حکیم لقمان کا تو سب کو پتہ ہے جن کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے ، انھیں تو خدا نے علم وحکمت عطا فرمائے تھے اورخدا کے برگزیدہ بندے تھے لیکن دوسری جانب یہ بھی اس دنیا کا خاصہ اورانسان کا جدی پشتی طریقہ واردات رہا ہے کہ ہر اچھی چیز کی نقلیں بھی نکل آتی ہیں اورگلی کوچوں میں پھیل جاتی ہیں۔
چارسدہ کے علاقے رجڑ میں ایک مٹھائی کی دکان تھی ،آج پورے چارسدہ بلکہ پشاورمیں بھی ’’اصلی رجڑ ‘‘ کی مٹھائی کی دکانیں ہیں۔ قندھار میں شاید کسی بزرگ یا ولی اﷲ کے حوالے سے ایک ’’بابا ولی ریستوران‘‘ مشہور ہوا، بس پھر کیا ہوا، یہ پورے افغانستان میں پھیل گیا بلکہ افغان مہاجروں کے ساتھ پاکستان میں بھی بابا ولی ریستورانوں کی بھر مار ہوگئی ۔ مذہبی اور مقدس مقامات کے نام پر دکانیں اور مصنوعات وغیرہ تو آپ بھی پڑھتے ہوں گے بلکہ ایک ’’بانی‘‘ مبانی تو پوری ریاست مدینہ کو ’’عرب‘‘ اورماضی دونوں سے کھینچ کر (نہ جانے کیسے) لے آئے تھے بلکہ ہیں ۔
اسی طرح حکیم لقمان کے نام کو بھی لوگوں نے بخشا نہیں ہے ، بے شمارحکیم اور دواخانے، لقمان نام کے ساتھ پیدا ہوتے رہے اور مریضوں، لواحقین اور سرکار کی چھاتیوں پر مونگ دلتے رہے ۔ ہمارے بچپن کی بات ہے ، نہ جانے کہاں سے ہماے گاؤں میں بھی ایک ’’حکیم لقمان ‘‘ وارد ہوئے تھے ، پتہ نہیں لقمان ان کا نام تھا یا عرفیت ؟ لیکن حسب حال تھا کیوں کہ وہ لوگوں کا علاج ’’لقموں‘‘ کے ذریعے کرتے تھے۔ اسے آپ علاج بالقمہ ’’لقمہ پیتھک ‘‘ علاج کہہ سکتے ہیں ۔
ہوتا یوں تھا کہ اس کے پاس جب مریض آتا اوراس کے اکثر مریض وہ ہوتے تھے جو بڑھاپے اورادھیڑعمری میں ’’ عرب شیوخ‘‘ ہوجاتے تھے۔ آخری عمر میں بیاہ تو کرلیتے تھے لیکن ان کی جسمانی حالت خالی ڈبوں جیسی ہوجاتی تھی۔
ہمارے گاؤں کا ’’حکیم لقمان‘‘ ان کو پہلے ایک لمبا پرچہ لکھ کر دیتا جس میں دنیا جہاں کی مقویات، مغزیات اور عطریات لکھی ہوتیں، آخر میں آدھ سیر ’’روغن زرد‘‘ یعنی گائے کے دودھ کا گھی بھی ہوتا۔یہ سارا سامان لے کروہ مریض کو وقت دیتا کہ میں اس سامان سے تمہارے لیے ہیرے جواہرات کا حلوہ تیارکروں گا۔ مقررہ دن کو مریض آتا تو حلوہ پکڑا کر طریقہ استعمال بلکہ طریقہ واردات بتاتے کہ صبح ناشتے کے بعد چار لقمے ، دوپہر کھانے کے بعد تین لقمے اور رات کو واردات سے پہلے پورے سات لقمے نوش جان کروگے تو جوان رہ سکو گے ۔
اس طرح وہ حکیم ہمارے گاؤں کے بوڑھے اورادھیڑ عمر مقامی ’’عربوں‘‘ کو ٹھکانے لگانے کے بعد کہیں اور چلا گیا ، کافی عرصہ گزرگیا، ہم اسے بھول بھال گئے تھے کہ کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک عدم پتہ شاعر سے ملاقات ہوئی، پوچھا کہاں ہوتے ہو آج کل؟حالانکہ اس نے جو جواب دیا اس لیے سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا نام ہے تیرا آج کل ۔اس نے بتایا کہ آج کل اس کا نام ’’لقمان‘‘ ہے اورایک دوردراز کے علاقے میں ’’لقمانی‘‘ کرتا ہے ۔
مزید راز کھلا تو یہ ہمارے گاؤں کے اس پرانے حلوہ والے’’ لقمان ‘‘کا شاگرد نکلا۔ اس نے اپنے کاروبار کی ’’برکت‘‘ کے بارے میں بتایا تو ہم نے بھی لگے رہو لقمان بھائی کی دعا دی۔ پھر اس نے اپنے ’’بقچے‘‘ سے نکال ایک ڈبے میں اپنا تیارکردہ ’’حلوہ‘‘ بھی دیا، جو ہم نے دورجاکر ایک گٹڑ میں پھینک دیا کیوں کہ ہم نہ عرب شیوخ کے مقلد تھے اورنہ بڑھاپے میں بیاہ کے شوقین ۔
یہی سے ہماری رگ تحقیق پھڑکی اوراپنے ٹٹوئے تحقیق کو اسٹارٹ کرکے تحقیق کی راہ پر ڈال دیا تو عجیب عجیب انکشافات ہوئے ۔ جن میں ایک یہ تھا کہ دنیا میں لقموں ، لقمہ خوروں اورلقمانوں نے بے پناہ ترقی کی ہے اورپھر خاص طور پر ہمارا یہ وطن عزیز تو ’’لقموں‘‘ اور’’لقمانوں‘‘ کی پیدائش، افزائش اور رہائش میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ اتنا عرب ملکوں میں تیل بھی پیدا نہیں ہوتا ہوگا ۔
ویسے ان ’’لقمانوں‘‘ کی زیادہ پیداوار عربوں میں ہوناچاہیے تھی کہ وہاں بڑی عمر کے امیر مردوں میں زیادہ شادیوں کا رجحان ہے ۔لیکن اصل حقیقت جو اس تحقیقی پروجیکٹ سے ہمارے سامنے آئی کہ مملکت خداداد پاکستان میں اس ’’فن لقمہ‘‘ یا’’کاروبار لقمہ ‘‘ کو ایک اورپہلو سے بہت زیادہ ترقی دی گئی اورایک اورطرح کے لقمے اورلقمان زیادہ پیدا ہورہے ہیں جن کاتعلق ’’خوان لغیما‘‘ یاسرکاری دسترخوانوں سے ہے ۔
ہوتا یوں ہے کہ اس ملک میں جب بھی سلیکٹیڈ لوگوں میں سلیکشن ہوتی ہے جسے مقامی اصطلاح میں انتخاب کہتے ہیں، صرف انتخابات نہیں ہوتے ، باقی سب کچھ ہوتے ہیں ۔گینگ وار، گینک ریپ یا باریاں۔ تو اس میں جو نئے یا پرانے ’’ریپر‘‘ آتے ہیں، وہ اپنے ساتھ بہت سارے منہ بھی لاتے ہیں جنھیں خوان لغمیا پر بٹھا کر لقمے کھلائے جاتے ہیں ۔اس سلسلے میں حافظ شیرازی نے کہا ہے کہ
فغاں کیں بولیاں شوخ وشیریں کار شہرآشوب
خیاںبردند صبرازدل کہ ترکان خوان نعیمارا
اب شہرآشوب ، بولیوں ، ترکوں اورخوان لغیما کی پوری تشریح تو یہاں ممکن نہیں ،اس کے لیے آپ کو فارسی شاعری پڑھنا پڑے گی ، ہم صرف اتنا بتاسکتے ہیں کہ ایرانی امراء جب بڑی دعوت کرتے تھے تو امرا ء کے سیر ہونے کے بعد اس خوان پر عوام کوچھوڑ دیاجاتا جسے اصطلاح میں ترک کہا جاتا تھا ۔
لیکن پاکستان میں جو خوان لغیما ہے یا پورا پاکستان ہی جس شکل میں بچھا ہوا ہے، اس پر آخر میں بھی غریبوں کو نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اگر کچھ بچتا ہے تو اسے نیلام کردیا جاتا ہے ، یہ سلیکٹڈ لوگوں میں اکثر جدی پشتی سلیکٹڈ جب آتے ہیں اوراپنے ساتھ اپنے لقمانوں یالقمہ خوروں یا مونہوں کو لاتے ہیں تو ان کے لیے دھکوں ، لات مکوں سے پرانے والوں کو ادھر ادھر کردیاجاتا ہے اورکسی نہ کسی طرح اپنے لقمانوں کو بٹھا کر لقمے کھلانے لگتے ہیں۔ اب یہ جو نئے لقمان لائے گئے ہیں ، سنا ہے ان کو بٹھانے کے لیے پرانوں کو بڑے وسیع پیمانے پر بھگایا جارہا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکیم لقمان میں بھی کے بعد
پڑھیں:
’اسلام کا دفاع‘
ہم جس فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسے دینی و سیاسی رہبری کے لیے ایک عدد شیخ الاسلام، ایک ہی مفکر اسلام اور ایک قائد ملت اسلامیہ خدمات میسر ہیں۔ یہ ان بزرگوں کی خدمت کی برکت ہے کہ مسلم دنیا پر 500 سال سے جاری زوال کا ہمارے مکتب فکر پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں دین ترقی پر ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ چندہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا دینی جوش بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام، مفکر اسلام اور قائد ملت اسلامیہ کو دینی و اخلاقی لحاظ سے جو بھی بے راہ روی نظر آتی ہے اپنے مکتب فکر کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں ساری نصیحتیں ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ بھی گھر سے باہر والوں کو کرنی پڑتی ہے۔
منبر رسول ہو، مضمون ہو یا ٹویٹ۔ ہر جگہ ان کی تلقین صرف باہر والوں کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے دور سے متعلق مشہور ہے کہ شہری مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہوگئے تھے کہ امراء زکوۃ ہاتھ میں لئے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق زکوٰۃ نہ ملتا، جسے دے کر زکوٰۃ کا فریضہ ادا ہوپاتا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا ہمارے بزرگوں کو یوں سامنا ہے کہ انہیں اپنے مکتب فکر کے اندر کوئی ’مستحق اصلاح‘ نہیں ملتا تاکہ یہ اصلاح کا آغاز گھر سے کرسکیں۔ یوں انہیں اپنے وعظ کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے دور پار دیکھنا پڑتا ہے۔
اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہمارے بہت ہی مہربان مفتی منیب الرحمان اور مفتی محمد اکمل صاحب کو روز اپنوں کو ہی تلقین کرنی پڑتی ہے۔ کبھی وہ انہیں قبروں پر سجدوں سے روکتے ہیں، کبھی نعت خوانی کے نام پر ’شوبز‘ کے جملہ تقاضے پورے کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی دیگر بہت سی خرافات پر انہیں اپنوں کا ہی شدید لب و لہجے میں محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ ان کا تو ’خانہ‘ ہی خراب ہے۔ سو ان بزرگوں کے پاس اس باطل کی سرکوبی کے لیے وقت ہی بہت تھوڑا بچتا ہے جو ان کے مکتب فکر کی چار دیواری کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
لگ بھگ 30 برس ہونے کو ہیں جب شیطان نے ہمیں گمراہ کیا اور ہم سے پہلی بار یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ اپنوں کو ہی تلقین کر ڈالی۔ یہ گناہ ہم سے ’علماء الریال‘ کے عنوان سے سرزد ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارے بزرگوں کا دل ہی بیٹھ گیا کہ اپنے ہی گھر میں ایک فتنہ پیدا ہوگیا جو اس طرح کے بیہودہ کالم لکھتا ہے؟ سو ان میں سے جن پر اللہ کی رحمانی صفت کا غلبہ تھا، انہوں نے پاس بلا کر دو باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پہلی یہ کہ ’تم بچے ہو‘ اور دوسری یہ کہ گھر کی باتیں باہر نہیں کی جاتیں۔ باہر صرف باہر والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اور جن بزگوں پر اللہ کی جباری صفت کا غلبہ تھا انہوں نے تو جو منہ میں آیا ہمیں سنا ڈالا۔ اب آپ کہیں گے کہ بتایئے تو سہی کیا سنا ڈالا تھا؟ تو آپ کے جھانسے میں آکر ہم کالم باؤنس کروا دیں؟ بس اتنا جان لیجیے کہ وہی الفاظ تھے جن کے استعمال پر 2 یہودی سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ اڑا دیتے ہیں۔
عربی کی کہاوت ہے کہ انسان اس چیز میں زیادہ حرص محسوس کرتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ سو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جلد وہ وقت آیا جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ تب ہمارے بزرگوں کا مؤقف بنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنوں کے دور میں گھر دبک جایا کرو۔ یوں ہمارے بزرگ دبک لیے۔ وہ اللہ والے تھے، فتنوں کا سامنا کرنے سے ان کےدامنِ ولایت پر چھنٹے پڑ سکتے تھے۔ ہمارا تو دامن پہلے سے ہی داغدار تھا، سو فتنوں کو چیلنج کرنے کا ذمہ ہم نے ہی لے لیا۔ صرف فتنوں کو ہی چیلنج نہ کیا بلکہ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا جو گھروں میں دبک لیے تھے۔ یوں پر ہم پر علماء کا گستاخ ہونے کی الہامی مہر بھی ثبت ہوگئی۔ سنا ہے ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ایسے بزرگ ہوا کرتے جس کا حوالہ شاملی کا میدان تھا۔ ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر اپنے حصے میں تو صرف شملے آئے ہیں۔ وہ شملے جنہیں ہم سے زیادہ میمن سیٹھ جانتے ہیں۔
کسی میمن سیٹھ کے پاس ایک پریشان حال شملہ پہنچا اور فرمایا ’اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے، احقر اس کا سد باب کرنا چاہتا ہے مگر وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کمانے کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے پاس بس اس دعا کی درخواست کے لیے آیا ہوں کہ اللہ وسائل کا انتظام فرما دیں‘۔
میمن سیٹھ پریشان کہ اس کی کیا اوقات کہ شملے کو دعا دے؟ سو اس نے شملے کو بھی اپنی اس سوچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت ہماری کیا اوقات کہ آپ کو دعا دیں؟ جواب آیا ’نیک تاجر اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی دعائیں خوب قبول کرتا ہے‘۔
میمن ویسے تو بڑے معصوم ہوتے ہیں مگر جب معاملہ پیسے کا ہو تو پھر رمز بھی ان کے آگے رمز نہیں رہتا، سو اس نے موٹی سی رقم ادا کرتے ہوئے کہا
’تاجر کے پاس 2 ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک مال تجارت اور دوسری اس کی کمائی۔ کمائی میں سے معمولی سا حاضر ہے، دعائیں کسی اور سے لے لیجیے گا‘۔
کچھ دن بعد وہی شملہ کسی تقریب میں ملا تو سلام دعا کے بعد سیٹھ سے ان کا حال پوچھ لیا۔ سیٹھ نے کہ ’ہمارا حال چھوڑیے حضرت، یہ بتایئےاسلام کا کیا حال ہے؟‘
حضرت نے خوشخبری سنا دی کہ ان کے دیے مال سے اسلام کا حال اچھا ہے۔ یہ میمن شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم سے کہنے لگے
’اسلام کب خطرے میں ہوتا ہے اور کب مامون، اس کا اپن سے زیادہ کسی کو پتا نہیں‘۔
ہم نے درخواست کردی کہ اس راز میں ہمیں بھی شریک فرما لیجیے۔ فرمایا
مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘
’رمضان سے ایک 2 ہفتے قبل اپن کو وٹس ایپ کے ذریعے یاد دہانی کرادی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ رمضان آتے ہی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جو عید کے تیسرے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اسلام مامون ہوجاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ چندہ مانگنے والوں کی گاڑی کے ماڈل بدل جاتے ہیں۔ گاڑی تو بندہ امن والے دنوں میں ہی خرید سکتا ہے، خطرات والے ایام بھی بھلا کوئی گاڑی کی خریداری کرسکتا ہے؟ اس کے بعد سال کے وسط میں جاکر اسلام کو تھوڑا سا خطرہ پھر سے لاحق ہوتا ہے۔ اس بار جب اسلام خطرے سے باہر نکلتا ہے تو چندہ مانگنے والوں کی اولاد کے سیل فون بھی بدل جاتے ہیں‘۔
وہ کہتے، اور ہم مسکراتے جا رہے تھے، جس کا غلط نتیجہ اخذ کرکے دریافت فرمایا
’آپ کو میری بات کا یقین نہیں؟‘
ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کر آگاہ کیا کہ اسلام کو لاحق خطرات تو اب اتنی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ دفاع کے لیے فرخ کھوکھر کی خدمات لینی بھی واجب ہوگئیں۔ سنا ہے چھوٹے کھوکھر نے کسی اپنے جیسے دوسرے ’سماجی رہنما‘ کو اسلامی میں 5 کروڑ دیے تھے۔ تو سوچیے اسلام کے دفاع کے لیے وہ کیا کچھ نہیں دے گا۔ این سعادت بزور تعویذ نیست !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں