Express News:
2025-11-03@15:49:12 GMT

لقمے ، لقمان اوردسترخوان

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

حکیم لقمان کا تو سب کو پتہ ہے جن کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے ، انھیں تو خدا نے علم وحکمت عطا فرمائے تھے اورخدا کے برگزیدہ بندے تھے لیکن دوسری جانب یہ بھی اس دنیا کا خاصہ اورانسان کا جدی پشتی طریقہ واردات رہا ہے کہ ہر اچھی چیز کی نقلیں بھی نکل آتی ہیں اورگلی کوچوں میں پھیل جاتی ہیں۔

چارسدہ کے علاقے رجڑ میں ایک مٹھائی کی دکان تھی ،آج پورے چارسدہ بلکہ پشاورمیں بھی ’’اصلی رجڑ ‘‘ کی مٹھائی کی دکانیں ہیں۔ قندھار میں شاید کسی بزرگ یا ولی اﷲ کے حوالے سے ایک ’’بابا ولی ریستوران‘‘ مشہور ہوا، بس پھر کیا ہوا، یہ پورے افغانستان میں پھیل گیا بلکہ افغان مہاجروں کے ساتھ پاکستان میں بھی بابا ولی ریستورانوں کی بھر مار ہوگئی ۔ مذہبی اور مقدس مقامات کے نام پر دکانیں اور مصنوعات وغیرہ تو آپ بھی پڑھتے ہوں گے بلکہ ایک ’’بانی‘‘ مبانی تو پوری ریاست مدینہ کو ’’عرب‘‘ اورماضی دونوں سے کھینچ کر (نہ جانے کیسے) لے آئے تھے بلکہ ہیں ۔

اسی طرح حکیم لقمان کے نام کو بھی لوگوں نے بخشا نہیں ہے ، بے شمارحکیم اور دواخانے، لقمان نام کے ساتھ پیدا ہوتے رہے اور مریضوں، لواحقین اور سرکار کی چھاتیوں پر مونگ دلتے رہے ۔ ہمارے بچپن کی بات ہے ، نہ جانے کہاں سے ہماے گاؤں میں بھی ایک ’’حکیم لقمان ‘‘ وارد ہوئے تھے ، پتہ نہیں لقمان ان کا نام تھا یا عرفیت ؟ لیکن حسب حال تھا کیوں کہ وہ لوگوں کا علاج ’’لقموں‘‘ کے ذریعے کرتے تھے۔ اسے آپ علاج بالقمہ ’’لقمہ پیتھک ‘‘ علاج کہہ سکتے ہیں ۔

ہوتا یوں تھا کہ اس کے پاس جب مریض آتا اوراس کے اکثر مریض وہ ہوتے تھے جو بڑھاپے اورادھیڑعمری میں ’’ عرب شیوخ‘‘ ہوجاتے تھے۔ آخری عمر میں بیاہ تو کرلیتے تھے لیکن ان کی جسمانی حالت خالی ڈبوں جیسی ہوجاتی تھی۔

ہمارے گاؤں کا ’’حکیم لقمان‘‘ ان کو پہلے ایک لمبا پرچہ لکھ کر دیتا جس میں دنیا جہاں کی مقویات، مغزیات اور عطریات لکھی ہوتیں، آخر میں آدھ سیر ’’روغن زرد‘‘ یعنی گائے کے دودھ کا گھی بھی ہوتا۔یہ سارا سامان لے کروہ مریض کو وقت دیتا کہ میں اس سامان سے تمہارے لیے ہیرے جواہرات کا حلوہ تیارکروں گا۔ مقررہ دن کو مریض آتا تو حلوہ پکڑا کر طریقہ استعمال بلکہ طریقہ واردات بتاتے کہ صبح ناشتے کے بعد چار لقمے ، دوپہر کھانے کے بعد تین لقمے اور رات کو واردات سے پہلے پورے سات لقمے نوش جان کروگے تو جوان رہ سکو گے ۔

اس طرح وہ حکیم ہمارے گاؤں کے بوڑھے اورادھیڑ عمر مقامی ’’عربوں‘‘ کو ٹھکانے لگانے کے بعد کہیں اور چلا گیا ، کافی عرصہ گزرگیا، ہم اسے بھول بھال گئے تھے کہ کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک عدم پتہ شاعر سے ملاقات ہوئی، پوچھا کہاں ہوتے ہو آج کل؟حالانکہ اس نے جو جواب دیا اس لیے سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا نام ہے تیرا آج کل ۔اس نے بتایا کہ آج کل اس کا نام ’’لقمان‘‘ ہے اورایک دوردراز کے علاقے میں ’’لقمانی‘‘ کرتا ہے ۔

مزید راز کھلا تو یہ ہمارے گاؤں کے اس پرانے حلوہ والے’’ لقمان ‘‘کا شاگرد نکلا۔ اس نے اپنے کاروبار کی ’’برکت‘‘ کے بارے میں بتایا تو ہم نے بھی لگے رہو لقمان بھائی کی دعا دی۔ پھر اس نے اپنے ’’بقچے‘‘ سے نکال ایک ڈبے میں اپنا تیارکردہ ’’حلوہ‘‘ بھی دیا، جو ہم نے دورجاکر ایک گٹڑ میں پھینک دیا کیوں کہ ہم نہ عرب شیوخ کے مقلد تھے اورنہ بڑھاپے میں بیاہ کے شوقین ۔

یہی سے ہماری رگ تحقیق پھڑکی اوراپنے ٹٹوئے تحقیق کو اسٹارٹ کرکے تحقیق کی راہ پر ڈال دیا تو عجیب عجیب انکشافات ہوئے ۔ جن میں ایک یہ تھا کہ دنیا میں لقموں ، لقمہ خوروں اورلقمانوں نے بے پناہ ترقی کی ہے اورپھر خاص طور پر ہمارا یہ وطن عزیز تو ’’لقموں‘‘ اور’’لقمانوں‘‘ کی پیدائش، افزائش اور رہائش میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ اتنا عرب ملکوں میں تیل بھی پیدا نہیں ہوتا ہوگا ۔

ویسے ان ’’لقمانوں‘‘ کی زیادہ پیداوار عربوں میں ہوناچاہیے تھی کہ وہاں بڑی عمر کے امیر مردوں میں زیادہ شادیوں کا رجحان ہے ۔لیکن اصل حقیقت جو اس تحقیقی پروجیکٹ سے ہمارے سامنے آئی کہ مملکت خداداد پاکستان میں اس ’’فن لقمہ‘‘ یا’’کاروبار لقمہ ‘‘ کو ایک اورپہلو سے بہت زیادہ ترقی دی گئی اورایک اورطرح کے لقمے اورلقمان زیادہ پیدا ہورہے ہیں جن کاتعلق ’’خوان لغیما‘‘ یاسرکاری دسترخوانوں سے ہے ۔

ہوتا یوں ہے کہ اس ملک میں جب بھی سلیکٹیڈ لوگوں میں سلیکشن ہوتی ہے جسے مقامی اصطلاح میں انتخاب کہتے ہیں، صرف انتخابات نہیں ہوتے ، باقی سب کچھ ہوتے ہیں ۔گینگ وار، گینک ریپ یا باریاں۔ تو اس میں جو نئے یا پرانے ’’ریپر‘‘ آتے ہیں، وہ اپنے ساتھ بہت سارے منہ بھی لاتے ہیں جنھیں خوان لغمیا پر بٹھا کر لقمے کھلائے جاتے ہیں ۔اس سلسلے میں حافظ شیرازی نے کہا ہے کہ

فغاں کیں بولیاں شوخ وشیریں کار شہرآشوب

خیاںبردند صبرازدل کہ ترکان خوان نعیمارا

 اب شہرآشوب ، بولیوں ، ترکوں اورخوان لغیما کی پوری تشریح تو یہاں ممکن نہیں ،اس کے لیے آپ کو فارسی شاعری پڑھنا پڑے گی ، ہم صرف اتنا بتاسکتے ہیں کہ ایرانی امراء جب بڑی دعوت کرتے تھے تو امرا ء کے سیر ہونے کے بعد اس خوان پر عوام کوچھوڑ دیاجاتا جسے اصطلاح میں ترک کہا جاتا تھا ۔

لیکن پاکستان میں جو خوان لغیما ہے یا پورا پاکستان ہی جس شکل میں بچھا ہوا ہے، اس پر آخر میں بھی غریبوں کو نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اگر کچھ بچتا ہے تو اسے نیلام کردیا جاتا ہے ، یہ سلیکٹڈ لوگوں میں اکثر جدی پشتی سلیکٹڈ جب آتے ہیں اوراپنے ساتھ اپنے لقمانوں یالقمہ خوروں یا مونہوں کو لاتے ہیں تو ان کے لیے دھکوں ، لات مکوں سے پرانے والوں کو ادھر ادھر کردیاجاتا ہے اورکسی نہ کسی طرح اپنے لقمانوں کو بٹھا کر لقمے کھلانے لگتے ہیں۔ اب یہ جو نئے لقمان لائے گئے ہیں ، سنا ہے ان کو بٹھانے کے لیے پرانوں کو بڑے وسیع پیمانے پر بھگایا جارہا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حکیم لقمان میں بھی کے بعد

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل