وفاقی بجٹ کی تاریخ میں تبدیلی کا امکان، 2 دن کی توسیع پر غور
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
وفاقی حکومت کی جانب سے سالانہ بجٹ پیش کرنے کی تاریخ میں ایک بار پھر تبدیلی کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق عید کی تعطیلات کے باعث 7 اور 8 جون کو دفاتر بند ہوں گے، جبکہ عید کے تیسرے دن 9 جون کو ورکنگ ڈے قرار دیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: آئندہ مالی سال کا بجٹ 10 جون کو پیش ہوگا، وفاقی حکومت کا اعلان
ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 جون کو قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس اور اقتصادی سروے جاری کرنے کا شیڈول طے ہے، تاہم ایک ہی دن دونوں سرگرمیاں ممکن نہیں ہوں گی۔ این ای سی کے اجلاس میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم شرکت کریں گے۔
مزید پڑھیں: آئندہ بجٹ کی تیاریاں جاری، نان فائلرز کے لیے بُری خبر آگئی
ذرائع کے مطابق این ای سی اجلاس میں ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دی جاتی ہے اور یہ اجلاس دن بھر جاری رہتا ہے۔ روایتی طور پر این ای سی اجلاس اور بجٹ پیش کرنے کے درمیان 2 دن کا وقفہ رکھا جاتا ہے، جس کے باعث حکومت وفاقی بجٹ کی تاریخ میں 2 روز کی توسیع پر غور کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے 10 جون کو بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تاریخ میں تبدیلی قومی اقتصادی کونسل وفاقی بجٹ وفاقی حکومت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تاریخ میں تبدیلی قومی اقتصادی کونسل وفاقی بجٹ وفاقی حکومت تاریخ میں جون کو
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔