ڈریگن بوٹ فیسٹیول کی دلچسپ داستان
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اعتصام الحق
چو یوان چین کے ایک عظیم شاعر اور اپنی آبائی ریاست چو میں ایک وزیر بھی تھے ۔انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست میں بہت سی اصلاحات کے نفاذ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ محلاتی سازشوں کا شکار ہونے کےبعد وہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی غیر موجودگی میں پڑوسی ریاست نے ان کی ریاست پر حملہ کردیا۔ اس جنگ میں ان کی فوج کو شکست ہوئی۔ اس خبر سے دلبرداشتہ ہو کر چویوآن نے ایک بھاری پتھر باندھ کر خود کو دریا کے سپرد کر دیا۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن چینی قمری کلینڈر کے پانچویں مہینے کی پانچ تاریخ تھی۔ جب لوگوں کو پتہ چلا تو وہ کشتیوں میں سوار ہوکر چو یوآن کی تلاش میں نکلے۔ اس دوران مچھلیوں اور آبی جانوروں کی توجہ ہٹانے کے لئے ریڈ کے پتوں میں چاول باندھ کر دریا میں پھینکے گئے۔ آج کے دور کی تمام روایات اس دن کی یاد میں منائی جاتی ہیں اور اس تہوار کو اب ڈریگن بوٹ فیسٹول کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ لہذا لوگ اس دن اپنے اس عظیم شاعر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ادبی محافل میں ان کا کلام پڑھا جاتا ہے اور انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن لوگ پانچ رنگ یعنی سفید ، سرخ، نیلے، پیلے اور کالے رنگ کے دھاگوں سے بنا بریسلٹ پہنتے ہیں۔ یہ رنگ چینی آسٹرلوجی کے پانچ عناصر لکڑی ، آگ، مٹی، دھات اور پانی کی نمائندگی کرتے ہیں ۔اس تہوار کے دن لوگ چین کی مخصوص خوشبو کی تھیلیاں یا ساشےاپنے گلے میں پہنتے یا گھروں میں لٹکاتے ہیں۔ چینی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ خوشبو آپ کو سارا خوش حال اور مصائب سے دور رکھتی ہے۔
اس تہوار کی ایک اور اہم رسم دروازوں کی چوکھٹ کے ساتھ مخصوص چینی پودوں کے پتوں کو لٹکانا بھی ہے۔ اس کا مقصد برائی کو گھر سے دور بھگانا ہے۔ایک اہم ایونٹ ڈریگن کی شکل کی کشتیوں کی ریس بھی ہے ۔یہ کشتیاں کئی افراد مل کر چلاتے ہیں اور ان کے مختلف رنگ ہوتے ہیں ۔اس دن کی مناسبت سے زونگزی ایک ایسا پکوان ہے جو اس تہوار کا خاصہ ہے۔ یہ چپچپے چاول، گوشت، اور دیگر لذیذ اجزاء کو ریڈ کے پتوں میں لپیٹ کر بنایا جاتا ہے ۔یہ پکوان اس عمل کی یاد میں بنتا ہے جو عظیم شاعر چو یوان کی تلاش میں ان کے چاہنے والوں نے کیا ۔ ہر علاقے کا اپنا انوکھا ذائقہ ہوتا ہے۔
تو یہ تھی ڈریگن بوٹ فیسٹیول کی دلچسپ کہانی! یہ تہوار نہ صرف چین کی ثقافتی وراثت ہے، بلکہ یہ اتحاد، محبت اور روایات کا خوبصورت امتزاج بھی ہے ۔ اگلی بار جب آپ زونگزی کھائیں، تو اس کی تاریخ ضرور یاد رکھیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قاتل فنگس جو اندر سے انسان کو کھا جاتا ہے؛ نئی عالمی وبا کا خطرہ
سوچیے، اگر آپ روزانہ ایک ایسی چیز کو سانس کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کر رہے ہوں، جو کسی دن آپ کو اندر سے کھا جائے؟ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں بلکہ ایک تلخ سچ ہے جسے سائنسدانوں نے حالیہ تحقیق میں بے نقاب کیا ہے۔
ایک مہلک فنگس، جس کا نام ایسپرجیلوس ہے، اب پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، اور اس کا نشانہ صرف انسان ہی نہیں، جانور اور پودے بھی ہیں۔
یہ فنگس انسانوں میں ایسپرجیلوسس نامی بیماری کا باعث بنتا ہے، جو پھیپھڑوں پر حملہ کرتی ہے اور جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے درجہ حرارت میں جو اضافہ ہو رہا ہے، وہ اس مہلک فنگس کےلیے نئے دروازے کھول رہا ہے۔ اب یہ مائیکروبس ان علاقوں کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں اس کا وجود پہلے ممکن نہیں تھا، جیسے شمالی امریکا، یورپ، چین اور روس۔
تحقیق کے مطابق، ایسپرجیلوس کی بعض اقسام ’’ماحولیاتی سپروٹروف‘‘ کہلاتی ہیں، جو نہ صرف انسانی جسم بلکہ جانوروں اور پودوں میں بھی خطرناک انفیکشنز پیدا کرسکتی ہیں۔ اس تحقیق کو اگرچہ اب بھی سائنسی جانچ پڑتال یعنی peer review سے گزرنا باقی ہے، مگر اس کے نتائج نے عالمی طبی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
محقق نورمن وین رائن، جو موسمیاتی تبدیلی اور متعدی امراض کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ ’’فنگس وائرس اور بیکٹیریا کی طرح خطرناک ہیں، لیکن ان پر تحقیق کم ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے HBO کی مشہور سیریز The Last of Us کا حوالہ دیا، جس میں ایک فنگس انسانوں کو خوفناک مخلوق میں بدل دیتا ہے۔ ان کے مطابق، اگرچہ حقیقی زندگی میں ایسا منظرنامہ بعید از قیاس ہے، لیکن اس فکشن نے کم از کم دنیا کو فنگل انفیکشنز کی سنگینی سے متعارف تو کرایا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر سال لگ بھگ 25 لاکھ افراد فنگس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں، اور اصل تعداد شاید اس سے بھی کہیں زیادہ ہو کیونکہ اس حوالے سے ڈیٹا کی شدید کمی ہے۔ ایسپرجیلوس زمین میں باریک ریشوں کی شکل میں اگتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے اسپورز پیدا کرتا ہے جو ہوا میں شامل ہو کر آسانی سے انسانوں کے سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
عام طور پر ہمارا مدافعتی نظام انہیں ختم کر دیتا ہے، لیکن جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہو، جیسے دمے، سسٹک فائبروسس، کینسر، یا اعضاء کی پیوندکاری کے مریض، ان کے لیے یہ اسپورز موت کا پیغام بن سکتے ہیں۔
نورمن وین رائن واضح کرتے ہیں کہ جب فنگس جسم کے اندر قدم جما لیتا ہے، تو وہ واقعی ’’آپ کو اندر سے کھانے لگتا ہے‘‘۔ اور المیہ یہ ہے کہ اس بیماری کی علامات، بخار، کھانسی، تھکن، اتنی عام ہیں کہ اکثر اس کی تشخیص بروقت نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسپرجیلوسس کی اموات کی شرح 20 سے 40 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو نہ نظر آتا ہے، نہ آواز دیتا ہے مگر خاموشی سے جسم کے اندر داخل ہو کر تباہی مچا دیتا ہے۔ اس کے خلاف لڑائی کا پہلا قدم ہے آگاہی۔ اور شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فنگس کو صرف دیواروں پر اگنے والی پھپھوندی نہ سمجھیں، بلکہ ایک حقیقی عالمی خطرہ تسلیم کریں۔