جنہیں صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ ملے انہیں پھر عدالتوں سے سزا ہوئی: پرویز رشید
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
---فائل فوٹو
مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ جنہیں صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ ملے انہیں پھر عدالتوں سے سزا ہوئی اور جنہیں سزا ہوئی پھر انہیں عدالتوں نے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دیا۔
سینیٹر ہمایوں مہمند کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا۔
پرویز رشید نے اس موقع پر کہا کہ متناسب نمائندگی کی بات ہوئی، یہ مطالبہ چھوٹے صوبوں کی جماعتوں کی جانب سے آیا تھا، ساری سیاسی جماعتیں متناسب نمائندگی کے برعکس ہی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، مطالبہ ان جماعتوں کی جانب سے آیا تھا جن کے پاس زیادہ امیدوار نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو لگتا تھا ان کے پاس ووٹ ہیں، صوبوں کی کم نمائندہ رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا، وہ سمجھتے تھے پنجاب کی سیاسی جماعت کو زیادہ نمائندگی ملے گی، وہ سمجھتے تھے کہ بلوچستان کی جماعت کو کم نمائندگی ملے گی۔
محسن عزیز نے کہا کہ 5 فیصد بے ضابطگی تو دنیا کے ہر ملک میں ہو جاتی ہے، ہمارے ملک میں الیکشن میں بڑی بڑی بے ضابطگیاں ہو جاتی ہیں جس کی بات ہر جماعت کرتی ہے، میں راستے میں ایک سیاسی جماعت کے جلوس میں پھنس گیا جس میں چار گاڑیاں تھیں، ایک رکشے والا تھا جس کے رکشے پر جماعت کا جھنڈا تھا اسے پولیس والا مار رہا تھا۔
اسلام آباد منگل کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی.
ان کا کہنا ہے کہ ایک جماعت کو عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں دقت ہوئی انہیں جلسے جلوس کی اجازت نہیں ملی، ایک سال 3 ماہ ہو گئے خیبر پختونخوا کی سینیٹ کے الیکشن نہیں ہوئے۔
ثانیہ نشتر کی نشست خالی ہوئی اس پر کے پی میں الیکشن نہیں ہوا، دوسری طرف سینیٹر تاج حیدر کی سندھ کی خالی نشست پر الیکشن ہو گیا۔
سیکریٹری پارلیمانی امور نے کہا کہ ہم نہیں کہہ رہے کسی تنظیم کی رپورٹ کو منظور کریں یا مسترد، آپ اس معاملے کو التوا میں ڈال دیں، ہم صرف کہہ رہے ہیں کہ ایک تنظیم کا اسٹیٹس دیکھ لیں، کیا حکومت پاکستان اس تنظیم کو تسلیم کرتی ہے، آپ اس معاملے پر وزارت داخلہ سے رپورٹ مانگ لیں، وزارت داخلہ این جی اوز کو رجسٹرڈ کرتی ہے، اگر تنظیم رجسٹرڈ ہے تو اس ادارے کی رپورٹ کو زیر غور لے آئیں، ہم نے پلڈاٹ اور فافن کی رپورٹ دیکھی تھی۔
عامر ولی الدین کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں سینیٹر ہدایت اللّٰہ نے پولی کلینک میں بدانتظامی سے متعلق بریفنگ دی ہے۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ ہم نے شفاف انتخابات سے متعلق غیر سرکاری تنظیموں سے بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا تھا، ہم نے پہلے فافن اور پلڈاٹ سے بریفنگ لی، ہم نے آج انتخابات سے متعلق تنظیم پٹن سے بریفنگ لینا تھی، وزارت پارلیمانی امور نے دو گھنٹے قبل کمیٹی کو بتایا کہ پٹن کو ڈسکوالیفائی کیا گیا ہے، یہ بات وزارت ہمیں پہلے بتا دیتی کہ پٹن سچ بولتی ہے اس لیے ہم نے اس پرپابندی لگائی۔
ایڈیشنل سیکریٹری پارلیمانی امور نے بتایا کہ ہمیں ابھی ذرائع سے معلوم ہوا کہ پٹن کی رجسٹریشن نہیں ہے، وزارت داخلہ تنظمیوں پر پابندی سے متعلق معاملے کی کسٹوڈین ہے، ہمیں پہلے معلوم ہوتا تو ہم آپ کو پہلے ہی اطلاع کر دیتے، قائمہ کمیٹی دفتر چیک کرلیا کرے کہ وہ جسے بلا رہے ہیں اس پر پابندی تو نہیں۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ میں کبھی ایسی تنظیم کو نہیں بلاؤں گا جس پر پابندی ہے، حکومت کے فیصلے کی عزت کروں گا چاہے وہ غلط ہے، ہم نے 16 مئی کو بتایا تھا کہ کمیٹی نے پٹن سے بریفنگ لینی ہے، آپ کو 20 مئی تک ہمیں بتا دینا چاہیے تھا کہ پٹن پر پابندی ہے، میرا دل دکھ رہا ہے کہ عوام کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے، چیف کمشنر اسلام آباد کے دفتر کا خط وزارت پارلیمانی امور سے آیا ہے کہ پٹن پر پابندی ہے۔
ہمایوں مہمند کا کہنا ہے کہ میں نے نہیں کہا کہ پلڈاٹ یا فافن جھوٹ بولتے ہیں، بلکہ میں نے کہا پٹن سچ بولتا ہے، میں ڈیٹا کو دیکھتا ہوں، جو ادارے کا ڈیٹا ہے اسے دیکھنا چاہیے، پٹن کو فروری میں بین کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے چیزیں لکھیں، میں شفاف انتخابات کا انعقاد کرانے سے متعلق چیزیں لانا چاہتا ہوں، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں درپیش مسائل کو حل کرنا ہے، ہم نے پلڈاٹ، فافن اور پٹن سے فیڈ بیک لینے کا فیصلہ کیا تھا، فیڈ بیک کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان کی سفارشات کو الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ سکوں۔
محسن عزیز نے کہا کہ اس معاملے کو تو عوامی سماعت کے لئے رکھا جائے، پٹن کو کیوں بین کیا گیا، ان کی رپورٹ میں کوئی ناجائز بات نہیں جو کسی کو چبھی ہو۔
پرویز رشید نے کہا آپ کی بات سے لگا جیسے پلڈاٹ اور فافن سچ نہیں بولتے، یہ بات غیر مناسب ہے، آپ کے بیان سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ دو ادارے غلط بات کرتے ہیں اور ایک سچ، پٹن کو اس کی رپورٹ پر بین کیا گیا ہے یا کسی اور چیز پر؟ اگر پٹن کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو پاکستان میں عدالت کا آئینی نظام موجود ہے، پٹن عدالت میں جائے، ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو وہ ختم کر دی جائے گی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پارلیمانی امور قائمہ کمیٹی پرویز رشید سے بریفنگ پر پابندی نے کہا کہ کی رپورٹ کیا گیا پٹن کو کہ پٹن
پڑھیں:
شاہ محمودکانام9مئی واقعات پر کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں تھا
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ٹرائل کورٹ نے منگل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی کو 9؍ مئی کے واقعات سے متعلق تمام الزامات سے بری کر دیا۔ یہ فیصلہ اس خبر کو اجاگر کرتا ہے جس کی خبر نجی اخبار میں 6؍ ماہ قبل شائع ہوئی تھی۔ رواں سال 25؍ فروری کو نجی اخبار اور روزنامہ نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا نام واضح طور پر کابینہ کمیٹی کی اُس رپورٹ میں شامل نہیں تھا جو گزشتہ نگران حکومت نے 9؍ مئی 2023ء کے پرتشدد واقعات کی مبینہ منصوبہ بندی کے حوالے سے تیار کی تھی۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی کیخلاف ان واقعات سے متعلق ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں، جنہیں ریاستی اداروں پر ہونے والے سنگین حملوں میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن سرکاری رپورٹ میں اُن کا نام کہیں نہیں آیا۔ رپورٹ میں پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کا نام بھی شامل نہیں تھا، جس سے ان دونوں کیخلاف عائد کردہ الزامات کی قانونی جواز پر سوالات پیدا ہوئے تھے۔ یہ کابینہ کمیٹی رپورٹ بعد میں موجودہ وفاقی کابینہ کے روبرو بھی پیش کی گئی تھی جس میں متعدد پی ٹی آئی رہنمائوں کے مبینہ کردار کا ذکر تھا۔ رپورٹ کے مطابق، پارٹی چیئرمین عمران خان پر ان واقعات کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا، جبکہ ایک طویل فہرست میں حماد اظہر، زرتاج گل، مراد سعید، فرخ حبیب، علی امین گنڈاپور، یاسمین راشد، محمود الرشید اور دیگر رہنمائوں کے نام شامل تھے۔ لیکن شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی کا ذکر کہیں نہیں تھا۔ منگل کو شاہ محمود قریشی کی بریت نجی اخبار کی پہلے شائع شدہ رپورٹ کو درست ثابت کرتی ہے اور یہ سوال اٹھاتی ہے کہ آخر شاہ محمود قریشی کو اس قدر طویل قانونی کارروائی میں کیوں الجھایا گیا۔نجی اخبار نے اپنی فروری کی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ نگران حکومت کی رپورٹ میں پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کا نام شامل نہ ہونا سوال پیدا کرتا ہے، خصوصاً اس وقت جب دونوں 9؍ مئی کے کیسز میں پھنسے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت اُن کیلئے ایک بڑی قانونی کامیابی ہے، وہ شروع سے ہی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اس فیصلے نے 9؍ مئی کے بعد شروع ہونے والے قانونی عمل کو مزید سخت جانچ کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے، کیونکہ کئی دیگر پی ٹی آئی رہنما اب بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انصار عباسی