے پارٹی چھوڑ کرمسلم لیگ ن میں شمولیت کے لئے اندون خانہ رابطے جاری ہیں ،ان رہنماوں کی جلدمسلم لیگ ن کے صدرمیاں نوازشریف سے ملاقات کرائی جائے گی جس کے بعدان کی طرف سے پریس کانفرنس متوقع ہے۔