بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت ، آزاد کشمیر میں بڑی کارروائی میں 4 دہشت گرد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
مظفرآباد: آزاد جموں و کشمیر پولیس نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے مزید شواہد منظر عام پر لاتے ہوئے ایک بڑے نیٹ ورک کا سراغ لگایا ہے. جس کے دوران ایک حساس آپریشن میں چار خطرناک دہشت گرد مارے گئے جب کہ دو پولیس اہلکار شہید اور پانچ زخمی ہوئے۔آئی جی پولیس آزاد کشمیر کے مطابق دہشت گرد ڈاکٹر عبدالرؤف افغانستان میں موجود ہے اور کشمیری نوجوانوں کو جہاد کے نام پر دہشت گردی کے لیے ذہن سازی کر رہا ہے۔آئی جی پولیس نے بتایا کہ اس سلسلے میں اسے تحریکِ طالبان رجے (ٹی ٹی آرجے) سے تعلق رکھنے والے غازی شہزاد کی معاونت حاصل ہے۔ دونوں افراد شریعت اور جہاد کے نام پر پاکستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کے اہداف میں سرکاری افسران، عوامی اجتماعات، دفاتر اور اہم دفاعی تنصیبات شامل تھیں۔ مزید یہ کہ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض کشمیری نوجوان افغانستان سے تربیت حاصل کرنے کے بعد بھارتی ایجنسیوں سے رابطہ کرکے دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔آئی جی کے مطابق 27 اکتوبر 2024 کو پولیس چوکی پر کانسٹیبل سجاد کی ٹارگٹ کلنگ میں دہشت گرد زرنوش نسیم، اسامہ اسلم اور الفت علی ملوث پائے گئے۔ یہ تینوں ’’فتنہ الخوارج‘‘ نامی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ڈاکٹر عبدالرؤف و غازی شہزاد کے اشارے پر کارروائیاں کر رہے تھے۔پولیس کے مطابق ’’فتنہ الخوارج‘‘ آزاد کشمیر میں ایک نئی دہشت گرد مہم شروع کرنا چاہتا تھا، تاہم سخت سکیورٹی انتظامات کے باعث زرنوش نسیم، الفت علی اور ان کے ساتھی کسی بڑے حملے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ آئی جی نے بتایا کہ 28 مئی 2025 کو مصدقہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ خارجی دہشت گرد زرنوش نسیم اور اس کا گروہ علاقے حسین کوٹ میں موجود ہے جس پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے سیکیورٹی اہلکاروں پر خودکار اسلحے سے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں تمام چاروں دہشت گرد مارے گئے جب کہ اس کارروائی کے دوران دو پولیس اہلکار شہید اور پانچ زخمی ہوئے۔آئی جی آزاد کشمیر نے مزید بتایا کہ یہ کامیاب آپریشن پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت، ہم آہنگی اور عزم کا ثبوت ہے .
ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
بھارتی فوج کشمیریوں کا نشے کا عادی بنا رہی ہے!
ریاض احمدچودھری
میرواعظ نے اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول سرینگر میں” منشیات سے پاک کشمیر کی تعمیر:طلباء اور معاشرے کا کردار ”کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریبا 22 لاکھ کشمیری نوجوان جو 18سے 35سال کی عمرکے گروپ کا تقریبا ایک تہائی ہیں، بے روزگار ہیں۔ طبی اعداد و شمار اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 11% نوجوان ٹراماڈول اور ہیروئن جیسی منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشہ آور اشیا کا استعمال اب محض تشویش کا باعث نہیں رہا بلکہ یہ ایک مکمل بحران میں تبدیل ہو چکا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں اور مستقبل کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔میرواعظ کا کہنا تھا کہ جہاں اس کی روک تھام کے لئے ائمہ مساجد، علمائے کرام، سول سوسائٹی کے ارکان اور خاندانوں کی کوششیں اہم ہیں، وہیں بنیادی ذمہ داری قابض انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی سماجی تباہی کے باوجود ایک مربوط اور فوری پالیسی ردعمل کی عدم موجودگی سے سنگین حکومتی غفلت کی عکاسی ہوتی ہے۔انہوں نے علاقے میں خاص طور پر سیاحت کے فروغ کی آڑ میں شراب کی آسان دستیابی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔حریت رہنما بھی اس معاملے پر آواز بلند کر چکے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کو تباہ کرنے کے لئے وادی میں سرکاری سرپرستی میں بے دریغ منشیات پھیلائی جا رہی ہے۔یہ منشیات فوجی کیمپوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے۔دوسری جانب بھارتی فوج اور پولیس ڈھٹائی کے ساتھ منشیات کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی مدد منشیات کے ذریعے کر رہا ہے۔
شورش اور سماج میں بے چینی کا نشے کی لت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے شورش زدہ کشمیر میں نہ صرف ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے بلکہ نشہ آور ادویات کے استعمال میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آئے دن سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن، تلاشی آپریشنز اور اپنے ہی گھر میں ان کی طرف سے بے عزت ہونے کا غم کشمیریوں بلکہ خاص طور پر نوجوان طبقے کو نشے کی طرف دھکیل رہا ہے۔باقی کسر بھارتی فوجی منشیات فراہم کر کے پوری کر دیتے ہیں۔وادی کشمیر میں آج اسی قوم کے جوانوں کو منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے جن پر ہماری ا?میدیں وآبستہ تھیں کہ کل کو یہ جوان ہماری قوم کے قائد بنیں گے۔ مگر یہ نوجوان منشیات کی لت میں اس طرح پھنس گئے ہیں کہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ یہ کب اور کس جگہ نشے کی حالت میں اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔کشمیری نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اگر اس کا تدراک بروقت نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں اس کا اثر پورے سماج کو دیکھنا پڑے گا۔ اور بعد میں ہمیں پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہیں پو گا۔نوجوانوں میں منشیات کا اثر اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ کشمیر میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو افیون۔ چرس۔ ہیروئین۔ کوکین۔ بھنگ۔ براؤن شوگر۔گوند۔رنگ پتلا کرنے والے محلول اور دوسرے معلوم اور نامعلوم نشہ آور مرکبات استعمال کرنے کے نتیجے میں جسمانی نفسیاتی اور جذباتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کی تعدادبھی کثرت سے ملتی ہیں جو فارما سیوٹیکل ادویات کو بھی اب نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اور یہ عمل دوسری ادویات یا منشیات استعمال کرنے سے زیادہ خطرناک ہے۔
کشمیر کے بعض علاقوںمیں جان بوجھ کروہاں کی نوجواں نسل کوبربادکرنے کے لئے بھارتی فورسز منشیات کے پھیلائوکا حربہ استعمال کر رہی ہیں تاکہ نوجوان نسل کومنشیات کی لت پڑے اوروہ اسی میں لگے رہیںانہیں اپنی اوراپنے قوم کی فکر دامن گیر نہ رہے اوروہ اس طرف دیکھنے یاسوچنے کے قابل نہ رہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں میںحالات کا جبر،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورروزافزوں مہنگائی بھی اس کا باعث بن رہی ہے،جبکہ منشیات کے استعمال کی ایک اہم اور بنیادی وجہ دین سے دوری اورتعلیمات دین پرمشتمل نسخہ ہائے کیمیاسے اجتناب اور نشہ آور اشیا کے استعمال کے نقصانات اور وعیدوں سے بے خبری ہے۔ لیکن سب سے افسوس ناک امریہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال کے بارے میں ہم بعض افسوس ناک مخمصوں میں مبتلا ہیں۔کشمیر پولیس کاکہنا ہے کہ وادی کشمیر میں حریت مجاہدین کی جانب سے منشیات کو فروغ دیا جارہا ہے۔جبکہ مجاہدین نے الزام پولیس پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں کشمیری نوجوانوں کو ایک ”خاص مقصد سے” منشیات کا عادی بنانا چاہتی ہیں۔حالیہ دنوں میں پولیس نے منشیات اسمگلروں کے کئی گروہوں کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے تار مجاہدین کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں تک کی ہیں تاہم شمالی کشمیر کی ایک نامور کراٹے چیمپئن کا یہ الزام بھی تازہ ہے کہ پولس اور منشیات اسمگلروں کا ساز باز ہے۔ مذکورہ نے پولیس پر ان کے چھوٹے بھائی کو منشیات کا عادی بنانے والے مجرموں کو تحفظ دینے تک کا الزام لگایا ہے۔