اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
برصغیر ہندوستان کا 47ء میں بٹوارہ ہوا تو پنجاب کی تقسیم نے بہت سے انسانی مسائل پیدا کردیے۔ پنجاب کی تقسیم کے ساتھ ہولناک فسادات ہوئے۔ پنجاب میں ہرطرف خون ریزی نے انسانیت کو شرما دیا۔ ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ افراد ان فسادات کی نذر ہوگئے، ہزاروں خاندان بکھر کر رہ گئے۔
ان فسادات کے نقصان کے ساتھ سکھ مذہب کے کچھ مقدس مقامات پاکستانی پنجاب میں رہ گئے۔ سکھوں کی مقدس عبادت گاہیں جو پاکستانی پنجاب کے علاقوں میں پہلے سے موجود تھیں، ان میں گردوارہ، دربار صاحب، کرتار پور، ڈیرہ صاحب، لاہورگردوارہ، جنم استھان گردوارہ، نانک صاحب گردوارہ اور گردوارہ حسن ابدال قابل ذکر ہیں۔
بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان 50کی دہائی میں ہونے والے معاہدے کے تحت سکھ یاتریوں کو مقدس تہواروں کے مواقعے پر پاکستان میں مقدس مقامات پر زیارت کی اجازت حاصل ہوگئی۔ 1965اور 1971کی جنگوں کے دوران سکھ یاتریوں کی آمدورفت رک گئی مگر پھر 1966میں معاہدہ تاشقند اور 1972میں صدر ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے شملہ معاہدہ کے بعد سکھ یاتریوں کا سال میں کئی دفعہ پاکستان میں مقدس مقامات کا دورہ معمول بن گیا تھا مگرکرتار پورگردوارہ کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ کرتار پور گوردوارہ پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع ہے۔ اس کا بھارت کے شہرگروداس پورکے گردوارہ سے فاصلہ تقریباً 4.
ان مقدس مقامات کے درمیان ایک گھنا جنگل ہے اور بین الاقوامی سرحد دونوں ممالک کی تقسیم کرتی ہے۔ گردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے سکھوں کے لیے ایک انتہائی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ کے صفحات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک نے اس مقام پر 18 سال تک قیام کیا۔ ان کا انتقال 1539 میں ہوا تھا۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایام صاحب کرتار پور میں ہی گزارے تھے۔ گردوارہ کی تعمیر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921سے 1929کے درمیان میں مکمل کرائی۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے بارے میں سکھوں اور مسلمانوں میں مختلف نوعیت کے خیالات پائے جاتے ہیں۔
سکھ انھیں اپنے مذہب کا بانی قرار دیتے ہیں۔ مسلمان بابا صاحب کو مسلمان سمجھتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو بابا صاحب کی تدفین کے بارے میں تنازع پیدا ہوا تھا۔ دونوں مذاہب کے پیروکار انھیں اپنے مذہبی طریقہ کے مطابق دفن کرنا چاہتے تھے مگر ایک حکایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ کسی درویش نے بابا کی میت پر سے چادر اٹھائی تو میت کی جگہ پھول پڑے ہوئے ملے تھے۔ یوں بابا گرو نانک کو سکھوں کے مذہبی پیشوا قرار دیا گیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پورگردوارہ کی زیارت سب سے مقدس فریضہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ مقدس مقام دونوں ممالک کی سرحد سے چند میل دور واقع ہے مگر زائرین کو پاکستان کا ویزا حاصل کر کے لاہور کے راستہ کرتار پور آنا پڑتا ہے، یوں ایک طویل سفر کے ساتھ یہ خاصا مہنگا بن گیا ہے۔
بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان برسوں یہ تجویز فائلوں میں گردش کرتی رہی کہ کرتار پور تک ایک محفوظ کا ریڈور بنایا جائے تاکہ سکھ یاتری روزانہ کرتار پور سے شام ڈھلنے تک واپس چلے جائیں۔ کرتار پورگردوارہ دریائے راوی کے مغربی کنارے پر آباد ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2019میں ایک معاہدے پر اتفاق ہوا۔ اس معاہدے کے درمیان بھارت کی سرحد سے کرتار پور تک راہداری تعمیرکی گئی، ایک سڑک بھی تعمیر کی گئی۔ اس کے علاوہ کرتار پور میں ایک جدید کمپلیکس بھی تعمیرکیا گیا، اس پورے منصوبے پرکئی ملین ڈالر کی لاگت آئی۔ اب بھارتی یاتری روزانہ صبح ایک مقررہ فیس ادا کر کے کرتار پور آتے ہیں۔
یہ لوگ سارا دن عبادت کرتے ہیں اور شام سے پہلے بسوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی شہریوں کو جن میں سکھوں کے علاوہ ہندو بھی شامل ہیں۔ کرتار پور راہداری میں مقررہ فیس ادا کر کے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ کرتار پور ایک طرح سے ایک تاریخی مقام کی حیثیت اختیارکر گیا۔ کرتار پور راہداری کے دورے کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ نوجوان جوڑوں کے لیے ملنے کا بھی ایک خوبصورت مقام بن گیا ہے۔ بہرحال کرتار پور راہداری کھلنے کو دونوں ممالک کی حکومتوں کا کارنامہ قرار دیا گیا۔ کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔ اسی طرح کی تقریب افتتاح والے دن بھارت میں بھی منعقد ہوئی تھی۔
بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردی کی واردات کے باوجود کرتار پور راہداری کھلی رہی مگر جب 7 مئی کو تقریباً 150 سکھ یاتری بھارت کے شہر گرداس پور سے ڈیرہ بابا نانک انٹر چینج پوسٹ پر جمع ہوئے تو 90 منٹ تک ان یاتریوں کو انتظار کرنا پڑا۔ اچانک اعلان ہوا کہ کرتار پور راہداری کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین دن تک فضائی جنگ کے بعد 10 مئی کو جنگ بندی پر دونوں ممالک تیار ہوئے۔ پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی 18 مئی تک ہے اور دونوں ممالک کی مسلح افواج کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر ہاٹ لائن پر رابطہ کریں گے، یہ اعلان دونوں ممالک کے درمیان امن کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے اطمینان کا باعث بنا اور جنگ بندی مستقل بنیادوں پر قائم ہوگئی۔
یہ اعلان ہوا کہ دونوں ممالک میں جنگ کی صورتحال کی بناء پر اگلے مورچوں پر بھیجے گئے فوجی دستوں کو واپسی کی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور یہ فوجی دستے مئی کے آخری ہفتے تک اپنی اپنی پرانی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے۔ اب تو یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ دونوں ممالک نے واہگہ اور اٹاری کی سرحد پر دونوں ممالک کے فوجیوں کی سورج غروب ہونے کے وقت پرچم اتارنے کی تقاریب بھی دوبارہ شروع کردی ہیں۔ اب دونوں ممالک کے عوام دوبارہ سورج غروب ہوتے وقت دو ممالک کے جوانوں کے مارچ پاس اور اپنے اپنے پرچموں کو اتارنے کی تقریب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے شہریوں کو اپنے اپنے ملک سے فوری طور پر نکل جانے کا حکم دیا تھا تو پھر دونوں ممالک نے اپنی اپنی سرحدیں بند کردی تھیں مگر پھر دونوں ممالک میں فوج نے غلطی سے سرحد پار کر کے آنے والے دو فوجی سپاہیوں کو ان کے ملک کے حوالے کردیا تھا۔
پاکستان نے افغانستان کے پھلوں کے ٹرکوں کو سرحد پار کر نے کی اجازت دیدی تھی۔ اس فیصلے سے افغانستان کے تاجروں کے علاوہ بھارتی تاجروں کا بھی فائدہ ہوا، اگر یہ ٹرک سرحد پار کر کے بھارت میں داخل نہ ہوتے تو ان ٹرکوں پر لدے ہوئے پھل خراب ہوجاتے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ دونوں ممالک بھارت سے ادویات اور ویکسین کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم کریں تاکہ ملک میں ضروری ادویات فراہم ہوسکیں۔ خاص طور پر کتے کے کاٹنے کے مرض کے تدارک کی ویکسین بھارت سے آنے سے بہت سے افراد کی قیمتی جانیں بچ جائیں گی۔
بھارتی حکومت کو پاکستان کے ان مریضوں کو علاج کے لیے بھارت جانے کی اجازت دینی چاہیے جن کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے تاکہ قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔ دونوں ممالک کو ایسے ہوائی جہازوں کو جو کسی تکنیکی خرابی کا شکار ہوجائیں اپنے ملکوں میں اترنے کی اجازت دینے پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ایک دانش مند کا قول ہے کہ پڑوسی تبدیل نہیں ہوسکتے اور خطے میں امن کا براہِ راست تعلق ڈیڑھ ارب افراد کے مستقبل سے ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات ضروری ہیں۔ لکھنؤ کے شاعر ظفر زیدی کے یہ اشعار دونوں ملکوں کے حکمرانوں کے لیے ایک معقول مشورہ ہیں۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتار پور راہداری کہ دونوں ممالک دونوں ممالک کی دونوں ممالک کے مقدس مقامات نے کی اجازت کے درمیان بھارت کے سکھوں کے یہ اعلان کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت کے درمیان خونریزجھڑپوں میں ڈرونز کے استعمال نے خطے میں روایتی جنگ کے تصور کو بدل دیا ہے .ماہرین
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 27 مئی ۔2025 )پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں پہلی بار بڑی تعداد میں ڈرونز کا استعمال کیا گیا جو دونوں ممالک کے درمیان روایتی جنگ کے طریقہ کار میں ایک انقلابی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے مئی میں چار روزہ جھڑپوں کے دوران بھارت اور پاکستان نے بڑے پیمانے پر بغیر پائلٹ طیاروں (یو اے ویز) کا استعمال کیا اگرچہ امریکی ثالثی سے جنگ بندی عمل میں آگئی مگر دونوں ایٹمی طاقتیں اب ڈرونز کے میدان میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ میں مصروف ہو گئی ہیں.(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت آئندہ 12 سے 24 ماہ کے دوران مقامی سطح پر یو اے ویز پر تقریباً 47 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو تنازع سے پہلے کے اخراجات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں یہ اخراجات حالیہ دنوں منظور شدہ 4.6 ارب ڈالر کے ہنگامی دفاعی بجٹ کا حصہ ہیں. بھارت تیزی سے مقامی ڈرون ساز کمپنیوں کو تجربات اور مظاہروں کے لیے بلا رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا دوسری جانب پاکستان ایئر فورس بھی اپنی قیمتی لڑاکا طیاروں کو خطرے سے بچانے کے لیے مزید ڈرونز حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اس ضمن میں ترکی اور چین کے ساتھ اشتراک کو وسعت دینے پر غور ہو رہا ہے. پاکستانی فوج کی جانب سے ترک دفاعی کمپنی بایکار کے اشتراک سے تیار کردہ ییہا-III ڈرونز کا مقامی سطح پر اسمبل کیا جانا ایک اہم پیش رفت ہے، جہاں ہر دو سے تین دن میں ایک یونٹ تیار کیا جا سکتا ہے بھارت نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے 7 مئی کو پاکستان پر فضائی حملے کیے اگلی رات پاکستان نے تقریباً 300 سے 400 ڈرونز 36 مقامات سے بھارتی دفاعی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے بھیجے . رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہپاکستان نے اس موقع پر ترک ساختہ ییہا-III، اسیس گارڈ سونگر اور مقامی شاہپر-II ڈرونز استعمال کیے، جبکہ بھارت نے کولڈ وار کے زمانے کے اینٹی ایئرکرافٹ گنز کو جدید ریڈار سسٹمز سے جوڑ کر ان ڈرونز کا دفاع کیا بھارت نے اسرائیلی ہارپ، پولش وارمیٹ اور مقامی یو اے ویز بھی پاکستانی فضائی حدود میں استعمال کیے. ہارپ ڈرونز خودکش نوعیت کے ہوتے ہیں، جو نشانے پر منڈلاتے ہوئے ٹکرانے سے پھٹ جاتے ہیںپاکستان نے ان ہارپ ڈرونز کے خلاف ریڈار اور دیگر تکنیکی تدابیر استعمال کیں تاکہ انہیں کم بلندی پر لا کر مار گرایا جا سکے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈرونز کی مدد سے دونوں ممالک اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں بغیر اس کے کہ جنگ کی شدت بڑے پیمانے پر بڑھ جائے مگر اس کے باوجود یہ جھڑپ خطرے سے خالی نہیں اور کسی بھی وقت بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں. بھارتی ڈرون پروگرام کے لیے ایک چیلنج یہ ہے کہ اس کا انحصار چینی پرزہ جات، جیسے کہ لیتھیم بیٹریز اور میگنیٹس پر ہے چین پاکستان کا دفاعی اتحادی ہونے کے ناطے کسی بھی وقت بھارت کے لیے سپلائی بند کر سکتا ہے، جس سے بھارتی ڈرون انڈسٹری کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سپلائی چین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا خطرہ ہے جیسا کہ یوکرین کے خلاف چین کی برآمدی پابندیوں میں دیکھا گیا. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ڈرونز کی اس دوڑ نے خطے میں دفاعی توازن اور روایتی جنگ کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے اب میدان جنگ میں فوجیوں کی موجودگی سے زیادہ ڈرونز اور ٹیکنالوجی کی برتری فیصلہ کن کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہے.